مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی: ذمہ دارانہ رویہ کی ضرورت


مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر فائرنگ کر کے کم از کم 28 افراد ہلاک کردیے۔ اس ناگہانی وقوعہ کے بعد سعودی عرب کے دورے پر گئے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دورہ مختصر کر کے نئی دہلی واپس آرہے ہیں۔ ان کی ہدایت پر وزیر داخلہ امیت شاہ سری نگر پہنچے ہیں جہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے ساتھ سکیورٹی کی صورت حال پر بات چیت کی ہے۔

یہ المناک واقعہ سہ پہر تین بجے پہلگام کے ایک سبزہ زار میں پیش آیا جہاں صرف پیدل یا کسی جانور کی سواری پر ہی پہنچا جاسکتا ہے۔ اس لیے فائرنگ کے واقعہ میں متعدد لوگوں کی ہلاکت کے بعد طبی عملے اور سکیورٹی فورسز کو جائے وقوعہ تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سرکاری طور پر ابھی تک ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد نہیں بتائی گئی۔ البتہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایکس پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’ہلاکتوں کی تعداد معلوم کی جا رہی ہے لہذا میں ابھی اس تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ تاہم یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ حملہ حالیہ برسوں میں عام شہریوں پر کیے جانے والے حملوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا ہے‘ ۔

مقبوضہ کشمیر میں حالیہ برسوں میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ سیاحوں پر آخری بڑا حملہ جون 2023 میں ہوا تھا جب ایک بس پر حملے کے بعد وہ گہری کھائی میں جا گری تھی، جس میں کم از کم 9 افراد ہلاک اور 33 زخمی ہوئے تھے۔ اسی لئے کئی سال کے وقفے کے بعد گزشتہ سال ستمبر /اکتوبر کے درمیان مقبوضہ کشمیر میں انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کے فیصلہ کے خلاف انتخابی مہم چلائی تھی۔ تاہم عمر عبداللہ نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد نریندر مودی کی وفاقی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کی پالیسی اختیار کی ہے اور مقبوضہ کشمیر کو وفاقی اکائی قرار دینے کا حکم واپس لینے پر دباؤ ڈالنے سے گریز کیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ رائے دہی یا بھارت سے علیحدگی کی مہم 1989 سے جاری ہے۔ بھارت کی پانچ لاکھ کے لگ بھگ فوج بھی ریاست میں تعینات ہے جس کی طرف سے عام طور سے شہری آبادی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ بھارتی حکومت اپنی نگرانی میں منعقد کرائے گئے انتخابات کو جمہوری عمل مانتی ہے لیکن کشمیری عوام کی اکثریت اور پاکستان ان انتخابات کو ڈھونگ قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب کرایا جائے تاکہ کشمیری عوام آزادانہ طور سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔

دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشمیر مسلسل وجہ نزاع ہے۔ پاکستانی قیادت کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتی ہے جبکہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے دعوے کا جواب دینے کے لیے اب بی جے پی کی حکومت کے متعدد ارکان پاکستان کے زیر انتظام ’آزاد کشمیر‘ کو مقبوضہ علاقہ قرار دے کر اسے واپس لینے کے دعوے بھی کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے باوجود علاقے میں کشیدگی کم کرنے اور کشمیر و دیگر امور پر بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت نے جنوری 2016 میں پٹھان کوٹ حملہ کے بعد سے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے دو طرفہ مذاکرات سے انکار کیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے 5 اگست 2019 کے فیصلہ میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں آئینی شق کو ختم کر دیا تھا اور مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے اسے وفاق کی انتظامی اکائی قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان اس فیصلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی سمجھتا ہے اور اس نے بھی اس وقت تک بھارت سے بات چیت سے انکار کیا ہے جب تک مقبوضہ کشمیر کی سابقہ آئینی حیثیت بحال نہیں کی جاتی۔

پاکستان اور بھارت جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں، اس لیے ان کے درمیان براہ راست جنگ کا اندیشہ بہت کم ہے۔ اس کے باوجود دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور اشتعال انگیز سفارتی سرگرمیوں سے گریز نہیں کرتے۔ بھارت، پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ پاکستان نے بلوچستان میں دہشت گردی کے علاوہ پاکستانی سرزمین پر متعدد شہریوں کو قتل کرنے کا الزام بھارتی ایجنسیوں پر عائد کیا ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ اور اہم دوست ممالک کو ’حقائق‘ پر مبنی دستاویزی شواہد پر مشتمل ڈوسئیر بھی فراہم کیا گیا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ سمیت کوئی ملک بھی پاک بھارت تعلقات میں پیدا ہونے والے فاصلوں کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے طور پر دونوں ملکوں کی حکومتوں کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے تاہم باہمی تعلقات کے حوالے سے نئی دہلی اور اسلام آباد کی حکومتیں کسی سمجھداری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ بھارت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے نریندر مودی نے چونکہ ہندو جذبات کو ہوا دی ہے اور غیر ہندو اقلیتوں کے خلاف سیاسی رائے ہموار کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے، اس لئے پاکستان کے بارے میں بھی موجودہ حکومت کا لب و لہجہ سخت اور کرخت ہوتا ہے۔

اس پس منظر میں علاقے میں دہشت گردی کی صورت حال خاص طور سے تشویشناک ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ بھارت بھی ایسے تشدد سے مکمل طور سے محفوظ نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت آج کے وقوعہ سے فراہم ہوتا ہے۔ اس کے باوجود دونوں ملک مل کر اس مسئلہ کے خلاف کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو دہشت گرد قرار دے کر درحقیقت تشدد پر آمادہ عناصر کی سہولت کاری کا سبب بنتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے دوران بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس کو اغوا کر کے ساڑھے تین سو کے لگ بھگ مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ٹرین پر حملہ کرنے والے تمام 33 دہشت گردوں کو ہلاک کر کے تمام مسافروں کو رہا کرا لیا تھا۔ البتہ اس مقابلہ میں 18 فوجی بھی جاں بحق ہوئے۔ اس واقعہ کے دوران حملہ آوروں کا بھارتی میڈیا سے بھی رابطہ رہا تھا اور وقوعہ سے ویڈیو اور تصاویر بھارتی میڈیا کو فراہم کی گئی تھیں۔ اس مواد کی بنیاد پر بھارتی میڈیا کے بعض عناصر نے پاکستان کو مطعون کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پاکستان نے افغانستان کے علاوہ بھارت پر اس حملہ میں معاونت کا الزام لگایا تھا۔

اب پہلگام میں ویسا ہی اندوہناک واقعہ رونما ہوا ہے۔ اب بھارتی میڈیا کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کے لیڈروں و کارکنوں نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنا شروع کر دیا ہے۔ سرکاری طور پر ابھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن ماضی کے طرز عمل کو مثال بنایا جائے تو اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ نئی دہلی کی حکومت اس افسوسناک واقعہ کی ذمہ داری بھی پاکستان کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کرے گی۔ حالانکہ اس قسم کا رویہ پاکستان یا بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ دونوں ملکوں میں تشدد کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے والے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

جیسے جعفر ایکسپریس پر حملہ کی مذمت دنیا بھر سے کی گئی تھی، اسی طرح پہلگام میں شہریوں کو بے دردی سے قتل کرنے پر امریکہ سمیت تمام اہم ممالک نے مذمت کی ہے۔ البتہ اسلام آباد کی طرف سے رات گئے تک کوئی بیان جاری نہیں ہوا تھا۔ ایسا ہی رویہ جعفر ایکسپریس پر حملہ کے بعد نئی دہلی میں اختیار کیا گیا تھا۔ حالانکہ بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنانے والے عناصر خواہ کہیں پر، کسی بھی صورت میں سرگرم ہوں، ان کی مذمت کے علاوہ مل کر ان کے خلاف کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سانحہ سے بھی یہی سبق سیکھنا چاہیے کہ پاکستان اور بھارت آبادی و وسائل میں تفاوت کے باوجود، دونوں اہم ملک ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے قریبی ہمسائے ہیں۔ کسی ایک ملک کو پہنچنے والی تکلیف کا احساس دوسرے ملک کو بھی محسوس کرنا چاہیے اور ایسے واقعات کو ’عوام کی خواہشات کے خلاف سرکاری پالیسی پر رد عمل‘ کا عذر تراش کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ’ایکس‘ پر ایک پیغام میں حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس حملے کے پیچھے جو بھی ہیں، انہیں کسی صورت نہیں بخشا جائے گا۔ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ان عناصر کا شیطانی ایجنڈا کبھی کامیاب نہیں ہو گا اور دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم متزلزل نہیں بلکہ اور مضبوط ہو گا‘ ۔ اس عزم کے ساتھ دہشت گردی اور انسان دشمن سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے ہوشمندانہ اور وسیع تر تعاون پر مبنی اقدامات کرنا بھی بے حد اہم ہے۔ بھارت نے کئی دہائیوں سے پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگا کر اسے دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن اس سفارتی و سیاسی مہم جوئی سے درحقیقت تشدد ختم نہیں کیا جا سکا۔ بدقسمتی سے بھارت جو الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے، وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے خود بھی پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد عناصر کی سرپرستی میں ملوث رہا ہے۔ حالانکہ اگر دہشت گرد پاکستان میں ’پناہ‘ پاتے ہیں تو یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے پاکستان کو تنہا کرنے اور پروپیگنڈے کا نشانہ بنانے کی بجائے اسے انگیج کرنے اور معاملات کو باہمی افہام و تفہیم سے طے کرنا چاہیے تھا۔

مناسب ہو گا کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے ہوش کے ناخن لیں اور ناپسندیدہ عناصر کے قلع قمع کے لیے مل جل کر کوئی حکمت عملی اختیار کریں۔ پہلگام میں ہونے والی خوں ریزی ایک ایسا موقع ہے کہ پاکستانی لیڈروں کو بھارت کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا چاہیے اور تشدد کے خاتمہ کے لیے تعاون فراہم کرنا چاہیے۔ شہریوں کو نشانے پر لینے والے خواہ پاکستان میں متحرک ہوں یا بھارت میں، وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوسکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 3075 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments