خاموش چیخ: ایک تصویر اور ایک صدی کا ضمیر


شہرِ غزہ کی تباہ حال گلیوں میں ایک ایسا لمحہ قید ہوا، جو پوری انسانیت کے ضمیر پر سوالیہ نشان بن گیا۔ نو سالہ فلسطینی بچہ ”محمود اجور“ ، جس کی مسکراہٹ شاید پہلے بھی دنیا نے نہ دیکھی ہو، اب اپنے دونوں بازوؤں سے محروم ہو چکا ہے، لیکن اس کی خاموشی پوری دنیا کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ فلسطینی صحافی ”سمر ابوالوف“ کی لی ہوئی یہ تصویر ورلڈ پریس فوٹو 2025 کا عالمی اعزاز جیت گئی۔ جیوری نے اسے ”خاموش“ (Silent) کا عنوان دیا، لیکن درحقیقت یہ تصویر ایک پوری نسل کی چیخ ہے، جو ظلم، بمباری، محرومی اور عالمی بے حسی کے خلاف آسمانوں سے ٹکرا رہی ہے۔

ایک تصویر، ہزاروں آہیں

یہ محض ایک تصویر نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔ محمود کی معصوم آنکھوں میں صرف آنسو نہیں، بلکہ سوالات ہیں۔ جنگ، بمباری، عالمی سیاست، اقوامِ متحدہ کی بے عملی، مسلم دنیا کی خاموشی، اور میڈیا کی جانبداری۔ سبھی پر سوالیہ نشان! سمر ابوالوف، جو خود بھی غزہ کی باشندہ ہیں، اب قطر میں مقیم ہیں، اور جنگ زدہ بچوں کی تصاویر کے ذریعے عالمی ضمیر کو جگانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

محمود کی وہ پہلی پکار

جب اسرائیلی بمباری کے بعد محمود ہسپتال میں ہوش میں آیا اور اسے علم ہوا کہ اس کے بازو کٹ چکے ہیں، تو اس کا پہلا جملہ تھا:

”امی، اب میں آپ کو گلے کیسے لگاؤں گا؟“

یہ جملہ شاید تاریخ کی سب سے بے رحم سچائیوں میں سے ایک ہے، جو جذبات کو پتھر میں ہچکیوں سے تراش سکتی ہے۔ اس ایک سوال نے دنیا بھر کے صحافیوں، دانشوروں، اور فنکاروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

تصویر کی طاقت۔ صحافت کی روح

ورلڈ پریس فوٹو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جمانہ الزین خوری کے مطابق، ”یہ ایک خاموش تصویر ہے، مگر اس کی آواز گونجتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک بچے کی کہانی ہے بلکہ پوری انسانیت پر ہونے والے مظالم کی نمائندگی کرتی ہے۔“

تصویر کی روشنی، زاویہ، اور کمپوزیشن، سبھی مل کر ایسی بصیرت بھری زبان تخلیق کرتے ہیں جو ہر زبان، ہر نسل، ہر قوم کے لیے قابلِ فہم ہے۔ یہ تصویر صرف ایک زخمی بچے کی نہیں، بلکہ پوری غزہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایک خطِّہ جو بمباری کے ملبے، خون آلود کھلونوں، اور مسمار شدہ اسکولوں سے بھرا پڑا ہے۔

مصنوعی بازو، مگر عزم سلامت

محمود اب قطر میں زیرِ علاج ہے، اور اس کا خواب ہے کہ وہ مصنوعی بازو حاصل کر کے عام بچوں جیسی زندگی گزارے۔ اس وقت وہ اپنے پاؤں سے موبائل گیمز کھیلنا، لکھنا، اور دروازے کھولنا سیکھ رہا ہے، مگر روزمرّہ کے معمولات کے لیے اب بھی دوسروں کی مدد درکار ہے۔ اس کے چہرے پر کبھی کبھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے، شاید اسی امید پر کہ ایک دن وہ پھر ماں کو گلے لگا سکے گا۔

مظلومیت نوحہ گر ہے

اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی انروا کے مطابق، دسمبر 2024 تک غزہ بچوں کے اعضا ضائع ہونے کی شرح میں دنیا بھر میں سرفہرست خطّہ بن چکا ہے۔

صرف مارچ 2025 کے دوران غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں کم از کم 1,560 سے 1,700 افراد شہید ہوئے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ بندی کے خاتمے کے بعد 18 مارچ سے اپریل کے اوائل تک 1,563 افراد شہید ہوئے، جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ جبکہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی جارحیت میں 51,065 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور 116,505 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔

سوال باقی ہے : عالمی ضمیر کب جاگے گا؟

جب دنیا کسی تصویر کو ایوارڈ دیتی ہے، تو یہ لمحہ تسلیم کا ہوتا ہے۔ تسلیم کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ لیکن کیا یہ صرف تسلیم کافی ہے؟ کیا یہ عالمی اداروں، سپر پاورز، اور مسلم ممالک کے لیے لمحہ فکریہ نہیں؟ ایک تصویر تو ایوارڈ جیت گئی، لیکن محمود کا بازو؟ اس کی ماں کی نیند؟ اس کی بہنوں کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو؟ یہ سب کس ایوارڈ کے مستحق ہیں؟ ان سوالوں کے جواب میرے پاس نہیں۔ میں اس کا اختتام اختیار حسین اختر چنیوٹی کے شعر پر کرتا ہوں کہ:

رُلا رہی ہے زمانے کو خون کے آنسو
وہ شام جس کو غریبوں کی شام کہتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments