حامد میر سے ایک سوال جو پوچھا نہ جا سکا
بارہواں عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے معروف تجزیہ نگار، اور جرات مند صحافی جناب حامد میر اور عاصمہ شیرازی صاحبہ کے ”سیشن: کیا اردو ادب اور صحافت زوال کا شکار ہے؟ میں پینل گفتگو میں حامد میر اور عاصمہ شیرازی نے صحافت اور ادب پہ نامعلوم قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بولنا اور لکھنا سب جانتے ہیں مگر اب ڈر اور خوف کی ماحول میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ آج کل ڈر نامعلوم کا ہے۔
چونکہ میں خود شعبہ صحافت سے منسلک ہوں اور اسی نیت سے اس سیشن کو شرکت کرنے کا ارادہ کیا کہ موجودہ دور میں صحافت، ادب اور اظہارآزادی رائے پہ کیا مشکلات درپیش ہیں، میں خود ان سوالوں کے پیچھے دوڑنے والا صحافت کا طالب علم ہوں۔ ہم جاننا یہ چاہتے ہیں کہ آج کے اس ماحول میں کیسے صحافت کرنا چایئے تاکہ خبر بھی بنے اور ہم خود محفوظ ہوں۔ مگر بدبختی سے پروگرام ذرا تاخیر سے شروع ہونے کی سبب سوال و جواب کا سیشن نہ ہوسکا اور بعد میں ایسے بڑے اسٹار کے پیچے بھاگنے کے لیے بھی زیادہ محنت کرنا پڑتا ہے تو میں سوچا کیوں نا ان سب چیزیوں کو تحریری شکل میں سامنے لاؤں تاکہ دوسرے جو موضوعات پہ عبور رکھتے ہیں شاید میری رہنمائی فرمائیں گے۔
میرا سوال یہ تھا کہ ہم کافی ٹائم سے یہی سُنتے آرہے ہیں کہ آج کل ہر کوئی سیاست اور صحافت میں نامعلوم کی کردار کو زیادہ زیر بحث کر کے مکالمہ کرتے ہیں۔ تو میں چاہ رہا تھا کہ میر صاحب اور عاصمہ شیرازی صاحبہ شرکا کو یہ بتائیں کیا صحافت میں نامعلوم کا عمل دخل کسی ایک مخصوص دور میں شروع ہوا ہے یا ارتقائی عمل سے؟ اگر ایک خاص پیریڈ میں نامعلوم کی انٹری ہوئی ہے تو وہ کون سا اور کس کا دور تھا؟ آج اگر ملک میں اظہار رائے پہ قدغن ہے کیا یہ صرف نامعلوم کا خوف ہے یا اس میں لالچ اور مراعات بھی شامل ہیں جس کی وجہ بے شمار ضمیر فروش اپنے قلم اور الفاظ کی قیمت رکھتے ہیں؟ کیونکہ خاموش کرانے میں یہ دونوں فیکٹرز ہوتے ہیں۔
اس گفتگو کے دوران جو اشارے میں نے محسوس کیے وہ یہ کہ میڈیا میں ملک ریاض جیسے افراد کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اور اسی راہ میں ہمارے ہی دور میں متعدد صحافیوں نے اپنی ترجیحات تبدیل کی ہیں اور ایسے بڑے نام بھی ہیں بحریہ ٹاون میں جن کو نوازا گیا ہے۔ اگر واقعی صحافت زوال کا شکار ہو رہی ہے تو کیوں نہ ہم اپنی صفوں کے اندر ان کو ڈھونڈیں جن کہ وجہ سے صحافت جیسا پیشہ جو اس ملک کے کروڑوں انسانوں کی دبی ہوئی آواز کو اُجاگر کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، اپنی ساکھ کھو رہا ہے؟
ظاہر سی بات ہے جب ہمارے اردے کمزور ہوں گے تو ہمارے ارادے مراعات سے یا خوف سے کمزور ہوں گے۔ مگر جہاں تک ہم موجودہ ماحول میں دیکھ رہے ہیں کہ جس نے یہ کانٹوں سے بھرا صحافت کا راستہ انتخاب کیا ہے تو اُس نے خود سے ضرور یہ وعدہ کیا ہوگا کہ کم از کم لالچ سے فی الحال گھبرانا نہیں ہے۔ کیونکہ اس وقت ایسے بے شمار جرنلسٹ ہیں کہ اں کو کئی حوالوں سے خطرہ تھا وہ یا تو خاموش ہو گئے یا اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے جلاوطنی اخیتار کرچکے ہیں۔
اور دوسری بات ہم اکثر سُنتے ہیں کہ میڈیا مالکان کے اپنی کمرشل مفادات ہوں گے، ان کمرشل مفادات میں میڈیا کارکن کو کتنا حصہ ملتا ہے کہ جلدی سے نیا بیانہ تراش لیتے ہیں؟ اگر ان مفادات میں آپ کا حصہ نہیں ہے تو اپنے اصولوں پہ سمجھوتے کرنے کی بجائے صحافت کے تقدس کا حق ادا کرتے ہوئے بولتے کیوں نہیں؟ آپ کی اور ہماری خاموشی اس رویے کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے کہ جس کے لیے فیض اور اس کے ساتھیوں نے ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔
حامد میر اور دیگر گنے چنے حق و سچائی کی آواز کو بلند کرنے والوں سے ہم جیسے نوجوانوں کی بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں اور انہی کا فرض بھی بنتا ہے کہ صحافت کو بحران سے نکانے کے لیے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ شابہ بشانہ ہوکر صحافت کو ایک مقام تک پہنچائیں۔ قلم اور الفاظ ہم سے یہی امید رکھتے ہیں کہ مظلوموں کی آواز بنیں۔
- حامد میر سے ایک سوال جو پوچھا نہ جا سکا - 11/12/2019
- بلوچستان میں علم بانٹنے کی پاداش میں پروفیسر کے خلاف انتقامی کارروائی - 11/12/2019
- کوئٹہ میں نجی اسٹوڈنٹس ہاسٹل ایک منافع بخش کاروبار - 14/11/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).