افلاطون کی غار کی کہانی- کیا ہم اسیرِ غار ہیں؟
افلاطون نے اپنی کتاب ”ریپبلک“ کے ایک باب میں یہ فرضی کہانی بیان کی ہے۔ جو سچائی، حقیقت، انصاف اور خوبصورتی کے تعین کے سفر کو فلسفیانہ انداز میں پیش کرتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک مکالمہ ہے جو سقراط اور اس کے شاگرد گلوکون جو افلاطون کا بھائی تھا، کے درمیان ہوا۔ مگر سقراط نے کوئی کتاب نہیں لکھی اس لیے ہم اسے افلاطون کی تخلیق کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
فرض کیجیے ایک غار ہے جس میں کچھ لوگ پیدائش سے اب تک قید ہیں۔ وہ زنجیروں سے بندھے ہیں۔ نہ حرکت کر سکتے ہیں، نہ پلٹ کر دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی پچھلی جانب بلندی پر آگ جل رہی ہے۔ آگ اور ان کی پشت کے درمیان سے کچھ لوگ اور جانور کچھ چیزوں کو اٹھائے ہوئے گزرتے ہیں۔ ان تمام کے سائے اور پرچھائیاں وہاں قید لوگوں کے سامنے والی دیوار پر ابھرتی ہیں۔ وہ قیدی ان سایوں کے نام رکھتے ہیں، انہیں اصلی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سایہ ہی اصل ہے۔ حقائق کا ان کے ذہنوں میں کوئی تصور موجود ہی نہیں۔ اسی حالت میں ان میں سے ایک قیدی کی زنجیر ٹوٹتی ہے اور وہ غار سے باہر نکل آتا ہے۔ روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ وہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے تو اس پر اشیا کی اصل صورت اور پرچھائیوں کا فرق واضح ہونے لگتا ہے۔ سورج کی روشنی اس پر ہر چیز ظاہر کر دیتی ہے۔ وہ سوچنے سمجھنے لگتا ہے اور اس نتیجے تک آتا ہے کہ جسے میں نے غار میں رہ کر حقیقت سمجھا وہ محض حقیقت کا عکس تھا۔ حقیقت الگ تھی۔ حقائق کی پہچان لے کر وہ واپس غار میں اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹتا ہے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جنہیں تم اصل سمجھ رہے ہو وہ اصل نہیں بلکہ اصل کی نقل، کاپی یا سایہ ہے۔ غار کے قیدی اس پر ہنستے ہیں، اس پر غصہ بھی کرتے ہیں، اسے پاگل قرار دیتے ہیں۔ کوئی بھی حقائق جان جانے والے شخص کا اعتبار نہیں کرتا۔
بنیادی طور پر یہ کہانی افلاطون کے فورمز کے نظریے کو سمجھانے کے لیے بیان ہوئی ہے۔ افلاطون آئیڈیل ازم کا داعی تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ جس طرح سائے حقیقت نہیں ہوتے، کسی اصل چیز کا عکس ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے حواس میں آ جانے والی اشیاء بھی اصلی نہیں ہیں۔ یہ جہان جو ہمارے سامنے ہے، جسے ہم دیکھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں یہ بھی کسی آئیڈیل کا عکس ہے۔ یہ آئیڈیل نہیں ہے۔ آئیڈیل وہ ہے جو اس سب کو بنانے والے کے ارادے یا ذہن میں تھا۔
”خیال وجود سے پہلے ہے۔“ اور ڈیکارٹ کا یہ خیال کہ: ”میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔“ Cogito ergo sum۔ والی ساری بحثیں۔ ابھی ہمارا موضوع نہ تو آئیڈیل ازم ہے، اور نہ ہی افلاطون کی فارم والی تھیوری۔ ابھی تمثیلِ غار کو الگ اور کُلی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔
اس کے کئی پہلو اور کئی جہات ہیں۔ اس میں ہر چیز ایک علامت کے طور پر لی جا سکتی ہے۔ غار شعور، ذات کی آگاہی اور علم سے پہلے کی زندگی کی علامت ہے۔ سورج انسان کے تفکر اور غور اور عقلی صلاحیتوں کی علامت ہے۔ غار کا اندھیرا کم فہمی کو ظاہر کرتا ہے۔ غار سے نکل کر آنکھیں چندھیانے کو ہم اس کشمکش سے تعبیر کر سکتے ہیں جب ہمارے سامنے حقائق رکھے ہوتے ہیں جو ہماری گزشتہ تمام لکھت، پڑھت، سکھت پر لکیر پھیر دیتے ہیں۔ اس وقت ذہن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے یقین نہیں آتا کہ جو کچھ اس نے اولاً سیکھ رکھا ہے وہ جھوٹ، پرچھائیں یا ’فینٹم‘ ہے۔
یہیں ہم علامتوں کے علاوہ کچھ تقابل بھی دیکھتے ہیں۔ آگ اور سورج کا فرق، کنفیوژ اور باشعور شخص کے رویے کا فرق۔ روشنی اور اندھیرے (غار اور غار کے باہر کی دنیا) کا فرق۔ یہ سب موازنے اور تقابل ہم پر بہت کچھ آشکار کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو تازہ تازہ حقائق سے آگاہ ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے جیسے وہ اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آیا ہے، باقیوں کو بھی آنا چاہیے۔ جب کہ اندھیرے کے عادی روشنی کے وجود کے ہی منکر ہیں۔ جو وہ جانتے ہیں، ان کے لیے وہی حقیقت ہے۔ وہ غار سے باہر قدم رکھنا ہی نہیں چاہتے۔ قید پرندوں کے نزدیک اڑان بھرنا جرم ہی تو ہے۔
معاشرے کا باشعور شخص جب بھی انسانوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو دوسرے اسے مدد سمجھنے کے بجائے اسے کچھ اور سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے دفاع میں اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔
یہیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ شعور کے بعد زندگی الگ قسم کی مشکل کا شکار ہوتی ہے۔ اندھیرے غار میں واپس جانا، ایک بدلی ہوئی ذہنی کیفیت کے ساتھ وہیں رہنا۔ یہ ایک عذاب جیسا ہے۔
کہانی یہ بھی بتاتی ہے کہ غار میں رہنا کسی کا اپنا فیصلہ نہیں تھا۔ وہ اس غار میں ہمیشہ سے تھا، اپنی پیدائش سے۔ جیسے ہم اپنی سوچوں، سچائیوں، فکروں، عقیدوں کے غار میں رہ کر اس درجے کو پہنچے ہیں جو آج ہمارا ہے۔ چاہیں تو انہی غاروں کو چن لیں، چاہیں تو باہر کا راستہ لینے کی کوشش میں جت جائیں۔
سچ یہی ہے کہ ہم بھی ان اسیروں کی طرح ہی غار میں مقید ہیں۔ یہ غار ہمارے مستعار مگر غیر ثابت شدہ نظریات ہیں، یہ ہمارے معاشرے کی فرسودہ روایات ہیں، یہ وہ ٹیبوز اور لکیریں جن سے آگے بڑھنا، دیکھنا اور سوال کرنا ممنوع ہے۔ ہمارے لیے وہ پرچھائیاں ہی سچ ہیں جو ہمیں ماں باپ نے معاشرے کے چلن کے نام پر سکھا دیں، ہماری کتابوں اور اداروں نے ہمارے دماغوں کی صفائی کرتے ہوئے گھسا دیں۔ جو کلچر اور میڈیا نے ہمارے ذہن کی دیواروں پر ”پروجیکٹ“ کریں۔ اس کے علاوہ ہمارے لیے کوئی سچ وجود نہیں رکھتا۔ ہمارے لیے انصاف، غیرت، عزت، حسن، کامیابی تک کا معیار پہلے سے طے کر دیا گیا ہے۔ اور ہم کبھی ان معیارات پر سوال نہیں اٹھاتے۔
ہم انہی غاروں میں رہ کر بڑے ہوئے ہیں اور ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ اگر نکلے ہوتے تو ہمارے اذہان اور عزائم دونوں یہ نہ ہوتے جو آج ہیں۔ ہم اتنے سطحی نہ ہوتے۔
سقراط اور گلوکون مکالمے کے آخر میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہر روح اور ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ سچائی اور شعور کو پہچان سکتی ہے۔ بس اسے اپنی جہت کو اس طرف موڑنا ہوتا ہے۔ وہ کسی ایسے نظام کی بات بھی کرتے ہیں جس کے ذریعے انسانی روح کی جہت تبدیل کرنے میں مدد ملے۔
اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم غار میں رہنا پسند کرتے ہیں یا باہر نکل کر اپنی سچائیوں کو عقل کی کسوٹی پر چیلنج کرتے ہوئے خود کو باشعور کرتے ہیں۔
ان غاروں سے باہر آنے کا طریقہ جانتے ہیں کیا ہے؟ ”مکالمہ۔“ میرے مطابق یہی وہ نظام ہے جس کے متعلق سقراط اور گلوکون بات کر رہے تھے۔ ہمارے معاشرے کے اکثریتی مسائل اسی لیے حل نہیں ہوئے کہ ہمارے گھروں سے لے کر سیاسی، مذہبی اور قومی سطح پر مکالمے کا رواج نہیں بنا۔ بات کہی جائے، سنی جائے، اس پر مخالف رائے کا اظہار ہو۔ ان پر بحث ہو، سوال و جواب ہو۔ ان کا تقابل ہو تو یقیناً سچائی کے قریب پہنچنا آسان ہے۔ مکالمے کو نظر انداز کر کے، صرف تعلیم کو ترجیح دینا کبھی بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں کر سکتا۔ تعلیم ہی کافی ہوتی تو ہمارے پڑھے لکھے لوگ باشعور بھی ہوتے۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر کیس میں ایسا نہیں ہے۔
یہاں ایک بات پر دھیان دیں کہ اگر آپ سچائی جان چکے ہیں تو آپ نے سچ نہ جاننے والوں کو کم عقل اور جاہل نہیں کہنا۔ یوں آپ انہیں اپنا دشمن بنا لیں گے۔ آپ کو اپنے مخالف کی بات کی مخالفت نہیں کرنی۔ اس پر دو تین سوال اٹھا دینے ہیں۔ مخالف ان سوالات کے جواب ڈھونڈے گا تو سچائی تک خود ہی پہنچ جائے گا۔ اور آپ کا مقصد بھی یہی تھا، اسے سچائی تک لے جانا۔
سقراطی کلیے اور طریقہ کار کا استعمال بہتر آپشن ہے جس میں مکالمے کے ذریعے کسی بہتر نتیجے پر اکٹھا ہوا جا سکتا ہے۔
افلاطون کی تمثیل غار دانشِ یونان کا درخشاں گوہر ہے۔ یہ دو ہزار سے زائد برسوں سے انسانی شعور کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کا حق ہے کہ زندگی میں کم سے کم ایک بار اسے پڑھا جائے۔
- افلاطون کی غار کی کہانی- کیا ہم اسیرِ غار ہیں؟ - 21/04/2025
- آخر ہم کب تک عقل دشمنی کرتے رہیں گے؟ - 16/04/2025
- غلامی انسانوں کی ہی نہیں سکرینز کی بھی بری ہے - 10/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).