کیا سمندر پار پاکستانی موجودہ نظام بچائیں گے؟
ملک میں موجودہ نظام کو چلانے اور بچانے کی جد و جہد شدت اختیار کر رہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ مل کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مدد سے اب اس نظام کو استحکام دینے کے خواہاں ہیں۔ اس کا اوّلین اظہار اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اوورسیز پاکستانی کنونشن میں ہو چکا ہے۔
اب وزیر اعظم نے آرمی چیف کے ساتھ مل کر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سمندر پاکستانیوں کی خدمات کو سراہا ہے اور سول ایوارڈز دینے کے علاوہ ہمہ قسم سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یوں تو اوورسیز کنونشن میں یہ وعدے صراحت کے ساتھ کیے جا چکے ہیں اور بتا دیا گیا تھا کہ حکومت کیسے سب سے زیادہ سرمایہ پاکستان بھیجنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ہر سال سول ایوارڈ دیا کرے گی۔
اس معاملہ میں شفافیت یقینی بنانے کے لیے وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کا فیصلہ اسٹیٹ بنک فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ یعنی جن لوگوں کے نام سب سے زیادہ سرمایہ پاکستان منتقل کرنے والوں میں شامل ہوں گے، انہیں خود کار رجسٹریشن نظام کے ذریعے سول ایوارڈز کا مستحق سمجھ لیا جائے گا۔ تاہم وزیر اعظم نے آج ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بطور خاص اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل پر غور کیا اور ہدایات جاری کیں۔ اس اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار بھی شریک ہوئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اچانک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ’الفت‘ میں کیوں گرفتار ہو گئی ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کیوں تمام اہم مصروفیات میں سے وقت نکال کر پاکستانیوں کے اس خوش قسمت گروہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس کی ایک سادہ وجہ تو یہی ہے کہ ایک تخمینہ کے مطابق بیرون ملک سے ہونے والی ترسیلات کا جو رجحان اس وقت تک ریکارڈ کیا گیا ہے، اس کے مطابق رواں سال کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانی 38 ارب ڈالر کی خطیر رقم پاکستان بھیجیں گے۔ اس طرح پاکستانیوں کا یہ گروہ ملکی برآمدات سے حاصل ہونے والے زر مبادلہ سے بھی زیادہ ڈالر ملکی خزانے میں فراہم کرنے کا سبب بنے گا۔ زرمبادلہ کی شدید قلت کا سامنا کرنے والی حکومت کو یقیناً ایسے گروہ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو اس مشکل وقت میں زرمبادلہ فراہم کر رہا ہے جب حکومت کو زرمبادلہ کے ذخائر ایک سطح تک مستحکم رکھنے کے لیے چین، سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک سے عبوری قرض لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اور ہر بار اس میں توسیع کے فیصلہ کو نمایاں خبر کے طور پر اہل پاکستان تک پہنچایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت، فوجی قیادت کی مکمل حمایت بلکہ سرگرم شراکت داری کے باوجود ابھی تک ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے کوئی خاص پیشرفت دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے اب ان شعبوں کو قیمتی سمجھا جا رہا ہے جن کے ذریعے ملک کی بڑھتی ہوئی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ ان میں اوورسیز پاکستانی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
شاید یہی وجہ تھی کہ حال ہی میں وزیر اعظم جب بیلا روس کے دورے پر گئے تو دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی فروغ پر تو کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو کے اس وعدے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ ان کا ملک پاکستان سے ایک لاکھ پچاس ہزار کارکنوں کو روزگار فراہم کرے گا۔ شہباز شریف نے اس وعدے کو ایک ہم کامیابی قرار دیا تھا۔ حالانکہ بیرن ملک ورک فورس بھیجنے سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ پاکستان کے پاس اپنے شہریوں کو بیرون ملک بھیج کر وسائل حاصل کرنے کے سوا کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں ہے۔ اوورسیز کنونشن میں جنرل عاصم منیر نے پرجوش تقریر میں اسی نکتہ کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے پاکستان سے باہر جانے والے لوگوں کو برین ڈرین کی بجائے برین گین قرار دے کر واضح کیا کہ اگر کروڑوں لوگوں میں سے چند لاکھ باہر جاکر ملک کے لیے مفید ہوسکتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تاہم اس پالیسی اور طرز بیان سے یہ احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس قومی پیداوار میں اضافہ کے لیے محدود آپشنز ہیں۔ اس لیے اب سمندر پار پاکستانیوں کی صلاحیتوں پر زیادہ بھروسا کیا جا رہا ہے۔
بدقسمتی سے یہ حکمت عملی عبوری نوعیت کی بھی نہیں ہے۔ یعنی حکومت کے پاس ایسا کوئی وسیع المدت منصوبہ موجود نہیں ہے جس پر عمل درآمد سے ملک اوورسیز پاکستانیوں کے دست تعاون کا محتاج نہیں رہے گا۔ اس وقت معدنیات سے لے کر گرین پاکستان تک کے جتنے منصوبے زیر غور ہیں، انہیں کسی نہ کسی سطح پر مزاحمت کا سامنا ہے۔ ملک میں مسلسل سیاسی بے چینی موجود ہے۔ پہلے تو صرف تحریک انصاف کے ساتھ تصادم کی کیفیت تھی لیکن اب پانی کے سوال پر پیپلز پارٹی اور غزہ کے معاملہ پر مذہبی جماعتوں کے ساتھ اختلافات نمایاں ہو رہے ہیں۔ گو کہ اعلان کیا جاتا ہے کہ سب معاملات باہمی افہام و تفہیم سے حل کر لیے جائیں گے لیکن سیاسی منظر نامہ اس کی تائید نہیں کرتا۔
تاہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے اچانک بیدار ہونے والی محبت کا ایک دوسرا پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عام طور سے محسوس کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار سے محرومی کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مدد سے اپنی سیاسی جد و جہد کو زندہ رکھا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں نے پی ٹی آئی کو مالی وسائل بھی فراہم کیے ہیں اور سفارتی لحاظ سے واشنگٹن اور لندن جیسے اہم مراکز میں فیصلہ کن قوتوں تک رسائی حاصل کر کے تحریک انصاف کے لیے سیاسی سپیس پیدا کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اگرچہ بوجوہ یہ عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور عمران خان ابھی تک جیل میں بند ہیں۔ حکومت البتہ اہم ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے عمران خان کی حمایت کا تاثر کم کرنے اور یہ واضح کرنے کے لیے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد درحقیقت پاک فوج اور مملکت پاکستان کی وفادار ہے اور کسی ایک پارٹی کے لیے ملک کو نقصان نہیں پہنچائے گی، ایک ٹھوس اور موثر حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ اوورسیز پاکستانی اس حکمت عملی میں اہم ترین جزو کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اوورسیز پاکستانی کنونشن اور وہاں پر فوج اور پاکستان کے لیے لگائے گئے پرجوش نعروں کے ذریعے درحقیقت تحریک انصاف کے مقابلے میں ایک متبادل بیانیہ استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کے مقتدر حلقے اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانی ان کے بیانیہ یا موقف کو آگے بڑھانے اور خوشحال و پرامن پاکستان کا چرچا کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے ملکی سیاسی منظر نامہ میں اس وقت سمندر پار پاکستانی ایجنڈے میں سر فہرست دکھائی دیتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اوورسیز پاکستانی اس حکومتی ایجنڈے میں حصہ دار بن کر موجودہ نظام حکومت کو فعال اور مضبوط بنانے میں کردار ادا کرسکیں گے۔ اس کا ایک پہلو تو ترسیلات زر ہیں جن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ البتہ اس حوالے سے دو باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک: روزگار کے لیے بیرون ملک جانے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ان ترسیلات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ دوئم: یہ لوگ اسی لیے مشکلات کے باوجود وطن چھوڑتے ہیں تاکہ اپنے اہل خانہ کے لیے وسائل فراہم کرسکیں۔ وہ کسی سیاسی احتجاج کے لیے اپنے اہل خاندان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے وسائل بھیجنے کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے۔ البتہ اس معاملہ کے سیاسی پہلو کا واضح جواب تلاش کرنا آسان نہیں ہو گا۔
سمندر پار پاکستانیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو امریکہ یا دیگر مغربی ممالک میں مقیم ہیں اور اپنا سیاسی موقف بیان کرنے اور اس کے لیے حمایت تلاش کرنے میں آزاد ہیں۔ دوسرا گروہ عرب ممالک میں مقیم ہے جہاں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس لیے وہاں کام کے لیے جانے والے لوگوں کی سیاسی وابستگی یا خواہش کا کوئی جائزہ لینا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کوئی حکومت محض کسی کنونشن میں نعروں یا سول ایوارڈز کا اعلان کر کے ملک سے باہر مقیم پاکستانیوں کی ہمدردیاں حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ لوگ اپنے اہل خاندان کی بہبود کے لیے ملک سے باہر مقیم ہیں۔ اگر حکومت، پاکستان میں امن قائم کرنے، سیاسی مسائل حل کرنے اور ملک میں شفاف جمہوری نظام کے لیے پیش رفت کرنے میں ناکام رہے گی تو چند اعلان اور ایوارڈ سمندر پار پاکستانیوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔
جمہوری معاشروں میں رہنے والے پاکستانی ووٹ کی قدر و قیمت اور آزادی رائے کی اہمیت سے بھی آشنا ہیں۔ ملک میں اگر ان دونوں اقدار کو خطرہ لاحق رہے گا تو اوورسیز پاکستانی ایسے نظام کی حمایت نہیں کریں گے۔
- مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی: ذمہ دارانہ رویہ کی ضرورت - 23/04/2025
- کیا سمندر پار پاکستانی موجودہ نظام بچائیں گے؟ - 22/04/2025
- بلاول کا اعلان جنگ: کیا پیپلز پارٹی یہ جنگ جیت سکتی ہے؟ - 21/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).