نواز شریف کی میدان سیاست میں واپسی۔ پارٹ1


سابق وزیر اعظم نواز شریف کی شخصیت سے جتنا اختلاف کیا جائے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان کے ذکر کے بغیر پاکستان کی نصف صدی کی سیاست نامکمل ہے جب بھی پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا ذکر آئے گا تو ہر طرف ترقی و خوشحالی کی پھیلی ہوئی داستانیں نواز شریف کے دور کا ثبوت فراہم کرتی ہیں نواز شریف نے نہ صرف پاکستان کو بجلی کی پیداوار میں خود کفیل کیا بلکہ پاکستان کو دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک بنایا نواز شریف سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا لیکن اس نے اپنے لئے ایک ایسی راہ اختیار کر لی جس کا انجام ”تختہ دار اور جیل کی کال کوٹھڑی“ ہوتا ہے لیکن اس ”مرد آہن“ نے سیاست سے اپنا ناتا ختم نہیں کیا۔ پرویز مشرف کے دور میں امریکہ اور سعودی عرب مداخلت نہ کرتے تو پرویز مشرف نواز شریف کو نام نہاد طیارہ اغوا کیس میں تختہ دار پر لٹکا چکا ہوتا نواز شریف پرویز مشرف کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر پرویز مشرف کو سزا سے بچنے کے لئے 11 سال جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی۔ عمران خان بھی پچھلے دو سال سے جیل کاٹ رہے ہیں لیکن ان کو سزائے موت کی تھریٹ نہیں لیکن نواز شریف نے پرویز مشرف کے دور میں جن حالات میں جیل کاٹی ہے ان میں پرویز مشرف کا بس چلتا تو وہ ان کو کب کا ”عدالتی قتل“ کے ذریعے سے اپنی راہ سے ہٹا چکا ہوتا۔ گو نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں لیکن انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں انہوں نے اقتدار سے ہٹانے کے لئے کی جانے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بالآخر ان ہی سازشوں کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہو گئے بلکہ انہیں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

8 فروری 2024 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن تو گئی لیکن واحد اکثریتی پارٹی نہ بننے کے باعث مسلم لیگ (ن) کو بھی تخت اسلام آباد پر براجمان ہونے کے لئے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا عام انتخابات میں عوام نے نواز شریف کو اس انداز سے نہیں ”نوازا“ جس کی توقع کی جا رہی تھی لہذا نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم نہ بن سکے شاید انہیں خود بھی لولی لنگڑی حکومت کا وزیر اعظم بننا قبول نہ تھا البتہ انہوں نے ڈوبتی پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔ ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی تنظیم نو کی گئی اور نہ ہی پارٹی میں نئی جان پیدا کرنے کی کوئی شعوری کوشش کی گئی۔ 8 فروری 2024 کے انتخابات نے نواز شریف کو جاتی امرا میں گوشہ نشینی پر مجبور کر دیا۔ نواز شریف کے جاتی امرا میں محصور ہونے سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا پارٹی لیڈر مہینوں اپنے قائد سے ملاقات کے منتظر رہتے ہیں لیکن ان کی ملاقات نہیں ہو پاتی شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے میاں صاحب موجودہ صورت حال سے دلبرداشتہ ہیں 10 اپریل 2022 ء کے بعد ان کا ”بیانیہ“ ختم ہو گیا اور ان کی جماعت پر اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کا الزام لگ گیا نواز شریف نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے اور اپنے انداز سیاست سے جو ”پولیٹیکل کیپیٹل“ کمایا تھا وہ مسلم لیگ (ن) کی 16 ماہ کی حکومت میں ضائع کر دیا گیا ہے جب 2017 کو نواز شریف کو ”عدالتی ہتھکنڈوں“ کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا تو انہوں نے قوم کو ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ دیا ان کا یہ بیانیہ عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کا باعث بنا نواز شریف کو جیل بھیج دیا گیا عمران خان حکومت کی فسطائیت نے نواز شریف کی زندگی اجیرن بنا دی جیل میں ان کی علالت نے خطرناک صورتحال اختیار کر لی تو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور عمران رجیم نے ان کی بگڑتی صحت کا کوئی رسک لینے کی بجائے برطانیہ بھجوا دیا وہاں اللہ تعالیٰ نے نواز شریف کو صحت یاب کر دیا لیکن صحت یابی کے بعد انہوں نے برطانیہ میں اپنا قیام بڑھا دیا اور کم و بیش تین سال تک ”خود ساختہ“ جلاوطنی اختیار کیے رکھی اس دوران انہیں طعنے بھی سننے پڑے لیکن جب عمران خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو نواز شریف بھی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آ گئے اور اپنے آپ کو قانون کی عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیا وطن واپسی کے بعد بدلا بدلا نواز شریف اپنے اس بیانیہ سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا جو اس کی مقبولیت کا باعث تھا دوسری طرف عمران خان نے نواز شریف کے بیانیہ کو اپنا لیا جس سے اس کی گرتی ہوئی مقبولیت کو نہ صرف سہارا مل گیا بلکہ اس کی مقبولیت کا گراف بلند ہو گیا اس کی مقبولیت میں اضافہ میں اس کی کارکردگی کا کوئی عمل دخل نہیں ان کے ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ“ نعروں نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا 8 فروری 2024 ء کے انتخابات نے نواز شریف کو تو نہ نوازا البتہ عمران خان کی مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ مسلم لیگ (ن) اپنے پاور بیس پنجاب میں کلین سویپ نہ کر سکی جس کے باعث نواز شریف کے لئے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کا امکان ختم ہو گیا لیکن وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بن گئی۔

لیکن مسلم لیگیوں کو پیپلز پارٹی کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار کا مزہ نہیں آیا شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں انہیں ہر بڑے فیصلے کے لئے راولپنڈی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور اپنے فیصلوں پر پیپلز پارٹی کی مہر تصدیق لگوانا پڑتی ہے۔ دریائے سندھ پر 6 نہروں کا معاملہ ہی لے لیجیے صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت دریائے سندھ، چناب اور ستلج پر 6 نہریں نکالنے کے فیصلے سے پیپلز پارٹی نہ صرف مکر گئی ہے بلکہ پوزیشن لے لی ہے لہذا اب شہباز شریف حکومت کو نئی نہریں نکالنے کے فیصلے سے پسپائی اختیار کرنا پڑے گی بصورت دیگر ان کی حکومت گر سکتی ہے۔ نواز شریف اس وقت ملک میں سینئر ترین سیاست دان ہیں خطے میں تین بار وزیر اعظم رہنے والے دوسرے لیڈر ہیں ان کے عملی سیاست سے لا تعلق ہو جانے سے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا ہوا ہے جسے بڑی حد تک عمران خان کی ”جارحانہ“ سیاست نے پورا کرنے کی کوشش کی ہے وفاق میں شہباز شریف اور پنجاب میں مریم نواز کی حکومتیں بہت کچھ ڈیلیورکرنے کے باوجود عوام کے دل نہیں جیت سکیں عمران خان کی سیاست کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے والوں کی اکثریت میدان سیاست میں نواز شریف کا رول دیکھنا چاہتی ہے ملک میں دو ہی بڑی سیاسی قوتوں کا ووٹ بینک ہے ایک پی ٹی آئی اور دوسری مسلم لیگ (ن) ۔ فی الحال باقی جماعتیں ان کی جگہ لینے کی پوزیشن میں نہیں لہذا ملکی سیاست میں نواز شریف کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر عمران خان کے بغیر ملکی سیاست نامکمل ہے نواز شریف بھی میدان سیاست کے لئے ناگزیر ہیں (جاری ہے ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments