دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کا تنازعہ
آج کل پاکستان میں دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کا موضوع ایک گرما گرم بحث کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اس مسئلے پر دو واضح حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مزید نہروں کی تعمیر کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف سندھ کی صوبائی حکومت اور بہت سے ماہرین ماحولیات اس تجویز کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، اس لیے نئی نہریں بنانے کی بجائے موجودہ آبی وسائل اور نہروں کو جدید طریقوں سے استعمال کرتے ہوئے پیداوار بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے معاشی، سماجی اور ماحولیاتی پہلو ہیں۔ دریائے سندھ پاکستان کی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے پانی پر ملک کی زراعت اور معیشت کا ایک بڑا انحصار ہے۔ نئی نہروں کے حامی دلیل دیتے ہیں کہ ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے زرعی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مزید نہریں بننے سے بنجر زمینوں کو سیراب کیا جا سکے گا اور زراعت کو ایک نئی زندگی ملے گی۔ اس سے نہ صرف غذائی خود کفالت حاصل ہوگی بلکہ دیہی علاقوں میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
تاہم، سندھ حکومت اور ماہرین ماحولیات کے تحفظات بھی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث صورتحال مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر مزید نہریں نکالی گئیں تو زیریں سندھ میں پانی کی قلت مزید بڑھ جائے گی، جس سے زراعت اور ماحولیات دونوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا استدلال ہے کہ نئی نہریں بنانے کی بجائے موجودہ نہری نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے، پانی کے ضیاع کو روکنے اور آبپاشی کے جدید طریقوں (جیسے ڈرپ ایریگیشن اور سپرنکلر سسٹم) کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
سندھ حکومت کا یہ بھی موقف ہے کہ دریائے سندھ کے پانی پر ان کا حق سب سے مقدم ہے اور کسی بھی نئی نہر کی تعمیر سے پہلے ان کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی بالائی سندھ میں نہریں بننے سے زیریں سندھ کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ اس صورتحال کو دوبارہ دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس تنازعے کے حل کے لیے ایک متوازن اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ پانی ایک قیمتی اور محدود وسیلہ ہے اور اس کا استعمال انتہائی احتیاط سے کرنا ہو گا۔ نئی نہروں کی تعمیر کے امکان پر غور کرنے سے پہلے موجودہ آبی وسائل کے موثر استعمال کو یقینی بنانا ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پرانے اور بوسیدہ نہری نظام کی مرمت کی جائے، پانی کے چوری کو روکا جائے اور آبپاشی کے جدید طریقوں کو عام کیا جائے۔ کسانوں کو پانی کے موثر استعمال کی تربیت دی جائے اور ایسی فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی جائے جن میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے پانی کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ نئے ڈیموں کی تعمیر اور موجودہ ڈیموں کی گنجائش بڑھانے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ان منصوبوں پر تمام صوبوں کے اتفاق رائے اور ماحولیاتی اثرات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔
اگر نئی نہروں کی تعمیر ناگزیر سمجھی جاتی ہے تو اس کے لیے ایک شفاف اور منصفانہ طریقہ کار وضع کرنا ہو گا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز، بشمول صوبائی حکومتوں، ماہرین زراعت، ماہرین ماحولیات اور مقامی لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ نہروں کے روٹ اور پانی کی تقسیم کے فارمولے پر سب کا اتفاق رائے ضروری ہے۔ کسی بھی ایسے منصوبے سے گریز کرنا ہو گا جس سے کسی ایک صوبے کے حقوق متاثر ہوتے ہوں۔
یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کا حل قومی اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور تنگ نظری سے بالاتر ہو کر ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت ایک سنگین چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے دور اندیشی، باہمی تعاون اور جدید سائنسی طریقوں کا استعمال ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے آج اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش نہ کیا تو آنے والی نسلوں کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ صرف نئی نہریں بنانا ہی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں اپنی زرعی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کرنی ہوگی۔ ایسی فصلوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی جن میں بہت زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے اور کم پانی والی فصلوں کی کاشت کو فروغ دینا ہو گا۔ تحقیق اور ترقی کے ذریعے ایسی نئی زرعی تکنیکیں متعارف کروانی ہوں گی جو کم پانی میں زیادہ پیداوار دے سکیں۔
دریائے سندھ کے پانی کا منصفانہ اور موثر استعمال ہماری قومی بقا اور خوشحالی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے اور ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
- دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کا تنازعہ - 23/04/2025
- موسم سرما کی اداسی: موسمیاتی تبدیلی کا شکار لاہور - 17/12/2024
- لاہور کاربن اور سموگ نیوٹرل سٹی؟ - 23/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).