تیسری جماعت کی اردو اور اشرافیہ کا پروپیگنڈا
اکیسویں صدی میں اگر کوئی قوم اپنے بچوں کی ذہن سازی خوابوں کی تعبیر اور اسی طرح کے دوسرے توہمات سے کر رہی ہو تو اس کے مستقبل کو پتھر کا دور ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جہاں دنیا بھر میں بچوں کی تعلیم کو ہر ممکن حد تک جدیدیت، سائنسی اپروچ، آنے والے زمانے کی ملازمتوں کی تیاری، اور مصنوعی ذہانت کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے وہیں ہماری اشرافیہ پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو منظم طور پر مزید پست شعور کی طرف دھکیلتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال سنگل نیشنل کریکولم کی تیسری جماعت کے لئے لکھی گئی اردو ہے جس میں بے شمار ایسی باتیں ہیں جن کا سچ سے یا اردو زبان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے سوائے بچوں کو پروپیگنڈا کے ذریعے ہزاروں سال پیچھے کے تاریک دور (dark ages) میں پہنچانے کے۔ اس میں بالخصوص دو تصورات ایسے ہیں جو کسی صورت بھی بچوں کے ذہن میں اس دور میں ڈالنا ان کے ساتھ ایک بڑی زیادتی ہے۔
پہلا تصور علامہ اقبال پہ لکھے گئے مضمون میں بیان ہوا ہے۔ اس کی ابتدا اقبال کے والد کے دیکھے گئے ایک عجیب و غریب سفید کبوتر والے خواب سے ہوتی ہے جس کی تعبیر میں وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو گا جو بڑا ہو کر اسلام کی خدمت کرے گا۔ اس واقعہ کی درستی ایک طرف لیکن اس خواب کا بیان اور پھر اس کی اس طرح کی تعبیر صاف بتا رہی ہے کہ ہماری اشرافیہ ابھی تک اس ہزاروں سالہ پرانی مصری تہذیب میں رہ رہی ہے جہاں بس خواب ہی خواب ہوتے تھے اور ان کی تعبیروں سے ہی مستقبل کا پتہ چلتا تھا اور اس مستقبل کے بارے میں پھر منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ یہ اسی ذہنی پسماندگی کا نتیجہ ہے کہ خواب کی تعبیر کے مطابق پیدا ہونے والے بچے کے خطبہ آلہ باد کو اشرافیہ پاکستان کا خواب قرار دیتی ہے نہ کہ ایک منطقی یا شعوری طور پر اخذ کیا گیا ایک نتیجہ۔ بچوں کو اکیسویں صدی میں ان خوابوں کی دنیا میں رکھنا ایک مجرمانہ عمل ہے کیونکہ اب دنیا بھر میں انسان اور قومیں اپنے مستقبل کی پیش گوئی سائنسی طریقوں سے کرتی ہیں اور پھر اپنی عقل کے استعمال سے ان سے نمٹنے کے لئے منصوبہ سازی کرتی ہیں نہ کہ سفید کبوتر کے ہوا میں چکر لگانے والے خواب سے۔
دوسرا قابل اعتراض واقعہ میجر عزیز بھٹی اور ان کے بھائی کے نام سے منسوب ہے جنہیں اس واقعہ میں ”دو مسلمان بھائی“ کے طور پر لکھا گیا ہے۔ جن کی سائیکل کی ٹکر سے ”ایک ہندو لڑکا“ زخمی ہو گیا۔ یہ اسے ہسپتال لے کر گئے اور ڈاکٹر نے جو دوا لکھ کر دی وہ قریب سے نہ ملی جس پر ان دو بھائیوں نے چودہ کلومیٹر دور شہر سے وہ دوا لا کر دی۔ اس واقعہ کا سچ جھوٹ ایک طرف اور سائیکل سے لگنے والا اتنا گہرا زخم ایک طرف لیکن اشرافیہ یہاں کتنی چالاکی سے بچوں کے ذہن میں ہندو مسلم کی تفریق ڈال رہی ہے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا اگر اس کہانی میں دو مسلمان بھائی کی جگہ صرف دو بھائی اور ایک ہندو لڑکے کہ جگہ صرف لڑکا لکھا ہوتا۔ یہی مذہبی نفرت کے بیج آگے چل کر پہلے غیر مسلموں سے نفرت اور پھر دوسرے فرقے کے مسلمانوں سے نفرت کا سبب بنتے ہیں۔ اس دور میں جہاں مہذب دنیا میں ہر انسان کسی بھی رنگ، نسل، مذہب کی تفریق کے بغیر ایک انتہائی انمول انسان ہے۔ ہماری اشرافیہ وہیں بچوں کے ذہن میں صرف مسلمان بھائیوں کے اچھا ہونے کے راگ الاپ رہی ہے۔
ان دو تاریخی طور پر انتہائی کمزور واقعات کے علاوہ بھی یہ کتاب ڈھیروں ایسی چیزوں سے بھری پڑی ہے جن کے بارے میں یقین نہیں آتا کہ اکیسویں صدی کا کوئی ملک ایسی چیزیں بچوں کے نصاب میں ڈال کر ان کے ذہن کو ہزاروں سال پیچھے بھیج سکتا ہے۔ ان میں سر فہرست ایک یتیم بچے کا واقعہ ہے جس کے پاؤں سے کانٹا نکالنے پر ایک امیر آدمی کو جنت میں پہنچا دیا گیا ہے۔ کتاب کے مصنفین نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی اسے کس نے جنت میں دیکھا؟ اور خواب میں دیکھا یا کسی اور طرح؟ اس کے علاوہ امت مسلمہ کے مصنوعی بھائی چارے پر بھی ایک مضمون ہے جس میں اس دور کے تمام زمینی حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
یہ کتاب صرف ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ باقی کے سکول کے نصاب میں بھی کس طرح سے پروان چڑھنے والی نسلوں کے دماغ منظم طور پر مفلوج کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب ان سکولوں میں ہو رہا ہے جہاں پر عام آدمی کے بچے پڑھتے ہیں۔ اشرافیہ کے اپنے سکول ان سب چیزوں سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے کے مختلف طبقوں کے اندر شعور، زمینی حقائق، آگے بڑھنے کے مواقع، اور دنیا کو دیکھنے کے نقطہ نظر میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے فرسودہ واقعات اور ہزاروں سال پرانے طریقے نئی نسلوں کے ذہن میں ڈالنے سے یہ خلیج اور بھی گہری ہوتی چلی جائے گی۔ اس سب کا حل صرف اور صرف عقل، دلیل اور سائنسی سوچ کی بنیاد پہ بننے والا نصاب ہے۔
- تیسری جماعت کی اردو اور اشرافیہ کا پروپیگنڈا - 23/04/2025
- پالتو جانوروں اور فصلوں کی مختصر تاریخ - 14/03/2025
- موت کی مارکیٹنگ - 20/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).