مزاح اور فحاشی میں بہت فرق ہے


پچھلے دنوں وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری صاحبہ نے رات گئے لاہور کے اسٹیج تھیٹرز پر چھاپے مارے اور ان کے معیار کے حوالے سے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اداکاروں کو شوکاز نوٹس جاری کیے۔ اسٹیج ڈرامے کے فن کی بات کی جائے تو یہ ایک فنکار کے لیے بہت ہی اہم مقام ہوتا ہے جہاں وہ ناظرین کے سامنے براہ راست اپنے فن کا مظاہرہ پیش کر کے انہیں محظوظ کرتا ہے۔ ایک زمانے میں اسٹیج شو کے فن کا واقعی معیار ہوتا تھا لیکن افسوس کہ اب پنجاب میں ان شوز کی اکثریت فحاشی اور عریانی کا گڑھ بن چکی ہے۔ انتہائی اخلاق سے گرے ہوئے مکالمے اور ہیجان انگیز رقص ان اسٹیج شوز کی پہچان بن چکا ہے۔ اب اسٹیج شوز دیکھنے والوں کی اکثریت ڈرامے کے لوازمات سے لطف اندوز ہونے کے بجائے مجرا دیکھنے کی غرض سے اسٹیج ڈراموں کے ہال کا رخ کرتی ہے لیکن اسٹیج ڈراموں میں دکھایا جانے والا ڈانس مجرے کی کیٹگری میں بھی نہیں آتا کیونکہ اس میں بھی کچھ رکھ رکھاؤ کا خیال کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں تو ڈانس کے نام پر اخلاق سے گرے ہوئے گانوں پر وہ آئٹم نمبر پیش کیے جاتے ہیں کہ جنہیں سوائے بیہودگی کے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ عظمیٰ بخاری نے انہی چیزوں پر تنقید کرتے ہوئے اسٹیج شوز مالکان سے اس قسم کے گانوں اور رقص پر پابندی کے احکامات دیتے ہوئے ایسے ڈرامے تخلیق کرنے کا مطالبہ کیا جنہیں لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ دیکھ سکیں۔ اس ضمن میں تازہ اطلاعات یہی ہیں کہ اسٹیج فنکاروں اور عظمیٰ بخاری صاحبہ کے مابین مذاکرات طے پا گئے ہیں۔

پاکستانی فنکاروں میں مزاحیہ اداکاری کی بات کی جائے تو ہماری ایک شاندار تاریخ موجود ہے۔ ہماری ڈرامہ انڈسٹری اور فلموں میں تو مزاح کے حوالے سے وہ شاندار کام ہوا ہے جس کی اگر تفصیل بیان کی جائے تو یہ سطور ناکافی ہیں۔ منور ظریف، اطہر شاہ خان، رنگیلا، ننھا، شہزاد قیصر، اسماعیل تارا، معین اختر، عمر شریف، بشریٰ انصاری اور ان کے دیگر ہم عصر فنکاروں کا فن آج بھی ناظرین کے چہروں پر ہنسی بکھیر دیتا ہے۔ ان اداکاروں نے اپنے فن کو زندہ رکھنے کے لیے کسی منفی طریقے کو نہیں اپنایا تھا لیکن افسوس کے موجودہ نسل نے اپنے سینئر فنکاروں کی میراث کو آگے بڑھانے کے بجائے سستے طریقے کا سہارا ڈھونڈ لیا ہے۔

ہمارے ٹی وی چینلز پر بھی بعض دفعہ کچھ ایسا مواد پیش کر دیا جاتا ہے جس پر عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے اور پیمرا کی کارکردگی پر سوال اٹھنے لگتے ہیں اور آج کل تو سوشل میڈیا کے اس دور میں کامیڈی کے نام پر جس بیہودگی کو فروغ دیا جا رہا ہے اس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسٹینڈ اپ کامیڈی اور اپنے چینلز بنا کر بہت سے فنکار اپنے غلیظ فن کا ایسا مظاہرہ کر رہے ہیں جس میں سوائے لچر پن کے کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے کچھ لکھاری حضرات بھی جنہیں عزت و شہرت ٹی وی چینلز کی بدولت حاصل ہوئی وہ اب انہی چینلز کی سینسر پالیسی سے نالاں ہو کر سوشل میڈیا پر کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں لیکن سوائے دل کی بھڑاس نکالنے کے وہ اب تک اس معیار کا کام نہیں کر پائے جو ماضی میں ان سے تخلیق ہوا ہے۔

بہت سے فنکار خود پر تنقید کے جواب میں عوام کے بھارتی فنکاروں یا کسی ممنوعہ کانٹینٹ کی پذیرائی کی مثال دیتے نظر آتے ہیں تو ان سے عرض یہی ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں مثبت اور منفی سوچ رکھنے والے موجود ہوتے ہیں اور ہر معاشرے کے افراد کا اپنا اپنا رہن سہن ہوتا ہے۔ آپ جن کی مثالیں دیتے ہو ان کا تو شروع سے ہی کام کرنے کا انداز ہم سے الگ ہے لیکن اگر کوئی اس ماحول میں رہتے ہوئے محض دوسرے کی کاپی کر کے پذیرائی کا متمنی ہو تو اس کے لیے کوا چلا ہنس کی چال والی مثال صادق آتی ہے۔ عمدہ مزاح کے لیے قطعی ضروری نہیں بیہودہ مذاق، ذومعنی جملے یا گالم گلوچ ہی کی جائے تو اگر آپ واقعی خود کو فنکار سمجھتے ہیں تو کچھ ایسا عمدہ کام کیجیے جو مدتوں آپ کے فن اور نام کو زندہ رکھے اور آپ کے بعد آنے والے آپ کی تقلید کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments