کیا ہم اپنی عادتوں کو بدل سکتے ہیں؟
عادت ایک معمول یا طرز عمل ہے۔ ہماری بہت ساری عادتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم غیر ارادی طور پر اپنا لیتے ہیں اور وہ خود بخود سرزرد ہوتی جاتی ہیں۔ ہمارے خیالات، احساسات اور عقائد ہمارے رویے پر اثرانداز ہوتے ہیں اور انسانی رویے لمحہ بہ لمحہ، حالات و واقعات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔
ہماری کچھ عادات ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم بدلنا یا چھوڑنا تو چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے خود پر جبر نہیں کر پاتے۔ اب عادت چاہے کوئی بھی ہو اس کو صرف سوچنے سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے کئی روز کی محنت درکار ہوتی ہے اور عام طور پر ہم محنت کرنے سے جی چراتے ہیں۔ کوئی بھی عادت تبدیل کرنے سے پہلے ہمیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ اُس عادت کو بدلنا ہمارے لیے کتنا اہم ہے۔ جب ہمیں اُس عادت کو بدلنے کی اہمیت کا اندازہ ہو گا تبھی ہم اس پر دلجمعی کے ساتھ کام کر سکیں گے۔
اس ضمن میں سب سے پہلے یہ سوچیں کہ کون سی ایسی بُری عادت ہے جس کو ہم بدلنا یا چھوڑنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر آج کل موبائل کا استعمال بہت زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ بار بار بلاوجہ موبائل کو ہاتھ میں پکڑنا، گیم کھیلنا، فیس بک پر سکرولنگ کرتے رہنا، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ، ٹک ٹاک دیکھنا، جس سے وقت کے گزرنے کا معلوم ہی نہیں ہوتا۔ نتیجتاً ہمارا بہت قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے لیکن حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔
اکثر لوگ جعلی خبریں وائرل کر دیتے ہیں، پھر بیشتر لوگ جھوٹ پر مبنی اور حقیقت سے کہیں دور کی دنیا اور اپنا لائف اسٹائل سوشل میڈیا پر دکھاتے ہیں جس سے عام انسان مرعوب ہو جاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی خود کا ان لوگوں سے موازنہ کرنا شروع کر دیتا ہے جس سے ڈپریشن اور فرسٹریشن عام ہو جاتی ہے۔ ہم بغیر کسی وجہ کے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے تکلیف کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ایسے موقع پر یہ احساس ہونا ضروری ہے کہ بلاوجہ سوشل میڈیا پر وقت ضائع کیا جا رہا ہے اور ہمیں اپنی اس عادت کو بدلنا ہو گا۔
سب سے پہلے ادراک ہونا، پھر یہ سوچنا کہ اس عادت کا نعم البدل کیا ہونا چاہیے جس سے فائدہ بھی ہو اور وقت کا درست استعمال بھی ہو سکے۔ مثال کے طور پر اگر ہم اپنی اس عادت کو کتب بینی سے بدلتے ہیں تو کتابیں پڑھ کر ہم خود میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں اور کتاب سے بہتر کوئی دوست نہیں اور یہ وقت کی سب سے بہترین انویسمنٹ یا سرمایہ کاری ہو گی۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے لائحہ عمل تیار کریں کہ کیسے آپ موبائل کو خود سے دور رکھیں گے اور اس کو ہاتھ نہیں لگائیں گے، نہ میسج، نہ ہی کوئی کال کریں یا لیں گے اور متعین کردہ وقت میں صرف کتاب پڑھیں گے۔ پہلے پہل کم وقت سے شروعات کریں کہ ایک گھنٹہ یا آدھا گھنٹہ صبح کے وقت یا رات کے وقت۔ جو بھی آپ کے لیے مناسب ہو۔ اس وقت موبائل کو بند کر دیں اور خود سے دور رکھ دیں اور پورے دھیان سے کتاب پڑھیں یا جو بھی کام آپ کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ ورزش کرنا، سیر کرنا، کیلیگرافی یا کوئی اور تخلیقی یا سود مند کام۔ یاد رہے کہ طالبعلم کے لیے وقت کا بہترین استعمال بہت ضروری ہے۔
اپنی ڈائری میں نوٹ لکھ لیں کہ آپ نے یہ کام فلاں وقت میں کرنا ہے اب تو ڈیجیٹل دور ہے الارم لگا لیں یا کیلنڈر میں لکھ لیں یا پھر کسی ایسی جگہ لکھیں جہاں آپ کی نظر باآسانی پڑ جائے تاکہ آپ بے دھیانی میں کہیں بھول نہ جائیں کیونکہ نئی عادت کو اپنانے کے لیے باقاعدگی کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور اگر شروع میں ہی وقفہ آ جائے تو تسلسل قائم کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر سب سے زیادہ ہماری آمادگی ہونی چاہیے کہ ہاں واقعی اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہش سے زیادہ اہم اس سوچ پر عمل کرنا ہے کیونکہ صرف خیال کچھ نہیں ہوتا جب تک اس کو عملی جامہ نہ پہنایا جائے۔ کچھ لوگ شروعات تو بہت جوش و خروش سے کرتے ہیں لیکن جب نتائج ان کی مرضی کے مطابق حاصل نہیں ہوتے جیسا کہ وزن کم کرنا وغیرہ تو وہ نا امید ہو کر ورزش یا ڈائیٹنگ چھوڑ دیتے ہیں۔ سب سے اہم مستقل مزاجی ہے پھر کام یا مقصد کوئی بھی ہو اگر روزانہ کی بنیادوں پر نہیں کیا جائے گا تب تک ہمیں ہمارے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
کہتے ہیں کہ ایک عادت کو اپنانے میں عام طور پر 18 سے 254 دن کا عرصہ لگتا ہے۔ کسی بھی نئی عادت کو خودکار (آٹومیٹ) ہونے میں کم از کم دو مہینے کا وقت درکار ہوتا ہے۔
اب یہ عادت کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ ورزش کرنا، لائبریری جانا، یا کتاب پڑھنا، کھانے پینے میں احتیاط کرنا وغیرہ صحت مند عادتیں ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ مقصد جو بھی ہو اس کا دورانیہ پہلے پہل تھوڑا رکھنا چاہیے پھر آہستہ آہستہ جب عادت پکی ہونے لگے تو اس کا وقت بڑھا دیں کیونکہ اس عادت کی پھر طلب بڑھ جاتی ہے جیسا کہ ورزش کرنا یا سیر کرنا ہے تو جب تک آپ اپنا ہدف حاصل نہیں کر لیں گے اس وقت تک آپ کو سکون نہیں ملے گا۔
قدرت نے ہم سب کو مختلف تخلیق کیا ہے لہذا ہماری سوچ، حالات و واقعات سب منفرد ہوتے ہیں۔ ہماری عادات بھی ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتیں لیکن ہم خود پر کام کر کے اپنی عادات میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں تاکہ صحت مند اور معیاری زندگی گزار سکیں کیونکہ جب مثبت خوراک ہمارے اندر جائے گی تبھی ہم مثبت سوچ سکیں گے اور بہتر کام کر سکیں گے۔
یہ کہنا کہ نئی عادت کو اپنانا ناممکن ہے تو یہ بات تحقیق سے غلط ثابت ہو گئی ہے۔ اگر ہم آمادہ ہیں، دل سے چاہتے ہیں تو ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ بس توجہ مرکوز کرنا، عزم کا ہونا اور مستقل مزاجی وہ عناصر ہیں جو ہمیں ہمارے مقصد کے قریب کرتے ہیں۔
بقول ڈارٹن ہارڈی : ”آپ اپنی زندگی کو کبھی نہیں بدل سکتے جب تک کہ آپ ان عادات کو تبدیل نہ کر لیں جو آپ روزانہ کرتے ہیں۔ آپ کی کامیابی کا راز آپ کے روزمرہ کے معمولات میں پایا جاتا ہے“
ہم میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی عادات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن کر نہیں پاتے۔ اس میں بہت سارے عناصر شامل ہوتے ہیں جس میں ہمارا ماحول سرِفہرست ہے اور پھر ہمارے اردگرد کے لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ ہم بہت ساری عادات انہی لوگوں کی دانستہ اور نادانستہ طور پر اپنا لیتے ہیں۔
تبدیلی جیسی بھی ہو اس کے لیے ہمیں اپنے نقطہ نظر یا دیکھنے کے انداز کو بدلنا پڑتا ہے۔ کیونکہ سوچنا، خواہش کرنا، خواب دیکھنا تو بہت آسان ہے لیکن درست سمت میں مستقل مزاجی کے ساتھ پیش قدمی کرنا ہی اصل کامیابی ہے یا کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے۔
- اپنے دیکھنے کا زاویہ اور عدسہ درست کرنا ضروری ہے - 19/04/2025
- دھنک کا آٹھواں رنگ - 08/03/2025
- ہماری شخصیت اور اندازِ گفتگو - 13/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).