چینی صدر کے حالیہ غیر ملکی دورے اور امریکی صدر کا بیان۔ حقیقت کیا ہے؟


چینی صدر شی جن پھنگ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے سرکاری دورے پر ہیں۔ ان ممالک میں ویتنام، ملائیشیا اور کمبوڈیا شامل ہیں۔ اس دورے کو علاقائی تعاون اور تعلقات کے حوالے سے انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے لیکن اس دورے پر اس وقت گفتگو زیادہ ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس دورے کو امریکہ کے خلاف ایک رنگ دینے کی کوشش کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان اپنی جگہ لیکن اگر ان کے اس بیان کے تناظر میں شی جن پھنگ کے اس دورے کو دیکھا جائے تو کیا واقعی ایسا ممکن ہے اور کیا چین واقعی ایسا چاہتا ہے؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

چین جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اپنے پرامن رویے اور تمام ممالک کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کے لئے جانا جاتا ہے۔ شاید یہی وہ فرق ہے جو موجودہ حالات میں دنیا میں محسوس کیا جا رہا ہے جہاں پالیسیز میں دھونس، غنڈہ گردی اور مفاد کا عنصر غالب ہے اور اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ تحمل، بات چیت اور انسانیت ہے۔

چینی صدر کے اس دورے سے پہلے چین میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کا موضوع ہی ہمسایوں سے تعلقات تھا۔ یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ چین کی خارجہ پالیسی میں ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ چین کے ہمسایہ ممالک کی بات کی جائے تو روس، پاکستان ایسے ممالک ہیں جن کا چین کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تنازعہ نہیں ہے لیکن بھارت اور فلپائن ایسے ممالک ہیں جن کے ساتھ تنازعات کو چین کے سرحدی امور میں اہم سمجھا جاتا ہے لیکن سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ان ممالک کے ساتھ بھی تمام تنازعات میں چین نے مذاکرات کا رویہ اپنایا ہوا ہے اور معاشی تعلقات بھی استوار ہیں۔ سو یہ تو مانا جانا چاہیے کہ چین کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کسی وقتی ضرورت یا صورتحال کے لئے نہیں رہے بلکہ ان میں ایک تسلسل قائم ہے۔

اب بات کرتے ہیں خاص طور پر ان ممالک کی جہاں اس وقت چین کے صدر کا دورہ ہوا۔ ان ممالک میں ویتنام، کمبوڈیا اور ملائیشیا شامل ہیں۔ ویتنام، ملائیشیا اور کمبوڈیا کے ساتھ چین کے تعلقات اور مجموعی طور پر جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی ایسوسی ایشن (آسیان) کے ساتھ عوامی جمہوریہ چین کے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان تعلقات میں دوستی، ہمسائیگی اور باہمی تجارتی فوائد نمایاں ہیں۔ موجودہ دورے کے دوران معاہدوں اور ملاقاتوں سے ہٹ کر بھی اگر جائزہ لیں تو حالات کیا ہیں یہ جانتے ہیں۔

ویتنام کی بات کریں تو یہ دورہ چین اور ویتنام کے درمیان سفارتی تعلقات کی پچھترویں سالگرہ کے حوالے سے ہے جہاں دو سوشلسٹ پڑوسیوں نے دوستی اور بھائی چارے کے طور پر ایک پائیدار رشتہ قائم کر رکھا ہے۔ شی جن پھنگ نے آخری بار دسمبر 2023 میں ویتنام کا دورہ کیا تھا، جب دونوں فریقوں نے مشترکہ مستقبل کے ساتھ چین ویتنام کمیونٹی کی تعمیر پر اتفاق کیا تھا جس کی اسٹریٹجک اہمیت ہے اور اس سے دوطرفہ تعلقات ایک نئے مرحلے پر پہنچے ہیں۔ حالیہ برسوں میں چین اور ویتنام کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون میں مسلسل ترقی ہوئی ہے۔ چین 2004 سے ویتنام کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے، جبکہ ویتنام 2016 سے آسیان میں چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ چینی وزارت تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق دو طرفہ تجارت کا حجم مسلسل چار سالوں سے 200 بلین ڈالر سے تجاوز کر رہا ہے، جو 2024 میں 260.65 بلین ڈالر تک پہنچا ہے اور یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 13.5 فیصد اضافہ ہے۔ ویتنام میں چینی کاروباری اداروں کی براہ راست سرمایہ کاری نے 2024 میں 2.5 بلین ڈالر سے تجاوز کیا تھا جس سے ویتنام چین کے لئے بیرون ملک سرمایہ کاری کا ایک اہم مقام بنا۔

ملائیشیا کی بات کی جائے چینی صدر نے آخری بار 2013 میں ملائیشیا کا دورہ کیا تھا، جب دونوں ممالک نے تعلقات کو ایک جامع اسٹریٹجک شراکت داری تک بڑھایا تھا۔ پھر ایک دہائی بعد ، شی جن پھنگ اور ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے بیجنگ میں مشترکہ مستقبل کے ساتھ چین۔ ملائیشیا کمیونٹی کی مشترکہ تعمیر کے بارے میں بھی ایک معاہدہ کیا۔ چین مسلسل 16 سالوں سے ملائیشیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے، جس کا حجم 2024 میں 212.04 بلین ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچا ہے۔

اسی طرح چین اور کمبوڈیا کے درمیان تعلقات کو دیکھا جائے تو صدر شی جن پھنگ نے آخری بار 2016 میں کمبوڈیا کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ ستمبر 2023 میں، کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن مانیٹ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد چین کو اپنی پہلی سرکاری بیرون ملک منزل کے طور پر منتخب کیا، یہ اشارہ کمبوڈیا کی سفارتی ترجیح کی عکاسی کرتا ہے۔ چین مسلسل کئی سالوں سے کمبوڈیا کا سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار اور تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ چین اور کمبوڈیا کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ، جو یکم جنوری، 2022 کو نافذ العمل ہوا، کمبوڈیا کا پہلا دو طرفہ آزاد تجارتی معاہدہ ہے۔ 2024 میں کمبوڈیا اور چین کے درمیان تجارتی حجم 15.1 ارب ڈالر تک پہنچا جو سال بہ سال 23.8 فیصد کا اضافہ ہے۔

ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہ چین کے ان تین مذکورہ ممالک کے ساتھ تجارتی حجم کو اگر صرف سال 2024 میں ہی دیکھا جائے تو یہ حجم 487.79 بلین یو ایس ڈالرز بنتا ہے۔ اب ہم آتے ہیں اس تاثر کی طرف جس کی بات امریکی صدر نے کی تو جواب یہ دکھتا ہے کہ امریکی ٹیرف جنگ کے چھڑنے سے پہلے بھی ان ممالک کے ساتھ چین کے دیرینہ روابط رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب دنیا میں ہونے والی ہر ملک اور تنظیم کی تجارتی ملاقاتوں کو امریکی ٹیرف جنگ کے حوالے سے ہی دیکھا جا رہا ہے اور یہ اس لئے بھی ٹھیک ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اگر اپنے نظام میں اور دنیا کے ساتھ تجارتی معاملات میں کوئی تبدیلی لاتی ہے تو اس کا اثر پوری دنیا پر ہی پڑتا ہے سو اس انداز میں دیکھنا جائز بھی ہے۔ لیکن اگر ان ممالک کے ساتھ چین کے تجارتی حجم کو امریکہ کے ساتھ چین کے تجارتی حجم سے موازنہ کے طور ر دیکھا جائے گا تو یہ فی الوقت ایک خام خیالی ہو گی کیوں کہ امریکہ جیسی معیشت کے ساتھ تجارتی تعلقات اور تجارتی حجم کو اچانک کسی متبادل سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ چین کے ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو جز وقتی نہیں بلکہ طویل مدتی نظر سے دیکھنا چاہیے کیوں کہ یہی چین کا طریقہ کار بھی ہے۔ چین نے کبھی بھی کسی ملک کے ساتھ تعلقات میں جز وقتی ترجیحات کو اختیار نہیں کیا سو یہ کہنا کہ یہ دورہ اچانک ہے اور اس میں موجودہ صورتحال سے نمٹنے کی کوئی فوری حکمت عملی ہے شاید بہتر نہ ہو گا۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے چین کو ہدف بنانے سے چین نے اپنی گھریلو کھپت کو بڑھانے اور نئے تجارتی مواقعوں سمیت نئی منڈیاں تلاش کرنے کی کوشش پہلے سی کر رکھی تھی اور اس میں اب اضافہ ہو گا کیوں کہ غیر یقینی صورتحال میں ملکی معیشت سمیت بین الاقوامی معیشت کے توازن کو برقرار رکھنے میں چین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ سو امریکی صدر کی سوچ اور بیانیہ اپنی جگہ لیکن اعداد و شمار اور حالیہ رجحانات یہ بتاتے ہیں کہ چین اپنی خود انحصاری اور بین الاقوامی تجارتی تعلقات میں کسی کے خلاف محاذ میں شامل نظر نہیں آتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عالمی دنیا پر امریکی ٹیرفس اور اس سے زیادہ امریکی رویہ کا دباؤ نئے تعلقات اور مواقع پیدا کرنے کی ضرورت پر زور ضرور دے رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments