اوورسیز پاکستانیوں کی پاکستان میں مشکلات


برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد گزشتہ ہفتے حکومت پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد آئی۔ ان کے بارے میں تاثر تھا کہ اکثریت کو حکومت نے قومی خزانے سے ہوائی جہاز کے ٹکٹ فراہم کئے تھے۔ یہاں قیام کے لئے مہنگے ترین ہوٹل بھی بک کروائے گئے۔ اس کے علاوہ عمومی تاثر یہ بھی تھا کہ اسلام آباد بلائے پاکستانیوں کو درحقیقت پاکستان میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے بلوایا گیا ہے۔

عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہونے کی وجہ سے مجھ کاہل نے مذکورہ معاملات کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ’’خبر‘‘ کی تلاش کے لئے مشقت کرنا ان دنوں ویسے بھی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہو چکا ہے۔ لوگ صحافی سے حقائق جاننے کی توقع نہیں رکھتے۔ فقط اپنے دل و دماغ میں پہلے سے موجود تعصبات کا اثبات چاہتے ہیں۔ ان تعصبات کو جھٹلانے والا ’’بکائو‘‘ اور انہیں کسی نہ کسی طور درست ثابت کرنے والا جی دار حق گو کہلاتا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں وسیع پیمانے پر چھائے تعصبات کی بدولت صحافتی تجسس سے لہٰذا بتدریج محروم ہو رہا ہوں۔ عمر کے آخری حصے میں ستائش اور صلے کی تمنا ویسے بھی ختم ہو جاتی ہے۔

اتفاق مگر یہ ہوا کہ گزشتہ اتوار پیپلز پارٹی کے رہ نما قمر زمان کائرہ کے بچوں کی شادی کی تقریب میں اسلام آباد سے لالہ موسیٰ گیا تھا۔ لالہ موسیٰ، گجرات، جہلم اور کھاریاں کے تقریباََ قلب میں واقع ہے اور ان تمام شہروں سے تقریباََ ہر دوسرے گھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد 1960ء کی دہائی سے پہلے برطانیہ اور بعدازاں یورپ کے تقریباََ ہر ملک میں مقیم ہے۔ وہاں گئے افراد کی بے پناہ تعداد دن رات کی مشقت کے نتیجے میں اب یورپی معیار کے مطابق بھی خوش حال تصور ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک پاکستانی ناصر چوہان بھی ہیں۔ وہ بلجیم میں مقیم ہیں مگر فرانس کی سرحد کے بہت قریب کئی سٹوروں اور پارکنگ پوائنٹس کے مالک ہیں۔ کائرہ خاندان کے دوست ہیں اور ہمارے محکمہ اطلاعات کے سینئر ترین عہدوں پر فائز رہے عزیزازجان دوست رائو تحسین صاحب کے بھی بہت قریب ہیں۔ لالہ موسیٰ سے قبل جہلم شہر گزرنے کے بعد کھانے پینے کی اشیاء کے ایک مقام پر ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کی انکساری نے متاثر کیا۔ چہرے پر ہر وقت دھیمی مسکراہٹ سمائے رکھتے ہیں۔ ان سے گفتگو کرتے ہوئے دریافت ہوا کہ بیرون ملک مقیم  پاکستانیوں کے کنونشن میں شرکت کے لئے مدعو افراد اپنے پلے سے ٹکٹ خرید کر آئے ہیں۔ ان کے اسلام آباد میں تین روز قیام کی ذمہ داری البتہ حکومت نے اپنے سر اٹھا رکھی ہے۔
چوہان صاحب سے گفتگو کے بعد گزرے جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے روز اسلام آباد میں ہوئے کنونشن کے اختتام کے بعد کئی دوست ملاقات کے لئے میرے گھر آئے۔ برطانیہ میں چند مہینے قیام کی وجہ سے ان کے ساتھ 1980ء کی دہائی سے شناسائی کے رشتے استوار ہوئے ہیں۔ ان سے گفتگو کے بعد اندازہ ہوا کہ گزشتہ ہفتے جو کنونشن ہوا ہے اس کی بدولت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو یہ علم ہوا کہ اپریل 2022ء میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد جو حکومتی بندوبست قائم ہوا ہے اس کی فراغت کے امکانات فی الوقت معدوم سے معدوم تر ہورہے ہیں۔ وطن یا بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کو اسی حکومتی بندوبست کے ساتھ کافی عرصے تک گزارہ کرنا ہو گا۔

مجھ سے ملاقات کے لئے آئے پاکستانیوں کا ویسے بھی شکوہ تھا کہ بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی کو نجانے کیوں عمران خان کا شیدائی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ سے آئے دوستوں کا اصرار تھا کہ عمران خان یقینی طورپر اس ملک میں مقیم پاکستانیوں کے لئے کرکٹ کے نامور کھلاڑی، جمائمہ گولڈ سمتھ سے شادی اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کی وجہ سے ایک جانا پہچانا اور کئی حوالوں سے قابل فخر حوالہ ہے۔ اس کے باوجود برطانیہ ہی میں مقیم پاکستانیوں کی کثیر تعداد ان کے طرز حکومت سے مایوس ہوئی۔ وہ بضد رہے کہ سابق وزیر اعظم اگر اپنی پانچ سالہ ٹرم مکمل کرنے کے بعد نئے انتخاب کی طرف بڑھتے تو بدترین شکست سے دو چار ہوتے۔ موجودہ حکمرانوں نے مگر انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وقت سے پہلے فارغ کیا اور اس کے بعد اٹھائے متعدد اقدامات کے ذریعے ’’خواہ مخواہ کا ہیرو‘‘ بنا دیا۔ اس ’’ہیرو‘‘ کی مقبولیت بھی اب برطانیہ اور یورپ میں اتنی توانا نہیں رہی جتنا فرض کی جا رہی ہے۔
امریکہ سے مذکورہ کنونشن کے لئے آئے کسی پاکستانی سے میری گپ شپ نہیں ہوئی۔ زیادہ تر برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں مقیم محدود تعداد ہی سے لمبی گفتگو ہوئی۔ ان سب کی بنیادی فکر ان دنوں یورپ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور غیر ملکی تارکین وطن سے نفرت پر مرکوز ہے۔ اجتماعی طور پر انہیں اپنی بقا اور تحفظ کے سوالات نے پریشان کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں وہ پاکستان میں موجودہ سیاسی تقسیم سے بالاتر ہوکر اپنی بقاء کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔

پاکستان میں کسی حکومت کو گرانے یا لانے سے ہٹ کر بیرون ملک مقیم ہم وطنوں کی حقیقی شکایات ہمارے سفارت خانوں سے ہیں۔ انہیں نائی کوپ (NICOP) جیسے شناختی کارڈ کے حوالے کے علاوہ پاکستان میں ورثے میں ملی جائیداد کی تصدیق اور فروخت وغیرہ کے لئے جو دستاویزات درکار ہوتی ہیں ان کے حصول کے لئے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سفارت خانوں میں تعینات بابو اس امر کا احساس نہیں کرتے کہ لندن آنے کے لئے ’’فریادی‘‘ کو کتنی دِقت سے اس مقام سے رخصت ملتی ہے جہاں وہ کام کرتا ہے۔ ایک دن کی رخصت کے حصول کے بعد وہ دو سے تین گھنٹے کے سفر کے بعد پاکستانی سفارت خانے پہنچتا ہے۔ وہاں اسے ایک لمبی لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اپنی باری آنے پر بھی لیکن کام نہیں ہوتا۔ کوئی معمولی سا اعتراض اٹھا کر کسی اور دن آنے کا حکم صادر فرما دیا جاتا ہے۔ مجھے ملنے والے تمام پاکستانیوں کی تمنا تھی کہ دورِ حاضر کے ڈیجیٹل دور میں ون ونڈو نما بندوبست فراہم کیا جائے۔ غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو ایسے کئی رضا کار میسر ہو سکتے ہیں جو خدمتِ خلق کی خاطر کمپیوٹر کی ون ونڈو کو درکار معلومات فراہم کر دیںگے۔ مناسب مشاہدہ پر بھی کوئی شخص اس ضمن میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

آج سے چند دہائیاں قبل جو افراد مزدوری کے لئے برطانیہ گئے تھے ان کی تیسری نسل بھی ابھی تک خود کو کاملاََ برطانوی معاشرے میں جذب نہیں کر پائی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اپنی جداگانہ شناخت کا احساس بلکہ توانا تر ہو رہا ہے۔ وہ ایسے محلوں میں رہنے کے خواہاں ہیں جہاں مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کی کثیر تعداد آباد ہو تا کہ وہ رمضان اور عید جیسے موقعوں پر خود کو تنہا اور اجنبی محسوس نہ کریں۔ یہ نسل کما کر جمع کرنے نہیں بلکہ تفریح کے نام پر دیگر ملکوں کا سفر کرتے ہوئے خرچ کی عادی ہے۔ یورپ کا تقریباََ ہر تفریحی مقام دیکھ چکی ہے۔ مجھ سے بات کرنے والے پاکستانی اصرار کرتے رہے کہ پاکستان کو اپنے سیاحتی مقامات کو جدید تر بنانے پر توجہ دینا ہو گی تا کہ تیسری / چوتھی نسل کے پاکستانی نژاد خود ہی نہیں بلکہ دیگر ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے دوستوں کو بھی پاکستان میں چھٹیاں گزارنے کو راغب کر سکیں۔ مجھے خبر نہیں کہ ان کے خیالات ا نہیں مدعو کرنے والوں نے کتنی سنجیدگی سے سنے ہیں۔ سنے ہیں تو ان پر عمل پیرائی کے کیا امکان ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments