موجودہ مغربی جمہوریت: مگر پیسہ برابر بولتا ہے
سر ونسٹن چرچل جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے، لیکن ان نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔
سرمایہ داریت اور جمہوریت اب لازم و ملزوم ہیں۔ ان میں تمیز کرنا مشکل ہے۔ اگرچہ مثالیں امریکہ اور برطانیہ کے عوامی راج کی دی جاتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ میں واقعی حق حکمرانی عوام کو حاصل ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ وہاں جمہوریت کا دور دور تک نشان نہیں صرف ”پیسے کی حکمرانی ہے“ اور: یہ جادو سر پہ چڑھ کر بولتا ہے
موجودہ صدر ٹرمپ کے انتخاب کا ہی جائزہ لے لیں۔ تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ٹرمپ کی کامیابی میں پیسے کا کتنا کردار ہے اس کی ایک جھلک ایلون مسک ہیں۔ امریکہ میں اس وقت ان کا طوطی بول رہا ہے۔ ٹرمپ کو ایلون مسک کے پیسوں کے عوض بکا ہوا صدر بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ پیسے کا ہی کمال ہے کہ ایلون مسک کا چار سالہ بیٹا ان کے کندھوں پر سوار ہو کر ایوان صدر میں داخل ہوتا ہے اور ایلون مسک ٹرمپ کے مشیر اعلیٰ بن کر ہاتھ میں آرا اٹھائے امریکی بیوروکریسی کو ہانکتے نظر آرہے ہیں۔
ایلون مسلک نے ٹرمپ کی صدارت کے لیے 29 کروڑ ڈالر خرچ کیے جس کے عوض وہ پوری امریکی ریاست کو انگلیوں پر نچا رہے ہیں۔ وہ کبھی برطانیہ کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے تو کبھی جرمنی کی حکومت سازی کے عمل میں مداخلت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ برطانیہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے کینیڈا کو امریکی کالونی بنانے یورپی یونین اور گرین لینڈ کو دھمکیاں دلواتے ہیں۔
ایلون مسک جیسے 13 اور ایلون مسک بھی اس وقت محض اپنے پیسے کے زور پر امریکی منصوبہ بندی میں شریک ہیں۔ ان 13 افراد کی دولت دنیا کے 172 ممالک کی ٹوٹل جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔ درحقیقت یہ سرمایہ دار ہی امریکی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ انہی کے پیسوں سے حکومتیں بنتیں اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہیں۔
امریکی صدور انتخابی مہم اور تقریب حلف برداری کے لیے سرمایہ کاروں سے چندہ اکٹھا کرتے ہیں۔
2016 میں ٹرمپ نے صرف اپنی حلف برداری کے لیے 10 کروڑ 60 لاکھ اور 2024 میں ٹرمپ نے 25 کروڑ ڈالر جمع کیے۔ یہ انتخابات میں کمپین کے دوران خرچ ہونے والی رقم کے علاوہ ہوتی ہے۔ اس تقریب کے لیے 10 لاکھ ڈالر اور 20 لاکھ ڈالر دینے والوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔
امریکی صدر کی حالیہ تقریب میں ایمازون اور میٹا ( فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی ) نے 10 لاکھ ڈالر، اوپن اے آئی اور گوگل نے بھی 10، 10 لاکھ ڈالر، ”ایپل“ نے غیر محدود فنڈز، فورڈ کمپنی نے 10 لاکھ ڈالر اور ”اے آئی سرچ سٹارٹ آپ“ نے 10 لاکھ ڈالر دیے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد کمپنیوں نے لاکھوں ڈالرز دے کر تقریب میں شرکت کی۔
سفارش کا بھروسا بھی نہیں ہے
مگر پیسہ برابر بولتا ہے
جب سارا کھیل پیسے سے رچایا جائے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی پالیسیوں میں وسائل پر قبضے کی جنگ شامل نہ ہو۔ غزہ کی پٹی میں معدنی ذخائر پر قبضے کے خواب اور یوکرین و روس کی جنگ میں یوکرین پر 350 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد یوکرین کے 15 ٹریلن ڈالر کے ذخائر پر قبضہ کے معاہدات، امریکہ کی دنیا بھر کے وسائل پر قبضے کرنے کی عملی کوششوں کی واضح مثال ہے۔
اس جدید معاشی جمہوری نظام جس کی کوکھ سے چور ’لٹیرے‘ بددیانت ’اسلحہ کے اسمگلر اور بھتہ خور جنم لیتے اور اپنے سرمائے کے زور پر کسی ملک کی کانگریس یا پارلیمنٹ پر قبضہ کر کے اس کے سربراہ تک بن جاتے ہیں اور اپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے خود ہی قوانین بناتے اور ”آف شور“ کے نام سے محفوظ جنتیں تخلیق کرتے ہیں اور پورے کا پورا جدید معاشی جمہوری نظام ان کو تحفظ دیتا ہے۔
یہ سب کے سب اس جدید جمہوری معاشی نظام کی تعریفیں کرتے، اسے دنیا کا اعلیٰ اور کامیاب ترین تصور حکومت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ”ٹیکس چوروں کی یہ جنتیں“ ساری کی ساری جمہوری ممالک میں قائم ہیں۔
جمہوریت کی ماں برطانیہ کی منافقت کا عالم یہ ہے کہ برطانیہ کا ایک جزیرہ ”ورجن آئی لینڈ Vingin lsland“ ٹیکس چوروں کی چند بڑی جنتوں میں سے ایک ہے۔ امریکہ جسے دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت گردانا جاتا ہے سودی معیشت کا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں کے سرمایہ داروں نے ٹیکس چوری کا پیسہ جو امریکہ کی کل آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہے، آف شور کمپنیوں کے ذریعے امریکہ سے باہر ان جزائر میں رکھا ہوا ہے جن پر کسی ملک کا معاشی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ مجرمانہ ذہنیت کی انتہا یہ ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنا ہوں تو گوانتانامو بے کا جزیرہ رکھو اور معاشی اصولوں کی خلاف ورزیاں کرنا ہوں تو اپنے ہی زیر اثر جزیرے بناؤ جن میں قانون لاگو نہ ہوتا ہو۔
ایک اہم امریکی ادارے ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کی 2012 ء کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 32 ہزار ارب ڈالر کا سرمایہ امریکی سرمایہ داروں نے ایسی آف شور کمپنیوں میں رکھا ہوا ہے۔ اگر یہ سرمایہ امریکہ میں ہوتا تو تقریباً 200 ارب سالانہ ٹیکس اکٹھا ہوتا۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے گبریا زکمین Gobria Zucman کی سربراہی میں ٹیکس چوری کے اس نیٹ ورک کے مطالعے کے بعد واضح ہوا کہ امریکی سرمایہ داروں کا سات ہزار چھ سو ارب ڈالر کا سرمایہ ہالینڈ، لکسمبرگ اور آئرلینڈ کے زیر اثر ایسے جزیروں میں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ٹیکس چوروں کی جنت سوئٹزرلینڈ میں صرف امریکی ٹیکس چوروں کا دو ہزار چار سو ساٹھ ارب ڈالر سرمایہ موجود ہے۔
اہلِ فکرو نظر اس بنیادی سوال پر متفکر ہیں کہ ایک ایسی جمہوریت میں کیا ہم اپنی زندگیوں کو بدلنے پر قادر ہو سکتے ہیں جس میں تاریخ اور تقدیر بنانے میں پیسے کا کردار بنیادی اور ہمہ گیر ہو۔
اس جمہوریت میں ایوانِ اقتدار تک رسائی پیسے کا کرشمہ ہے۔ لوگوں کی، لوگوں کے لیے اور لوگوں پر مشتمل جمہوریت اگرچہ دنیا میں کبھی وجود نہیں پا سکی لیکن اب جمہوریت کا یہ تصور بھی فرسُودہ ہی نہیں بلکہ متروک ہو چکا ہے۔ موجودہ جمہوریت میں پیسے والا ہی انتخابات میں حصّہ لینے کا حق دار ہے۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکنز دونوں امریکہ کے مراعات یافتہ طبقوں کے مہرے ہیں۔ امریکہ میں جب بھی کسانوں مزدوروں اور دانشوروں نے اپنی پارٹیاں بنا نے کی کوششیں کیں انہیں سرمایہ دار طبقے نے پنپنے نہیں دیا۔ امریکی جمہوریت وال اسٹریٹ اور پینٹاگون کے تابع ہے۔ ایک فی صد آبادی ملک کی ننانوے فی صد دولت پر قابض ہے اور اس کے بل بوتے امریکہ پر حکومت کر رہی ہے ماضی قریب میں جب وال اسٹریٹ پر قبضہ کی تحریک نے سر اٹھایا تو دھرنا دینے والوں پر ڈنڈے برسائے گئے اور آنکھوں میں پچکاریوں سے پسی ہوئی مرچیں ڈال کر اندھا کر دیا گیا۔
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بڑا کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پر داستان گلاب لکھنا
اقبال نے آغاز میں جمہوریت کی توصیف کی مگر اس کی اصلیت دیکھ کر اس کے ناقد بن گئے۔
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
اس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیزی سے تاریک تر
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو
ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
خلاصہ یہ ہے کہ مغربی جمہوریت فریب کاری کے سوا کچھ نہیں اس سے تبدیلی کی آس لگانا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
- وقف قانون میں تبدیلی - 23/04/2025
- خود شکنی: تعمیر وطن ”میں“ سے نہیں ”ہم“ سے ہوئی - 21/04/2025
- ٹرمپ کا ٹیرف بم: انجام گلستاں کیا ہو گا؟ - 09/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).