امریکن سول وار کا سپاہی


پاکستان میں شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ انیسویں صدی کے درمیان جب برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کے خلاف بغاوت ناکام ہو چکی تھی اور انگریز ہندوستان کے طاقتور ترین حکمران بن کر ابھرے تھے عین اسی وقت ہزاروں میل دور امریکہ میں ایک ایسا تنازعہ جنم لے چکا تھا جو امریکی تاریخ کی خونخوار خانہ جنگی کا سبب بنا، یہ جنگ چھ سے سات لاکھ جانیں کھا گئی، چار لاکھ لاپتہ انسان اس کے علاوہ ہیں، موت کا المیہ ایک طرف، یہ جنگ زخمیوں اور معذوروں کی شکل میں (جن میں زیادہ تر نوجوان شامل تھے ) اپنے آپ میں جیتا جاگتا سانحہ چھوڑ گئی، جسے نسلوں نے بھگتا۔

کہتے ہیں کہ جنگیں اپنی تمام تر خرابیوں اور ہولناکیوں کے باوجود کچھ نہ کچھ مثبت نتیجہ چھوڑ کر جاتی ہیں، خاص طور پر اگر فتح حق کی ہو، اس خانہ جنگی کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا، جی ہاں یہ جنگ ایک مقدس مقصد کے لیے لڑی گئی، اس میں ایک فریق انسانی غلامی ختم کرنا چاہتا تھا جبکہ دوسرا فریق انسانی غلامی کے حق میں تھا۔

امریکی ریاست کینٹیکی کے ایک غریب کسان اور لکڑہارے کے ایک کمرے پر مشتمل لکڑی کے بنے گھر میں 12 فروری 1809 کو ایک لڑکے نے جنم لیا، صرف نو سال کی عمر میں اس لڑکے کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا، سوتیلی ماں آنے کے بعد گھر کا نظام تو چلتا رہا لیکن باپ اور بیٹے کے درمیان خلیج پیدا ہونا شروع ہوئی، یہی وجہ تھی کہ جب یہ خاندان کینٹیکی سے ریاست انڈیانا اور پھر النوائے (Illinois) شفٹ ہوا تو اس نوجوان نے اپنے باپ کو ایک چھوٹا سا فارم بنانے میں مدد تو ضرور کی لیکن گھر چھوڑ دیا۔

اس غریب لیکن محنتی نوجوان کو علم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا، وہ اپنے حالات کی وجہ سے باقاعدہ سکول تو نہ جا سکا لیکن اپنے طور پر مطالعہ کرنا اور لوگوں سے ادھار کتابیں مانگ کر پڑھنا اس نے کبھی نہ چھوڑا، اس سیلف ایجوکیشن کے ساتھ اس نے چھوٹے موٹے بہت سے کام کیے، مثلاً وہ لکڑہارا بنا، پھر ڈاکیا، کسی کمپنی کو سرویئر چاہیے تھا تو وہ ان کے ساتھ لگ گیا، دوست کے ساتھ مل کر دریا کے کنارے عارضی طور پر آباد ایک قصبے ”نیو سیلم“ میں ایک سٹور بنایا جو نا چل سکا، غرض کہ اس کی زندگی ناکامیوں سے عبارت تھی، یہیں اسے ایک لڑکی سے محبت ہوئی اور محبت کا انجام بھی اچھا نا تھا، وہ لڑکی کسی وبا کا شکار ہو کے چل بسی، یہ دبلا پتلا لمبے قد کا نوجوان اندر سے ٹوٹ چکا تھا، اس نے اس غم میں وہ شہر ہی چھوڑ دیا۔

اسی دوران اس نے دریا میں چلنے والی ایک بڑی کشتی پر نوکری کی اور سامان لے کر پہلی دفعہ نیو اورلینز، لوئزیانا پہنچا، کسی بھی بڑے شہر کا یہ اس کا پہلا دورہ تھا، وہ یہاں کی چہل پہل، عمارتوں، بازاروں اور دریائی بندرگاہ سے بہت متاثر ہوا، لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے ایک ہولناک منظر دیکھا جس نے اسے بری طرح متاثر کیا، یہ تھا انسانی غلاموں کی خرید و فروخت، زنجیروں میں بندھے سیاہ فام مرد، خواتین اور بچے آٹے اور دال کی طرح بولی لگا کر بک رہے تھے، دریائی راستے سے کشتیوں پر دوسرے علاقوں سے ان غلاموں کو لایا جا رہا تھا، ان کی صحت، کام کرنے کی صلاحیت اور عمر کے لحاظ سے قیمت لگ رہی تھی، کچھ بکنے والی عورتوں کے ساتھ بچے بھی تھے، یہ سب وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا، اور دردناک بات یہ تھی کہ یہ صرف اور صرف سیاہ فام تھے، یعنی سفید فام لوگوں نے سیاہ فام پر اس ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ کبھی نہ کبھی وہ اس ظلم کے خلاف آواز ضرور اٹھائے گا اور اگر موقع ملا تو وہ اسے ختم کر دے گا، اس پرعزم اور لمبے قد کے دیہاتی نوجوان کا نام تھا ”ابرہام لنکن“ ، جو بعد میں امریکہ کا صدر بنا۔

سیلف ایجوکیشن، قابلیت اور مطالعہ سے لگاؤ کی وجہ سے ابرہام لنکن باقاعدہ کالج ڈگری کے بغیر ریاست النوائے کی سپریم کورٹ کے ڈائریکٹ امتحان کے بعد وکالت کا لائسنس لینے میں کامیاب ہوا اور بطور وکیل ”سپرنگ فیلڈ“ النوائے سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، وہیں اس نے سیاست میں قدم رکھا اور اپنی مدبرانہ اور دلائل سے بھرپور تقاریر کی بدولت وہ عوام میں مقبولیت حاصل کر گیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ کی شمالی ریاستوں میں صنعتی انقلاب اپنے عروج کی طرف رواں دواں تھا، لوگوں کو اچھی نوکریاں مل رہی تھیں، لوگ خوشحال ہو رہے تھے، مڈل کلاس طبقہ جنم لے رہا تھا، جبکہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں کی معیشت کا انحصار کھیتی باڑی پر تھا، اور کھیتی باڑی کے لیے یہ ریاستیں اور یہاں کے کسان (سستی ترین اور مستقل لیبر) کی وجہ سے مکمل طور پر سیاہ فام غلاموں پر انحصار کیے ہوئے تھے، 1840 کا عشرہ وہ وقت تھا جب ملک میں یہ بحث شدت اختیار کر چکی تھی کہ یہ غیر انسانی فعل ختم ہونا چاہیے جبکہ جنوبی ریاستیں اس بحث کی شدید مخالف تھیں۔

ابرہام لنکن نوجوانی میں کیے گئے ”نیو اورلینز“ کے سفر کو نہیں بھولا تھا، یوں وہ غلامی کے خلاف ایک موثر اور سب سے مضبوط آواز بن کر ابھرا، اس نے شہر شہر اس موضوع پر مباحثوں میں حصہ لیا اور اپنے مخالفین کو خوب پچھاڑا، وہ عوام میں مقبولیت حاصل کر رہا تھا، لیکن بچپن سے چلی ناکامیاں ابھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھیں، اس نے دو دفعہ سینیٹر کا الیکشن لڑا جو وہ ہار گیا۔

لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، ملک کی سب سے بڑی پارٹی ڈیموکریٹ پارٹی کے مقابلے میں ایک نئی ابھرتی ہوئی پارٹی جس کا نام ”ریپبلیکن پارٹی“ رکھا گیا تھا کی نظر ابرہام لنکن پر تھی، (یہ وہی ریپبلیکن پارٹی ہے جس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں)، ریپبلیکن پارٹی نے 1860 کے صدارتی انتخاب کے لیے لنکن کو اپنا امیدوار نامزد کر دیا، جب ابرہام لنکن کو یہ خبر پہنچائی گئی تو وہ اپنے گھر میں موجود روز مرہ کے معاملات میں مصروف تھا۔

اب میدان اس کے ہاتھ میں تھا، اس نے الیکشن کی کیمپین غلامی کے خلاف نعرے کی بنیاد پر چلائی، جنوبی ریاستوں نے اس کی بھرپور مخالفت کی، خوش قسمتی سے ”ڈیموکریٹ پارٹی“ دو حصوں میں بٹ گئی، جب الیکشن ہوا تو لنکن آسانی سے الیکشن جیت گیا، لنکن کے الیکشن جیتتے ہی جنوبی ریاستوں نے بغاوت کر دی، وہ کسی صورت غلامی کا خاتمہ نہیں چاہتے تھے، کیونکہ ان کی معیشت کا انحصار انہیں غلاموں پر تھا۔

11 جنوبی ریاستوں پر مشتمل ”کانفیڈریسی“ کا اعلان کر دیا گیا، ان ریاستوں میں ورجینیا، نارتھ کیرولینا، ساؤتھ کیرولینا، الباما، آرکنساس، ٹینیسی، لوزیانا، جارجیا، ٹیکساس، فلوریڈا اور مسیسیپی شامل تھیں، صدارت سنبھالتے ہی ابرہام لنکن کو سب سے بڑے چیلنج کا سامنا تھا، 1861 میں سول وار کا باقاعدہ آغاز ہوا، ایک طرف جنوبی ریاستوں کا اتحاد تھا جبکہ دوسری طرف شمالی ریاستوں پر مشتمل اتحاد جس کو ”یونین“ کا نام دیا گیا (جس کی سربراہی لنکن کر رہا تھا) ، یہ جنگ توقع سے زیادہ لمبی ثابت ہوئی، دونوں طرف سے لاکھوں لوگ مارے گئے، ابرہام لنکن نے خود کمانڈ سنبھالی، مطالعے کا وہ شوقین شروع سے ہی تھا، اس نے جنگی تاریخ اور سٹریٹجیز سے متعلقہ بے شمار کتابیں دنوں میں کھنگال ڈالیں۔

یکم جنوری 1863 وہ دن تھا جب لنکن نے اپنا ترپ کا پتا کھیلنے کا فیصلہ کیا، جنگی حکمت عملی کہیں یا اس کے اور اس کے ہم خیال ساتھیوں کی خواہش، ابرہام لنکن نے ایمنسیپیشن پروکلامیشن (Emancipation Proclamation) پر دستخط کیے، جس کے مطابق اس دن سے تمام غلام آزاد تھے، وہ اپنے مالکوں کے کسی حکم کے پابند نہیں، یوں کہیے کہ بیک جنبش قلم ابرہام لنکن نے وہ کام کر دکھایا جو انسانی تاریخ میں کوئی انسان نہ کر سکا، اس نے غلامی مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

اس کے بعد جنوبی ریاستوں کی کانفیڈریسی کمزور ہوتی چلی گئی کیونکہ جنگی حکمت عملی کے تحت بھی یہ ڈیکلریشن بہت اہم تھا، جب غلاموں کو یہ پتہ چل چکا تھا کہ آزادی کے پروانے پر دستخط ہو چکے ہیں تو وہ کسی بھی وقت بغاوت کر سکتے تھے اور کہیں کہیں ایسا ہوا بھی، پے در پے شکستوں کے بعد 1865 میں اس خانہ جنگی کا اختتام ہوا جب کانفیڈریسی کے جنرل ”رابرٹ لی“ نے ورجینیا میں ہتھیار ڈالے۔

ابرہام لنکن یہ جنگ جیت چکا تھا، لیکن بچپن سے چلتی بدقسمتی یہاں بھی اس کے سامنے آئی جب اپریل 1865 کی ایک شام واشنگٹن ڈی سی میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ تھیٹر ڈرامہ دیکھ رہا تھا، تھیٹر ہال میں صدر کے لیے مخصوص کیبن میں کانفیڈریسی کا حامی ایک شخص داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ پیچھے سے صدر کے سر کا نشانہ لیتا ہے اور گولی چلا دیتا ہے، لنکن منہ کے بل گر جاتا ہے، گولی چلانے والا نعرے لگاتا ہوا چھلانگ لگا کر سٹیج پر کودتا ہے اور شائقین اسے ڈرامے کا حصہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments