ظفر اقبال کے تین مسئلے اور میرے پونے چار سوال
اردو کی ادبی تاریخ میں شاید ہی کوئی شاعر ظفر اقبال جیسا متنازع اور اختلافی ہو گا۔ ایک طرف تو ان کے چاہنے والے ان گنت ہیں، جو عہد ساز، جدید غزل کے امام اور پوری دو نسلوں کا ٹرینڈ سیٹر سمجھتے ہیں، تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو انہیں متشاعر اور رطب و یابس کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔
اس کی کئی وجہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اپنی دشمنی کے لیے وہ کسی اور کے محتاج نہیں ہیں، خود ہی یہ کام کر گزرتے ہیں۔ انہوں نے زندہ و مردہ شاعروں کے ساتھ جھگڑا مول لے کر اور اپنے اخباری کالم ’دال دلیہ‘ میں غالب، میر و اقبال کے اشعار کی ’مرمت‘ کر کر اپنی مرمت کی خاطر مخالفوں کے گوپھنوں کو جھولی بھر بھر پتھر فراہم کر دیے ہیں۔ پھر انہوں نے ’گلافتاب‘ میں جو لسانی تجربے کیے، وہ آج ساٹھ سال بعد بھی ہضم نہیں ہو سکے، نہ انہیں، نہ مخالفوں کو، یہ الگ بات کہ انہوں نے خود ہی چند سال بعد اس تجربوں سے رجوع کر لیا تھا۔
دوسری طرف وہ شمس الرحمٰن فاروقی کے ایک مبینہ قول کو علم بنا کر خود کو غالب سے بڑا شاعر ٹھہرانے کا جلوس سالہاسال سے نکال رہے ہیں، اور احساس ہی نہیں کہ اس سے خود ان کا جلوس نکل رہا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے ظفر اقبال کو غالب سے بڑا قرار دیا ہے یا نہیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ فن کار کا مقام اس کا کام طے کرتا ہے، یا کسی نقاد کا قول؟
مرزا یگانہ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ’غالب شکنی‘ میں کھپا دیا۔ اپنی کتاب میں ثابت کیا کہ غالب کے پچاسوں شعر فارسی شعرا کا چربہ ہیں، بلکہ بعض شعر تو غالب نے ہوبہو ترجمہ کر لیے ہیں۔ لیکن اس سے غالب کو کیا فرق پڑا؟
ایک اور بڑا اور مستقل مسئلہ یہ ہے کہ ظفر اقبال کسی قسم کے انتخاب کے قائل نہیں۔ جہاں عام طور پر کوئی شاعر چالیس غزلیں کہہ کر ان میں سے چھانٹ کر دس کتاب میں شامل کرتا ہے، ظفر اقبال کی کوشش ہوتی ہے کہ غنودگی بلکہ بیہوشی میں بھی قسم کا کوئی بھی مصرع سرزد ہو گیا ہو تو وہ کتاب سے چھوٹنے نہ پائے۔ وہ خود یہ کہہ کر گیند قاری کی کورٹ میں ڈال چکے ہیں انتخاب میرا نہیں، پڑھنے والے کا کام ہے۔ اس طرح ان پر جو سیلف گول ہوئے، ان کا حساب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی تو ان کی تنقیدی بصیرت ہی پر شک ہونے لگتا ہے اور یہ شک بعض اوقات یقین میں بدل جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی فنکار کی خود اپنے کام کا معیار جانچنے کی صلاحیت مشکوک ہے تو اس کا فن بھی مشکوک ٹھہرتا ہے۔
اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر خود غالب پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ غالب کا سب سے بڑا اور سب سے ’غالبانہ‘ (Ghalibesque) شعر یہ ہے :
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
لیکن غالب کے دیوان پھرول جائیے، یہ شعر آپ کو نہیں ملے گا۔ کیوں کہ غالب نے اسے انتخاب میں نہیں رکھا تھا۔
صرف ایک شعر کی بات نہیں، غالب کے متروک کلام میں ایک سے ایک بڑھ کر نگینہ پڑا ہوا ہے، جن میں غالباً ان کا دوسرا اعلیٰ ترین شعر بھی شامل ہے :
دیر و حرم آئینۂ تکرارِ تمنا
واماندگیِ شوق تراشے ہے پناہیں
(جو بزرگ کہتے ہیں کہ غالب نے ’پا پایا‘ میں پ کی تکرار کی وجہ سے اپنا عظیم ترین شعر رد کیا، انہیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ پھر غالب نے یہ مصرعے کیوں مطبوعہ دیوان میں شامل کیے؟
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں )
لیکن
کیا ہم کسی شاعر کو اس لیے گھٹیا سمجھیں کہ وہ اچھا نقاد نہیں ہے؟
کیا کوئی شاعر اس لیے چھوٹا ہے کہ وہ خود کو غالب سے بڑا سمجھتا ہے؟ (غالب بھی تو خود کو میر سے بڑا گردانتا تھا؟ )
کیا شاعر کا مقام اس سے طے ہو گا کہ وہ جھگڑالو کتنا ہے؟
کیا یہ تنقیدی کلیہ طے نہیں کہ کسی فنکار کی قدر کا تعین اس کے اعلیٰ ترین کام پر ہوتا ہے، نہ کہ اس کے بدترین کام پر؟ سو مثالیں سامنے ہیں مگر ایک پر اکتفا کرتا ہوں : منٹو نے 180 کے قریب افسانے لکھے ہیں، ان میں سے 15، 20 ہی اعلیٰ معیار کے ہیں، 20، 25 اچھے افسانے ہوں گے، اور درجنوں ایسے ہوں گے جنہیں بالکل ردی کہا جا سکتا ہے۔ ایک افسانہ تو چیخوف کے Sleepy کا ہوبہو چربہ ہے۔ تو کیا کوئی نقاد منٹو کے خراب ترین 20 افسانے نکال کر، ان کی مثالیں دے کر انہیں ردی افسانہ نگار قرار دے سکتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ منٹو کے فن پر جب بھی بات ہو گی تو وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، نیا قانون، بابو گوپی ناتھ، موذیل، کالی شلوار اور ان جیسے افسانوں کے حوالے سے ہو گی؟
کیا ظفر اقبال کے مقام کا تعین ’او قطرینہ،‘ ’شاعر وہی شاعروں میں اچھا/شاعری کو جو کھا جائے کچا (یہ شعر ظفر اقبال کا ہے ہی نہیں ) ، ‘ چمک چمکارنے شب شیر نے کے /مزے محکم الف انجیر نے کے ’جیسے شعروں کی بنا پر کیا جائے گا یا نیچے دیے گئے ایک سو ایک شعروں کی بنیاد پر؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کی راہوں میں بکھر جائے یہ خاکسترِ چشم
اور اپنے لیے دیدار کا مطلب کیا ہے
٭٭٭
دل کا پتہ سرشکِ مسلسل سے پوچھیے
آخر وہ بے وطن بھی اسی کارواں میں تھا
٭٭٭
فرازِ شام سے گرتا رہا فسانۂ شب
گدائے گوہرِ گفتار نے سنا ہی نہیں
٭٭٭
نکل کے دل سے رکے اشک اندھیری آنکھوں میں
مسافرانِ محبت کو آئی شام کہاں
٭٭٭
روشن تھا ظفر وسط میں مہتابِ ملاقات
میں چاروں طرف ہالۂ ہجراں کی طرح تھا
٭٭٭
بادِ خزاں سے الجھا ہوا خواب خواب چاند
اک پھول ہے کہ جس سے مہکتا ہے آسمان
٭٭٭
رواں رہا مرے سینے پہ رات کا دریا
گھرا تھا سر پہ سیہ آسماں گھٹا ہو کر
٭٭٭
یہی تیغ تیز تلی ہوئی، یہی زخم ناب کھلا ہوا
سرِ شاخِ ظلمتِ زندگی یہی ماہ تاب کھلا ہوا
٭٭٭
تختۂ لالہ کی ہر شمعِ فروزاں جانے
کس بھلاوے میں مجھے دیکھ کے لہرائی ہے
٭٭٭
تارے سے دل میں ٹوٹتے رہتے ہیں اے ظفر
اور ساری ساری رات دھڑکتا ہے آسمان
٭٭٭
ہزار عذر تراشے بہارِ لالہ فروش
میں اپنا حصہ گلستاں سے لے کے ٹلتا ہوں
٭٭٭
ہر سو تِرے وجود کی خوشبو تھی خیمہ زن
وہ دن کہ اپنا گھر بھی ترا گھر لگا مجھے
٭٭٭
روبرو کر کے کبھی اپنے مہکتے سرخ ہونٹ
ایک دو پل کے لیے گل دان کر دے گا مجھے
٭٭٭
کچھ دیر پھڑ پھڑا کے نکل جائیے مگر
وہ دامِ دل پذیر کہیں زیرِ پر تو آئے
٭٭٭
جیسے گلِ سیاہ بکھرتا ہو عرش پر
گرتی رہیں زمیں پہ اندھیرے کی پتیاں
٭٭٭
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے ظفرؔ
کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے
٭٭٭
رات کر دیتی ہے ٹکڑے ٹکڑے
ایک سوتا ہوں، کئی اٹھتا ہوں
٭٭٭
زحمت ہوا نے بھی نہ اٹھائی ہے آج تک
سڑکوں پہ ہیں ابھی مرے پتے پڑے ہوئے
٭٭٭
پکی سڑکوں والے شہر میں کس سے ملنے جاؤں
ہولے سے بھی پاؤں پڑے تو بج اٹھتی ہے کھڑاؤں
٭٭٭
تم نے جس کیفیت میں چھوڑا تھا
میں ابھی تک اُسی میں بیٹھا ہوں
٭٭٭
ساتواں تو میں ڈھونڈ آیا ہوں
کون سے آسمان پر ہے تو
٭٭٭
میں قتل ہو کے بھی خوشبو بکھیرتا ہوں ظفر
لہو گلاب کی صورت پڑا مہکتا ہے
٭٭٭
تا صبح دمکتی رہی سونا سی مری لاش
کس زہر کی زردی تھی ظفر نیشِ نفس میں
٭٭٭
مدت سے کوئی میرے بھی جیسا نہیں آیا
میں یونہی تو منظر پہ دوبارہ نہیں آیا
٭٭٭
لوگ ہی آن کے یکجا مجھے کرتے ہیں کہ میں
ریت کی طرح بکھر جاتا ہوں تنہائی میں
٭٭٭
مرا ہی عکس نہ ہو در پس خسِ مژگاں
یہ سوچتی ہوئی چلمن ذرا اٹھا تو سہی
٭٭٭
گلی گلی مرے ذرے بکھر گئے تھے ظفر
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا
٭٭٭
چاند کی چاندنی دیتی ہے قرار آنکھوں کو
دل کی موجوں کو مگر زیر و زبر رکھتی ہے
٭٭٭
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف
٭٭٭
نہاں جو رنگِ رواں تھا سکوتِ صحرا میں
اسی کا جلوہ سرِ ساحلِ صدا بھی ہوا
٭٭٭
ہم چلے جائیں تو کیا فرق پڑے گا تجھ کو
شہر بستا رہے گلیوں میں گدا اور بہت
سر سلامت ہے تو سجدہ بھی کہیں کر لیں گے
جستجو چاہیے بندوں کو خدا اور بہت
٭٭٭
محفوظ ہوں اس لیے کہ خود کو
اپنے پیچھے چھپا دیا ہے
٭٭٭
یہ جو انگلیوں کی اشارتوں میں چھپی ہوئی ہیں عبارتیں
کبھی لعلِ شوخ میں گفتگو کا برہنہ باب کھلا ہوا
٭٭٭
کون سے عکسِ عجب کا منتظر ہوں صبح سے
راہ پر بیٹھا ہوں، آئینہ ہے چمکایا ہوا
آگ جنگل میں لگی ہے سات دریاؤں کے پار
اور کوئی شہر میں پھرتا ہے گھبرایا ہوا
٭٭٭
اتنی رونق اور اتنا شور و شیون ہے مگر
لگ رہے ہیں کس قدر تنہا زمین و آسماں
٭٭٭
کتنے دیے جلا گئی شام کی تند رو ہوا
پھول گرا کتاب سے، چاند جھڑا نقاب سے
٭٭٭
تنہا ہی جشنِ مرگِ معانی منائیں ہم
لیکن حصارِ حرف سے باہر صدا تو آئے
٭٭٭
سحر ہوئی تو بہت دیر تک دکھائی دیتا رہا
غروب ہوتی ہوئی رات کا کنارہ مجھے
٭٭٭
ٹوٹ کر الجھی بدن سے وصل کی سرکش ہوا
ایک ہی جھونکے نے کیا جنگل میں منگل کر دیا
٭٭٭
ابھی میری اپنی سمجھ میں بھی نہیں آ رہی
میں جبھی تو بات کو مختصر نہیں کر رہا
٭٭٭
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
٭٭٭
وہ بہت چالاک ہے لیکن اگر ہمت کریں
پہلا پہلا جھوٹ ہے اس کو یقیں آ جائے گا
ہم تو یہ سمجھے تھے اس لشکر کشی سے حسن کا
کچھ علاقہ اور بھی زیرِ نگیں آ جائے گا
٭٭٭
کس تازہ معرکے پہ گیا آج پھر ظفر
تلوار طاق میں ہے نہ گھوڑا ہے تھان پر
٭٭٭
مکاں لرزتے رہے سیلِ غم گزر بھی گیا
ابھی چڑھا ہی تھا دریا ابھی اتر بھی گیا
پڑے دعائیں برہنہ سری کو دو کہ یہاں
جنہیں کلاہ کا خطرہ تھا ان کا سر بھی گیا
٭٭٭
واپسی پر جو لگے ہیں مجھے اپنے جیسے
خوش ہوا ہوں در و دیوار کی ویرانی پر
٭٭٭
پڑے رہو کہ یہ جھنکار بھی غنیمت ہے
کرو گے حلقۂ زنجیر سے نکل کر کیا
٭٭٭
ایک سیڑھی مجھے درکار ہے بس
آسمانوں سے اترنے کے لیے
٭٭٭
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفر
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوں میں
٭٭٭
میں بکھر جاؤں گا زنجیر کی کڑیوں کی طرح
اور اس دشت میں رہ جائے گی جھنکار مری
٭٭٭
ازل سے گلشن ہستی میں ہے موجود بھی وہ
مگر لگتا ہے جیسے آج ہی تازہ کھلا ہے
٭٭٭
بدن کا سارا لہو کھنچ کے آ گیا رخ پر
وہ ایک بوسہ ہمیں دے کے سرخ رو ہے بہت
٭٭٭
جانے کیا سوجھی کہ اٹھ کر چل دیے یونہی ظفر
رہ گیا گھر میں ہی سامانِ سفر باندھا ہوا
٭٭٭
دیکھا تو کیا میں اسے حیران سا ہو کر
جب جا ہی چکا تب مری پہچان میں آیا
٭٭٭
نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے
یہ گھر بہار کی راتوں میں بے چراغ پڑا ہے
عجب نہیں یہی کیف آفریں ہو شام ابد تک
جو طاق سینہ میں اک خون کا ایاغ پڑا ہے
یہ ایک شاخچۂ غم سے اتنے پھول جھڑے ہیں
کبھی قریب سے گزرو تو ایک باغ پڑا ہے
٭٭٭
لے کے جائیں گے جہاں تک یہ مرے عیب مجھے
غیر ممکن ہے وہاں میرا ہنر لے جائے
٭٭٭
رنگ ہوں تو مجھ سے روشن ہو یہ دیوارِ چمن
سنگ ہوں تو اپنے ہی آئینہ خانے لے چلو
٭٭٭
ہم تو چلے ہی جائیں گے پیدل بھی اے ظفر
ہے مسئلہ کہ جائے گا سامان کس طرح
٭٭٭
جب جھڑا میرا آخری پتہ
آ چکی تھی بہار دنیا پر
٭٭٭
ہمارے خوں سے گزر کر ہی تیغ برق بجھی
ہمارے خس میں اتر کر شرر ہمارا ہوا
٭٭٭
آ کر وہ میری بات سنے اور جواب دے
گر یوں نہیں تو پھر یہ شناسائی ختم ہو
٭٭٭
دل پر کوئی قابو نہ رہا جب تو کسی طور
باندھا ہے یہ وحشی تری زنجیر سے ہم نے
٭٭٭
جاری ہے کہکشاؤں کی بارات اس طرح
میلہ سا جیسے کوئی لگا ہو خلاؤں میں
٭٭٭
ظفر ضعف دماغ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھول جاتا ہوں
*
لہو کی سرسبز تیرگی ہے کہ رنگ اڑتے لباس کا ہے
سمجھ میں آئے کہاں کہ منظر حواس کے آس پاس کا ہے
*
جہاں میرے نہ ہونے کا نشاں پھیلا ہوا ہے
سمجھتا ہوں غبارِ آسماں پھیلا ہوا ہے
میں اس کو دیکھنے اور بھول جانے میں مگن ہوں
مرے آگے جو یہ خوابِ رواں پھیلا ہوا ہے
٭٭٭
میں گھر میں جب نہیں ہوتا تو گھاس کی صورت
دریچہ و در و دیوار سے نکلتا ہوں
٭٭٭
دیا ہے تیغِ تغافل کا وار اگر خالی
تو شاخِ دل پہ ہے یہ زخم کا نشاں کیسا
٭٭٭
خمارِ مرگ سے ہے اب یہ کیفیت کہ کبھی
پیا ہے زہر تو نشہ چڑھا شراب ایسا
خزاں کی شام تھی یا عکسِ نوبہار کوئی
کہ ابر شاخِ ہوا پر کھلا گلاب ایسا
٭٭٭
شب بھر رواں رہی گل مہ تاب کی مہک
پو پھوٹتے ہی خشک ہوا چشمۂ فلک
موجِ ہوا سے کانپ گیا روح کا چراغ
سیلِ صدا میں ڈوب گئی یاد کی دھنک
*
اک نظر میں بھی نظر آ جائے گا وہ سر بہ سر
پھر بھی اس کو دیکھنا بارِ دگر کیسا ہے وہ
٭٭٭
چمکتے چاند بھی تھے شہرِ شب کے ایواں میں
نگارِ غم سا مگر کوئی شمع رو نہ ملا
٭٭٭
کب سے بدنِ شعر کیا رکھا ہے تشکیل
اب اس میں کوئی روح کا کانٹا بھی چبھو دے
٭٭٭
جہاں غرور ہنر پروری ہو پنبۂ گوش
وہاں تکلُّفِ عرضِ نیاز کرنا کیا
انہی رواں دواں لہروں پہ زندگی کٹ جائے
ہو تیرا ساتھ میسر تو پار اترنا کیا
٭٭٭
نکل سکوں قفسِ اعتبار سے باہر
نہیں یہ بھی ہے مرے اختیار سے باہر
٭٭٭
کیا ریت کا اک پھول سا کھل اٹھتا ہے دل میں
جب موجِ ہوا آتی ہے صحرا کی طرف سے
٭٭٭
خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ظفر
پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہیے
٭٭٭
تیرہ درخت پر پڑی آبِ رواں کی روشنی
صبح لپٹ لپٹ گئی موجۂ باریاب سے
گال سے لگ کے سو گئی درد کی زرد رو کرن
زخم کی آنکھ کھل گئی خارِ خمارِ خواب سے
*
تھیں چاروں طرف دھوپ کی دشوار فصیلیں
یوں میرے لیے دشت بھی زنداں کی طرح تھا
٭٭٭
سمٹا ہوں اپنی آنکھ کی پتلی میں اور کبھی
پھیلا تھا آسماں کی طرح ان خلاؤں پر
کیا صبح تھی کہ دل کا صدف کانپتا رہا
سونے سمندروں کی سسکتی صداؤں پر
٭٭٭
رات جگمگ کر اٹھی ہے کچھ اندھیرا سا مگر
دل کے اندر تھوڑی تھوڑی شام رہ جانے سے ہے
٭٭٭
آنسوؤں کی تیز بارش میں جو وا رہتا تھا دل
باغ سا اس آئینے میں زنگ سے پیدا ہوا
چھوڑ دی میں نے بھی اس کی برہمی پر خوئے عجز
امن میری اور اس کی جنگ سے پیدا ہوا
٭٭٭
یہ مہک جو تیر کی طرح میرے مشامِ جاں میں در آئی ہے
اسی باغ میں ہے یہیں کہیں وہ سیہ گلاب کھلا ہوا
کہیں پر بتوں کی ترائیوں میں ردائے آب تنی ہوئی
کہیں بادلوں کے بہشت میں گل آفتاب کھلا ہوا
*
کچھ کہہ سکو تو گوش بر آواز ہیں درخت
ان جنگلوں میں مرگِ صدا کا خطر نہیں
٭٭٭
خالی خولی غبار نکلا
اس خاک سے جو سوار نکلا
٭٭٭
اہلِ بازار میں ہوتا نہ پھروں خوار و زبوں
ایک ہی بار اگر طے میری قیمت کر دے
٭٭٭
سراب دیکھنے کو انتظار کرنے کو
کرو تو کام پڑے ہیں ہزار کرنے کو
٭٭٭
خبر نہیں مجھے مطلوب اور کیا ہے کہ میں
زیادہ خوش نہیں ارض و سما کے ہونے سے
٭٭٭
مجھے دیا نہ کبھی میرے دشمنوں کا پتہ
مجھے ہوا سے لڑاتے رہے جہاں والے
٭٭٭
اب تیسری طرف کو بھٹکتا ہے دھیان کیا
منکر ہیں اپنے اور ہیں کافر خدا کے ہم
اب روٹھ ہی گیا ہے تو اس کو منائیں ہم
آخر کو لوٹ آئے ہیں کچھ دور جا کے ہم
٭٭٭
حد و حساب سے باہر ستم بھی ہیں جس کے
شمار کیجیے اس کی عنایتیں اب کیا
٭٭٭
مچلی ہے جہاں زلفِ خیالات کی خوشبو
پھیلے گی کبھی عطرِ ملاقات کی خوشبو
میں آہ کے جھونکے سے کھلا ہوں سرِ صحرا
ہے چاروں طرف ایک مری ذات کی خوشبو
٭٭٭
کس کو دیتے ہیں اسیروں کی رہائی کا فریب
آپ زنجیر کی جھنکار بدل دینے سے
٭٭٭
وہ ہے برا تو اور ہیں اس سے زیادہ ہی برے
تم ہی بتاؤ کیجیے ترکِ تعلقات کیا
٭٭٭
دنیا تو سمجھتی ہے کہ ہم مرتے ہیں جس پر
اس شوخ سے کچھ اپنی شناسائی بھی ہو گی
٭٭٭
ہمیں رکنا نہیں تھا اس مسافت میں کہیں پر
یہ کیا دیوار ہے جس کے سہارے رک گئے ہیں
٭٭٭
جب سمندر تری آواز سے بھر جاتا ہے
دیر لگتی ہے کنارے کی طرف آنے میں
- ظفر اقبال کے تین مسئلے اور میرے پونے چار سوال - 21/04/2025
- میرا جی: جنسی مریض یا جینئس؟ - 25/05/2020
- ریاست حیدر آباد دکن انڈیا کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوئی - 05/06/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).