بہتر دنوں کی آس
جس سڑک پر آج میں سفر کرتا ہوں میرے والد اور دادا کو یہ میسر نہیں تھی۔ یہ ایک کچا راستہ اور وہ بھی ایک بڑی پگڈنڈی سا تھا۔ سفر سارا پیدل یا گھوڑوں پر تھا۔ سائیکل تک بھی دسترس میں نہ تھی۔ ایک بار گاؤں میں ایک خاندان کے چار لوگوں کو زہر دیا گیا تو ان کو ایمرجنسی طبی امداد کی ضرورت پڑی۔ ان کو الگ الگ چارپائیوں پر ڈال کر پیدل 10 کلومیٹر دور واقع اسپتال لے جایا گیا۔ ہر چارپائی کو چار چار لوگ کندھا دیتے تھے۔ وہ تھک جاتے تو ساتھ جانے والے درجنوں لوگوں میں سے تازہ دم لوگ اپنا کندھا آگے کر دیتے۔ جب ہسپتال سے واپسی کا سفر ہوا تو کندھوں پر میتوں کا بوجھ زیادہ بھاری اور سفر مزید طویل ہو گیا۔ پورے گاؤں میں کہرام مچ گیا مگر یہ میرا موضوع نہیں ہے۔
پانی اور واشنگ کرنا ہوتی تو گاؤں کے اندر دو کنویں تھے۔ انہی کو وضو کرنے، کپڑے، اور برتن دھونے کے علاوہ غسل کے لئے بھی استعمال کیا جاتا۔ بڑی مائیاں سیم اور تھور زدہ زمین سے سفید نمک والی کلری اکٹھا کر کے لاتیں یا پھر تنوروں سے لائی شیشم کی لکڑی کی راکھ کو پانی میں ڈال کر اس کو نتھار لیتی تھیں۔ یہ کپڑوں کے لیے صابن کا کام دیتا تھا۔ اسی صابن سے دستیاب کپڑوں کو دھویا جاتا تھا۔ دستیاب کپڑے بھی کیا تھے کہ ایک آدھ کرتا ہوتا جو سب کو دستیاب نہیں ہوتا تھا۔ وہ لوگ کہیں جانے کے لئے ایک دوسرے سے مانگ لیتے تھے۔ مرد عموماً گرمیوں میں قمیص سے بے نیاز رہتے اور عورتیں ہاتھ سے سوت کات کر دھاگہ بنا کرتی تھیں اور ”پشم“ سے سویٹر تیار کرتی رہتیں۔ ہر خاندان کی رشتہ داری میں ایک آدھ کفن ضرور ہوتا کیوں کہ ایمرجنسی میں کھڈی پر کفن تیار کرنا ایک طویل عمل ہوتا تھا جس کے لئے درکار وقت کی تدفین متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ سر دست یہ بھی میرا موضوع نہیں ہے۔
سکول اور تعلیم کا کانسیپٹ تو گویا عیاشی سمجھا جاتا تھا۔ کچھ لکھ پڑھ لینے والوں کو منشی کہا جاتا تھا۔ خواتین کی تعلیم اور خواندگی صرف پکی روٹی تک محدود تھی۔ بچوں کا پرائمری سکول تین کلومیٹر پر جب کہ ہائی سکول 10 کلومیٹر فاصلے پر تھا۔ قریبی کالج کم از کم 50 کلومیٹر دور تھا۔ ہائی سکول اور کالج کی تعلیم کے لئے وہاں رشتہ دار ڈھونڈنے پڑتے جہاں رہائش رکھی جا سکے۔ جو لڑکے ہائی سکول یا کالج تک پڑھ جاتے تو ان کو ”بابو“ یا ”جنٹر مین“ کہا جاتا تھا۔
معاشرت بہت سادہ تھی۔ ایک آدھ کمرے میں پورا خاندان گرمیوں میں آنگن اور سردیوں میں تیل کی لالٹین یا مٹی کا دیا جلا کر لو کے مدھم ہونے تک انگیٹھی کے گرد بیٹھ کر گپیں ہانکا کرتے تھے۔ زیادہ اور دلچسپ گفتگو کرنے والوں کی مانگ بہت زیادہ ہوتی۔ وہ چند لوگ ہر محفل کی جان سمجھے جاتے تھے۔ ہلکی پھلکی دستیاب روٹی گڑ یا ساگ کے ساتھ کھا کر سب الحمدللہ کہہ کر خدا کے حضور شکرانہ ادا کرتے تھے۔
اب وہ دادا کے دور والی پگڈنڈی ایک کارپٹ سڑک میں بدل چکی ہے۔ ان کے گھوڑوں کی جگہ میری گاڑی فراٹے بھرتی گزر جاتی ہے۔ ان کے لئے دنوں کا سفر ہمارے لئے منٹوں میں سمٹ آیا ہے۔ اب چارپائیوں پہ لے جانے والے مریضوں کی جگہ چند منٹوں میں ریسکیو سروس ہوٹر بجاتی پہنچ جاتی ہے۔ اسی گاؤں سے بچے روزانہ کالجز، یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں اور شام کو واپس لوٹ آتے ہیں۔ تیل کی لو اب چندھیا دینے والی روشنی میں بدل گئی ہے۔ کھانے کو گڑ اور ساگ کی جگہ چوبیس گھنٹے اتنا کچھ دستیاب ہوتا ہے کہ چوائس کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فاقوں سے مرنے والوں کی جگہ موٹاپے سے مرنے والوں نے لے لی ہے۔ کنوؤں کی جگہ اٹیچ واش رومز نے لے لی ہے۔ ایک کرتے کی جگہ اتنے کپڑے آ گئے ہیں کہ وارڈ روب سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ صرف دو سے تین دہائیوں میں ہوا ہے۔
اتنا کچھ ہونے کے باوجود آج کا جوان الحمدللہ پڑھنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کے ہاتھ میں موبائل کی صورت وہ ”جامِ جمشید“ ہے جو اس کو سیکنڈوں میں ساری دنیا دکھا دیتا ہے۔ مگر اس جوان کو خوشی کی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ اس کو اپنے گرد لوگوں کی موجودگی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ اے آئی سے گھنٹوں باتیں کر سکتا ہے مگر گھر میں موجود افراد سے لاتعلق رہتا ہے۔ وہ خوشی کے حصول کے لئے سات سمندر پار جانا چاہتا ہے۔ اس کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہونے کے باوجود ان دستیاب وسائل میں خوش نہیں ہے۔ اسے کچھ اور چاہیے۔ کچھ ایسا جو اسے خود معلوم نہیں۔ لامحدود معاشی دباؤ اس کو موجود سے آزار کر کے غیر موجود کی جستجو میں لگا دیتے ہیں۔ یہ جوان نہیں جانتا کہ خوشی تو لمحہ موجود میں ہے۔ اگر لمحہ موجود خوشی سے خالی ہے تو مستقبل بھی تو لمحۂ موجود بن کر ہی سامنے آتا ہے۔ مستقبل میں بڑی خوشی کی تلاش وہ کارِ بیکار ہے جو آپ کو موجود کی خوشی سے ہمیشہ محروم رکھے گی۔ حبیب امروہوی کی زبان میں یہ المیہ کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ
بہتر دنوں کی آس لگاتے ہوئے حبیب
ہم بہترین دن بھی گنواتے چلے گئے
- نمک حرام، گستاخ اور غدار - 20/04/2025
- بوتل صرف مشروب کے لئے استعمال کریں - 14/04/2025
- کوبرے کی پھنکار اور کمپنی سرکار - 22/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).