نمک حرام، گستاخ اور غدار


جعفری صاحب دوسروں سے بہت مختلف آدمی تھے۔ ایک تو وہ عمر میں ہم سے بڑے تھے تو ایک فطری فاصلہ بھی حائل رہتا۔ وہ اکثر اپنی ایک آنکھ نسبتاً ٹیڑھی کر کے فلسفے کی موٹی کتابیں پڑھتے رہتے تھے یا غور و فکر میں مصروف رہتے۔ بعض اوقات چاک کی مٹی کو تراش کر بت اور مورتیاں بناتے رہتے۔

ان کا کام تو سکرپٹ رائٹنگ تھا اور ہمارا پروڈکشن کا، مگر کام زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اکثر ریلیکس ہو کر گپ شپ لگاتے۔ میں طبعاً بزرگوں کے قریب رہنے اور ہم عمروں سے تھوڑا فاصلہ رکھنے والا آدمی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جعفری صاحب اور میں ایک دوسرے کے ساتھ کمفرٹیبل رہتے۔ کبھی کبھار ڈسکشن گہرے فلسفے تک جا پہنچتی۔ ایسے ہی ایک روز کچھ لوگوں کے پارٹی بدلنے پر میں نے عرض کیا کہ جعفری صاحب یہ لوگ تو ”نمک حرام“ ہیں جو کھاتے تو ایک پارٹی کا ہیں اور ووٹ دوسری پارٹی کو دیتے ہیں۔

جعفری صاحب ذرا کمپوز ہو کر سیٹ پر نیم دراز ہوئے، انگڑائی لی اور ریلیکس ہو کر بولے، ”رفاقت تم نے کسی بڑے آدمی کو کسی چھوٹے آدمی کا نمک حرام ہوتے سنا ہے؟“ میں سوال پر متجسس اور حیران ہوا۔ بھنوؤں کو سکیڑ کر کچھ سوچا اور جعفری صاحب کی طرف متوجہ ہوا۔ مجھے کنفیوز پا کر انہوں نے کہا میں سوال بدل کر پوچھتا ہوں۔ ”تم یہ بتاؤ کہ تم نے کسی چوہدری کو کسی“ کمی کمین ”کا نمک حرام ہوتے دیکھا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ“ کاما ”ہی چوہدری کا نمک حرام کہلاتا ہے جب کہ چوہدری یا بڑے کبھی کامے کے نمک حرام نہیں کہلائے گئے۔

میں ان کی اس بات پر واقعی حیران رہ گیا اور عرض کیا کہ اب آپ ہی بتائیں کہ یہ سب ماجرا کیا ہے؟ وہ شروع ہوئے۔ عام زبان میں اس کو سوشل لیبلنگ کہا جاتا ہے۔ یہ لیبل بڑے اور طاقتور لوگوں کی طرف سے چھوٹے اور کم حیثیت لوگوں کو غلام بنانے کے لئے گھڑا گیا ایک لیبل ہے۔ یہ سماجی لیبل اتنا طاقتور ہے کہ ایک کم حیثیت آدمی ہاتھ باندھ کر کہہ سکتا ہے کہ ”سئیں یہ خادم گردن تو کٹوا سکتا ہے مگر آپ سے نمک حرامی نہیں کر سکتا“ ۔ یوں بڑا سئیں اس ایک لیبل کی سماجی طاقت سے سب کمزوروں پر راج کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وڈیرا سئیں جب کسی کو نمک حرام کہہ کر مار دیتا ہے یا قبیلہ بدر کر دیتا ہے تو اسی کی برادری کے باقی لوگ اس عمل کو نہ صرف جائز سمجھ کر چپ ہو جاتے ہیں بلکہ اس پر تھو تھو کرتے ہیں۔

یہی لیبل لوگوں کی ذات کو نیچ یا بالا ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ چوہدری، سیٹھ یا نواب کا لیبل ایک انسان کو عام انسانوں سے برتری اور سماجی حیثیت کا احساس دلاتا ہے جب کہ چوہڑا، چمار، کمی کمین وغیرہ جیسے لیبل لوگوں کو کم مایہ، بے حیثیت، اور نیچ ہونے کا سماجی احساس دلا کر طاقتور کی کرسی اور راج کو اور مضبوط کرتے ہیں۔ اسی طرح کسی ریاست مخالف گروہ کے انتہائی دلیرانہ اقدام کو بھی ریاست بزدلانہ کارروائی کا لیبل دیتی ہے، کیوں؟

وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کو بہادر کہنے یا سمجھنے سے سماجی طور پر ان کے بالا ہونے کا احساس جڑ پکڑتا ہے۔ اسی طرح مقتول اور شہید دونوں کا مطلب ایک ہی ہے مگر دونوں لیبل الگ الگ کیفیات اور ری ایکشن پیدا کرتے ہیں۔ مقتول کا لفظ قاتل کے خلاف جذبات پیدا کرتا ہے، ردعمل اٹھاتا ہے اور ریاست سے انصاف کا تقاضا کرتا ہے جبکہ شہید مرنے والوں کے لیے موت کو گلیمرائز کر کے احساس تفاخر پیدا کرتا ہے اور لواحقین کو اجر کا احساس دلا کر ریاست کی کمزوری کو چھپا دیتا ہے۔ یہ لیبلنگ ریاست کے خلاف لوگوں کے ردعمل کو کمزور کرنے اور اپنے لئے رعایت حاصل کرنے کا جواز دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بے غیرت، گستاخ، غدار، بزدل وغیرہ کے لیبل طاقتور کو کمزور کے مقابلے میں بالا دست بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں یا پھر مخالف فریق کو سماجی سطح پر آئسولیٹ یا تنہا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اس سے جبر کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ یوں طاقتور کی طاقت اور حیثیت کو معاشرتی قبولیت مل جاتی ہے۔ جب آپ کسی پر مذہبی گستاخی کا لیبل لگا دیتے ہیں تو انصاف، ریاست اور عوام اس شخص کے لئے انصاف کا دروازہ بند کر دیتے ہیں۔ یوں نہ صرف اس کے لئے بالائے انصاف تشدد کی راہ ہموار ہو جاتی ہے بلکہ اس پر ”واصل جہنم“ کا اضافی لیبل بھی چپکا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس شخص کے لئے نہ صرف انصاف کی کوئی آواز باقی نہیں رہتی بلکہ گھر والے بھی میت قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

ریاستیں یہی کام ”غدار“ اور شہید کے لیبل کے تحت کرتی ہیں۔ اس سے ایک طرف مائیں شہادت پر فخر سے شکر ادا کرتی ہیں جب کہ سماج دوسرے کی قبر پر بھی تھو تھو کرتا ہے۔ قبائلی اور زرعی معاشرت کے پیدا کردہ ان لیبلز کی آڑ میں کسی کی ذات کو مکمل طور پر رد کرنے یا قبول کرنے کو جدید معاشرہ قرین انصاف نہیں سمجھتا۔ یہ معاشرہ صرف متعلقہ جرم یا خوبی کی بنا پر فرد کے عمل کو قابل تعزیر بناتا ہے۔

میرے دماغ میں اس وقت تمام لیبلز اپنی ہمہ جہت معنویت کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ بے غیرت، ڈرپوک، منافق، گستاخ، مکار، بد چلن، بہادر، سورما، سخی، ایماندار، محب وطن، ، روشن خیال، وفادار جیسے لیبلز کس طرح سے کسی کی ذات کے باقی تمام مثبت یا منفی پہلو چھپا دیتے ہیں اور محض ایک چسپاں کیا گیا لیبل ہی فرد کے مجموعی مکمل کردار کا احاطہ کر دیتا ہے۔

جعفری صاحب تو وقت کی دھند میں یوں چھپے کہ پھر دستیاب نہیں ہوئے مگر ان کی لیبلنگ کے عملی مظاہرات بہت دفعہ دیکھے۔ ایک دفعہ جب غدار، کرپٹ، چور، ڈاکو کے لیبلز لگا کر لوگوں کے منہ پر سیاہیاں پھنکوائی گئیں، بپھرے ہجوموں کے سامنے پھینکا کیا، گولیاں چلوائی گئیں جب کہ ان کے مخالفین کو صادق اور امین کے لیبلز پہنا کر ریاست مدینہ بنانے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ رجیم بدلنے کے ساتھ ہی یہ لیبلز بھی بدل دیے گئے اور یوں ”صبح کے تخت نشیں شام کے مجرم ٹھہرے۔ تاہم اس دوران مذہب کی گستاخی کے لیبلز نے پورے سماج کو اپنے تمام تر تنوع کے باوجود ایک جتھے میں تبدیل کیے رکھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments