اقلیتوں کے وجود کو ماننے سے انکار


سینیٹ کی سب کمیٹی نے اقلیتوں کو آئین میں دیے گئے حقوق کی نگرانی اور ان کا تحفظ یقینی بنانے کے عمل کی نگرانی کے لیے کمیشن قائم کرنے کی تجویز پر مشتمل ایک بل کی منظوری دی ہے۔ سب کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر علی ظفر نے اس وقوعہ کو ملک میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے حوالے سے ایک تاریخی دن قرار دیا۔ تاہم کراچی میں ’بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس‘ سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمان نے مطالبہ کیا ہے کہ لفظ ’اقلیت‘ کو آئین سے نکال دیا جائے۔

مفتی منیب الرحمان جنہیں ان کے ہم عقیدہ مفتی اعظم کا لقب بھی دیتے ہیں سال ہا سال تک رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ کراچی میں تقریر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی اقلیت نہیں رہتی۔ یہاں یا تو مسلمان رہتے ہیں یا غیر مسلم آباد ہیں۔ مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ لفظ اقلیت سے محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے آئین میں مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی ہونا چاہیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس ترمیم سے ملک کے ہر شہری میں اونرشپ کا احساس پیدا ہو گا۔ مفتی صاحب نے کسی دستاویزی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’پاکستان میں غیر مسلموں کو جتنے حقوق حاصل ہیں دنیا میں کہیں نہیں ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں 20 کروڑ مسلمان ہیں لیکن ایک بھی مخصوص نشست نہیں ہے۔ امریکہ میں 40 لاکھ مسلمان ہیں لیکن کوئی مخصوص نشست نہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں کہیں مسلمانوں کے لیے مخصوص نشست نہیں۔

یوں پاکستان کے ایک ممتاز عالم دین نے پاکستانی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو ’خاص عنایت‘ قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کے بعد سب اقلیتیں یا ان کے الفاظ میں ’تمام غیر مسلم‘ محفوظ ہو چکے ہیں اور انہیں مزید کسی قسم کی حفاظت حتی کہ ’اقلیت‘ کہلانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، اس لیے آئین سے یہ لفظ ہی نکال دیا جائے۔ حیرت ہے کہ مفتی منیب الرحمان نے یہ بات ’بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ ملکی علما کی مذاہب کے درمیان ہم آہنگی و احترام کی تفہیم صرف بے بنیاد دعوؤں تک ہی محدود ہونے کی وجہ سے ہی اس وقت پاکستان میں اقلیتی عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں اپنے شعائر پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ یہ صورت حال ملک میں مذہبی گروہوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ان کی طرف سے نفرت عام کرنے کے رویے کو ریاستی سطح پر قبول کرنے کے طرز عمل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ مفتی منیب الرحمان کا بیان ہو یا کسی دوسرے مولوی کی طرف سے کسی دوسری طریقے سے مذہبی ہم آہنگی کو فساد میں تبدیل کرنے کی کوئی اور کوشش، عام طور سے دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے نظر انداز کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اور دین کے نام پر سیاست کرنے والے کسی ملا سے کبھی نفرت عام کرنے، جھوٹ پھیلانے اور اقلیتوں کو غیر محفوظ کرنے کے گھناؤنے جرم پر باز پرس کا حوصلہ نہیں ہوتا۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں اوور سیز پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے، جنہیں ملک میں ’مرد آہن‘ یا فیصلہ کن طاقت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کہا تھا کہ ’جس ملک کے تمام ادارے آئین اور قانون کے مطابق کام کریں، ایسی ریاست کو ہارڈ سٹیٹ کہا جاتا ہے‘ ۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کی سیکورٹی کمیٹی کے خفیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے ملک کو سافٹ کی بجائے ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور ملک میں گورننس کے معاملات پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہارڈ سٹیٹ کی اصطلاح پر مسلسل بحث ہوتی رہی تھی اور مختلف تجزیہ نگار اس کے مختلف معنی نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ شاید اسی لیے آرمی چیف نے گزشتہ روز کی تقریر میں ہارڈ سٹیٹ کی وضاحت ضروری سمجھی۔ آرمی چیف ایک اچھے مقرر ہیں اور ان دنوں ملک میں امن و امان اور قانون کی بالادستی کے موضوعات پر تقاریر کرتے ہوئے قرآنی حوالوں سے اپنی گفتگو میں وزن پیدا کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا جا سکتا ہے کہ بظاہر ملک کے سب سے طاقت ور شخص کو بھی ملک کے ملاؤں کی جہالت، قانون شکن رویوں یا ہر سطح پر نفرت عام کرنے کے طریقوں کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

ان ملاّؤں نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک نام نہاد ’فلسطین کانفرنس‘ منعقد کی اور اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ شہباز شریف تو ایک مشکوک انتخاب کے نتیجے میں بننے والے وزیر اعظم ہیں۔ ان سے تو مولویوں کو چیلنج کرنے کی توقع عبث ہوگی بلکہ مولویوں کے پھیلائے گئے ’فساد‘ کی تائید کرنے کے لئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی سے اسرائیل کی مذمت میں ایک نئی قرار داد منظور کرائی اور واضح کیا کہ پاکستان، اسرائیلی جارحیت کو مسترد کرتا ہے۔ یہ قرار داد اور وزیر قانون کی تقریر بجائے خود حکومت کی شکست خوردگی کی بدترین مثال تھی۔ کیوں کہ کسی کو اسرائیل اور غزہ میں اسرائیلی فوجوں کی جارحیت کے بارے میں حکومت پاکستان کی پالیسی پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ البتہ ’فلسطین کانفرنس‘ میں مولانا فضل الرحمان اور مفتی منیب الرحمان سمیت دیگر علمائے دین نے حکومتی پالیسی کو کمزور اور امریکی اثر کے تابع قرار دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ حکومت غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرنے میں ناکام ہے۔ اب عوام کو معاملات اپنے ہاتھ میں لے لینے چاہئیں۔ حکومت نے اس طرز عمل کا نوٹس لیتے ہوئے آرمی چیف کے الفاظ میں ملک کو ’ہارڈ سٹیٹ‘ بنانے کا تہیہ کرنے کی بجائے، قومی اسمبلی میں تقریروں اور قرارداد کے ذریعے ’غم و غصہ‘ سے باؤلے ہوئے ملاؤں کو راضی کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔

تاہم دیکھا جا سکتا ہے کہ متعدد مواقع پر پاکستان میں امن و استحکام کا ضامن ہونے کا دعویٰ کرنے اور قرآنی احکامات پر دسترس رکھنے کے باوجود آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی ملاؤں کی سیاست میں ملوث ہونے سے بچتے ہیں۔ انہوں نے بھی کبھی ملک میں مختلف مواقع پر اشتعال انگیز بیان دینے، تقریریں کرنے اور ملکی امن کے لیے خطرہ بننے والے دینی رہنماؤں کی بے اعتدالی پر کسی قرآنی آیت کے حوالے سے کوئی ہدایت دینے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ انہیں متفقہ طور سے ملک کا سب سے طاقت ور شخص کہا جاتا ہے جس کی مرضی منشا کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ البتہ آرمی چیف فی الوقت سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے جھوٹ کی طرف توجہ مبذول کیے ہوئے ہیں۔ یا پھر وہ ایسے اقدامات کو کافی سمجھتے ہیں جو تحریک انصاف کو سزا دلوا سکیں۔ کیوں کہ فوج کے خیال میں اس نے سانحہ 9 مئی کے تحت فوج میں بغاوت کو ہوا دی تھی۔ اس لیے ملک دشمن سمجھ کر اسے ہی ٹارگٹ کرنا چاہیے۔

حکومت یا آرمی چیف تک ہی کیا مخصوص ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی ملاّؤں کی زور زبردستی اور ماورائے قانون دباؤ کا سامنا کرنے کی تاب نہیں لاتی۔ مشہور مبارک ثانی کیس میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مولویوں کی اشتعال انگیزی سے بچنے کے لیے ہی ’ضمانت‘ کے ایک سادہ معاملہ میں یو ٹرن لینا پڑا تھا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نظر ثانی کی اپیل پر حتمی فیصلہ صادر کرچکی تھی لیکن جب اس حکم کو ملک میں مذہبی حساسیات کے ساتھ ملا کر سپریم کورٹ پر حملہ آور ہونے کے اعلانات ہونے لگے تو کوئی قانونی حجت نکال کر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کو بھی اپنا فیصلہ تبدیل کر کے وہی حکم سنانا پڑا جس کے بارے میں مقدمہ کی سماعت سے پہلے علما کے وفد نے چیمبر میں ’مشورہ‘ دیا تھا۔

اس پس منظر میں اب سینیٹ کی سب کمیٹی نے اقلیتوں کے آئینی حقوق کی حفاظت کے لئے ایک کمیشن بنانے کا بل منظور کیا ہے۔ اس کی ضرورت بھی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مسلسل اصرار کی وجہ سے محسوس کی گئی ہے۔ پاکستان اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے کام کرنے والے گروپ ملک میں اقلیتوں کی حفاظت یقینی بنانے پر زور دیتے رہے ہیں۔ گزشتہ اگست میں پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن، صحافیوں اور سول حقوق کے لیے کام کرنے والے لوگوں نے اقلیتوں کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اسی دباؤ میں انسانی حقوق کے بارے میں سینیٹ کی سب کمیٹی نے ’اقوام متحدہ اور عالمی معیار کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کمیشن‘ قائم کرنے کا بل منظور کیا ہے۔ بل کے تحت قائم ہونے والا کمیشن آئین کے مطابق اقلیتوں کو دیے گئے حقوق پر عمل درآمد کی صورت حال کا جائزہ لے گا اور اسے مانیٹر کرے گا۔ یہ کمیشن اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک ختم کرنے کی صورت حال کا جائزہ لے کر ان کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔

ویسے تو ’دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک‘ کے مصداق، ابھی تو ایک سب کمیٹی نے یہ بل منظور کیا ہے۔ اس کے حتمی قانون بننے اور کمیشن قائم ہونے تک کیا کیا نکات اٹھائے جاتے ہیں اور کیسے کیسے اس اقدام کو بھی ملکی اسلامی شناخت کے منافی قرار دینے کی مساعی ہوتی ہیں۔ تاہم اگر یہ کمیشن بن بھی جائے تو بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اعلیٰ عدلیہ اقلیتوں کو آئین میں فراہم کی گئی مساوات کی ضامن بننے سے بھی قاصر ہے تو ایک قانون کے تحت قائم ہونے والا کمیشن کسی مظلوم کی کیسے مدد کرے گا؟

یوں بھی ایک طرف سینیٹ کی سب کمیٹی میں اقلیتوں کے حقوق کی صورت حال پر پریشانی کا اظہار ہو رہا تھا اور دوسری طرف مفتی منیب الرحمان یہ واضح کر رہے تھے کہ آئین میں ’اقلیت‘ کا لفظ شامل کرنا ہی غلط ہے۔ ملک میں کوئی مفتی صاحب سے پوچھنے والا نہیں کہ قبلہ آپ کے منہ میں کے دانت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 3075 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments