انتظامی بحران، سماجی زوال کا محرک بن سکتا ہے
بالآخر وہی ہوا جس کا ہونا ہمارے مقدر میں لکھا ہوا ہے، یعنی ڈیرہ اسماعیل خان میں 12 سالہ بچی کو ”ونی“ کرنے کے دکھ میں مجبور باپ کی خودکشی جیسے دردناک کیس میں نامزد ساتوں ملزمان کو عدالت سے ضمانت پر رہائی مل گئی، جس سے ہم ”ونی“ جیسی انسانیت سوز رسم کی حوصلہ شکنی کا یہ موقعہ بھی گنوا بیٹھے، انتظامیہ اور پولیس کی بے حسی اور سیاسی قیادت کی انسانی دکھوں سے لاتعلقی کی وجہ سے ایڈیشنل سیشن جج نے ناقابل صلح نامہ دفعات کے باوجود اس سنگین مقدمہ میں راضی نامہ قبول کر کے کمزور طبقات کے استحصال کا سبب بننے والے جرگہ سسٹم کو قانونی نظیر فراہم کر دی۔ اس کیس میں پنچایت نے بدنیتی پہ مبنی مفروضہ پر 12 سالہ معصوم بچی کو ”ونی“ کیا تو اسی صدمہ میں بچی کے والد عادل حجام نے نہایت بے بسی کے عالم میں خودکشی کر لی، مرنے سے قبل ریکارڈ کرائے گئے بیان نزاع میں عادل حجام نے کہا ”خود کشی اس لئے کر رہا ہوں کہ شاید یہ قربانی میری معصوم بچی کو“ ونی ”ہونے سے بچا لے“ ۔ لاریب، یہ خودکشی اس امر کا اعلان تھی کہ ہمارا بیمار ریاستی ڈھانچہ کسی کمزور کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے نہ ہی مظلوم کو عدالتوں سے انصاف کی توقع تھی۔ مرکزی دھارے کے میڈیا پہ اس واقعہ کے بارے میں خبروں کی گونج کے بعد معاشرے میں تھوڑی بہت بے چینی پیدا ہوئی تو عوامی ردعمل کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر پولیس نے 7 مارچ کو خود اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے اِس ظلم کا ارتکاب کرنے والوں کو گرفتار کر لیا، ملزمان پر قتل بالسبب، ونی اور چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ جیسی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا لیکن سرکار کی مدعیت کے باوجود مبینہ طور پہ خوف و ترغیب کے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مظلوم گھرانے کو صلح پر مجبور کر دیا گیا، جس کے بعد عدالت نے بھی عیاں بلذات حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے ملزمان کو ضمانت پہ رہائی دینے میں عافیت پائی۔
ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں اُس میں اگرچہ اب بھی کچھ عزت نفس کا احساس اور شرف آدمیت کا شعور زندہ ہے، اس لئے اجڑے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرنے والے عادل حجام نے جاہلیت پہ مبنی ”ونی“ جیسی رسم کے خلاف دلیرانہ مزاحمت کر کے معاشرتی جمود اور ریاستی ڈھانچے کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا تاہم ایک مجبور باپ کی کربناک موت کے باوجود ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں، ضلعی انتظامیہ اور سیاسی قیادت کا ردعمل مایوس کن رہا۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اس عہد جدید میں معاشرے کے کمزور طبقات کسی بھی ناموافق حالات میں بنیادی انسانی حقوق اور عزت نفس کے احساس کو بچانے کے لیے سماج کے اجتماعی تعاون یا ریاستی اداروں کی لازمی قانونی مدد سے محروم ہیں، انہیں جان و مال اور عزت کے تحفظ سے جڑے مسائل کی بابت ریاست کی طرف سے اطمینان بخش زندگی فراہم کرنے کا حق نہیں ملتا، اس لئے مجبور لوگ اپنی عزتوں کے تحفظ کی خاطر نقل مکانی یا خودکشی جیسے انتہائی ناگوار قدم اٹھانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بدترین انتظامی بحران میں مبتلا خیبر پختوں خوا صوبہ میں کئی ناقابل بیان اخلاقی و سماجی مسائل نہایت سرعت کے ساتھ کمزور طبقات کے لئے باعزت زندگی گزارنے کے امکان کو کم کر رہے ہیں، جس سے مشرقی روایات، اخلاقی اقدار اور باہمی احتیاج پہ مبنی وہ مقدس سماجی رشتے بھی معنویت کھونے لگے ہیں، جو صدیوں سے ہمارے معاشرتی وجود کو مربوط رکھے ہوئے تھے، اِسی سہل انگاری کی بدولت وہ سماجی ادارے جو قبل از تاریخ سے چلے آ رہے تھے، ہماری آنکھوں کے سامنے ایسے دم توڑ رہے ہیں، جیسے وہ کوئی سطحی عادتیں ہوں جنہیں ہم نے عارضی طور پہ اپنا کر ترک کر دیا ہو، وہ بہادری اور اولالعزمی جس میں عورتوں کے ساتھ نرمی برتی جاتی تھی، ختم ہوتی جا رہی ہے، یہی وہ اقدار تھیں جو ایک صحت مند جسم کے ساتھ ہمیں شرم و حیا، غیرت و حمیت اور باہمی احترام جیسی تہذیب بھی سکھاتی تھیں، بدقسمتی سے آج کل ہمارے نوجوان ان گناہوں کی نمائش سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن گناہوں کی مذمت کر کے ہمارے اسلاف فخر محسوس کرتے تھے، ہمارے اجداد باہمی محبت کے ذریعے اپنی زندگیوں کو خوشگوار بناتے رہے کیونکہ جب انسان سے محبت کی جائے تو زندگی کے دکھوں کا ازالہ ہو جاتا ہے چنانچہ اس وقت ہمارے اجتماعی اذہان پہ جس قسم کا اخلاقی، سماجی اور انتظامی بحران سایہ فگن ہے، اگر زیادہ دیر تک برقرار رہا تو ہمارا نظم اجتماعی بکھر جائے گا۔
ہمارے لئے یہاں کمزور گروہوں کی نشاندہی کرنا آسان نہیں کیونکہ مختلف پرتوں کے ساتھ کمزوری کے متعدد اور پیچیدہ عوامل ہیں اور ایسے ہر واقعہ کا معاشرے کے مجموعی دھارے سے الگ کر کے تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہو گا البتہ وہ سیاستدان جو انسانی معاشروں کو ریاست کی صورت میں منظم کرتے تھے ہمت ہار بیٹھے ہیں، جس ریاست کی اولین ذمہ داری لوگوں کو جان و مال اور عزت کا تحفظ، صحت، تعلیم اور آزادانہ نقل و حمل جیسی سہولیات مہیا کرنا تھی وہ خود سہمی کھڑی ہے، بہرحال یہاں کچھ تو سیاسی نظم و ضبط ہونا چاہیے خواہ وہ ابتری کے قریب ہی کیوں نہ ہو جیسا نشاة ثانیہ کے وقت فلورنس میں تھی، عام شہریوں کو اتنا احساس ضرور ملنا چاہیے کہ انہیں قدم قدم پہ موت اور لوٹ کھسوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے چالیس سالوں میں افغانستان میں برپا رہنے والی دو طویل جنگوں کی بدولت خیبر پختونخوا کا پورا انتظامی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ گیا، اسی آشوب کی وجہ سے انتظامی افسران کی فرائض منصبی سے شعوری لاتعلقی اور پولیس جیسی سماجی فورس کی پیچیدہ جنگی عوامل میں تلویث کے خونی نتائج نے پولیس کے مورال کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر مجموعی انتظامی ڈھانچہ کو مضمحل کر دیا۔ مستزاد یہ کہ عسکری گروپوں کے خلاف فوجی آپریشز کے مضمرات ایسی انارکی کی صورت میں سامنے آئے جس میں قانون کا نفاذ دشوار ہوتا گیا چنانچہ پولیس بھی دہشتگردی کے آشوب کو جواز بنا کر سماجی جرائم کا قلع قمع کرنے جیسی بنیادی ذمہ داری سے پہلو بچانے لگی، جس سے لامحالہ قانون کی حکمرانی کا تصور دھندلاتا گیا، ہمہ جہتی بگاڑ کے اسی بہاؤ میں عام لوگ بھی فوری ”انصاف“ کے حصول کی خاطر مسلح گروہوں کی طرف رجوع کرنے لگے۔ گویا حالات کے جبر کے تحت انتظامیہ نے سماج کو ریگولیٹ کرنے جیسے بنیادی فرض کو فراموش کر کے معاشرہ دگرگوں کر دیا، جس کا بدیہی نتیجہ حکومتی رٹ کے خاتمہ کی صورت میں سامنے آیا، عوام کا ریاست پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے، عام آدمی کے لیے صرف یہی راستہ باقی بچا ہے، یا تو وہ خاموشی کے ساتھ خود کو حالات کے سپرد کر دے یا پھر سسٹم کے خلاف لڑنے والے مزاحمتی گروپوں کے ساتھ مل کر باغیانہ مسرت حاصل کرے۔ چنانچہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی وجود اور قانونی نظام کی نفی کرنے والے ایسے تمام غیر قانونی جرگوں / مصالحتی کمیٹیوں کا خاتمہ کیا جائے، پچیس سالوں سے منتظر پبلک سیفٹی کمشن کی تشکیل کے ذریعے پولیس کو جوابدہ بنایا جائے اور انتظامی ڈھانچے کو عوامی خدمات کی فراہمی لئے دوبارہ فعال بنایا جائے۔
- انتظامی بحران، سماجی زوال کا محرک بن سکتا ہے - 21/04/2025
- اسرائیل جنگ ہار چکا ہے؟ - 14/04/2025
- بلوچ قبائل کی ٹرانسفارمیشن کا گداز عمل؟ - 30/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).