جنگل میں رات اور خواب کی تھکن


بہار اس برس کچھ عجب رنگ سے آئی ہے۔ مارچ کٹ گیا اور اپریل گزرنے کو ہے۔ شاخوں پر جہاں تہاں پتے تو نکلے مگر ہوا میں بہار کی خوشبو نہیں لہرائی۔ آسمان پر اس دھانی چادر نے اپنا جادو نہیں دکھایا جو جاڑے کی کاٹ دار ٹھنڈک اور گرما کی جھلسا دینے والی تپش میں چند ہفتوں کے لئے خوشی بن کر گلیوں، بستیوں، کھیتوں اور میدانوں پر اترتی تھی۔ موسموں کے شناور بتا رہے ہیں کہ کرہ ارض پر موسم بدل رہے ہیں۔ ہمیں اچانک بارشوں، وسیع منطقوں کو تاراج کرتے سیلابوں، خوفناک زلزلوں اور خشک سالی کے طویل وقفوں کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہیے۔

ان صاحبان دانش کے مطابق انسان نے معلوم کائنات میں زندگی سے آشنا واحد سیارے پر موجود وسائل کے ساتھ ایسا اندھا دھند سلوک کیا ہے کہ فضاؤں، دریاؤں، پہاڑوں، برفانی میدانوں اور صحراؤں کا باہم توازن بگڑ گیا ہے۔ سویڈن کی کم عمر بچی گریٹا تھن برگ نے کوئی دس برس پہلے آواز اٹھائی کہ قدرتی وسائل کے ساتھ انسانی کھلواڑ روکی جائے۔ گریٹا اور اس کے ہم خیال سنجیدہ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ قدرتی وسائل کسی ایک نسل کی ملکیت نہیں ہیں بلکہ نسل در نسل چلی آنے والی ایسی امانت ہیں جسے قابل عمل حالت میں آئندہ نسلوں کو منتقل کرنا انسانوں کی ذمہ داری ہے۔

تعجب ہے کہ رواں صدی میں جب یہ رائے سامنے آئی تو ترقی یافتہ ممالک نے ماحولیاتی اقدامات کو اپنی معاشی ترقی میں رکاوٹ گردانا۔ دو بڑے ممالک کے رہنماؤں ڈونلڈ ٹرمپ اور پیوٹن نے تو سرعام تمسخر آمیز تبصرے کیے۔ ماحولیات پر عالمی معاہدوں کو چین اور بھارت سمیت عالمی طاقتوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سیاست میں دائیں بازو کی ابھرتی ہوئی لہر نے تو ماحولیاتی توازن کی مخالفت کو اپنے منشور کا حصہ بنا لیا۔ جو ملک زیادہ ترقی یافتہ اور بڑے ہیں، ماحول کو تلپٹ کرنے میں ان کا حصہ بھی زیادہ ہے لیکن اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کا بوجھ ان غریب ملکوں کو اٹھانا پڑے گا جو پہلے سے وسائل کی قلت اور پسماندگی کے بوجھ تلے دبے ہیں۔

اس ماحولیاتی سوال کو طاقت کی سیاست کا استعارہ سمجھئے۔ ہماری دنیا میں طاقتور صرف ماحول ہی پر تو چاند ماری نہیں کر رہا، معیشت اور سیاست میں بھی طاقتور من مانی کر رہے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔ جہاں قدرتی وسائل دیکھتے ہیں وہاں ڈیرے جما لیتے ہیں۔ قابل علاج بیماریوں کے لیے ادویات کی فراہمی کو اپنے معاشی مفادات کے تابع کر رکھا ہے۔ آٹھ ارب انسانوں کی اس دنیا میں چالیس فیصد آبادی ہر رات پیٹ میں بھوک کی چبھن لیے سوتی ہے۔

تعلیم اور اطلاع پر پہرے لگائے جاتے ہیں تاکہ کمزور اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی سمجھنے کے قابل ہی نہ ہو سکے۔ پچھلی صدی میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کا اعلان کیا گیا لیکن ایک آدھ ملک کے استثنا کے ساتھ نوآبادیاتی نظام نے محض اپنا چولا تبدیل کیا ہے۔ کہیں بیرونی طاقتور کی جگہ مقامی زور آور نے فیصلہ سازی پر اجارہ قائم کر کے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے تو کہیں طاقتور ممالک نے براہ راست کمزور ممالک کو تابع مہمل بنا رکھا ہے۔

مشرق وسطیٰ سے مشرق بعید تک اور مشرقی یورپ سے وسط ایشیا تک عالمی طاقتوں نے کیا کھیل نہیں کھیلے۔ کچھ طاقتور ممالک تو ایسے کایاں ہیں کہ نقاب پہن کر اپنا حلقہ اثر بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ ایران کا ڈاکٹر مصدق ہو یا ترکی کا عدنان مندریس، چیکو سلواکیہ کا الیگزینڈر دبچک ہو یا چلی کا سلواڈور الاندے، مصر کا حسن البنا ہو یا پاکستان کا ذوالفقار علی بھٹو، انڈونیشیا میں 1967ء کی قیامت ہو یا بنگال میں 1971ء کی وحشت، زمینی خدا انسانوں کی قسمت سے اس طرح کھیلتے ہیں جیسے پرانے محاورے کے مطابق دیوتا جلتی ہوئی لکڑی سے چیونٹیوں کی بستیاں جلاتے ہیں۔

آج کے پاکستان ہی کو لیجیے۔ دستور کی کتاب موجود ہے۔ مرکز اور صوبوں میں پارلیمانی نمائندے قانون سازی کر رہے ہیں۔ عدالتیں انصاف فراہم کرنے کے لیے مستعد بیٹھی ہیں۔ انتظامی اداروں کا وسیع نظام موجود ہے لیکن اپنے دلوں میں جھانک کر دیکھیں تو فیض کی نظم ’شام‘ کندہ ہے۔ ’اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے / جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام‘ ۔ فیض کے عقب سے ناصر کاظمی کی آواز آتی ہے۔ ’یہ کالے کوس کی پرہول رات ہے ساتھی / کہیں اماں نہ ملے گی تجھے کنارے پر‘۔ ناصر کے پہلو میں منیر نیازی کہتا ہے۔ ’آس پاس کوئی گاوں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے / شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے‘ ۔ اگر ایک ہی زمانے کے تین اہم شاعر اپنے رنگ میں ایک ہی صورتحال کی نشان دہی کر رہے ہیں تو جان لیجیے کہ باقی ملک گویا خواب میں اندھیرے جنگل سے گزر رہا ہے۔ خوابوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور سمجھا گیا ہے۔ بنیادی نظریات دو ہیں۔ ایک تو فرائیڈ کی رائے ہے جو کہتا ہے کہ خواب ہماری ناآفریدہ خواہشات کی لاشعوری تسکین ہے۔

فرائیڈ سے کوئی بیس برس بعد پیدا ہونے والا سوئس ماہر نفسیات کارل یونگ کہتا ہے کہ خواب پشت در پشت چلے آنے والے انسانی تجربات، خوف اور خواہشات کے مجموعی ورثے کا انعکاس ہیں۔ درویش ماہر نفسیات نہیں ہے، محض ذاتی تجربہ عرض کر سکتا ہے۔ بہت کم عمری میں ایک خواب دیکھا تھا جس کی وحشت چھ دہائیوں سے ساتھ چلی آ رہی ہے۔ دور دور تک پھیلے ہوئے پانی کے بیچوں بیچ اینٹوں کی ایک سیڑھی ہے۔ اردگرد کسی مکان یا در و دیوار کا کوئی نشان نہیں۔ دو اڑھائی برس کا ایک بچہ اس سیڑھی کے سب سے اوپر والے زینے پر ایک بڑی سی گیند لیے بیٹھا ہے اور مجھے خوف تھا کہ اس بچے نے ذرا سا پہلو بدلا تو گہرے پانی میں جا گرے گا۔ بے یقینی، خوف اور بے بسی کی یہ کیفیت عشرہ در عشرہ ہمارے قومی تجربے میں گندھی ہے۔ نامعلوم مقام پر ایک نامکمل مکان میں کسی اجنبی دیار سے آنے والے مرد وزن اور بچوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ یہ بے وطنی اور جلاوطنی کی وہ کیفیت ہے جسے شعیب بن عزیز نے بیان کیا تھا۔

خواب اور خواہش کے درمیاں نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی اب یہاں نہیں رہنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments