ہم کتابیں کیوں نہیں پڑھتے؟


23 اپریل کو ہر سال کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد کتابوں کی اہمیت اجاگر کرنا اور کتاب بینی کو فروغ دینا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی کتابیں پڑھنے کے حوالے سے خاصی بری شہرت رکھتے ہیں۔ عالمی سطح پر مختلف ممالک میں مطالعے کے رجحانات مختلف ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ میں اوسطاً ہر فرد سالانہ 17 کتابیں پڑھتا ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بھارت کا نمبر آتا ہے جہاں یہ تعداد 16 کتابیں فی فرد سالانہ ہے۔ برطانیہ میں یہ اوسط 15 کتابیں، فرانس میں 14، اور اٹلی میں 13 کتابیں فی فرد سالانہ ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں مطالعے کا رجحان زیادہ ہے۔ پاکستان میں اوسطاً ہر فرد سالانہ 2.6 کتابیں پڑھتا ہے، جو عالمی اوسط سے کم ہے۔ یہ اعداد و شمار کس حد تک صحیح ہیں علم نہیں۔ بظاہر یہ اعداد و شمار اسی طرح کے ہیں کہ ایک شخص کی ماہانہ آمدنی سو روپے تھی اور دوسرے کی دس لاکھ روپے تو ان کی ماہانہ اوسط پانچ لاکھ پانچ ہزار روپے بیان کر دی جائے۔ اس سے زیادہ صحیح گیلپ سروے کا وہ حوالہ لگتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 85 فی صد پاکستانی کسی لائبریری میں نہیں گئے۔ مبشر علی زیدی کی لکھی ہوئی ”سو الفاظ کی کہانی“ بھی بہت صحیح پاکستانیوں کے رویے کی عکاسی کرتی ہے :

”یورپ کے جس علاقے میں پاکستانیوں کی اکثریت ہوجاتی ہے،
وہاں رفتہ رفتہ تین قسم کی دکانیں بند ہوجاتی ہیں۔ ”
برسلز میں ایک دوست نے بتایا۔
”اچھا! کون کون سی؟“ میں نے پوچھا۔
”ایک شراب کی۔ دوسری سور کے گوشت سے بنے کھانوں کی۔“
دوست نے کہا۔
میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
’سمندر پار پاکستانیوں نے اپنے بزرگوں کی روایتیں برقرار رکھی ہیں۔ ‘
میں نے سوچا۔
لیکن پھر مجھے کچھ خیال آیا۔
”تم نے دو طرح کے کاروبار بتائے۔
اور کون سی قسم کی دکانیں پاکستانیوں کے علاقوں میں بند ہوجاتی ہیں؟ ”
دوست نے نگاہیں چُرا کے کہا،
”کتابوں کی!“

ایک سوال جو بہت اہم ہے کہ اس حال تک ہم کیسے پہنچے ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے سیلاب نے بچوں کے ہاتھ سے کتاب چھین کر موبائل ان کے ہاتھ میں پکڑا دیا ہے لیکن پاکستان میں موبائل کا رواج پچھلے دس بارہ سال کا واقعہ ہے۔ کتب بینی کا کلچر اس سے خاصا پہلے ہی ہم سے رخصت ہو چکا تھا۔

جب پاکستان آزاد ہوا تو شرح خواندگی صرف 21.7 فی صد تھی آج شرحِ خواندگی 62 فی صد ہے۔ لیکن 1947 ء میں پڑھا لکھا شخص وہی سمجھا جاتا تھا جس کا کتاب سے تعلق ہو۔ اکثریت نصابی کتب سے ہٹ کر بھی بہت کچھ پڑھتی تھی۔ عمومی تاثر یہ تھا جسے اساتذہ نے بہت آگے بڑھایا کہ بی اے ایم اے کی ڈگری لے کر انسان صرف اتنا سیکھتا ہے کہ آگے اس نے کیا کیا پڑھنا ہے۔ مطالعے کی ترویج کے لیے کالجوں کی سطح پر مناسب کتب خانے موجود تھے اور اساتذہ اور طلبہ دونوں ان سے استفادہ کرتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے نہ صرف بڑے شہروں بلکہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر بھی کتب خانے موجود تھے جہاں اخبارات اور رسائل بڑی تعداد میں آتے تھے۔ انگریزوں کے اثر سے لبرل ایجوکیشن کا یہ تصور رائج تھا کہ چاہے انسان جس بھی شعبہ میں اختصاص حاصل کرے ادب اور سماجی علوم پڑھے بغیر اچھا مہذب انسان نہیں بن سکتا۔ اس تصور تعلیم کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر شخص کے لیے فکشن، شاعری، تاریخ، فلسفہ اور الٰہیات سے مناسب حد تک واقفیت ضروری سمجھی جاتی تھی اور بچوں کو شروع سے ہی کتابیں پڑھنے کا عادی بنایا جاتا تھا تاکہ وہ اچھے اور مہذب انسان بن سکیں۔ 1970 کی دہائی تک محلہ کی سطح پر آنہ لائبریریاں عام تھیں جو مطالعے اور کتب بینی کا سب سے بڑا ذریعہ تھیں۔ ان میں عموماً فکشن کی کتابیں ملتی تھیں اور بڑی تعداد میں طلبہ کہانیوں کی کتابیں پڑھ کر کتب بینی کے عادی بن جاتے تھے۔ ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں نے کئی نسلوں کو کہانیاں پڑھنے کی ایسی چاٹ لگائی کہ کتاب ان کی زندگی کا حصہ بنتی چلی گئی۔ بعد میں مظہر کلیم، اشتیاق احمد اور سب رنگ ڈائجسٹ وغیرہ نے اس کمی کو کسی حد تک پورا کیا۔ لیکن 1980 ء کی دہائی سے معاشرے میں کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

مذہب کے ایک محدود رجعت پسند تصور نے جسے ریاست ہر سطح پر آگے لانے میں پیش پیش تھی اس خیال کو غالب کیا کہ فکشن بالخصوص رومانوی ناول اور دیومالائی کہانیاں اور داستانیں محض وقت کا ضیاع ہیں۔ اسلام میں ایسی عاشقانہ اور ماورائے عقل کہانیوں کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ لہو و لعب اور دنیاداری کے مترادف ہیں۔ لوگوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے بچوں کو صرف اسلامی اور اخلاقی کہانیاں پڑھنے کی اجازت دیں تاکہ ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ 1985۔ 86 میں سنٹرل لائبریری بہاولپور (جو پاکستان کے چند بڑے کتب خانوں میں سے ایک ہے ) نے ایک فیصلہ کیا۔ انہوں نے فکشن کی تمام کتابیں نکال کر علیحدہ کمرے میں بند کر دیں اور عام لوگوں کے لے ان کا اجراء بند کر دیا گیا۔ اس لیے کہ ان کتابوں سے لوگوں کا اخلاق خراب ہونے کا خدشہ تھا۔ کوئی بیس پچیس سال پہلے کا واقعہ آج بھی یاد ہے کہ مال روڈ پر فیروز سنز کے شو روم میں (جو اب مرحوم ہو چکا ہے ) کتابیں تلاش کر رہا تھا تو آٹھ دس سال کا ایک بچہ امیر حمزہ اور عمرو عیار کی کہانی اٹھا کر ساتھ والے با ریش بزرگ کے پاس لے آیا کہ یہ خریدنی ہے۔ بابا جی نے بچے کو ڈانٹ پلانی شروع کی کہ یہ بھی کوئی پڑھنے والی کتاب ہے اور اس کو حضرت عمر کی سیرت پر ایک کتاب خرید کر دی۔ فکشن کے خلاف اس حکومتی اور بعد میں عوامی اقدام کا نتیجہ کتاب سے نفرت کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔ ہر معاشرے میں بچوں کو سب سے پہلے کہانیاں ہی پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور بعد میں وہ جب کتب بینی کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر تاریخ، فلسفہ اور الہیات جیسے موضوعات پر بھی کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے مبلغینِ اخلاقیات نے بھی اپنی اخلاقی تعلیمات کو حکایات کی شکل میں ہی لوگوں تک پہنچایا ہے۔ شیخ سعدی کی گلستان، بوستان پڑھ لیجیے یا مولانا روم کی مثنوی معنوی قصے کہانیوں اور حکایات کے بغیر وعظ و نصیحت طبع نازک پر گراں ہی گزرتی ہے۔ اگر معاشرے میں کتاب کلچر عام کرنا چاہتے ہیں تو کہانی پڑھنے کے کلچر کو عام کرنا ہو گا۔

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments