عمر عبداللہ: ہوٹل انڈسٹری کے ملازم سے ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ تک!


ایک دور میں ہندوستان کی پرتعیش ہوٹل انڈسٹری کے معروف کاروباری ادارہ دی اوبرائے گروپ کے ملازم اور کشمیر کے با اثر سیاسی خانوادہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان عمر عبداللہ کے ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے عہدہ تک کا کامیاب ترین سیاسی سفر ایک بے حد دلچسپ داستان ہے۔

عمر عبداللہ برصغیر کے معروف کشمیری سیاسی خانوادہ ”عبداللہ“ کی تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے آزمودہ اور نہایت فعال سیاستدان ہیں۔ حال ہی میں ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس نے ریاست جموں وکشمیر کی مجلس قانون ساز کی 90 نشستوں پر 18 ستمبر سے یکم اکتوبر تک تین مرحلوں میں منعقد ہونے والے انتخابات میں اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے جس کے نتیجہ میں نیشنل کانفرنس نے انہیں اپنی جماعت کا پارلیمانی سربراہ نامزد کیا ہے۔

عمر عبداللہ اور ان کی اتحادی جماعتوں نے ریاست کی مجلس قانون ساز کی 49 نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کی ہے جس کے نتیجہ میں وہ ایک بار پھر ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب کے لئے ایک مضبوط امیدوار کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلہ میں عمر عبداللہ نے جمعہ کو ریاست کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے راج بھون، سری نگر میں ملاقات کی اور انہیں حکومت سازی کے لئے اپنا اکثریتی دعویٰ پیش کیا اور ان پر جلد از جلد نئی کابینہ کی حلف برداری کے انعقاد پر زور دیا۔ حالیہ انتخابی عمل کے نتیجہ میں 5، اگست 2019 ء میں مرکز کی جانب سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی نیم خود مختاری کی حیثیت کے خاتمہ اور وادی میں گورنر راج کے نفاذ کے چھ برس بعد ایک منتخب اور جمہوری حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔

دریں اثناء عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے ضلع ڈوڈہ میں ایک عوامی خطاب کے دوران ریاست جموں و کشمیر کے متوقع وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو مشورہ دیا ہے کہ اگر انہیں حکومت چلانے میں کوئی مشکل درپیش ہو تو ان کی مدد لیں۔ کیونکہ بی جے پی کی حکومت کے دور میں دارالحکومت دہلی کی طرح ریاست جموں و کشمیر کو بھی نصف ریاست بنا دیا گیا ہے اور دونوں جگہ تمام اختیارات منتخب نمائندوں کے بجائے لیفٹیننٹ گورنر کو سونپ دیے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں عمر عبداللہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر انہیں کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو تو مجھے بتائیں، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ دہلی سرکار کو کیسے چلایا جاتا ہے۔ کیجریوال کی جماعت نے عمر عبداللہ کی سربراہی میں تشکیل پانے والی اتحادی حکومت کی حمایت بھی کی ہے جہان ان کی پارٹی کے امیدوار معراج ملک نے ریاست کی تاریخ میں پہلی بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔

مہذب، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل 54 سالہ سالہ عمر عبداللہ کا شمار ہندوستان کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر کے ایک انتہائی مقبول و معروف اور جدی پشتی آزمودہ کار سیاستدانوں میں کیا جاتا ہے۔ آپ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کے پوتے اور ریاست کے ایک بیحد معروف، تجربہ کار سیاستداں اور عہد ساز شخصیت ڈاکٹر محمد فاروق عبداللہ کے اکلوتے صاحبزادہ ہیں۔ عمر عبداللہ ریاست جموں و کشمیر میں اپنے دادا شیر کشمیر، شیخ محمد عبداللہ اور ان کی قائم کردہ سیاسی جماعت جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی طاقتور سیاسی میراث کے حقیقی وارث سمجھے جاتے ہیں۔

وہ چھ برس قبل 5 اگست 2019 ء کو مرکزی حکومت کی جانب سے وادی کی نیم خود مختاری کی حیثیت کے خاتمہ کے لئے بدنام زمانہ آرٹیکل 370 کے نفاذ کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ جنہیں وادی کے بنیادی حقوق سے محروم اور مرکز کی جانب سے جبر کے شکار عوام الناس سے کیے ہوئے اپنے وعدوں کی تکمیل اور مرکز کی جانب سے مقرر کی گئی سرخ لکیر کے درمیان تنے ہوئے رسے پر بے حد احتیاط سے چلنا ہو گا۔

دلچسپ بات ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے اس معروف سیاسی خانوادہ سے تعلق رکھنے والے دادا، باپ اور پوتا، یکے بعد دیگرے کئی بار ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے ہیں۔ عمر عبداللہ کے دادا شیر کشمیر، شیخ محمد عبداللہ دو بار اور والد ڈاکٹر محمد فاروق عبداللہ تین بار ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر متمکن رہے ہیں۔

عمر عبداللہ 10 مارچ 1970 ء کو روچ فورڈ، ایسیکس برطانیہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے برن ہال اسکول اور لارنس اسکول سری نگر سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد Sydenham College of Commerce and Economics ممبئی سے بیچلر آف کامرس کی ڈگری حاصل کی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے University of Strathclyde گلاسگو، اسکاٹ لینڈ سے ایم بی اے کا آغاز کیا تھا لیکن لوک سبھا کے انتخابات کی وجہ سے اسے ادھورا چھوڑنا پڑا۔ عمر عبداللہ نے میدان سیاست میں اپنی آمد سے قبل ہندوستان کے دو معروف کاروباری اداروں ITC Global لمیٹڈ اور ہوٹل انڈسٹری کے معروف کاروباری ادارہ دی اوبرائے گروپ میں ملازمت انجام دی تھی۔

عمر عبداللہ کی والدہ مولی عبداللہ ایک برطانوی نژاد خاتون اور پیشہ کے لحاظ سے ایک تربیت یافتہ نرس ہیں اور وہ اپنے اکلوتے صاحبزادہ عمر عبداللہ کو ان کے سیاستدان دادا اور والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کار زار سیاست میں قدم رکھنے کے حق میں نہیں تھیں۔ لیکن اس کے باوجود عمر عبداللہ نے 1998 ء میں دی اوبرائے گروپ کی ملازمت ترک کر کے صرف 28 برس کی عمر میں کارزار سیاست میں قدم رکھا اور اسی برس وہ سری نگر کے معروف لال چوک کے انتخابی حلقہ سے انتخابات میں کامیاب ہو کر پہلی بار بھارتی پارلیمنٹ لوک سبھا کے ر کن منتخب ہوئے تھے۔

اس کے بعد وہ 1999 ء میں دوبارہ لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی این ڈی اے اتحادی حکومت میں یونین منسٹر آف اسٹیٹ کی حیثیت سے تعینات رہے لیکن وزیر اعظم واجپئی کی اتحادی حکومت کے صرف 13 ماہ کی مدت میں خاتمہ کے بعد انہوں نے سری نگر کے حلقہ سے دوبارہ عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں وہ 2001 ء میں دوبارہ یونین منسٹر آف اسٹیٹ امور خارجہ اور تجارت و صنعت کے عہدہ پر فائز رہے۔

لیکن اس بار وہ اپنی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کی تنظیم نو اور سیاسی سرگرمیوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنے اور ریاستی مجلس قانون ساز کے انتخابات میں حصہ لینے کی غرض سے قبل از وقت پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے تھے۔ عمر عبداللہ 2002 ء میں اپنے سیاسی خانوادہ کے مضبوط انتخابی گڑھ سمجھے جانے والے انتخابی حلقہ ضلع گاندربل سے اپنے مخالف امیدوار کے ہاتھوں 2000 ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ جبکہ ان کے والد ڈاکٹر محمد فاروق عبداللہ 1983 ء، 1987 ء اور 1996 ء میں مسلسل تین مرتبہ اسی انتخابی حلقہ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں عمر عبداللہ 2004 ء میں سری نگر سے دوبارہ ریاست کی مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہو گئے تھے اور وہ 2008 ء سے 2009 ء تک اور 2014 ء سے 2019 ء تک جموں و کشمیر مجلس قانون ساز اور بھارتی لوک سبھا کے منتخب اور فعال رکن رہے ہیں۔

عمر عبداللہ نے اپنے طویل سیاسی کیریئر کے دوران ریاست جموں و کشمیر میں ہونے والے تین انتخابات میں نمایاں طور پر فتح حاصل کی ہے۔ عمر عبداللہ ماضی میں 2009 ءسے 2014 ء تک ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں اور اب 2024 ء میں وادی میں چھ برس کی طویل جمہوری و سیاسی گھٹن کے بعد حالیہ انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد دوسری بار ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے لئے حکومت سازی میں مصروف ہیں۔

عمر عبداللہ کو 5 جنوری 2009 ء میں ریاست جموں و کشمیر میں کانگریس پارٹی کی اتحادی حکومت میں ہندوستان کی تاریخ کے سب سے کم عمر اور ریاست کے گیارہویں وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عمر عبداللہ بھارتی پارلیمنٹ لوک سبھا میں بھی سب سے کم عمر رکن ہونے کا اپنا منفرد اعزاز رکھتے ہیں۔

وہ 2008 ء میں گاندربل کے حلقہ سے 2014 ء تک جموں و کشمیر مجلس قانون ساز کے رکن رہے اور 2016 ء تا 2018 ء کے دوران پیپلز ڈیوموکریٹک پارٹی کی خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے دور میں جموں و کشمیر مجلس قانون ساز میں قائد حزب اختلاف کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے ہیں۔ عمر عبداللہ مرکزی حکومت کی جانب سے ریاست جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 ء کو آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے نتیجہ میں تحلیل کی جانے والی جموں و کشمیر اسمبلی میں آخری قائد حزب اختلاف تھے۔ آپ حالیہ انتخابات میں ضلع بڈگام کے انتخابی حلقہ سے اکثریت کے ساتھ جموں و کشمیر مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ جبکہ انہیں یہاں لوک سبھا کی نشست پر جموں اور کشمیر عوامی اتحاد پارٹی کے رہنماء انجینئر شیخ عبدالرشید کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

عمر عبداللہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی این ڈی اے حکومت کے دور میں 13 اکتوبر 2001 ء سے 23 دسمبر 2002 ء تک یونین منسٹر آف اسٹیٹ برائے امور خارجہ اور تجارت اور صنعت کے عہدہ پر فائز رہے۔ بعد ازاں وہ اپنی پارٹی کے امور پر بھرپور توجہ دینے کے لئے حکومت سے مستعفی ہو گئے تھے۔

عمر عبداللہ کو ایک مخلص کشمیری سیاستدان کی حیثیت سے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے بھارتی حکومت کی سخت مخالفت کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری دیرینہ تنازعہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کی کوششوں کے لئے پہلا قدم بڑھاتے ہوئے مارچ 2006 ء میں اسلام آباد میں پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف سے اکیلے میں ملاقات کی تھی۔ جو ریاست جموں و کشمیر کے کسی اہم ترین سیاستداں اور حکومت پاکستان کے درمیان اس نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔

عمر عبداللہ وادی کشمیر میں ایک بیباک اور مقبول عوامی مقرر کی شناخت رکھتے ہیں انہوں نے 2006 ء میں بھارتی لوک سبھا میں بھارت۔ امریکہ جوہری سودے پر تحریک اعتماد کے ووٹ کے موقع پر ایک تاریخی جذباتی تقریر کی تھی کہ ”میں ایک مسلمان ہوں، میں ایک ہندوستانی ہوں اور میں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کرتا“ پارلیمنٹ میں ان کی اس بیباک تقریر کو ہندوستان بھر میں بے حد سراہا گیا تھا۔ بعد میں عمر عبداللہ نے پارلیمنٹ میں کی گئی اپنی اس اہم تقریر کو اپنے سیاسی کیریئر کی سب بڑی تقریر قرار دیا تھا۔

بھارت میں برسر اقتدار وزیر اعظم نریندرا مودی کی متعصب حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 ء کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختاری کے اختیارات منسوخ ختم کرنے کے بعد عمر عبداللہ کو 4 اور 5 اگست 2019 ء کی درمیانی شب بلا کسی الزام کے حراست میں لے کر ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ ان کی غیر قانونی نظر بندی کے چھ ماہ کی مدت ختم ہو جانے کے بعد انہیں رہا کرنے کے بجائے انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے فرسودہ قانون کے تحت دوبارہ گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔

جس پر عمر عبداللہ کی ہمشیرہ سارہ عبداللہ پائلٹ نے اپنے بھائی کی غیر قانونی نظر بندی کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پٹیشن اور حبس بیجا کی درخواست دائر کر کے ان کی غیر قانونی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا اور سارہ عبداللہ پائلٹ کی جانب سے زبردست بھاگ دوڑ اور قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں عمر عبداللہ کو مارچ 2020 ء کو سپریم کورٹ کے حکم پر رہائی نصیب ہوئی تھی۔

عمر عبداللہ کی احساس محرومی کے شکار کشمیریوں کی شب و روز خدمت اور ان کی بے پناہ سیاسی مصروفیات کی وجہ سے ان کی ذاتی زندگی مختلف وجوہات کی بناء پر بے حد تلخی اور تلاطم کا شکار رہی ہے۔ وہ یکم ستمبر 1994 ء کو دہلی میں ایک سابق فوجی افسر رام ناتھ کی بیٹی پائل ناتھ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے لیکن ستمبر 2011 ء میں اس جوڑے کی آپس میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ ان کی سابقہ بیوی کے بطن سے ان کے دو بچے ضمیر عبداللہ اور ظاہر عبداللہ ہیں۔ اسی طرح ان کی ہمشیرہ سارہ عبداللہ پائلٹ کی ازدواجی زندگی بھی تنازعات کے باعث ناہمواریوں کا شکار رہی ہے۔ جنہوں نے بھارتی فضائی کے ایک سابق افسر اور معروف سیاستداں راجیش پائلٹ کے بیٹے اور بھارتی سیاستداں کیپٹن سچن پائلٹ سے شادی کی تھی لیکن حال ہی میں ان کی علیحدگی کی خبر بھی منظر عام پر آئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments