نہروں کے خلاف احتجاج اور پیپلز پارٹی
گزشتہ چھ ماہ سے سندھ کے عوام غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر دریائے سندھ پر تعمیر کی جانے والی نہروں کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ان احتجاجات میں سندھ کے ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً 80 فیصد افراد ایسے ہیں جن کے پاس ایک ایکڑ بھی زرعی زمین نہیں ہے، مگر وہ غیرت اور حمیت سے بھرپور ہو کر اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ دریائے سندھ پر کوئی بھی تجاوز انہیں ہرگز قبول نہیں۔
دوسری طرف پنجاب کے سیاستدان اور وہ عناصر جو ان نہروں کی تعمیر کے حامی ہیں، دعویٰ کر رہے ہیں کہ سندھ میں صرف چند قوم پرست عناصر ہی احتجاج کر رہے ہیں، اور باقی عوام کو اس منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں۔ چونکہ ملک کا بڑا میڈیا پنجاب کے ہاتھ میں ہے، اس لیے وہ اپنے بے بنیاد بیانیے کو تقویت دینے کی کوشش کر رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔
سندھ میں نہروں کے خلاف احتجاج چھوٹے پیمانے کی ریلیوں سے شروع ہوا، مگر اب یہ ایک بڑی عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سندھ کے عوام نے پنجاب کے راستے بند کر دیے ہیں۔ اس کے باوجود پنجاب کے سیاستدان اور اردو میڈیا احتجاج کو مخصوص طبقے کی کارستانی قرار دے کر اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان احتجاجوں کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان پاکستان پیپلز پارٹی کو ہوا ہے، کیونکہ ان کا موقف تاخیر سے سامنے آیا اور وہ بھی مکمل واضح نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) مسلسل پیپلز پارٹی پر الزام لگا رہی ہے کہ ان نہروں کی منظوری صدر مملکت نے دی ہے اور پیپلز پارٹی کو ان پر کوئی اعتراض نہیں۔ حالانکہ آئین پاکستان میں صدر مملکت کے پاس ایسے اختیارات نہیں ہوتے کہ وہ کسی بھی منصوبے کی منظوری دے سکیں۔
البتہ صدر ہاؤس میں ”گرین پاکستان انیشیٹو“ کے اجلاس میں صدر آصف علی زرداری نے اگرچہ کوئی اعتراض نہیں کیا، مگر اس خاموشی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو سندھ میں شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ صدر آصف علی زرداری جو کہ 70 سال سے زائد عمر کے ہیں، ان کی سندھ میں سیاسی ساکھ کو شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ عام شہری، حتیٰ کہ چھوٹے بچے بھی ان پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے ہی ان نہروں کی منظوری دی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اپنے صدر مملکت کا دفاع کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہر فورم پر نہروں کی منظوری کا الزام صدر مملکت پر عائد کر رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کی جا رہی ہے اور بلاول بھٹو کی جانب سے نہروں کی مخالفت کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ کسی صورت نہروں کے منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وفاقی وزیر مصدق ملک نے بھی یہ بات واضح کی ہے کہ یہ منصوبہ جاری رہے گا کیونکہ یہ ملک کے مفاد میں ہے۔
لیکن ”ملکی مفاد“ کس کو کہا جا رہا ہے، یہ واضح نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب کے مفاد میں بھی نہیں آتا۔ چولستان اور سرائیکی وسیب کے عوام نے بھی اس منصوبے کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے، یہاں تک کہ سنٹرل پنجاب کی کچھ تنظیمیں بھی اس کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔
آبی ماہرین نے چولستان کینال کو تکنیکی لحاظ سے ناقابلِ عمل اور ماحولیاتی لحاظ سے خطرناک قرار دیا ہے۔ انہی ماہرین میں ایک اہم نام پنجاب سے تعلق رکھنے والے حسن عباس کا بھی ہے، جن کا کہنا ہے کہ صحرائی علاقے میں نہر بنانا ممکن نہیں۔ بھارت نے بھی ایسا تجربہ کیا تھا جس کے نتیجے میں اس کے تین دریا تباہ ہو چکے ہیں۔ ہمیں ان کے تجربے سے سیکھنا چاہیے۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں پانی کی 50 فیصد سے زائد قلت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانی کہاں سے آئے گا کہ نہریں بنائی جائیں؟ کچھ پنجاب کے نمائندے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے حصے کا پانی استعمال کریں گے، مگر یہ واضح نہیں کرتے کہ کس علاقے یا کینال کا پانی لیا جائے گا۔ منصوبے کی دستاویزات میں بھی اس کی وضاحت نہیں ہے۔ سندھ کو خدشہ ہے کہ یہ پانی لنک نہروں سے لیا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ سندھ کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔
پنجاب کے کچھ نمائندے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ منصوبہ برساتی پانی پر مبنی ہو گا، حالانکہ ملک میں اوسطاً اتنی بارشیں نہیں ہوتیں۔ رواں سال کے ابتدائی مہینوں میں تو 70 فیصد بارشیں کم ہوئیں، اور سندھ میں اب تک کوئی خاص بارش نہیں ہوئی۔ اگر بارشیں نہ ہوئیں تو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟ ان صنعتی فارموں کو پانی کی مسلسل ضرورت ہوگی، جو ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
حسن عباس کا کہنا ہے کہ یہ کینال منصوبہ انتہائی مہنگا ہے۔ اس کے بجائے دریائے ستلج کی گہرائیوں سے پانی نکالنا چاہیے جہاں تقریباً 200 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہے۔ اس پر خرچ بھی کم ہو گا اور پانی کا معیار بھی بہتر ہو گا۔ ستلج میں جو پانی بھارت سے آتا ہے، اس میں کیمیکل کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، جو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود پنجاب حکومت بضد ہے کہ یہ منصوبہ ہر حال میں مکمل کیا جائے گا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس منصوبے سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ پنجاب اور وفاقی حکومت کی قانونی حیثیت پر کئی سوالات اٹھ چکے ہیں۔ عوام کی اکثریت مسلم لیگ (ن) کو فارم 47 کی حکومت سمجھتی ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر کل کو پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں معاملات طے ہو گئے تو پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی حمایت کر سکتی ہے، جس سے نون لیگ کی حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) جان بوجھ کر پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کو خراب کرنا چاہتی ہے۔
پیپلز پارٹی اس وقت تین اطراف سے دباؤ میں ہے۔ ایک طرف نون لیگ ان پر قومی اور پنجاب اسمبلی میں شدید تنقید کر رہی ہے، دوسری طرف سندھ کے عوام، جنہوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا، وہ سخت ناراض ہیں۔ اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین کو ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نہ تو اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنا چاہتی ہے، اور نہ ہی سندھ کے عوام کو، مگر اگر وہ سندھ کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی تو سندھ میں بھی ماضی کا قصہ بن جائے گی۔ سندھ کی موجودہ سیاست نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے، جو پیپلز پارٹی سے نالاں ہیں، اور پارٹی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی کہ وہ سندھ میں غیر متعلقہ ہو جائے۔
اس وقت ببرلو میں جو دھرنا جاری ہے، اس میں پورے سندھ کے عوام شریک ہیں۔ ان کی خدمت بھی عوام کر رہے ہیں، جنہیں کسی حکومتی جماعت کی حمایت حاصل نہیں۔ اب تک حکومت کی جانب سے دھرنے کے خلاف کوئی سخت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بیان دیا ہے کہ دھرنا دینا عوام کا جمہوری حق ہے، اور سندھ حکومت دھرنے میں شریک افراد پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرے گی۔
وفاقی حکومت اب تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ خبریں ہیں کہ منگل کو وزیر اعظم اور بلاول بھٹو کی ملاقات متوقع ہے، جس میں ممکنہ طور پر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ ادھر میڈیا میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پنجاب میں پٹرول کی قلت پیدا ہو چکی ہے، اور اگر مزید دو دن راستے بند رہے تو صورتحال سنگین ہو سکتی ہے۔
اب تک دھرنے میں شریک لوگ مکمل طور پر پُرامن ہیں، مگر اگر ان پر ریاست کی جانب سے کوئی سخت ایکشن لیا گیا، جیسا کہ پنجاب کے کچھ وزرا دھمکیاں دے رہے ہیں، تو نتائج انتہائی خطرناک نکل سکتے ہیں۔ اس سے سندھ بھر میں ریاست کے خلاف نفرت پھیل سکتی ہے۔ اس لیے اب وقت ہے کہ وفاقی حکومت اس مسئلے کا سیاسی حل نکالے، اور نہروں اور کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کی زمینیں دینے کا فیصلہ واپس لے، تاکہ سندھ میں امن قائم ہو۔ اگر وفاقی اور پنجاب حکومت اپنے رویے میں لچک نہ لائیں تو حالات ایسے ہو سکتے ہیں جو پیپلز پارٹی کے بھی قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
- نہروں کے خلاف احتجاج اور پیپلز پارٹی - 23/04/2025
- یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل - 25/01/2025
- بڑھتی ہوئی آبادی اور اسکول سے باہر بچے - 14/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).