بلوچستان پر خاموشی آخر کب تک؟


جعفر ایکسپریس پر ہوئے حملے کے بعد سے بلوچستان کے بارے میں لکھنے سے پہلے سوبار سوچنا پڑتا ہے۔ وجہ اس کی ریاست یا انتہا پسندوں کا خوف نہیں۔ ذہن کو مفلوج بنانے کا سبب دونوں فریقین کا تعصب ہے۔ ریاست کے طاقتور ادارے بلوچستان کے ہر مسئلہ کی وجہ فقط بیرونی مداخلت اور سازش کو ٹھہراتے ہیں۔ مقصد جس کا قدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے کی چین جیسے دوستوں کی مدد سے ترقی اور خوشحالی کو روکنا ہے۔ نسلی منافرت سے مغلوب ہوئے انتہا پسند بلوچستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار’’پنجاب‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ پنجاب کی طاقتور ترین اشرافیہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ روزانہ اجرت پر اس صوبے میں مشقت کے ذریعے رزق کمانے والے پنجابیوں کو بسوں یا ٹرینوں سے اتار کر شناختی کارڈ کی مددسے پہچانتے ہیں۔ ان کے لئے شناختی کارڈ موت کے پروانے کی صورت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کامل نسلی منافرت پر ہوئے قتل کی مذمت سے مگر ’’اپنے حقوق کی جنگ‘‘ لڑنے والے اجنتاب برتتے ہیں۔ مجھ جیسے پنجابی جو برسوں سے بلوچستان کے احساس محرومی کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے حکمرانوں کو ناراض کرتے رہے جب نسلی منافرت پر مبنی اقدامات کی تنقید کرتے ہیں تو ’’تم بھی بالآخر پنجابی نکلے‘‘ جیسے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ اس کے باوجود بلوچستان کے ’’ناراض نوجوان‘‘ کے غصے کو جانچنے کی کوشش کریں تو میرسرفراز بگتی پنجابیوں کو ’’قاتل پرست‘‘ پکارنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سوال اس سب کے باوجود مگر یہ اٹھتا ہے کہ آخر کب تک بلوچستان کے حوالے سے خاموش رہا جائے۔

خاموش رہنا صحافیوں نے مگر اپنا شعار بنا لیا ہے۔ چند ہی روز قبل پنجابیوں کے بلاوجہ قتل کی روایت ایرانی بلوچستان بھی پہنچ گئی ہے۔ بہاولپور کے ایک گھرانے کے افراد پاک ایران سرحد کے قریبی قصبے میں گاڑیوں کی مرمت کیا کرتے تھے۔ ان سب کو ایک ہی رات قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل کی تفصیلات جمع کرنے کے لئے ہمارے صحافتی اداروں میں سے کسی ایک نے بھی جائے وقوعہ پر جانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ ایرانی اخبارات کی ویب سائٹس پر اکثر نگاہ ڈالتا ہوں۔ وہاں بھی چند اخبارات نے سرسری طور پر اس واقعہ کا ذکر کیا۔ مقتولین کی لاشیں بہاولپور واپس آئیں تو ان کے لواحقین سے رابطے کے ذریعے بنیادی معلومات جمع کرنے کی بھی کوشش نہ ہوئی۔ مذکورہ واقعہ کے بارے میں دو سے تین روز تک وزیر اعظم شہباز شریف نے مسلسل بیانات دئے۔ حکومت ایران سے ان بیانات کے ذریعے مطالبہ کیا کہ وہ ’’افغانستان سے‘‘ ایران میں در آئے ’’بلوچ‘‘ انتہا پسندوں کا سراغ لگائے۔ غالباََ ان کو میسر اطلاعات کے مطابق پنجابی مزدوروں کا ایران میں قتل کرنے والے دہشت گرد افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔ وہاں سے ایران آئے تھے۔

ان کی معلومات درست ہیں تو واردات کے بعد مبینہ قاتل افغانستان لوٹ چکے ہوں گے۔ ان کے بارے میں بھی معلومات کا فقدان ہے۔ وگرنہ مذکورہ واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے ممکنہ نام وغیرہ بیان کرتے ہوئے ایران سے یہ مطالبہ کرنے کو سفارتی دبائو بڑھایا جا سکتا تھا کہ وہ افغان حکومت سے ان کی گرفتاری اور انہیں ایران کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرے۔ پاکستان کے پاس ایران میں ہوئے قتل کے بارے میں ٹھوس معلومات موجود ہوتیں تو پاکستان اور ایران مل کر بھی افغان حکومت سے مبینہ قاتلوں کی گرفتاری اور حوالگی کے لئے مشترکہ دبائو بڑھا سکتے تھے۔

جو واقعہ ہوا اس کی تفصیلات سے ناآشنائی کے باوجود آپ کو یاد دلانے کو مجبور ہوں کہ پاکستان سے کہیں زیادہ ایران ہمارے بلوچستان میں جمہوری جدوجہد کے بارے میں خائف رہا ہے۔ دورِ حاضر کا ایران ’’اسلامی انقلاب‘‘ کے بعد بھی خود کو ایرانی سلطنت کا وارث سمجھتا رہا ہے جس کا اثر وسطی ایشیا سے عراق، شام اور یروشلم تک قائم رہا۔ وہ ’’قومی شناخت‘‘ کی بنیاد پر کسی گروہ کو سیاست کی اجازت نہیں دیتا۔ وہاں بسے کرد اور آذری فقط ’’ایرانی‘‘ شمار ہوتے ہیں۔ کردوں نے قومی شناخت کی بنیاد پر جدوجہد کرتے ہوئے عراق میں ٹھوس حد تک خودمختاری حاصل کر لی ہے۔ شام میں بھی نسبتاََ کم تر تعداد میں ہونے کے باوجود وہ عراقی کردوں کی حمایت سے اسد حکومت کے خلاف لڑتے ہوئے ’’آزاد علاقے‘‘ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایران میں لیکن ان کی قومی شناخت پر مبنی سیاست دم توڑ چکی ہے۔

قومی شناخت پر ہوئی سیاست کے بارے میں تحفظات کی وجہ سے ایران اپنے ہاں مقیم بلوچ اقوام پر بھی کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ اسے خوب احساس ہے کہ ایران میں بسے بلوچوں کو مسلکی اختلافات کی بنیاد پر بھی بھڑکایا جا سکتا ہے۔ اسی باعث وہ پاکستان میں ایرانی سرحد کے قریب متحرک مسلکی انتہا پسندوں پر کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ ان میں سے چند ایک کے ایران میں تخریب کاروں سے روابط بھی رہے ہیں۔ ان کے مبینہ ٹھکانوں پر ایران نے گزشتہ برس میزائل برسائے تھے جس کے جواب میں پاکستان کو بھی ان ٹھکانوں کو فضا سے نشانہ بنانا پڑا جو مبینہ طورپر بلوچ انتہا پسندوں کی پناہ گاہیں تھے اور پاکستان میں دہشت گردی کے چند واقعات میں ملوث۔

1970 کی دہائی میں شہنشاہ ایران کو امریکہ نے ہمارے خطے کا تھانے دار تسلیم کر رکھا تھا۔ افغانستان اور پاکستان کو وہ اپنے ’’تھلے‘‘ لگانا چاہتا تھا۔ ہمارے ہاں اس دہائی کا آغاز ہوتے ہی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلی بار عام انتخاب ہوئے تو بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی وہاں کی سب سے مقبول جماعت بن کر ابھری۔ اس کے قائد غوث بخش بزنجو نے طویل جدوجہد کی بدولت بلوچستان کو پرامن سیاست کے ذریعے پاکستان میں رہتے ہوئے آئین اور جمہوری انداز کی تلقین کی۔ ذوالفقار علی بھٹو انہیں بلوچستان کا گورنر نامزد کرنا چاہ رہے تھے۔ شہنشاہ ایران مگر ان کی نامزدگی سے ناخوش تھا۔ اسے رام کرنے کے لئے غوث بخش بزنجو مرحوم دس دنوں کے لئے ایران گئے اور وہاں کے حکام کو اپنا مؤقف سمجھاتے رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد دنیا کے کئی ممالک بقیہ پاکستان کی بقا کے بارے میں متفکر تھے۔ اس تناظر میں امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ کے رپورٹر نے شہنشاہ ایران سے بلوچستان کے حوالے سے سوال پوچھا تو اس نے نہایت رعونت سے جواب دیا کہ اگر ریاست پاکستان بلوچستان کی ممکنہ شورش سنبھالنے میں ناکام رہی تو ایران اپنی فوج کے ذریعے ’’بلوچوں کو سیدھا کر دے گا‘‘۔ بلوچستان حکومت دیگر وجوہات کے علاوہ ایران کی خفگی کی بدولت بھی قائم نہ رہ سکی۔ اسے معزول کرنے کے بعد بلوچستان میں طویل فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ اس آپریشن میں استعمال کے لئے شہنشاہ ایران نے پاکستان کو جدید ترین ہیلی کاپٹر بھی فراہم کئے تھے۔ بلوچستان کے جمہوری حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کرنے والے نہایت فکر مندی سے یہ سوچنے کو مجبور ہو رہے ہیں کہ نسلی منافرت کی بنیاد پر ایران میں گھس کر پنجابیوں کا قتل ایران کو 1970 کے تعصبات میں واپس لے جا سکتا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments