بوسنیا کے مسلمانوں کی داستانِ
یورپ کے قلب میں واقع بوسنیا ہرزیگوینا ایک ایسی سرزمین ہے جہاں اسلام کی شمع صدیوں سے روشن ہے۔ آج بھی یہاں کی نصف سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو ملک کی کل آبادی کے تقریباً 55 فیصد کے قریب ہے۔ یہ وہی بوسنیا ہے جس نے عثمانی دور میں اسلام کی روشنی کو سینے سے لگایا اور آج بھی اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ سرائیوو کی گلیاں، غازی خسرو بیگ کی مسجد کی میناروں سے اٹھتی اذانیں، اور رمضان المبارک کے موقع پر شہر کی رونقیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہاں اسلام اور اہل ایمان زندہ ہیں۔ تاہم، اس کی یہ داستان ہمیشہ سے ہی صبر و استقامت سے عبارت رہی ہے۔
بوسنیا میں مساجد کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں سے بیشتر عثمانی دور کی یادگار ہیں۔ سرائیوو کی غازی خسرو بیگ مسجد، جو 1531 میں تعمیر ہوئی، نہ صرف ملک کی سب سے بڑی مسجد ہے بلکہ بوسنیائی مسلمانوں کے لیے روحانی مرکز بھی ہے۔ اسی طرح علی پاشا مسجد اور فرہادیا مسجد جیسی تاریخی عمارتیں بھی اپنے اندر صدیوں کی داستانیں سموئے ہوئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے یہاں متعدد مدارس بھی قائم ہیں، جن میں غازی خسرو بیگ مدرسہ سب سے نمایاں ہے، جہاں نوجوان نسل کو قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی روشناس کرایا جاتا ہے۔
1990 کی دہائی میں بوسنیا نے ایک ایسے المناک دور کا سامنا کیا جس نے نہ صرف اس خطے کی تاریخ کو خون سے رنگ دیا بلکہ مسلمانوں کو بھی بے پناہ جانی و مالی نقصانات اٹھانے پڑے۔ سرب افواج کے ہاتھوں ہزاروں بوسنیائی مسلمان شہید ہو گئے، جن میں معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ سربرینکا کا قتل عام اس ظلم کی انتہا تھی جہاں آٹھ ہزار سے زائد مسلمانوں کو بے دردی سے مار دیا گیا۔ نہ صرف انسانوں کا قتل عام ہوا بلکہ مساجد، مدارس اور اسلامی تاریخی ورثے کو بھی ملیامیٹ کر دیا گیا۔ سرائیوو کا محاصرہ، جس نے شہر کو تین سال تک مشکلات سے دوچار رکھا، مسلمانوں کے لیے ایک کڑا امتحان بن گیا۔ تاہم، ان تمام مصائب کے باوجود بوسنیائی مسلمانوں نے اپنے ایمان اور ثقافت کو قائم رکھا اور آج بھی اپنی شناخت کی بحالی لیے کوشاں ہیں۔
اگرچہ بوسنیا میں مسلمان اکثریت میں ہیں، لیکن انہیں اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ حجاب کے معاملے میں معاشرے میں ایک کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ بعض سرکاری اداروں اور تعلیمی مراکز میں حجاب پر پابندی عائد ہے، جس کی وجہ سے خواتین کو سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ حلقے حجاب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں، جبکہ مسلمان خواتین کے لیے یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی طرح، بعض علاقوں میں اذان کی آواز کے بارے بھی تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں، جہاں غیر مسلم آبادی اسے شور قرار دیتی ہے۔ رمضان المبارک کے دوران روزہ داروں کو کام کی جگہوں پر عبادت کی سہولت نہ ملنا بھی ایک عام مسئلہ ہے، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہو۔
ان تمام مسائل کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کے لیے بوسنیا کی تاریخ اور سیاست کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کو نہ صرف جنگ کے زخم برداشت کرنے پڑے بلکہ یورپی یونین کے اثرات نے بھی معاشرے پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ مغربی طرز زندگی، جس میں مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے، بوسنیا کے نوجوانوں پر بھی بری طرح اثرانداز ہو رہی ہے۔ معاشی مشکلات اور بے روزگاری نے بھی مذہبی روایات سے دوری پیدا کی ہے۔ تاہم، سب سے بڑا چیلنج وہ تاریخی تقسیم ہے جو جنگ کے سبب اور گہری ہو چکی ہے، جہاں مذہبی گروہوں کے درمیان اعتماد کی کمی آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔
ان تمام چیلنجز کے باوجود، بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے امید کی کرن موجود ہے۔ اگر حکومت مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے واضح قوانین بنائے اور تمام مذاہب کے درمیان مکالمے کو فروغ دے تو معاشرے میں ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔ فی الوقت مسلم شناخت کو وہ قانونی تحفظ حاصل نہیں جو ان کا حق ہے۔
تعلیمی نظام میں مذہبی رواداری کو شامل کر کے نئی نسل کو باہمی احترام کا درس دیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے پرامن طریقے سے آواز اٹھائیں، جبکہ غیر مسلموں کو بھی ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔
بوسنیا میں مسلمانوں کے علاوہ سرب آرتھوڈوکس اور کیتھولک عیسائی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ سرب آرتھوڈوکس عیسائی، جو ملک کی آبادی کا تقریباً 30 سے 35 فیصد ہیں، بنیادی طور پر سربیا سے وابستہ ہیں۔ جنگ کے دوران ان کے بے شمار کلیسا تباہ ہوئے، جس کی وجہ سے انہیں اپنی بھی عبادت گاہوں کی تعمیر نو کرنی پڑی۔ کیتھولک عیسائی، جو زیادہ تر کروشیا کے ساتھ ناتا جوڑتے ہیں، ملک کی آبادی کا 10 سے 15 فیصد ہیں۔ انہیں بھی مذہبی رسومات ادا کرنے میں کچھ مشکلات پیش آتی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ لیکن مسلمانوں کو اکثریت کے باوجود دیگر مذہبی اقلیتوں کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بوسنیا ہرزیگوینا کی تاریخ، ثقافت اور مذہبی تنوع اسے یورپ کا ایک منفرد ملک بناتے ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں نے صدیوں کے اتار چڑھاؤ، بلندی اور پستی کو برداشت کیا ہے اور آج بھی اپنی شناخت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے، لیکن تعلیم، قانونی تحفظ اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے ایک پرامن مستقبل کی تعمیر ممکن ہے۔ تنوع میں ہی حسن ہے، اور باہمی احترام ہی کسی بھی معاشرے کی کامیابی کی کلید ہے۔ بوسنیائی مسلمانوں کو عبادات اور دیگر امور میں پوری آزادی دینا انسانیت کے اصولوں کا تقاضا ہے تاکہ وہ ہنسی خوشی اور خوف سے آزاد ہو کر زندگی بسر کر سکیں۔
- بوسنیا کے مسلمانوں کی داستانِ - 23/04/2025
- ہندوستان میں رفتار کی نئی داستان اور پاکستان - 21/04/2025
- یارلنگ تسانگپو ڈیم اور برہم پترا کا مستقبل - 18/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).