مردوں کو عورتوں کے حقوق (فیمینزم) سے خوف کیوں آتا ہے؟
کیا فیمنیزم پر منفی ردعمل غلط فہمیوں کی بنیاد پر ہے یا یہ ایک دفاعی کوشش ہے؟ حالیہ برسوں میں ہم نے خاص طور پر نوجوان مردوں میں اینٹی۔ فیمینزم رجحانات کا ابھرتے دیکھا ہے۔ اینٹی فیمینزم کو عام طور پر مساجونسٹ سمجھا جاتا ہے اور کسی حد تک ان پر خواتین سے نفرت کرنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اینٹی۔ فیمینسٹ رویے اکثر خواتین یا برابری کی مخالفت سے نہیں، بلکہ اپنی شناخت کو لاحق خطرات کے نفسیاتی و ثقافتی ردعمل سے جنم لیتے ہیں۔ ان معاشروں میں جہاں مردوں کو روایتی طور پر محافظ، کفیل اور قائد سمجھا جاتا تھا، وہاں بدلتے ہوئے حالات نے ان کے کردار اور اہمیت کے بحران کو جنم دیا ہے۔ جب روایتی صنفی اقدار کو چیلنج کیا جاتا ہے تو کچھ مرد یہ محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کی ذاتی قدر و قیمت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
اس نفسیاتی کیفیت کو ”شناخت کا خطرہ“ یا شناخت کا چیلنج کہا جا سکتا ہے۔ شناخت غیر مستحکم ہونے لگے تو اس کے ردعمل میں بے چینی یا کبھی کبھی پر تشدد رویہ بھی جنم لیتا ہے۔ مرد اپنی مردانگی ثابت کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ یہی ایک میدان ہے جہاں بلا شک و شبہ وہ عورت سے بالاتر ہیں۔
اینڈریو ٹیٹ ایک برٹش امریکن میڈیا پرسنلیٹی ہے جو خود کو ”الفا مرد“ کہتا ہے، اکثر زہریلی مردانگی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی متنازع باتیں، صنفی کرداروں پر سخت رائے، اور قانونی مسائل (جن میں انسانی اسمگلنگ اور جنسی زیادتی کے الزامات شامل ہیں ) کے باوجود، اس کے پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ خاص طور پر نوجوان لڑکوں اور مردوں میں اس کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ ٹیٹ کی کشش اس کے شدت پسند نظریات میں نہیں، بلکہ ان جذبات سے ہم آہنگی میں ہے جو مرد بدلتے ہوئے صنفی تعلقات کے باعث محسوس کر رہے ہیں۔ اس کا پیغام اُن کے لیے سادہ اور واضح لگتا ہے، چاہے وہ خطرناک حد تک سطحی ہو۔ وہ خود کو ”کمزور مردوں“ اور ”نسائی ثقافت“ کا توڑ سمجھتا ہے۔ اس کے بقول عورت مرد کی جاگیر ہے اس کو گھر بیٹھنا چاہیے۔ اسے گاڑی چلانے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے یہ خیالات مردوں کے ایک طبقے میں مقبول ہو رہے ہیں۔ اگرچہ اس کی مخالفت میں بہت آوازیں اٹھی ہیں لیکن ایک بڑی تعداد میں نوجوان اسے اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ مذہبی سوچ رکھنے والے بھی اس سے متاثر ہیں۔ ٹک ٹاک پر اس کے لاکھوں فالوورز ہیں۔ یہ زہریلی سوچ رکھنے والا کھلے عام عورت کی تذلیل کر رہا ہے اپنے جنسی جرائم پر فخر کرتا ہے اور خطرناک بات یہ ہے کہ لوگ اسے سنتے بھی ہیں اور پسند بھی کرتے ہیں۔
اسی سے ملتے جلتے خیالات کینیڈا کے سایئکاٹرسٹ جورڈن پیٹرسن کے بھی ہیں لیکن چونکہ وہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں اس لیے بات کو کم زہریلا بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ ان سے یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ وہ عورتوں کے حق ووٹ کی مخالفت کرتے ہیں اور عورت کے ریپ کو جنسی زیادتی کے بجائے پراپرٹی کرائم سمجھا جائے۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنے کی شکایت کی۔ ان کے بھی بے شمار فالورز ہیں۔
فیمینزم پر ایک عام اعتراض یہ ہے کہ اس نے اپنی حد پار کر لی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جو تحریک برابری کے لیے شروع ہوئی تھی، وہ اب خواتین کی بالادستی یا مردوں کی حاشیہ برداری کی طرف بڑھ گئی ہے۔ یہ خیال خاص طور پر اُن لوگوں میں پایا جاتا ہے جو اقتصادی مشکلات یا سماجی بے دخلی کا شکار ہیں۔ ایسے میں فیمینزم کو وسیع تر سماجی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ نظریہ اکثر حقیقت سے زیادہ تاثر پر مبنی ہوتا ہے۔ فیمینزم آج بھی دنیا بھر میں خواتین کے بنیادی حقوق اور تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔
ساتھ ہی، یہ احساس کہ فیمینزم عورتوں کو برابر نہیں بلکہ مردوں کو کمتر اور غاصب ثابت کر رہا ہے۔ مرد اس سے بہت خائف ہیں اور یہ خدشہ یا خوف مکمل طور پر بے بنیاد نہیں۔ بعض اوقات عوامی بیانیہ فیمینسٹ نظریات کو مردوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے، خاص طور پر جب انصاف کا عمل نظر انداز کیا جائے یا مردوں کے مسائل کو سراسر رد کر دیا جائے۔
جدید فیمینزم نہ صرف خواتین کو بلکہ مردوں کو بھی محدود کرداروں سے آزادی دلانا چاہتا ہے لیکن یہ پہلو اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے۔ جن مردوں نے طاقت، خاموشی، اور غلبے کو اپنی شناخت کا حصہ بنایا، انہیں جذبات کا اظہار اور اختیارات کی تقسیم کا مطالبہ ذاتی نقصان محسوس ہو سکتا ہے۔ یہ صرف نفسیاتی گتھی نہیں نہیں بلکہ اپنے وجود کا ثابت کرنا گمبھیر مسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ جو مرد اپنی خودی کو روایتی کرداروں سے جوڑتے ہیں، ان کے لیے فیمینسٹ چیلنج اپنی شناخت کی نفی لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آن لائن اور میڈیا میں دفاعی ردعمل دیکھتے ہیں۔ اب مردوں کے حقوق کے حصول کی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فیمینزم مردانگی کے لیے خطرہ نہیں۔ اصل خطرہ ”لا تعلق اور غیر اہم ہو جانے“ کا خوف ہے۔
بدقسمتی سے، یہ نازک پہلو اکثر عوامی بحث میں کھو جاتے ہیں۔ فیمینزم کو مرد دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ اصل مشن۔ خواتین کو بلند کرنا بغیر مردوں کو گرانے کے۔ دھندلا جاتا ہے۔
اسی طرح موجودہ فضا میں منافقانہ ردعمل عام ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر، ایکٹریس بلیک لائیولی کو آواز بلند کرنے پر سراہا جاتا ہے، جبکہ جسٹن بالڈونی، جو ”صحت مند مردانگی“ پر بات کرتے ہیں، تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر ہراسمنٹ کے الزام لگا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر مقدمے دائر کر دیے ہیں۔ کمزور یا غیر معروف مردوں پر الزامات لگنے کی صورت میں، ثبوت کے بغیر بھی ان کی ساکھ تباہ کی جا سکتی ہے۔ ایسے میں فیمینزم انصاف کے آلے کی بجائے، جارحانہ ہتھیار بن جاتا ہے۔
فیمینزم ہمیشہ طاقت کے قائم شدہ ڈھانچوں کے لیے ایک خطرہ رہا ہے، اور پدرشاہی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ تاریخ میں مردوں نے اکثر بلا شرکت غیرے سماجی غلبہ قائم رکھا۔ فیمینزم نے صرف قانونی و معاشی مساوات پر بات نہیں کی بلکہ ثقافتی تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا۔
یہی ثقافتی تبدیلی سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرتی ہے۔ لوگ اصولی طور پر برابر تنخواہ کی حمایت کرتے ہیں، لیکن جب صنفی کردار حقیقت میں بدلے جاتے ہیں تو انھیں بے چینی ہوتی ہے۔
ہاروی وائن سٹین کا معاملہ اس تبدیلی کی ایک علامت ہے۔ می ٹو کی تحریک نے جو فیمینسٹ سرگرمی سے جڑی تھی، اس پر مقدمہ کروایا اور دہائیوں پر مشتمل زیادتیوں کو بے نقاب کیا۔
لیکن قانونی عمل سیدھا نہیں تھا۔ 2020 میں وائن سٹین تیسرے درجے کی زیادتی اور جنسی حملے کے جرم میں مجرم قرار پایا، لیکن سنگین الزامات سے بری ہو گیا۔ 2024 میں نیویارک عدالت نے گواہی میں تعصب کی بنیاد پر اس کی سزا ختم کر دی، اور 2025 میں دوبارہ مقدمہ شروع ہوا۔
اس کے برعکس ایک مشہور مقدمے کا انجام کچھ اور ہوا۔ مقبول فلمی اداکار جونی ڈیپ کی سابقہ اہلیہ نے اپنے ایک مضمون میں اپنے سابق شوہر پر می ٹو مہم کا سہارا لے کر الزام لگایا کہ وہ اس پر تشدد کرتا تھا۔ جونی ڈیپ نے اس پر ہتک عزت کا دعوی کر دیا اور نا صرف مقدمہ جیتا بلکہ ہرجانے کی مد میں ایمبر ہرڈ کو ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
می ٹو نے ایک بہت پاورفل اقدام کیا جب بدنام زمانہ جیفری ایپسٹین کی پہلی متاثرہ لڑکی سامنے آئی اور پھر ایک کے بعد ایک نکلی چلی آئیں۔ جیفری ایپسٹین کی پارٹیوں میں کم عمر لڑکیوں کو لایا جاتا تھا مہمانوں میں بڑے بڑے نام تھے جن میں سابق امریکی صدر کلنٹن، موجودہ صدر ٹرمپ، ال گور، لیونارڈو کاپری، کیوین اسپسی اور برطانوی شہزادہ اینڈریو شامل تھے۔ شہزادے کو تو اپنے لقب اور کچھ مراعات سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ بدنامی الگ ہوئی۔ ایپسٹین نے جیل میں خودکشی کرلی یا شاید مروا دیا گیا۔
یہ مثالیں صرف قانونی پیچیدگی نہیں دکھاتیں بلکہ میڈیا کے کردار پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ وائن سٹین کو قانونی فیصلے سے پہلے ہی عوامی رائے میں مجرم ٹھہرا دیا گیا۔ اگرچہ یہ اسے بے گناہ ثابت نہیں کرتا، لیکن یہ ضرور بتاتا ہے کہ انصاف، ثبوت اور عوامی تماشے میں باریک فرق ہے۔
فیمینزم خواتین کو درپیش معاشرے میں عدم مساوات کو ضرور اجاگر کرتی ہے، لیکن اس جدوجہد میں مردوں کی جذباتی اور سماجی جدوجہد اکثر نظر انداز ہو جاتی ہے۔
کئی مرد اجنبیت، تنہائی، اور معاشرتی شناخت کی الجھن کا شکار ہیں۔ جب ان کے احساسات کو نظرانداز یا مذاق میں اُڑایا جاتا ہے تو وہ اندر ہی اندر کھولنے لگتے ہیں۔ نوجوان مرد اب عورتوں سے بے تکلف ہوتے گھبراتے ہیں۔ آپس کی گفتگو میں غیر فطری احتیاط نظر آتی ہے۔ کوئی لطیفہ یا مذاق انہیں ڈرا دیتا ہے کہ جانے اس کا کیا مطلب لے لیا جائے اور کب کون کہاں انہیں مساجونسٹ کے لقب سے نواز دے۔
ایک ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق کے مطابق، 59 % خواتین کہتی ہیں کہ وہ اپنے شریکِ حیات سے زیادہ گھریلو کام کرتی ہیں، جبکہ صرف 6 % خواتین کہتی ہیں کہ ان کا شریکِ حیات زیادہ کام کرتا ہے۔ لیکن 46 % مردوں کو لگتا ہے کہ دونوں برابر کام کرتے ہیں۔
یہ فرق بتاتا ہے کہ گھریلو ذمہ داریاں اتنی تیزی سے نہیں بدلیں جتنی معاشی ذمہ داریاں۔ کئی خواتین اب گھریلو آمدنی میں شریک ہیں یا مکمل کفیل ہیں، لیکن گھریلو کام کا بوجھ بدستور ان پر ہے۔ نتیجہ: تھکن اور کردار کی الجھن۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کو تعلیم یافتہ اور با اختیار ہونا چاہیے۔ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو اپنے فیصلے خود کرے۔ معاشی طور پر مضبوط ہو۔ مرد بھی آزاد ہے کہ اپنے لیے شریک حیات کو انتخاب کرتے ہوئے وہ غور کرے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ ایک گھریلو لڑکی جو گھر اور بچے سنبھالے اور جو وہ کام سے تھکا ہارا گھر ہوتے تو اسے ایک صاف ستھرا گھر اور پکا پکایا کھانا ملے۔ ایسی سوچ والے مردوں کو کریئر وومن سے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کی عمر احساس کمتری، جھنجھلاہٹ میں گزرے گی اور پھر اس کے نتیجے میں ان کے متشدد ہونے کا امکان بھی ہے۔ مردوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ عورت اپنا کیریئر بنانے اور آگے بڑھنے میں اپنی عمر کے بہترین زرخیز سال ضائع کر دیتی ہے اسے فیملی شروع کرنے میں دیر ہوجاتی ہے اور کبھی کبھار تو بہت ہی دیر ہوجاتی ہے۔ اور ایک روایتی گھرانا بن نہیں پاتا۔
یہ کشمکش پاپ کلچر میں بھی نظر آتی ہے۔ حالیہ ”سنو وائٹ“ کی ری میک میں ہیروئن کہتی ہے کہ ”مجھے کسی شہزادے کی ضرورت نہیں“ ۔ یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی اور عوام نے اس روایتی رومانوی جادوئی داستان کو یوں بکھرتے دیکھا تو رد کر دیا۔ یہ بات ہمیں بتاتی ہے کہ روایت کو یوں سنگدلی سے توڑنا قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔
ایسے بیانیے پرانے خیالات کو چیلنج کرنے کے لیے ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات یہ رشتوں کی اہمیت کو بھی کم تر دکھاتے ہیں۔ خواتین کو با اختیار بنانے کی کوشش میں، بعض اوقات کہانیاں جذباتی لاتعلقی اور انفرادیت کو فروغ دیتی ہیں۔
ایک اور مسئلہ فیمینزم کا بڑے کارپوریٹ اداروں کی جانب سے استحصال ہے۔
برانڈز اور ارب پتی افراد فیمینزم کی علامتوں کو اپنی شبیہ بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، بغیر اس نظام کی نا انصافی کو چیلنج کیے جسے یہ تحریک اصل میں ختم کرنا چاہتی ہے۔
مثال کے طور پر ایمزان کے سابق سی ای او جیف بیزوس کی ’بلیو اوریجن‘ نے اسپیس شٹل کا اہتمام کیا۔ اس میں چھ معروف خواتین جن میں گیل کینگ، کیٹی پیری اور جیف بروس کی اپنی اہلیہ بھی شامل تھی۔ یہ سفر گیارہ منٹ کا تھا۔ اسے ”فیمینسٹ سنگِ میل“ کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن یہ صنفی مساوات سے زیادہ ایک اشرافیہ کا تماشا تھا۔
ڈَو کی ”ریئل بیوٹی“ مہم ’دا گڈ۔ دا بیڈ اینڈ دا اگلی‘ نے حسن کے معیار کو چیلنج کیا، لیکن ان کا پیغام عوام تک ٹھیک طریقے سے نہیں پہنچا اور اس سے کمپنی کی فروخت گھٹ گئی۔ یہاں بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ روایات سے لڑنا آسان نہیں ہے۔
ایف سی کے ایچ کی ”پاٹی ماؤتھ پرنسسز“ مہم میں چھوٹی بچیوں کو گالیوں کے ذریعے صنفی برابری پر بولتے دکھایا گیا سوال یہ ہے کہ کیا صنفی برابری ثابت کرنے کے لیے سماجی قدروں کو زک پہنچانا لازم ہے؟ فیمنزم کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا اس مہم کو نقصان پہنچانا ہے۔ ایسی مہمات آگہی تو بڑھاتی ہیں، لیکن اکثر فیمینزم کو ایک نعرہ یا سجاوٹ میں تبدیل کر دیتی ہیں، اس کی اصل روح ختم کر کے۔
میساجنی ایک حقیقت ہے۔ معاشرہ مجموعی طور پر پدرسری ہے۔ مساجونسٹ عورت کو کمتر سمجھتے ہیں اور کئی تو عورت سے نفرت میں مبتلا ہوتے ہیں۔
لیکن میسوجنی سے نمٹنے کے لیے فیمینزم کو انتقام یا غصے کا ہتھیار نہیں بننا چاہیے۔
فیمینزم کو برابری پر مرکوز، ثبوت پر مبنی، اور انصاف پر قائم رہنا ہو گا۔ جب اسے بغیر مقدمے کے ساکھ برباد کرنے یا امیروں کے پی آر اسٹنٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
اگر فیمینزم واقعی انقلابی بننا چاہتا ہے، تو اسے ایک سوچ بچار، ہم آہنگی، اور انصاف پسند تحریک کے طور پر اپنی حیثیت بحال کرنا ہوگی۔ جو صرف خواتین نہیں، بلکہ تمام اصناف کو با اختیار بنائے۔
آخر میں، مرد فیمینزم سے اس لیے نہیں ڈرتے کہ یہ برابری مانگتا ہے۔ بلکہ اس لیے کہ یہ ان سے خود احتسابی، اندر کی تبدیلی، اور عاجزی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور یہ سب طاقت کے غلبے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔
- مردوں کو عورتوں کے حقوق (فیمینزم) سے خوف کیوں آتا ہے؟ - 22/04/2025
- دیپ جلتے رہے: عفت نوید کی کتاب - 15/03/2025
- حالات کا موڑ: شکست تخت پہلوی (11) - 14/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).