فلسطینی المیے پر غسان کنفانی کا ناولٹ دھوپ میں لوگ
غسان کنفانی کا ناولٹ ’دھوپ میں لوگ‘ دل کو دہلا دینے والی ایک ایسی کہانی پر مبنی ہے جو فلسطینی پناہ گزینوں کی بے کسی اور مایوس کن زندگی کو اُجاگر کرتی ہے جس میں لوگوں کو اپنے ہی خطے میں بیگانگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہانی تین فلسطینی مردوں ابوقیس، اسعد اور مروان کی جدوجہد کے بارے میں ہے جو 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزرنے پر مجبور ہیں اور روزگار کی تلاش میں کویت کے پرخطر سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ یہ ناولٹ نہ صرف ذاتی مصائب کی داستان ہے بلکہ عرب دنیا کی خاموشی اور بے حسی پر بھی ایک کڑی تنقید ہے۔
ناولٹ کے تعارف کے بعد مصنف کے بارے میں بھی مختصراً معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غسان کنفانی عربی زبان کے ایک نامور ادیب تھے۔ وہ صحافت کے پیشے سے منسلک رہے اور وہ مزاحمتی تحریک کے ترجمان بھی تھے۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے فلسطینیوں کے دردِ جلاوطنی پر خوب لب کشائی کی اور صہیونیت کے خلاف اپنی جدوجہد کو بھی جاری رکھا۔ وہ 1936 میں عکا میں پیدا ہوئے اور 1948 کی جنگ کے بعد خاندان سمیت شام ہجرت کر گئے۔ ان کی تحریریں نہ صرف فلسطینی المیے کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ ظلم، بیگانگی اور انسان کی وجودی کشمکش جیسے اہم موضوعات پر گہری بصیرت بھی رکھتی ہیں۔ ان کا اسلوب علامتی ہے جو سیاسی شعور سے بھرپور ہے جو قاری کو نہ صرف متاثر کرتا ہے بلکہ ان میں بیداری کی روح بھی پھونکتا ہے۔ ان کی ادبیات عرب دنیا میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 1972 میں بیروت میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان کی قربانی نے ان کے افکار و قلم کو مزید تابندگی عطا کی اور آج بھی وہ فلسطینی مزاحمت کی ادبی علامت کے طور پر زندہ ہیں۔
پہلی بار یہ ناولٹ 1963 میں عربی زبان میں ’الرجال فی الشمس‘ کے نام سے شائع ہوا۔ 1978 میں ہلیری کلپٹیرک نے ’مین ان دا سن‘ کے نام سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ 2003 میں ماہر لسانیات شاہد حمید نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا۔
ناولٹ کا پلاٹ تین ایسے افراد کے گرد گھومتا ہے جن کی عمریں تو مختلف ہیں مگر مقصد ایک ہے اور وہ مہاجر کیمپوں سے چھٹکارا پا کر کویت پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ مختلف اسمگلروں سے جان پہچان بڑھاتے ہیں لیکن کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ بالآخر انہیں ایک ایسا شخص مل جاتا ہے جو انہیں ان کی شرائط پر سرحد پار کروانے کی حامی بھر لیتا ہے۔ ابو قیس ایک بوڑھا شخص ہے جو اپنی زمین اور عزت کے کھو جانے پر غم زدہ ہے، اسعد ایک نوجوان ہے جو جمود کا شکار ہے جب کہ مروان سب سے کم عمر ہے اور خاندان کی ٹوٹ پھوٹ اور غربت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ ان کا اسمگلر ابوخیزران سابق مجاہد ہے جو اپنی جسمانی اور روحانی طاقت کھو چکا ہے اور زندہ رہنے کے لیے دوسروں کا استحصال کرتا ہے۔ کہانی کا اختتام اس وقت ہوتا ہے جب یہ تینوں پانی کے خالی ٹینک میں چھپ کر سفر کرتے ہوئے دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔
ناولٹ کے موضوعات کی بات کی جائے تو سب سے اہم اور نمایاں موضوع جلاوطنی ہے۔ یہ ناولٹ فلسطینی مہاجرین کی اس کیفیت کو بیان کرتا ہے جب وہ اپنی ہی سرزمین، شناخت اور گھریلو آسودگی سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان کی جلاوطنی صرف جغرافیائی نہیں، جذباتی اور روحانی بھی ہے جو محض حالات کی تبدیلی نہیں بلکہ مکمل وجودی بحران بھی ہے۔
دوسرا اہم موضوع مایوسی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کرداروں کی زندگیوں میں مایوسی ہر لمحہ جھلکتی ہے۔ وہ جو پیچھے چھوڑ آتے ہیں وہ ایک برباد وطن ہے اور جو آگے ہے وہ صرف دھندلی سی امید یا موت ہے۔ ان کے خواب صرف پیٹ بھرنے، عزت کی زندگی یا گھر والوں کی کفالت تک محدود ہو چکے ہیں۔ مایوسی کی انتہا دیکھیے کہ وہ خاموشی سے اس حالت کو قبول کرتے ہیں کہ جہاں موت بھی سوال کیے بغیر آ جاتی ہے۔
خاموشی اس کہانی کا اہم عنصر ہے۔ جب تینوں پانی کے ٹینک میں دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں تو وہ چیختے نہیں، مدد نہیں مانگتے، کوئی آواز پیدا نہیں کرتے۔ اس کا مطلب صرف موت کو قبول کرنا نہیں ہے بلکہ ایسی قوم کی نمائندگی کرنا ہے جو مسلسل ظلم سہتی ہے۔ اس کے پاس نہ طاقت ہے، نہ آواز اور نہ ہی کوئی مدد۔ ناولٹ کا آخری جملہ: ”تم نے ٹینکی کو کھٹکھٹایا کیوں نہیں؟ تم نے کچھ کہا کیوں نہیں؟ کیوں“ ؟ یہ الفاظ خاموشی کو چیخ میں بدل دیتے ہیں اور قاری کے دل میں ایک ایسا سوال چھوڑ جاتے ہیں جو ہمیشہ گونجتا رہتا ہے۔
کنفانی کی علامت نگاری نے اس کہانی کو مزید خوب صورت بنا دیا ہے۔ پانی کا ٹینک تابوت کی علامت ہے جو جسمانی قید اور سیاسی گھٹن کی نمائندگی کرتا ہے۔ صحرا جسے وہ عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں عرب دنیا کے کھوکھلے وعدوں اور بے فیض وسعت کا استعارہ ہے۔ ابوالخیزران کی شخصیت اس جدوجہد کی ناکامی کی تصویر ہے جو کبھی مزاحمت تھی اور اب صرف ایک کاروبار ہے۔ اس کی مردانہ کمزوری عرب قیادت کی بے عملی اور نظریاتی ناتوانی کی علامت ہے۔
کنفانی کا اسلوب ایک ایسا ادبی معرکہ ہے جس میں علامت، سادگی اور جذبات کی گہرائی ایک ساتھ سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ ناصرف کہانی بیان کرتے ہیں بل کہ اس میں ایک ایسی روح پھونکتے ہیں جو قاری کو ایک لمحے کے لیے بھی بے حس نہیں رہنے دیتی۔ ان کی نثر رواں اور فکری گہرائی لیے ہوئے ہے جس کا ہر جملہ ایک صدمے کی مانند دل پر اثر کرتا ہے۔ کنفانی کے اسلوب کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی علامتی اور استعاراتی طاقت ہے۔
کنفانی کا قلم صرف صہیونیت یا مغربی سامراج پر تنقید نہیں کرتا بلکہ وہ عرب دنیا کی بے حسی، مفاد پرستی اور قیادت کی ناکامی کو بھی نشانہ بناتا ہے۔
”دھوپ میں لوگ“ دل کو چھو لینے والا ایک علامتی و سیاسی ناولٹ ہے جو آج بھی اپنی معنویت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ غسان کنفانی نے ایک سادہ مگر طاقتور کہانی کے ذریعے انسانی تکلیف، سیاسی زوال اور خاموشی کی قیمت کو موثر انداز سے عیاں کیا ہے۔ جب تک دنیا میں جبر، جلاوطنی اور نا انصافی موجود رہے گی یہ کہانی ہمیں جھنجوڑتی رہے گی یہ یاد دلاتے ہوئے کہ ظلم پر خاموشی خود موت کے برابر ہے۔
- فلسطینی المیے پر غسان کنفانی کا ناولٹ دھوپ میں لوگ - 22/04/2025
- دی کائٹ رنر: دوستی، بے وفائی اور ندامت جیسے احساسات پر مبنی ایک اثر انگیز ناول - 27/03/2025
- موت کا دریا (افسانہ) - 23/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).