احمدیوں پر حملے: مفتی منیب سامنے آئیں!


تحریک لبیک پاکستان کے سینکڑوں مشتعل ارکان نے صدر کراچی میں احمدی اقلیت کی ایک عبادت گاہ پر حملہ کے دوران ویڈیو بنانے والے ایک احمدی کو تشدد سے ہلاک کر دیا۔ طبی رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والے 46 سالہ شخص کے جسم پر درجنوں ضربوں کے نشان تھے، اس کی کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اس کی موت سر پر ہونے والے تشدد کی وجہ سے ہوئی۔

احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ تحریک لبیک کو اس بات پر اعتراض تھا کہ احمدی اپنی عبادت گاہ میں نماز جمعہ کے لیے کیوں جمع ہوئے تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ پولیس کسی بدامنی کے اندیشہ کی وجہ سے علاقے میں موجود تھی۔ پولیس موجود ہونے کے باوجود ہجوم کو اشتعال انگیزی سے نہیں روک سکی اور نہ ہی ایک مظلوم پر تشدد کرنے والوں کو باز رکھنے میں کامیاب ہوئی۔ البتہ اشتعال انگیز مظاہرین کے حملہ کے بعد عبادت گاہ میں موجود 40 احمدی عبادت گزاروں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ بعد میں گھروں کو جانے کی اجازت دے دی گئی۔

ڈی آئی جی سید اسد رضا کا کہنا تھا کہ ’کمیونٹی کے ان افراد کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا‘ ۔ ان نمازیوں کو مشتعل ہجوم کے حملہ کے موقع پر نکالنے کے لیے قیدیوں کی وین میں عبادت گاہ سے پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا تھا۔ گویا ایک طرف احمدی ایک ناجائز اور غیر قانونی حملہ کے نشانے پر تھے تو دوسری طرف پولیس ان کی حفاظت کے مقصد سے ان سے قیدیوں جیسا سلوک کر کے ان پر ’احسان‘ کر رہی تھی۔ بعد ازاں پولیس کے مجاز افسر نے اس ’عزم‘ کا اظہار کیا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔ گویا مظلوم ہونا بھی اس ملک میں قابل تعزیر حرکت ہے کہ اگر پولیس چاہے تو اس کی سزا بھی دلا سکتی ہے۔

پولیس کے طریقے اور پولیس افسر کے بیان سے ملک میں اقلیتوں اور خاص طور سے احمدیوں کی صورت حال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ کراچی کے ان احمدیوں نے نہ تو کسی کو للکارا اور نہ ہی امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ خاموشی سے اپنی عبادت گاہ میں جمع ہوئے تھے لیکن شرپسند عناصر اپنی نماز ادا کرنے کی بجائے احمدیوں کی عبادت میں خلل ڈالنے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔ اس دوران احمدی جماعت کے ایک سرگرم رکن کو حملہ کی اطلاع ملی تو وہ بھی اپنے لوگوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے موقع پر پہنچا۔ جب اس نے مشتعل ہجوم کو عبادت گاہ پر حملہ کرتے اور نعرے لگاتے دیکھا تو اس نے ان کی ویڈیو بنانا شروع کردی۔ تحریک لبیک کے کارکنوں نے اسے پہچان لیا اور اس پر تشدد شروع کر دیا اور مار مار کر اس کی جان لے لی۔

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے ایک بیان میں کراچی میں ہجوم کے تشدد سے ایک احمدی شخص کی ہلاکت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ واقعہ کراچی صدر میں ایک انتہائی دائیں بازو کی تنظیم کی طرف سے عبادت گاہ پر حملے کے دوران پیش آیا۔ امن و امان قائم رکھنے میں ناکامی سے یہ یاددہانی ہوتی ہے کہ ایک خوفزدہ اقلیت کو ریاستی ساز باز سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مارچ کے شروع میں لاہور میں درجنوں احمدیوں کو محض عبادت کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ملک میں احمدیوں کا وقار، زندگی اور عبادت کا حق شدید خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان اگر انسانی حقوق کے لیے عالمی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہتا ہے تو یہ صورت حال تبدیل ہونی چاہیے۔ صدر کراچی میں حملہ کرنے والوں کا سراغ لگا کر کسی دباؤ کے بغیر انہیں سخت سزائیں دلائی جائیں‘ ۔

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی یہ تشویش بے بنیاد نہیں ہے کیوں کہ تشدد کے ایسے واقعات میں عام طور سے کسی نہ کسی عذر پر حملہ آوروں کو یا تو پکڑا ہی نہیں جاتا یا انہیں جلد ہی رہا کر دیا جاتا ہے۔ ایسے حملوں میں ملوث تنظیمیں اپنا اثر و رسوخ یا دھمکیوں کے ہتھکنڈے استعمال کر کے گھناؤنے جرم میں ملوث اپنے ساتھیوں کو چھڑا لیتی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایسے معاملات میں ریاست کو فریق کے طور پر سامنے آنے کی بجائے مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے اور قصور واروں کو سخت سزائیں دلانی چاہئیں۔ کراچی پولیس کے ڈی آئی جی سید اسد رضا نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ’ہم نے ٹی ایل پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم ایف آئی آر درج کرانے کے لیے رشتہ داروں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر وہ مقدمہ درج نہیں کرتے تو ریاست کی جانب سے ٹی ایل پی کے کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی‘ ۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کسی مجرم کے ساتھ رعایت نہیں کی جائے گی اور تمام قصور واروں کو اپنے کیے کی سزا ملے گی۔

تاہم پاکستان میں ایسے واقعات کی تاریخ بتاتی ہے کہ پولیس افسروں اور سیاست دانوں کی طرف سے ایسے بیان محض وقتی غم و غصہ کم کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ بعد میں یا تو ملزموں کے خلاف گواہ سامنے نہیں آتے یا سی سی ٹی وی ریکارڈنگ میں کسی کی پہچان نہیں ہو پاتی۔ ملکی تاریخ میں ایسا شاذ ہی کوئی وقوعہ رونما ہوا ہو جس میں کوئی مذہبی گروہ تشدد میں ملوث ہو اور اس کے کارکنوں یا لیڈروں کو اس جرم میں جوابدہ ہونا پڑا ہو۔ حالانکہ تشدد میں ملوث صرف ان لوگوں ہی کو قصور وار نہیں سمجھا جاسکتا جو اشتعال انگیز تقریروں اور حوصلہ افزائی کے نتیجے میں اقلیتوں پر حملے کرتے ہیں یا ان کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، بلکہ اکسانے والے مولویوں اور ایسی شر پسند تنظیموں کے لیڈروں کو بھی جرم میں ملوث سمجھ کر عدالتوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ تاہم پاکستان کے کمزور نظام عدل اور مذہبی بنیادوں پر پھیلائی گئی شدت پسندی کی وجہ سے ایسا کوئی واقعہ کسی حتمی انجام تک نہیں پہنچتا۔ وقتی خاموشی کے بعد یہ گروہ پھر سے متحرک ہو جاتے ہیں اور شر انگیزی اور فساد پیدا کرنے والی تقریریں از سر نو شروع کردی جاتی ہیں۔

المناک تشدد کا یہ واقعہ کراچی ہی میں بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس میں ممتاز بریلوی عالم مفتی منیب الرحمان کے خطاب کے ایک روز بعد پیش آیا ہے۔ گزشتہ روز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی صاحب نے نہ صرف اقلیت کا لفظ آئین سے نکال کر مسلم اور غیر مسلم پاکستانی کے الفاظ استعمال کرنے کا گراں مایہ مشورہ دیا تھا تاکہ دوسرے عقیدے والوں میں ’احساس محرومی‘ پیدا نہ ہو۔ بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں ’غیر مسلموں کو جتنے حقوق حاصل ہیں دنیا میں کہیں نہیں ہیں‘ ۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’بغیر کسی ثبوت کے مذہب کی جبری تبدیلی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اگر کسی واقعہ میں مذہب کی جبری تبدیلی کا ثبوت ہو تو متاثرہ فریق کا ساتھ دوں گا‘ ۔ صدر کراچی میں احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملہ اور ایک احمدی کو ہجوم کے تشدد میں ہلاک کرنے کا واقعہ کسی دوسرے عقیدے پر عمل کرنے والے لوگوں کے خلاف جبر کی واضح مثال ہے۔ پولیس اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے اہل خاندان کا انتظار کر رہی ہے جو خوف و ہراس کے موجودہ ماحول میں شاید کبھی سامنے نہ آئیں اور مدعی بننے کا حوصلہ نہ کرسکیں۔ ایسے میں مفتی منیب الرحمان کو ’بین المذہب ہم آہنگی‘ کے لیے اپنی کمٹمنٹ ثابت کرنے کے لیے سامنے آنا چاہیے اور اپنی مدعیت میں کراچی میں احمدیوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانی چاہیے۔

واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان بھی بریلوی مسلک سے ہی تعلق رکھتی ہے، اس لیے مفتی منیب الرحمان اگر ایک نا انصافی اور تشدد کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو ان کے کسی ہم مسلک کو انگلی اٹھانے کا حوصلہ نہیں ہو گا۔ اس طرح وہ یہ بھی ثابت کرسکیں گے کہ احمدیوں کو ’غیر مسلم‘ قرار دینے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ بطور شہری انہیں زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا جائے یا تشدد کر کے لوگوں کو مار دیا جائے۔ وہ بتائیں کہ ایسے جرائم میں ملوث لوگ ہی اسلام اور پاکستان کا نام خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اس دعویٰ کا ایک معمولی سا ثبوت بھی دے سکیں گے کہ دوسرے عقائد کے ماننے والوں کو پاکستان میں دنیا بھر سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ یوں تو اس دعوے کو خلاف واقعہ اور حقائق سے برعکس قرار دینے کے لیے صرف ہیومن رائٹس کمیشن کا تازہ بیان ہی کافی ہے لیکن مفتی صاحب اپنے دعوے کی لاج رکھنے کے لیے اگر سامنے آئیں اور کراچی صدر میں رونما ہونے والے واقعہ کی مذمت کر کے ملک کے احمدی بھائیوں کے ساتھ ’اظہار یک جہتی‘ کرسکیں تو کم از کم یہ کہا جا سکے گا کہ ملک میں کوئی تو ایسا مذہبی لیڈر موجود ہے جو اپنے کہے کا لحاظ کرتا ہے اور اپنی بات سچ ثابت کر سکتا ہے۔

مفتی منیب الرحمان کو یاد دلانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ 2017 میں نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ شہر کی ایک مسجد پر ایک انتہاپسند کے حملے کے بعد وہاں کی وزیر اعظم اور حکومت نے سخت موقف اختیار کیا تھا۔ نہ صرف مجرم کو سخت سزا دلائی گئی بلکہ وزیر اعظم بنفس نفیس متعدد مواقع پر مسلمانوں سے ملیں اور انہیں مکمل سیکورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرانے کے علاوہ یہ واضح کیا کہ مسلمان نیوزی لینڈ ہی کا ایک حصہ ہیں اور انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی دوسرے شہری کو حاصل ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ اگست 2019 میں ناروے کے علاقے بیرم کی ایک مسجد میں پیش آیا۔ ایک انتہاپسند نے اس مسجد میں حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن نہ صرف پولیس نے حملہ آور کو فوری گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دلائی بلکہ ملک کی وزیر اعظم اور ولی عہد نے مسجد جاکر مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے دعوے دار علمائے دین پاکستان میں یک جہتی اور اقلیتی عقیدے والوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کی ایسی ایک بھی مثال پیش نہیں کر سکتے۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ حکومت مجبور اور خوفزدہ رہتی ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ دین کا علم لے کر سیاست کرنے والے اور غزہ کے معاملہ پر جہاد کے فتوے جاری کرنے والے مولوی حضرات احمدی اقلیت پر ناجائز اور غیر انسانی تشدد کے خلاف آواز اٹھائیں اور ملک میں حقیقی معنوں میں باہمی احترام کی مثال بنیں۔ یا پھر وہ پاکستان میں اقلیتوں کی حفاظت اور انہیں حاصل ’حقوق‘ کے جھوٹے دعوے کرنے سے اجتناب کیا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 3075 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments