معنی کی تلاش۔ بدعت اور انحراف کی مثال
اُردو افسانے کی روایت کو سوا صدی گزر چکی ہے۔ اس دورانیے میں اِس صنف نے کئی رجحانات سے استفادہ کیا اور خود کو بدلتے تقاضوں سے ہمیشہ ہم آہنگ رکھا۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اس فن کو صحیح معنوں میں برتا اور ایسے افسانے تخلیق کیے جن کو عالمی ادب کے رو برو رکھا جا سکتا ہے۔ اردو افسانے کے ترقی پسند دور کو افسانے کے زریں دور سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیوں کہ اس دور کے تخلیق کاروں نے افسانے کو سماج کے قریب لا کھڑا کیا اور سماج کے اجتماعی دکھ، مُفلسی، ظلم و تشدد اور اِستحصال کو افسانے میں پیش کیا۔ اس کے بعد جدیدیت پسندوں نے افسانے کو مخصوص دائرے سے باہر نکالا۔ اس میں تنوع، قوت اور وسعت پیدا ہوئی اور افسانہ روایتی حد بندیوں سے آزاد ہو گیا۔ اب افسانے کے پلاٹ، ہیئت اور اسلوب کو ان معیارات پر نہیں پر کھا جاتا جن پر پریم چند، کرشن چندر، بیدی اور منٹو کے افسانوں کو پرکھا جاتا رہا ہے۔ اب جب دنیا مابعد جدید دور میں داخل ہو چکی ہے تو اس کے اپنے تقاضے اور معیارات ہیں جن میں بیشتر افسانہ نگار انسان کی داخلی اور خارجی کائنات کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس میں چارلس ڈکنز، ٹالسٹائی، گوگول، موپساں اور ژولاں کی خارجیت کے اثرات بھی ہیں اور دوسری جانب ڈورتھی رچرڈسن، ورجینیا وولف اور جیمس جوائس کے اثرات کے نتیجے میں داخلیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ اکیسویں صدی میں برق رفتاری سے ثقافتی، سیاسی اور تہذیبی سطح پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جنھوں نے فرد کی خارجی زندگی کے ساتھ ساتھ داخلی زندگی پر بھی اثرات مرتسم کیے ہیں۔
نیئر مصطفیٰ، معاصر عہد کے افسانہ نگاروں میں منفرد اور توانا آواز ہے جس کے افسانے قاری کو چونکانے اور حیرت زدہ کرنے میں بے مثل ہیں۔ اسلوب، ہیئت اور کہانی میں نامیاتی ربط پیدا کرنے میں جو سخت ریاضت اور فنی مہارت درکار ہوتی ہے وہ، نیئر مصطفیٰ کے افسانوں میں بدرجہ اتم موجود ہے جس بنیاد پر اسے کہنہ مشق اور تجربہ کار کہانی کار کہا جا سکتا ہے۔ اس کے بعض افسانے اتنے جاندار ہیں کہ وہ کتاب اور کاغذ سے باہر نکل کر قاری کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں اور کئی کئی دن اس کے شعور اور لاشعور کے پردوں پر دستک دیتے رہتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ افسانہ جب قاری کی قلبی کیفیات اور ذہنی واردات میں ہلچل پیدا کر دے تو اسے کامیاب افسانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس طرز کے کئی افسانے ان کے افسانوں کے مجموعے ”معنی کی تلاش“ میں موجود ہیں جو دیر تک قاری کے قلب و ذہن کو اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔ مذکورہ کتاب نیئر مصطفیٰ کی دوسری کتاب ہے۔ اس سے پہلے وہ 2006 ء میں ”نرکھ میں نرتکی“ شائع کر کے ادبی حلقوں میں خود کو منوا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ”ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری“ بھی ان کے تخیل اور تخلیقی صلاحیت کا ثبوت ہے۔
” مینار، گدھ اور مردے“ اس مجموعے کا پہلا افسانہ ہے جس کا انجام قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے کہ جس کردار نے اپنے خوف پر قابو پا کر سماجی ضرورتوں کو شکست دی تھی، موت کے لمحے وہی خوف اس کی نوکِ زبان پر آ گیا ”مجھے پکی قبر میں دفن کرنا بیٹا“ یہ وہ جملہ ہے جس نے اس افسانے میں گدھ اور مینار کو خاص معنی عطا کر دیے ہیں۔ معنی نما کے نیچے سے معنی کو کھسکا کر نئے معنی عطا کرنا نیئر مصطفیٰ کے فنِ افسانہ کا اعجاز ہے۔ مرکزی کردار ”کاما“ مُردوں کے ساتھ عمر گزارنے کے باوجود، اس خوف پر قابو نہیں پا سکا جو گاؤں سے شہر آنے پر اس نے محسوس کیا تھا۔ ”ایک ہاری ہوئی کہانی“ دلچسپ افسانہ ہے جس کی بیانیہ تکنیک انوکھی ہے جو ہمارے ہاں کسی افسانہ نگار نے استعمال نہیں کی۔ مذکورہ افسانہ معاشرے میں عورت کے استحصال کو موضوع بناتا ہے۔ اس موضوع پر اردو ادب میں کئی افسانے تحریر کیے گئے ہیں۔ خالدہ حسین، خدیجہ مستور، رشید جہاں اور زاہدہ حنا نے بطورِ خاص عورت کے مسائل کو موضوع بنایا ہے لیکن تکنیک اور ٹریٹمنٹ نے نیئر کے افسانے کو انفرادیت بخش دی ہے۔ قاری، بوا حمیدن اور اس کی بیٹیوں فائزہ اور غزالہ سے ہمدردی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا جب کہ بوا حمیدن کے شوہر سے کراہت محسوس کرتا ہے جس میں انسانیت کہیں مفقود ہو کر رہ گئی ہے۔ ”کاشی“ ایک طرح کا کرداری افسانہ ہے جس میں کاشی کے کردار کے ذریعے انسانی رویوں اور نفسیات کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانے کی آخری سطر تک افسانہ نگار یہ ظاہر نہیں ہونے دیتا کہ وہ کاشی جو عورتوں سے جنسی تعلقات کی داستانیں سناتا ہے، وہ درحقیقت نامرد ہے۔ اس افسانے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے موضوعات جو ہمارے معاشرے میں ٹیبو کی حیثیت رکھتے ہیں ان پر لکھنے کا حوصلہ نیئر مصطفیٰ میں موجود ہے اور اسے بلا دھڑک اور بے باک انداز میں بیان کرتا جاتا ہے۔ ”رنگ“ ایک ایسے نوخیز کی کہانی ہے جو بلوغت کے زینے طے کر رہا ہے۔ اس دوران میں وہ جن کیفیات سے دوچار ہوتا ہے، اُسے افسانہ نگار نے خوبی سے بیان کیا ہے۔ ”کتیا کا بچہ“ بھوک، افلاس اور خود داری کو موضوع بناتا ہوا افسانہ ہے جس میں مکالمے کی تکنیک سے مدد لی گئی ہے۔ فکشن میں بچوں کے کردار بہت کم پیش کیے گئے ہیں جن سے معاشرے کی سفاکی اور بے رحمی کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہو۔ مذکورہ افسانے کا کردار ایک تو بچہ ہے اور دوسرا زیریں طبقے سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے دوہرے استحصال کا شکار ہے۔ اس وقت میرے ذہن میں محسن خان کا ناول ”اللہ میاں کا کارخانہ“ اور انیس احمد کا ناول ”نکا“ آ رہا ہے جن میں بچے کے کردار سے معاشرتی زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
”پہلی محبت کی آخری کہانی“ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفات پر تحریر کیا گیا افسانہ ہے۔ افسانے میں بے نظیر کی زندگی کے ادوار بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، مرکزی کردار کے بچپن سے جوانی کے سفر کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی وفات پر کئی فکشن نگاروں نے کہانیاں تحریر کیں لیکن ان میں نیئر کو انفرادیت حاصل ہے کہ انھوں نے بے نظیر کے کردار کو ”شہزادی عروسہ“ کے کردار سے ملا کر پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے عباس زیدی کا ناول ”اسیسینیشن آف بے نظیر بھٹو“ جسے عامر حسینی نے ”کفارِ مکہ“ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا ہے، بھی موجود ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ”تکمیل“ اس لیے خاص اہمیت کا حامل افسانہ ہے کیوں کہ اس میں ماورائے جنس کردار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مصنف نے جس باریک بینی سے تیسری جنس کے انسان کی کیفیات کو بیان کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔ ایسا بیان تو مجھے ارون دھتی رائے کے ناول ”بے پناہ شادمانی کی مملکت“ میں انجم کے کردار کے حوالے سے بھی پڑھنے کو نہ ملا۔ مثلاً افسانے کا اقتباس دیکھیں :
”انسان یا تو مرد ہوتا ہے یا عورت اور جو ان دونوں کے بیچ ہوتا ہے، وہ کچھ بھی نہیں ہوتا، شاید اسی لیے میری ماں نے میرے پیدا ہوتے ہی رونا شروع کر دیا اور میرا باپ مجھے ایک گندے سے کپڑے میں لپیٹ کر میرے قتل کے منصوبے بنانے لگا۔ اگر اس دن دائی ماں، گرو جی کے کانوں میں میری پیدائش کی بھنک نہ ڈالتی تو معلوم نہیں آج میں کہاں ہوتی۔“
سو سئیر کے ساختیات کے تصور میں ثنوی تضادات کے جوڑوں پر بات کی گئی ہے جس میں مرد اور عورت معاشرے میں ثنوی تضاد کے طور پر موجود ہیں جس میں مرد کو فوقیت اور عورت کو تحتی حیثیت حاصل ہے۔ ریشم کا کردار ان دونوں کے معنی نما کو بے دخل کر دیتا ہے اور معاشرے کے ماورائی مدلول (اخلاقی نظام) کو اپنی جکڑ میں لیتا محسوس ہوتا ہے۔ بات سو سئیر سے ژاک دریدا اور ژولیا کرسٹیوا کی جانب نکل جائے گی اس لیے اگلے افسانے کو دیکھتے ہیں۔ ”وہ، میں اور خدا“ اور ”بند پنجرے کی آگہی“ اپنی نوعیت کے منفرد افسانے ہیں۔ اسی طرح ”نروان“ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو آسائشوں بھری زندگی ترک کر دیتا ہے۔ افسانے کا اختتام ایسے موڑ پر ہوتا ہے جہاں انسانیت کا جوہر ”محبت“ خود کو آشکار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ”میٹھے چاولوں کی پلیٹ“ دل دہلا دینے والی کہانی ہے جس میں افسانہ نگار نے نفسیاتی حقیقت نگاری اور سماجی امتناعات کے دھاگوں سے کہانی کا تانا بانا بننے کی کوشش کی ہے۔ اس افسانے کو پڑھ کر احمد سلیمان کا یہ شعر ذہن میں آتا ہے :
اُس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
”شیریں، فرہاد اور محبت“ سائبر دور کے معاشقے کی روداد ہے۔ وہ نسل جو خطوط کے دور سے آگے نکل آئی ہے اور اب ای میلز، وٹس ایپ، یوٹیوب اور مصنوعی ذہانت کے دور میں زندہ ہے، وہ ایسی وارداتوں سے غیر مانوس نہیں ہے۔ محبت اب وقتی سرور کے سوا کچھ نہیں اور جو موسم کے بدلنے کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ معنی کی تلاش کا آخری افسانہ ”کرائسس مشین“ کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے۔ یہ ایک دلچسپ اور حیران کن افسانہ ہے جسے سائنس فکشن سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ قاری جو سائنس، نفسیات اور ادب کے مابین انسلاک سے بے زار ہے وہ اس سے لطف نہیں لے سکتا۔
مذکورہ مجموعے کے بیشتر افسانے کرداری افسانے ہیں جن میں کرداروں کی تعمیر اور ارتقا پر تخلیق کار نے سخت محنت صرف کی ہے۔ پوری کتاب میں طوالت کے اعتبار سے معتدل افسانے ہیں کہیں بھی کہانی میں پانی ڈال کر اسے طویل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جو افسانہ نگاری کے فن پر دسترس کی بین دلیل ہے۔ سادہ بیانیہ اور شاعرانہ اسلوب نے ان افسانوں کی قرات کو آسان بنا دیا ہے لیکن تفہیم کے لیے قاری کو ذہنی مشق کرنا پڑتی ہے تب جا کر کہانی کا مرکزی خیال گرفت میں آتا ہے۔ نیئر مصطفیٰ نے اردو کی افسانوی روایت سے انحراف کیا ہے وہ قارئین جو منحرف اور بدعتی افسانہ نگاروں کو پڑھنا چاہتے ہیں وہ اس مجموعے کو پڑھنے کا جتن کریں اور صراط مستقیمیے اس افسانوی مجموعے سے گریز کریں۔
- معنی کی تلاش۔ بدعت اور انحراف کی مثال - 21/04/2025
- چالیس چراغ عشق کے : چند تاثرات - 16/04/2025
- جدید معاشرہ اور صنفی امتیازات - 10/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).