کیا بھٹو کے دادا نے ہندو مختیار کار کو قتل کیا؟


تحریر و تحقیق: علی بھٹو
ترجمہ و تدوین: اسرار ایوبی

2 نومبر 1896 کو وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو، جو بعد میں پاکستان کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دادا بنے، صبح 7 بج کر 35 منٹ پر نوڈیرو سے لاڑکانہ جانے والی ریل گاڑی پر سوار ہوئے۔ یہ نوجوان وڈیرہ دودا خان بھٹو کا پوتا تھا، جو بالائی سندھ کے سرحدی ضلع کا سب سے بڑا زمیندار اور شکارپور کلکٹریٹ کے ممتاز ترین افراد میں شامل تھا۔

اسی صبح، اور اس سے ایک روز قبل چند ایسے واقعات رونما ہو چکے تھے جنہوں نے غلام مرتضیٰ بھٹو اور اس کے قریبی خاندان کی قسمت کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس خاندان میں ان کا کمسن بیٹا شاہنواز بھٹو بھی شامل تھا، جسے بعد میں برطانوی ہند حکومت کی جانب سے ’سر‘ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔

انہیں لاڑکانہ پہنچنے میں 41 منٹ لگے، غلام مرتضیٰ بھٹو اپنے ایک وفادار خادم چھٹو خاصخیلی کے ہمراہ ایک کرائے کی گھوڑا گاڑی میں سوار ہو کر آگے روانہ ہوئے۔ ان کی منزل چانڈیو علاقے کا مرکزی شہر قمبر تھا۔

اسی دوران صبح 9 بج کر 15 منٹ پر، شکارپور کے کلکٹر کرنل الفریڈ ہرکیولیس مے ہیو کو نوڈیرو کے تپیدار کی جانب سے ایک ہنگامی برقی تار موصول ہوا۔ اس میں اطلاع دی گئی تھی کہ راؤ جے رام داس، رتوڈیرو تعلقہ کے مختیارکار بنگل ڈیرو میں کیمپ کے دوران ”اچانک“ وفات پا گئے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک اور ہنگامی برقی تار آیا، جس میں یہ واضح کیا گیا کہ راؤ جے رام داس ”قتل“ کر دیے گئے ہیں۔

کلکٹر ہونے کی حیثیت سے مے ہیو شکارپور ضلع کا سب سے اعلیٰ افسر تھا۔ یہ ایک انتظامی یونٹ تھا جس کا رقبہ 10,242 مربع میل پر محیط تھا، جس میں آج کے قمبر، شہداد کوٹ، لاڑکانہ، شکارپور، گھوٹکی اور سکھر کے اضلاع شامل تھے۔ اس کے علاوہ مے ہیو کو پورے علاقے پر مجسٹریٹی اختیارات بھی حاصل تھے۔

مے ہیو کوئی وقت ضائع کیے بغیر اس اہم معاملے کو فوری طور پر سندھ کے کمشنرسر ہنری ایون جیمز کے علم میں لایا۔ 9 نومبر 1896 کو ضلع کے سپرنٹنڈنٹ پولیس مسٹر سپینس نے مے ہیو کو ایک خط لکھا۔ اس کی تحریر میں جلدبازی اور اضطراب نمایاں تھا۔

”اب تک کی تحقیقات سے جو کچھ سامنے آیا ہے، اس سے یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ اصل مجرموں اور ان کے اکسانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے سے روکنے کے لیے بڑی رقم خرچ کی گئی ہے، ہو رہی ہے اور کی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے ایک بڑے انعام کی پیشکش کے بغیر کچھ معلوم ہونے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔“

سپینس نے اس سنگین اور انتہائی سفاک قتل کے سلسلے میں معلومات دینے والے کے لیے ایک ہزار روپے کے انعام کی تجویز دی، جس کی کلیکٹر مے ہیو نے تائید کی اور سندھ کے کمشنر نے اس انعام کی منظوری دے دی۔ جبکہ مقتول مختیار کار کے والد راؤ دھرم داس، جو کہ ٹھٹھہ کے ایک دولت مند زمیندار اور تاجر تھے، نے بھی 500 روپے کے اضافی انعام کا اعلان کیا۔

تحقیقات کے دوران حاصل ہونے والے شواہد کی بنیاد پر وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ تعلقہ کے سب سے بڑے سرکاری افسر، مختیارکار کے قتل کا محرک تھا۔

کمشنر کو لکھے گئے اپنے خط میں کرنل مے ہیو نے 9 نومبر 1896 کو سرخ سیاہی سے دستخط کرتے ہوئے ایک حتمی مہر ثبت کرنے کے ساتھ لکھا:

”ملزم غلام مرتضیٰ بھٹو ولد خدا بخش بھٹو ایک دولت مند اور با اثر شخص ہے، جو اس [شکارپور] اور بالائی سندھ کے سرحدی ضلع میں وسیع اراضی کا مالک ہے۔

مقتول راؤ صاحب جے رام داس دھرم داس عوامی مفاد میں انتہائی سنجیدگی، ایمانداری اور استقامت سے اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اور وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو و لد خدا بخش بھٹو کو راہ راست پر لانے کی کوشش میں اپنی جان گنوا بیٹھے اور اس کی بدعنوان اور مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے کی کوششوں کے نتیجے میں وہ اس طاقتور بدکار کی غضبناک انتقامی کارروائی کا نشانہ بن گیا۔ ”

نوجوان وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو پر تعلقہ رتو ڈیرو کے مختیارکار راؤ جے رام داس کے قتل کا الزام کن بنیادوں پر لگایا گیا؟

شکارپور سیشن کورٹ کے جج دیا رام گدومل نے 20 نومبر 1896 کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں اس مقدمے کے حقائق کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس میں پاندھی عرضی اور حسین (مختیارکار جے رام داس کے عملے کے ارکان) ، سلامت رائے (بنگل ڈیرو کا زمیندار) ، علی شیر (مختیارکار کے محصول کی وصولی میں مددگار ایک چھوٹا زمیندار) ، عبدالفتح (قمبر کا چیف کانسٹیبل) اور واحد بخش (ایک مسافر) کی حلفیہ گواہی شامل ہیں۔

مختیار کار جے رام داس کے قتل سے ایک دن قبل وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو اس سے ملنے نوڈیرو گیا تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ریونیو افسر وڈیرہ کے خلاف ایک سرکاری رپورٹ تیار کر رہا تھا، جسے وہ ایک ”بد کردار“ شخص سمجھتا تھا۔ اس موقع پر غلام مرتضیٰ بھٹو کو ایک گھنٹے تک تپتی دھوپ میں انتظار کروایا گیا۔ جب اسے اندر بلایا گیا تو ملاقات نہایت مختصر تھی۔

انیسویں صدی کے سندھ میں کسی سرکاری افسر کی جانب سے اس قسم کا سلوک کسی باعزت اور باوقار شخص کے لیے سخت توہین کے مترادف تھا۔ بدلہ لینے کا عزم کرتے ہوئے، غلام مرتضیٰ بھٹو نے بار بار کہا، ”یہ دیوان (سرکاری افسر) مجھے مناسب عزت نہیں دیتا۔ میں اسے دیکھ لوں گا [ما ہِن کے ڈسی رہندس]۔“

سہ پہر کے وقت جب گرمی کم ہو گئی تو مختیار کار راؤ جے رام داس نوڈیرو سے گاؤں بنگل ڈیرو کی طرف روانہ ہوا۔ آج بھی اس کا مختصر ترین راستہ گڑھی خدا بخش سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس سفر کے دوران اس کا قافلہ غلام مرتضیٰ بھٹو کی سرخ اینٹوں سے بنی اوطاق کے سامنے سے گزرا۔ صحن میں بیٹھا وڈیرہ، مختیارکار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے برابر بیٹھے شخص سے کچھ کہہ رہا تھا۔

مختیار کار کا قافلہ شب سوا نو بجے بنگل ڈیرو پہنچا اور تپیدار (فیلڈ سرویئر) کے ڈیرے میں قیام کیا۔ اس شب کسی وجہ سے مختیارکار کے خادم پاندھی نے ایک ہم رکاب علی شیر کو اپنے ساتھ رہنے کی جگہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ دیر گئے شب علی شیر شب بسری کے لئے کسی جگہ کی تلاش میں نکلا اور بنگل ڈیرو کے ایک رہائشی زینو درخان کی اوطاق میں پہنچا۔ اندر وہ آگ کے پاس بیٹھا تھا اور جلے ہوئے انگاروں میں تنکے ڈال رہا تھا۔ جیسے ہی شعلے بلند ہوئے اس نے کمرے میں ایک اجنبی شخص کا چہرہ دیکھا۔ تین دن بعد ہونے والی تحقیقات میں علی شیر نے اس شخص کی شناخت کی، جو کوئی اور نہیں نُورُو تھا، جو غلام مرتضیٰ بھٹو کے والد خدا بخش بھٹو کا ہاری تھا۔ زینو نے بھی علی شیر کو ٹھہرانے سے انکار کیا، جس کے بعد اسے بنگل ڈیرو سے ایک میل دور واقع ایک گاؤں میں رات گزارنی پڑی۔

ادھر مختیار کار جے رام داس آدھی رات کو سو گئے، جب ان کے خادمین ان کی ٹانگیں دبا رہے تھے۔ سلامت رائے اور مقامی منشی جو اس وقت تک ان کے ساتھ تھے، رخصت ہو گئے تھے۔ ماضی میں جب بھی مختیارکار گاؤں میں ٹھہرا کرتے تھے تو وہ رات کے وقت اپنے کیمپ کی حفاظت کے لیے دو راہ چلتے مالیوں (باغبانوں ) کو تعینات کیا کرتے تھے۔ مگر اس بار دلچسپ بات یہ تھی کہ جب مالی آئے تو پاندھی نے انہیں بتایا کہ ان کی ضرورت نہیں۔ خانساماں اور ایک خدمت گار کے سوا مختیار کار کا پورا قافلہ احاطے سے باہر سو رہا تھا، جس کے دروازے کو باہر سے زنجیر سے بند کر دیا گیا تھا۔

اگلی صبح مختیار کار راؤ جے رام داس کا سلامت رائے کے کھیتوں کا معائنہ کرنا طے تھا۔ لیکن ان کے خدمت گار کی جانب سے بار بار دروازے کے باہر شور کرنے کی کوششوں کے باوجود وہ نیند سے بیدار نہ ہو سکے۔ کافی انتظار کرنے کے بعد صبح ساڑھے آٹھ بجے سلامت رائے اندر گئے اور کمبل اٹھایا تو اس نے مختیار کار کا خون سے بھیگا ہوا چہرہ اور داڑھی دیکھی۔ یہ بھیانک منظر دیکھتے ہی مختیارکار کے روتے پیٹتے ہوئے عملے کے ارکان نے فوراً اعلان کیا کہ وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو اس قتل کا ذمہ دار ہے کیونکہ اسے پچھلے دن ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

Shahnawaz Bhutto, Khursheed Bhutto and children

اسی صبح واحد بخش جو گڑھی خدا بخش سے بنگل ڈیرو جانے والی سڑک پر سفر کر رہا تھا، نے کوٹ بھٹو کے قریب تین آدمیوں کو راستے میں دیکھا، جنہیں وہ جانتے تھے۔ وہ لوگ بنگل ڈیرو کی جانب سے آتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ بعد میں انہوں نے ان تینوں افراد کو شناخت کیا: نُورُو، جو زینو کے اوطاق میں تھا، چھٹو خاصخیلی غلام مرتضیٰ کا خادم، اور چھٹو جاگیرانی۔ اس نے محسوس کیا کہ خاصخیلی ایک تلوار اٹھائے ہوئے تھا۔

صبح 7 : 35 بجے چھٹو خاصخیلی اور وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو لاڑکانہ جانے والی ٹرین پر سوار ہوئے۔ دونوں صبح 10 بجے نابو کی گھوڑا گاڑی کے ذریعے اپنی آخری منزل مقصود قمبر پہنچے۔ یہاں غلام مرتضیٰ بھٹو نے قمبر کے چیف کانسٹیبل عبدالفتح سے ملاقات کی۔

اس نے عبدالفتح کو بتایا کہ اس کی ایک گھوڑی گم ہو گئی تھی اور کانسٹیبل نے اس جانور کی تفصیل نوٹ کی، گفتگو میں مختیار کار راؤ جے رام داس کا ذکر بھی آیا۔ کانسٹیبل نے پوچھا کہ کیا مختیارکار رتوڈیرو نے کرنل مے ہیو کو وہ رپورٹ بھیجی ہے جو وہ غلام مرتضیٰ بھٹو کے خلاف تیار کر رہے تھے۔ غلام مرتضیٰ بھٹو نے جواب دیا کہ مختیارکار مر چکا ہے۔

بعد میں عدالت میں، عوامی استغاثہ نے یہ دلیل دی کہ غلام مرتضیٰ بھٹو نے یہ سفر اس لئے اختیار کیا تھا تاکہ اگر اس پر الزام لگے تو ان کے پاس ایک ایسا عذر موجود ہو۔

3 نومبر کو تحقیقات میں دلچسپ شواہد سامنے آئے۔ مختیارکار کا بٹوا، جو اس کے قتل کی رات چوری ہو گیا تھا، چھٹو خاصخیلی کے کمرے میں غلام مرتضیٰ بھٹو کی اوطاق میں ملا۔ غلام مرتضیٰ کی گرفتاری کے بعد ان کے وکیل مسٹر گرے کی جانب سے ضمانت کے لیے دو درخواستیں دائر کی گئیں۔ جو پہلے لاڑکانہ کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور پھر شکارپور کے سیشن جج نے مسترد کر دیں۔ تاہم، بعد ازاں جج نے اپنے فیصلے میں نوٹ کیا کہ اب تک جمع شدہ شواہد کے مکمل ثبوت کے طور پر غیر مکمل تھے اور جرح کے دوران یہ بیکار بھی ثابت ہو سکتے تھے۔ لہذاء ملزم کو آخرکار بری کر دیا گیا۔

اپنی خودنوشت ”ڈاٹر آف دی ایسٹ“ میں بینظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو سے سنی ہوئی اپنے پردادا کی ایک افسانوی کہانی کو یاد کرتی ہیں۔ اس کہانی کے مطابق شکار پور کے کلیکٹر کرنل مے ہیو کو غلام مرتضیٰ بھٹو سے ذاتی رنجش تھی۔ جس کی بنیاد ایک تعلق تھا، جو غلام مرتضیٰ بھٹو نے ایک برطانوی خاتون سے قائم کیا تھا۔

اس کے برعکس معروف امریکی مورخ اور مطالعہ ہند کے ماہر اسٹینلے وولپرٹ اپنی کتاب ”ذلفی بھٹو آف پاکستان“ میں، جن سے سر شاہنواز بھٹو کی غیر مطبوعہ یادداشتوں پر بھی مشاورت کی گئی تھی، اس بات کو رد کرتے ہیں اور اسے ایک ”ترمیم شدہ“ موقف قرار دیتے ہیں جو سر شاہنواز بھٹو نے اپنی یادداشتوں میں بیان کیا ہے۔ (جو اپنے والد غلام مرتضیٰ بھٹو کی وفات کے وقت 11 برس کے تھے ) ان کے موقف کے مطابق نوجوان وڈیرہ نے کلیکٹر کرنل مے ہیو کی سندھی داشتہ چُرا لی تھی۔

فاطمہ بھٹو کی یادداشتوں کی کتاب ”سونگز آف بلڈ اینڈ سورڈ“ میں اس خاندان کی نسلی تاریخ کا ایک بڑا حصہ غلط طور پر بیان کیا گیا ہے (اس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ جملہ ’مٹھو جو مقام‘ کسی شخص کا نام ہے اور بیگاری نہر کا نام کسی جگہ کے نام پر رکھا گیا تھا ) ۔ ان کے موقف کے مطابق ”غلام مرتضیٰ بھٹو کی ایک برطانوی ایلچی کی سفید فام بیوی سے آشنائی تھی“ ۔

ان میں سے کسی بھی موقف میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو پر رتو ڈیرو کے مختیار کار راؤ جے رام داس کے قتل میں مدد دینے کا الزام تھا۔ وولپرٹ، سر شاہنواز بھٹو کی یادداشتوں سے صرف ”ہندو۔ جو قتل ہو گیا تھا“ کا وقتی طور پر ذکر کرتے ہیں اور اسے محض ایک اضافی تفصیل کے طور پر نقل کرتے ہیں۔ ڈیوڈ چیسمین، جو اس واقعے کی تفصیلات اپنی رپورٹ ”لینڈلارڈ پاور اینڈ رورل انڈیبٹڈنیس ان کالونیل سندھ“ میں بیان کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ وولپرٹ کا موقف بینظیر بھٹو کے مقابلہ میں زیادہ قابل فہم ہے۔

اے ڈبلیو ہیوز، جو سندھ میں ایک سول سروس افسر اور کاٹن انسپکٹر تھے، 1876 کے سندھ گزیٹیئر میں لکھتے ہیں کہ لاڑکانہ ڈویژن میں سب سے عام جرائم میں سے ایک ”زنا کاری۔ یا شادی شدہ خواتین کو مجرمانہ ارادے سے ورغلا کر لے جانا“ تھا۔

تاہم مقدمے کی تفصیلات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کلیکٹر مے ہیو شاید ذاتی انتقام کے جذبے سے نہیں بلکہ کچھ اور وجوہات کی بناء پر حرکت میں آیا تھا۔

17 نومبر 1896 کو بمبئی کے گورنر کو لکھی گئی ایک یادداشت میں سندھ کے کمشنر نے نوٹ کیا کہ ”۔ مشتبہ شخص، یہ جانا جاتا ہے کہ اس نے دوسرے قاتلانہ حملوں کی تحریک دی تھی، اگر اس نے قتل نہ بھی کیا ہو۔“ یہ جزوی طور پر مقتول مختیارکار کے غلام مرتضیٰ بھٹو سے ملاقات کے دوران کے رویے کو سمجھا سکتا ہے، جیسا کہ وہ اس کے خلاف ایک رپورٹ تیار کر رہے تھے۔ اس یادداشت میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ مختیار کار راؤ جے رام داس کے بھیانک قتل نے ”تمام سرکاری افسران کو خوفزدہ کر دیا ہے۔“ اس کے علاوہ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ مسٹر سپینس تھے جنہوں نے اس معاملہ میں بھاری انعام کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

شکارپور کے کلیکٹر کرنل الفریڈ مے ہیو کی پیشہ ورانہ زندگی پر ایک گہری نظر یہ ظاہر کرتی ہے کہ انہیں نا انصافی کے خلاف لڑنے کا شوق تھا۔ ایک تفتیشی صحافی مِک ہیمر اپنی کتاب ”A Most Deliberate Swindle“ میں کلیکٹر مے ہیو کے ایک بیان کو اس طرح نقل کرتے ہیں :

”میں نے ہندوستان میں 27 سال گزارے، جسے میں نے کافی بری جگہ پایا۔ لیکن جب میں لندن واپس آیا تو میں نے اسے نا انصافی کا مرکز پایا۔ اور میں نے عہد کیا کہ میں ہر وہ کام کروں گا جس سے ان بدکاروں کا پردہ فاش کر سکوں جو بیوہ اور یتیموں کا مال چھینتے ہیں۔“

انڈیا آفس لسٹ 1893 کے مطابق کرنل مے ہیو نے ہندوستان میں اپنے 40 سالہ دور ملازمت میں بالائی سندھ کے سرحدی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے علاوہ، خیرپور ریاست میں سیاسی ایجنٹ، تھر اور پارکر میں قائم مقام سیاسی سپرنٹنڈنٹ اور مدراس آرمی میں فوجی خدمات سرانجام دینے کے بعد شکارپور ضلع کے کلیکٹر کے طور پر کام کیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق، ان کے بارے میں یہ شہرت عام تھی کہ وہ ایک منصف مزاج افسر تھے جو کسانوں، مزدوروں اور چرواہوں کے ساتھ گہرائی سے بات کیا کرتے تھے تاکہ ان کے مسائل کا پتا چل سکے۔ سندھ کے ممتاز ادیب، صحافی اور مورخ پیر علی محمد راشدی کے سوانحی انسائیکلوپیڈیا ”اُہ دھیان اُہ شیہن“ میں کلیکٹر کرنل مے ہیو کی تعریف کی گئی ہے کہ انہوں نے بالائی سندھ کو ایک اقتصادی مرکز کے طور پر ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

وہ اس واقعہ میں ایک سندھی زمیندار یا کسی داشتہ کے درمیان میں ہونے کے امکان پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ جب مے ہیو سکھر میں کلیکٹر تھے، اگر ان کے پاس کوئی داشتہ ہوتی تو امکان ہے کہ وہ زیادہ تر اسی شہر میں رہتی۔ دوسری جانب غلام مرتضیٰ بھٹو ایک مختلف تعلقہ میں رہتے تھے۔ جو کہ ٹرین کے ذریعے بھی کافی دور تھا۔

سر شاہنواز بھٹو کے موقف کے مطابق غلام مرتضیٰ بھٹو اور کلیکٹر کرنل مے ہیو کے درمیان ایک جسمانی جھگڑا ہوا تھا جس کے دوران کرنل میز کے نیچے جا کر چھپ گئے تھے۔ لیکن یہ ایک تربیت یافتہ فوجی کے لیے انتہائی غیر معمولی بات ہوگی جس نے مدراس آرمی میں عسکری خدمات انجام دی ہوں اور جو اس وقت اپنی پچاس کی دہائی کے وسط میں تھا ( کرنل الفریڈ ہرکیولیس مے ہیو 1913 میں 70 سال کی عمر میں فوت ہوئے ) ۔

Khan Bahadur Shah Nawaz Khan Bhutto, CIE, OBE

ڈیوڈ چیسمین کا کہنا ہے کہ ”کلیکٹر مے ہیو کے لئے غلام مرتضیٰ بھٹو کے بری ہونے کے بعد سیاسی طور پر ٹھوس وجوہات تھیں۔“ اگرچہ عورت کے حوالے سے انتقامی جذبے کی امکان کو مسترد بھی کر دیا جائے، مے ہیو کے پاس کافی وجوہات تھیں کہ وہ تشویش میں مبتلا ہوں۔ اس کی بریت نے ایک خطرناک مثال قائم کی تھی۔ انتظامیہ، جو کہ وڈیرہ کی بے پناہ طاقت کے سامنے بے بس اور ناکام دکھائی دے رہی تھی، اس کا اثر واضح تھا۔

سرکاری ریکارڈ میں اس کے بعد کیا ہوا، اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ البتہ ہمارے پاس صرف وولپرٹ کا موقف ہے، جو سر شاہنواز بھٹو کی یادداشتوں پر مبنی ہے، جس میں کہا گیا کہ کسی موقع پر شاید ضمانت ملنے کے بعد ، غلام مرتضیٰ بھٹو نے جلاوطنی اختیار کی تھی، جب کہ کرنل مے ہیو نے اپنے گھر کو ختم کروا دیا تھا۔ جبکہ غلام مرتضیٰ بھٹو کے والد خدا بخش بھٹو گھات لگا کر کیے گئے ایک حملہ کے بعد وفات پا گئے تھے، اور جب غلام مرتضیٰ بھٹو 1899 میں اپنی بریت کے بعد گڑھی خدا بخش واپس آئے تو انہیں زہر دے کر قتل کر دیا گیا تھا۔

برطانوی ہند حکام کے ذریعہ سندھ میں مرتب کی جانے والی کالونیل بلیو بکس میں ہر ضلع کے جاگیرداروں کے بارے میں خفیہ نوٹس شامل تھے۔ شکارپور کلیکٹر کی بلیو بک جو کہ 1843 سے 1900 تک کے عرصے کو شامل کرتی تھی، اب سندھ آرکائیوز میں غائب ہے۔ تاہم، لاڑکانہ ضلع کی بلیو بک جو 1901 سے شروع ہوتی ہے، جس سال یہ ضلع قائم ہوا تھا۔ دستیاب ہے، ۔ لیکن اس میں 1901 اور 1926 کے درمیان کے کئی ابتدائی اندراجات غائب ہیں۔ البتہ سندھولوجی انسٹی ٹیوٹ جامشورو میں اس کتاب کا ایک نسخہ موجود ہے جو کہ کراچی کے نسخے میں غائب اندراجات ہیں۔

مختیارکار رتو ڈیرو راؤ جے رام داس دھرم داس کے قتل کے بارے میں عدالتی ریکارڈ اور برطانوی ہند حکام کے مابین خط و کتابت کے علاوہ غلام مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم، ان کے خاندان کے پس منظر کی ایک جھلک مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

غلام مرتضیٰ بھٹو کے دادا، دودا خان بھٹو اور خاندان کے بزرگ 1893 میں وفات پا گئے تھے، جس کی تاریخ ان کی قبر کے کتبہ پر درج ہے۔ یہ مختیار کار جے رام داس کے قتل سے تین سال پہلے کی بات ہے۔ دودا خان کا گھر گاؤں پیر بخش بھٹو میں واقع تھا، جہاں وہ دفن ہیں۔ وہ اپنے بیٹوں، امیر بخش بھٹو، خدا بخش بھٹو (غلام مرتضیٰ بھٹو کے والد) اور الٰہی بخش بھٹو کے ساتھ وہاں رہتے تھے۔ ان سب کو پرانے خاندانی قبرستان میں دفن کیا گیا ہے، سوائے خدا بخش بھٹو کے۔

کسی وقت، کسی وجہ سے خدا بخش بھٹو اپنے گاؤں پیر بخش بھٹو سے منتقل ہو کر گڑھی خدا بخش میں آباد ہو گئے تھے۔ انیسویں صدی کی سندھی معاشرت میں یہ ایک غیر معمولی نوعیت کی بات تھی کہ ایک زمیندار اپنی آبائی حویلی کو چھوڑ دے، جب تک کہ اس کے پاس کوئی بہت بڑی وجہ نہ ہو۔

نسلی کہانیاں، جو نسلوں سے خاندان میں منتقل ہوئیں، گھریلو رقابت اور جھگڑوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں، لیکن اس دعوے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔ جو بات یقینی طور پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ان کا یہ خروج مستقل تھا، کیونکہ نہ خدا بخش بھٹو اور نہ ہی ان کی کسی اولاد کو باقی خاندان کے ساتھ دفن کیا گیا۔

اس دور کے ریونیو ڈیپارٹمنٹ سندھ کے ریکارڈ میں بھی کئی دلچسپ سراغ ملتے ہیں۔ 27 اگست 1887 کے ایک نوٹس میں سی بی پریچارج، جو سندھ کے قائم مقام کمشنر تھے، نے یہ انکشاف کیا تھا کہ خدا بخش بھٹو کی اراضی کی ملکیت اس کے خاندان کے دیگر ارکان بشمول اس کے بھائیوں کے مقابلے میں کافی کم تھی۔ جبکہ دودا خان بھٹو اور اس کے بیٹے امیر بخش بھٹو کے پاس 25 دیہات پر مشتمل اراضی تھی جبکہ خدا بخش بھٹو کے پاس صرف 15 دیہات کی اراضی تھی۔ اس میں عمر کا کوئی خاص عمل دخل نہیں تھا، کیونکہ دودا خان بھٹو کے آخری وصیت نامے کے مطابق ان کے سب سے کم عمر بھائی، الٰہی بخش بھٹو کو سب سے زیادہ حصہ وراثت میں ملا تھا۔ دوسرے الفاظ میں، وہ بھائی جو خاندان سے الگ ہو گیا تھا، اسے جائیداد کا سب سے کم حصہ ملا۔

یہ بات خاص طور پر اہم ہے کیونکہ ایک زمیندار کی عزت اور سماجی حیثیت کا تعین بڑی حد تک اس کی دولت اور زیر ملکیت اراضی سے ہوتا ہے۔ لہٰذا وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو، دودا خان بھٹو کے خاندان کی ایک ذیلی شاخ کے رکن تھے۔ ایسی ذیلی شاخ جو نسبتاً کم دولت مند تھی۔ کیا اس کی نازک انا کا کچھ تعلق اس معاملہ سے بھی تھا؟ کیا غلام مرتضیٰ بھٹو کو اپنی عزت کو بحال کرنے کے لیے اضافی کوشش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی؟

اس منظر کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے کہ ایک بڑا ہجوم جمع ہو گیا ہو گا، جب وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو، رتو ڈیرو کے مختیار کار راؤ جے رام داس دھرم داس کے دفتر کے باہر ایک گھنٹے تک تپتی دھوپ میں انتظار کر رہا تھا۔ آج بھی سندھ کے دیہی علاقوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ مقامی لوگ بڑے تعداد میں مشہور شخصیات کو عوامی مقامات پر دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے ہیں۔ اور شواہد یہ بتاتے ہیں کہ وہاں واقعہ کے کئی گواہ موجود تھے۔ یقیناً تمام لوگوں کی نظریں وڈیرہ غلام مرتضیٰ بھٹو پر مرکوز ہوں گی۔ اس کی ہر حرکت کو دیکھتے ہوئے، اس کا اندازہ لگاتے ہوئے، اور اس کے ہر قدم پر نظر رکھتے ہوئے۔ جیسا کہ چیسمین نے کہا، ”عزت کسی بھی وڈیرے کی بقاء کے لیے بہت ضروری تھی۔“

غلام مرتضیٰ بھٹو کی وفات کے بعد ، مسٹر میولز جو ضلع کے نئے کلیکٹر تھے، شاہنواز بھٹو کے سرپرست بن گئے، جیسا کہ وولپرٹ نے ذکر کیا۔ ان کا ایک اہم مقصد یہ رہا ہو گا کہ گیارہ سالہ کمسن شاہنواز بھٹو میں انتظامیہ کے لیے تعاون کا رویہ پیدا کیا جائے۔ ”میں اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں دیکھ سکتا کہ انہیں ایک برطانوی کلیکٹر کے زیر سرپرستی کیوں رکھا گیا ہو گا،“ ڈیوڈ چیسمین نے جریدہ نیوزلائن کراچی کو بتایا۔ ”یہ بالکل ویسا ہی ہو گا جیسا کہ برطانوی ہند کے حکام اکثر نوابی ریاستوں کے نوابین کے بیٹوں کو مستقبل کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے تیار کرتے تھے۔“ چیسمین یاد کرتے ہیں کہ تعلیم کے شعبے کی خط و کتابت میں سندھ کچھ نوجوان تالپوروں کو ”ایک برطانوی دنیا کے نقطہ نظر کے ساتھ حکمرانی کے لیے تیار کرنے“ کی کوشش کی گئی تھی۔

یہ بہت ساری ان باتوں کی وضاحت کر سکتا ہے جو بعد میں سر شاہنواز بھٹو کی ترقی کے بارے میں سامنے آئیں۔ 1930 میں، لاڑکانہ کے ڈپٹی کلیکٹر نے انہیں ”وفادار، ذہنی طور پر کافی متوازن“ اور ”تکبر سے پاک“ قرار دیا۔ چیسمین کے مطابق غلام مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ برطانوی تعلقات کے پیش نظر ایک کلیکٹر کا پہلا خیال یہ ہو گا کہ وہ کسی پریشان کن خاندان میں ملوث ہونے سے بچیں۔ تاہم، ”ضرور کچھ ایسا تھا جس نے انہیں شاہنواز بھٹو میں سرمایہ کاری کرنے کے قابل بنایا۔“ وہ مزید کہتے ہیں، ”کلیکٹر مسٹر میولز نے اس نوجوان شخص میں یقیناً کچھ ایسا دیکھا ہو گا جس نے اس کی خصوصی توجہ حاصل کی اور اسے محسوس ہوا کہ اس میں بدرجہ اتم صلاحیت ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments