کچھ باتیں شہاب صاحب اینڈ کمپنی پر
قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ میں نے ابھی کچھ دن پہلے پڑھا ہے۔ حالانکہ یہ وہ کتاب ہے جسے کتب بینی یا مطالعاتی سفر کے آغاز میں پڑھا جاتا ہے۔ لیکن اس کتاب کو بغیر پڑھے میرے ذہن میں بھی کچھ باتیں بیٹھی ہوئی تھیں اس لیے کچھ مہربانوں کے اصرار پر یہ کتاب پڑھی۔ مجھے تو شہاب نامہ میں ایسا کچھ نہیں دکھائی دیا کہ میں کہ سکوں کہ یہ قابل اعتراض ہے اور اس کو پڑھ کر سارے کا سارا معاشرہ خراب ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ ویسے بھی ہم وہ قوم ہی نہیں ہیں جو کتابوں سے اثر لیتی ہیں۔
اگر شہاب نامہ سے ذرا سا بھی اثر بنتا ہے تو کم از کم بیوروکریسی کا جو ڈھانچہ آج رائج ہے وہ نہ ہوتا۔ کوئی سیاسی یا معاشرتی تبدیلی آئی ہوتی۔ کیونکہ یہ بنیادی موضوعات ہیں جن کے گرد شہاب نامہ گھومتا ہے۔ میں نے بھی جب کتاب شروع کی تھی تو یہی سوچا تھا کہ جا بجا مذہب کا تڑکا ہو گا۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں پایا۔ لے دے کے آپ کو صرف دو ابواب ملتے ہیں ایک حج کا سفر کے باب میں اور دوسرا آخری۔ اب مصنف کو اتنا تو حق ہے کہ اگر وہ اپنی آپ بیتی لکھ رہا ہے تو وہاں اپنے مذہبی خیالات یا اسے مذہب نے کیسے تشکیل دیا یہ بھی لکھ دے، اور ویسے بھی شہاب نامہ میں مذہب بھی وہ ہے جو صوفی ازم کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔
ان دو ابواب کو چھوڑ کر (حج والا باب تو خاصا متوحش بھی کر دیتا ہے ) کہیں بھی بطور موضوع یا مقصد کے آپ کو مذہب نہیں ملے گا۔ ہاں ضمناً جہاں پر اس کا ذکر آتا ہے تو وہ تو ہر کتاب میں آتا ہے۔ کیونکہ مذہب زندگی کا لازمی جزء ہے۔ باقی مصنف نے اپنی آپ بیتی لکھی ہے۔ آپ بیتی کے فن میں وہ ابھی تک ایک یکتا کتاب محسوس کی جاتی ہے جس میں تمام فنی لوازمات ہیں۔ قاری آرام سے آٹھ سو صفحات پر مشتمل کتاب پڑھ لیتا ہے اور وہ سوچنے پر کہیں کہیں پر اکساتی بھی ہے، تو اور کیا چاہیے؟
فرسٹ ہینڈ تاریخ، ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت سے آپ اپنا ماضی دیکھتے ہیں اور اس ماضی میں حال بھی دیکھ لیتے ہیں تو یہ کافی نہیں؟ آپ نے ایسی واقع نگاری کہیں اور پڑھی ہے۔ یقیناً اس سے اچھی واقع نگاری موجود ہے لیکن جو لوگ معترض ہوتے ہیں وہ نہ شہاب نامہ کو جانتے ہیں نہ کسی دوسری تیسری کتاب کو۔ لکیر کے فقیر! ارے بھائی پڑھ تو لو۔ درد صرف اتنا ہے کہ معترضین سے مختلف زاویہ نگاہ رکھتے تھے۔ بس اختلاف رائے کے حامیوں کو یہاں اختلاف ہی برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے ذاتی مخاصمت کا ذریعہ بنا دیا۔
قدرت اللہ شہاب کا صرف شہاب نامہ ہی نہیں یاخدا جیسا بہترین افسانہ بھی اس کے کریڈٹ پر ہے۔ یہ ایسا افسانہ ہے جو فسادات میں لکھے گئے بہترین افسانوں میں شمار ہوتا ہے۔ جسے ممتاز شیریں اور محمد حسن عسکری جیسے نابغہ روزگار نے سراہا اور اس پر لکھا ہے۔ شہاب صاحب کے ماں جی کی اپنی ایک تاثیر ہے۔ اصل میں شہاب، اشفاق احمد اور ممتاز مفتی وغیرہ ایک ڈسپلن میں رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں سر انجام دے رہے تھے۔ یہ لوگ خوامخواہ کنفیوژ نہیں تھے۔
ان کا دو ٹوک اور ابہام سے پاک رویہ ہے۔ ان کے ڈسپلن سے ان کے بیانیہ سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کا پہلا تعارف ان کی تصنیفات یا ان کا فن ہے، تو میرے خیال میں کسی مصنف کو اس کی تصانیف اور کسی فن کار کو اس کے فن کے آئینے میں ہی دیکھنا چاہیے۔ وہ معترضین جو ان پر مثبت تنقید کرتے ہیں ان سے پوچھ لیجیے کہ اشفاق احمد کے افسانے کیسے ہیں۔ یاسر جواد صاحب سے پوچھ لیجیے یا اجمل کمال صاحب سے، یہ سب اشفاق احمد کو بڑا افسانہ نگار یقیناً مانتے ہوں گے۔
اشفاق احمد کے افسانے آپ کے اچھے خاصے ترقی پسند ادیبوں سے بہت بہتر ہیں۔ ممتاز مفتی کے افسانے دیکھیے۔ کس شاندار انداز میں نفسیات کی گتھیاں الجھاتے یا سلجھاتے ہیں۔ ان کا علی پور کا ایلی دیکھیے۔ شہاب صاحب پر تو ہم پہلے بات کر ہی چکے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی ہی یہی ہے کہ ان پر ان کو پڑھے یا سمجھے بغیر رائے زنی کی جاتی ہے جو کہ علمی بددیانتی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ دوسری نا انصافی یہ کہ اب ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ان پر کوئی کچھ بھی بول دیتا ہے۔
جب تک ان میں سے ایک بھی حیات تھا تب تک نیلم احمد بشیر بھی خاموش تھیں اور عکسی مفتی کو بھی تب تک کچھ پتا نہیں تھا۔ کیا نیلم صاحبہ احمد بشیر کے بارے میں یا عکسی صاحب ممتاز مفتی کے بارے میں بھی ویسا ہی سچ سننے اور بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ چلیں یہ بھی ہو گیا۔ لیکن ان لوگوں کے رفیق حیات ابھی تک زندہ جو ان کے حوالے سے مختلف بات کرتے ہیں۔ اب ہم کس کی مانیں۔ میرے خیال میں ہمیں فن کار کے فن سے پہلا اور آخری واسطہ ہو تو ہمارے لیے آسانی پیدا ہوگی۔ وگرنہ ذاتی زندگی تو ان فلسفیوں کی بھی اچھی نہیں اور اپنے علم سے متضاد ہے جن کا ہم روز نام جپتے ہیں۔
- کچھ باتیں شہاب صاحب اینڈ کمپنی پر - 23/04/2025
- اصغر ندیم سید کی کتاب پھرتا ہے فلک برسوں - 18/04/2024
- بچوں کے ساتھ دل بہلانے والے اولڈ بوائز - 26/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).