جمنا کی کہانی


 

میں جمنا!
چند لمحے قبل مجھے دروازہ کی گھنٹی کی آواز آئی تھی اور میں منتظر تھی کہ کوئی بتائے کون آیا ہے؟

میں جمنا کی آواز پر میں نے اخبار پڑھتے، پڑھتے گردن موڑ کے دیکھا، ایک انتہائی گھسے اور دھندلائے ہوئے پھولوں کا گھاگرا بلاؤز پہنے، سر پر سلیقے سے سوراخوں بھرا دوپٹہ جمائے، کھڑے نقوش، ہلکے براؤن رنگ کی آنکھیں، ناک میں موٹی سی لونگ، ساٹھ کی دہائی سے کچھ اوپر جاتی عمر، دونوں ہاتھ جوڑے ”میں جمنا“ الف کی طرح سیدھی کھڑی تھی۔

لمحے کے چوتھائی حصے میں اس کی جانب دیکھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ یقیناً اک زمانہ اس کھڑے الف پر سے گزرا ہوا ہے۔

میں شہناز ہوں جمنا! آؤ بیٹھو، میں نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

آپ نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو بولا، جمنا نے اٹک، اٹک کر بولتے ہوئے تصدیق چاہی۔ گردن کو ہاں میں ہلاتے ہوئے میں نے پوچھا ”پانی پیو گی“ ۔ میرے سوال کے جواب میں اس نے دوبارہ ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ”مہربانی“ ۔

مجھے کچن کی طرف جاتا دیکھ کے وہ لپک کے میرے پیچھے آتے ہوئے بولی ”آپ مجھے بتاؤ باجی، پانی کدھر ہے، میں آپ کی خدمت کے لئے آئی ہوں“ ۔

جمنا! مجھے گھر میں ایک انسان کی ضرورت ہے، خدمت گار کی نہیں۔ میری بات کے جواب میں، میری طرف پلٹتے ہوئے اس نے دوبارہ دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”بھگوان تو بہت بڑا ہے“ ۔

پانی پی کر وہ واپس لاؤنج میں آئی تو میں نے پوچھا ”جمنا تم کیا کھاتی ہو“ ۔

”میں سب کھاتی ہوں باجی! بھگوان نے کھانے کی سب چیزیں کھانے کے لئے بنائی ہیں۔ میں کون ہوتی ہوں یہ کہنے والی کہ یہ کھاؤں گی اور یہ نہیں کھاؤں گی۔ جب کھانے کو نہیں ہوتا بھگوان بھی نہیں پوچھتا“ ۔

مجھے بے اختیار اپنی نوجوانی کے دنوں کے وہ سارے مباحث یاد آ گئے۔ جیسے بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی، جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو وغیرہ وغیرہ۔

میں نے دوبارہ اخبار اٹھایا تو اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا ”یہ ٹی وی چلتا ہے“ ۔ میری مسکراہٹ نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ ریموٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا آپ ایک دفعہ بتا دو پھر میں سنبھال لوں گی۔

ٹی وی کھولتے ہوئے میں نے پوچھا ”کیا دیکھو گی“ ۔ ترنت جواب آیا ”کوئی بھی جیو، شیو لگا دو، میرے کو کون سا پاکستان چلانا ہے جو خبریں دیکھوں“ ۔

مختلف چینلز کو آگے پیچھے کرتے ہوئے، میں نے ایک چینل پے چلتے ڈرامے کے بارے میں پوچھا یہ دیکھو گی۔ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس نے زور سے کہا ”نہ بابا نہ، ادھر تو ہر وقت ساس بہو کی لڑائی چلتی ہے۔ کسی کی بہو اچھی بھی ہو تو یہ ڈرامے اس کو خراب کر دیں گے“ ۔

اس کے جملے سے محظوظ ہوتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ جمنا ایک دلچسپ سنگت ہے۔ اس کے جملوں کی کاٹ، برجستگی اور حاضر دماغی مزا دینے لگی تھی۔

میں نے بات کرنے کے لئے اس کی طرف دیکھا لیکن وہ سر تا پا ڈرامے میں غرق مسکرا رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ اتنی خود ساختہ تھی کہ میں نے اسے مخاطب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

آدھے گھنٹے بعد تین اطراف کے مائیک باآواز بلند اذانیں نشر کرنے لگے تو جمنا نے ٹی وی بند کرتے ہوئے کہا ”اچھا نہیں لگتا“ ۔

جمنا! آپ کدھر کی ہو؟ میرے سوال کے جواب میں اس نے بھنویں اچکاتے ہوئے جواب دیا۔ ”میں تو کراچی کی ہوں، ایک دم خالص کراچی کی، میرا باپ، اس کا باپ سب کراچی کے ہیں۔ مجھے چار زبان بولنی آتی ہے۔ “ اس نے فخریہ زبانوں کی تفصیل بتائی کہ وہ کھچی، سندھی، اردو اور مارواڑی بول لیتی ہے بس بلوچی اور پشتو نہیں آتی۔ اس کی زبان دانی کو سراہتے ہوئے میں نے کہا ”یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے، تم تو بہت قابل ہو“ ۔

اپنی تعریف سن کے خوش ہوتے ہوئے کہنے لگی ”ہم پشتوں سے لی مارکیٹ پے رہتے ہیں۔ ادھر سب زبان بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ کاروباری علاقہ ہے نا، ہم لوگ تو خیر مزدوری کرنے والے ہیں، کوئی پورٹ پر کام کرتا ہے تو کوئی چاول، دال کے کارخانوں میں، سب اپنے نصیب کا کھاتے ہیں۔ پہلا وقت بہت اچھا تھا، سب مل کے رہتے تھے اب ایسا نہیں ہے، اب ایک دوسرے سے منہ موڑ کے چلتے ہیں، اپنی اپنی زبان والے سے بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہم نو بہنیں اور پانچ بھائی تھے، اوپر والے نے سارے بھائی اور پانچ بہنیں واپس بلا لیں۔ پہلے خوشی، غمی کے علاوہ بھی سب ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے، ہنستے بولتے تھے ابھی پتہ نہیں کیسا وقت ہے، کوئی کسی کو ملنا نہیں چاہتا، بہن کے جاؤ تو سب کی شکل سے لگتا ہے، یہ کیوں آ گئی، کوئی کسی کو کھانے، چائے کا نہیں پوچھتا، مہنگائی بھی بہت ہے، آواز کو دباتے ہوئے کہا، جس بیٹے کے پاس رہتی ہوں اس کے چار لڑکیاں ہیں، دن بھر مزدوری کرتا ہے، بڑی مشکل سے کھانا پینا چلتا ہے، چوتھی لڑکی ہوئی میں نے بہو کو بولا بس کر دے، یہ کیسے پلیں گے، وہ میرے کو کہتی ہے تو جلتی ہے، میرے لڑکا نہ ہو جاوے، اب اس کو کون عقل دے، میرے تین بیٹے ایک بیٹی ہے، میں نے اپنے آدمی کو بولا بچے بند کرو، اس نے اپنا آپریشن کرایا، میرا آدمی بہت سمجھدار تھا، وہ وقت بھی اچھا تھا، میرے شوہر کا بینک میں ذاتی کھاتہ تھا، جو پیسہ فالتو ہوتا، کمیٹی ڈالتا سب کھاتے میں جمع کرتا، ہم سال میں ایک مرتبہ گھومنے جاتے، بچوں کی شادیاں بنائیں،

جمنا! اپنی زندگی کو چھوٹے، چھوٹے جملوں میں rewind کر رہی تھی اور میں خاموشی سے سن رہی تھی۔ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا کھانا کھائیں، سو بسم اللہ کہتی اپنا گھاگرا سنبھالتی سیدھی کھڑی ہو گئی۔

کچن میں کھانا گرم کرتے اور نکالتے دیکھ کے اس نے پھر بولنا شروع کر دیا۔ کھانا کون بناتا ہے؟ آپ کو رسوئی کا کام آتا ہے؟ آپ نے کبھی نوکری کی ہے؟

اس کے تمام سوالوں کا جواب میں نے ایک ”ہاں“ میں دیا تو حیرت زدہ آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کے منہ نیچے کر لیا۔ اس کی حیرت کو کم کرنے کے لئے میں نے پوچھا ”روٹی کھاؤ گی چاول“ میرے سوال کا بے ساختہ جواب آیا ”دونوں چیزیں کھا سکتی ہوں“ ۔ بالکل کھا سکتی ہو، کاؤنٹر پر رکھی ڈشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوں میں نے کہا ”جو کھانا ہے لے لو، میں ایک فون کر کے ابھی آتی ہوں۔

سچ بات یہ ہے کہ اس کے سوال دونوں چیزیں کھا سکتی ہوں نے مجھے اندر تک ہلا دیا تھا۔ مجھ میں مزید اس کے سامنے کھڑے رہنے کی ہمت نہیں تھی۔

کھانے سے فراغت کے بعد میں نے اس کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جمنا تھوڑی دیر آرام کرو شام کو باتیں کریں گے۔ میری بات کے جواب میں دونوں ہاتھ جوڑ کے اس نے پرنام کیا اور کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

اپنے کمرے میں لیٹی میں اپنی سوچوں سے الجھتی رہی، کھانا، بھوک، غربت، بے کسی، لاچاری، دنیا کی بے ثباتی، رنگینی، روشنی، اندھیرا، مکڑی کا جالا، یہ زندگی مکڑی کا ایک جالا ہی تو ہے، نہیں وہ گول ہنڈولہ ہے جو کبھی اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے آتا ہے، نیچے اوپر کے اس کھیل میں یہ کیوں نہیں ہوتا کہ نیچے والا ہنڈولہ اوپر ہی ٹھہر جایا کرے۔

سوچتے، سوچتے دماغ کی چولیں ہل گئیں۔ شام کے پانچ بج گئے۔ میں نے کمرے سے باہر آ کے چائے بنائی۔ جمنا کے خراٹوں کی آواز پورے لاؤنج میں گونج رہی تھی۔ شام کے چھ بجنے کو تھے۔ میری دو تین آوازوں کے جواب میں وہ یہ کہتی ہوئی ”بہت سکون ہے آپ کے گھر میں“ سیدھی کھڑی ہو گئی۔

وہ چائے پی رہی تھی، میں بے خبری کی خبریں سن رہی تھی۔

اسکرین پر ایک شکل کے نمودار ہوتے ہی اس کی زبان کا صندوقچہ پھر سے کھل گیا اور اس نے بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”ادھر کسی کو حکومت کرنا نہیں آتا، سب بدمعاش ہیں، لوگوں پر ظلم کرتے ہیں، غریب کی کسی کو پرواہ نہیں ہے، بہت برا وقت ہے، کوئی کسی کا نہیں، میرا آدمی روز آتے جاتے ماں کے پاؤں چھوتا تھا، اب کچھ نہیں ہے، اپنے دونوں ہاتھوں کو ملتے ہوئے اس نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے جملہ مکمل کیا۔ بیٹا آتا ہے سیدھا بیوی کے پاس جاتا ہے، میں نے بھی ساری زندگی کام کیا، جب شہر میں پچاس روپے فی کام ہوتا تھا میں تب سے کام کرتی ہوں، تین چار گھر میں کام کرتی تھی، اچھا پیسہ کماتی تھی، میں بھی خوش رہتی تھی۔ گھر میں بھی سب خوش رہتے تھے، ابھی نہ گھر میں خوشی ہے نہ لوگوں میں، سب منہ موڑ کے چلتے ہیں۔

میں نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا تم کبھی انڈیا گئی ہو؟

میری ایک بیٹی کا بیاہ ادھر ہوا ہے، میرے شوہر کی ذات کے لوگ ادھر ہیں، اچھے کھاتے پیتے ہیں، گھر میں پورا اناج ہوتا ہے، میری بیٹی بنگلے میں رہتی ہے، مجھے بہت بلاتی ہے کہ میں اس کے پاس رہوں، آپ بتاؤ داماد کے گھر کتنے دن رہ سکتی ہوں، ابھی تو دور سے جاتی ہوں ہفتہ دس دن رہ کے بھائی کے گھر چلی جاتی، اپنے چھوٹے بیٹے سے بھائی کی بیٹی لائی ہوں، بہت تیز ہے بابا، میں تو بولتی نہیں، کون مغز خراب کرے۔

تم کو انڈیا کیسا لگتا ہے؟ میرے سوال کے جواب میں وہ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئی ”سچ بولوں“
بالکل سچ میں نے اس کا حوصلہ بڑھاتے وہ کہا۔

”مجھے اچھا نہیں لگتا، میرا تو ادھر کچھ بھی نہیں ہے، بھائی تھے مر کھپ گئے، بیٹی ہے، اللہ اس کو آباد رکھے، میرا ادھر کیا ہے، کراچی میں تو میرے پرکھوں کی مٹی ہے، میرا تو سب کچھ کراچی اور پاکستان ہے“ ۔

جہاں تک بات دھرم کی ہے تو دھرم تو من کے اندر ہے، شہروں میں تھوڑی ہے، اب میں آپ کے گھر میں بیٹھی ہوں، ماشا اللہ سے میرا دھرم تو میرے اندر ہے نا، اس نے بہت ہی دانش مندانہ انداز میں اپنی سوچ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد نیا آغاز لیتے ہوئے یوں گویا ہوئی ”ایک بات ہے انڈیا کی حکومتوں کو حکومت کرنا آئے“ ۔ کیا مطلب؟ میرے سوالیہ جملے کی وضاحت اس نے کچھ یوں دی۔ ”آپ کو پتہ ہے انڈیا میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں، کتنے دھرم ہیں، اور اندر میں کتنے سارے شہر ہیں۔ یوپی، پنجاب، بمبئی، دہلی اور پتہ نہیں کیا کیا، میرا آدمی مجھے بتاتا تھا اس کو سب نام یاد تھے۔ اور ادھر پاکستان میں تو ہر وقت لڑائی چلتی ہے، جو بھی حکومت ہو بس لڑتے رہتے ہیں۔ “ چند لمحوں کے توقف کے بعد جمنا نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا ”باجی مودی میں طاقت بہت ہے“ ۔

مودی کون ہے؟ میرے سوال پے سراپا حیرت بنتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا ”آپ انڈیا کے بادشاہ کا نام نہیں جانتے؟ میرے انکاریہ جواب پے وہ کافی دیر تک وقفے، وقفے سے میری طرف دیکھتی رہی۔

ٹی وی پر ڈرامہ شروع ہوا تو ساتھ ہی اس کا رخ بھی بدل گیا۔ اشتہارات آنے شروع ہوئے تو اس نے منہ بناتے ہوئے کہا بہت وقت خراب کرتے ہیں۔

وہ ڈرامہ دیکھ رہی تھی میں اسے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کاش میرے بس میں ہوتا میں اسے کوئی ڈگری، ڈپلومہ، سرٹیفکیٹ دے سکتی۔ وہ آج کے سینکڑوں کاغذی ڈگری والوں سے زیادہ عقل اور دانش کی مالک ہے۔

رات کے کھانے سے فارغ ہو کے وہ میرے پاس آئی اور بہت دھیمے سے پوچھا ”آپ کو مالش، والش یا ٹانگیں دبا دوں۔

جواب میں جس سرد لہجے میں، میں نے ”نہیں“ کہا، اسے فریز کرنے کے لئے وہ کافی تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹی وی بند کرنے کا اعلان کرتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

بستر پے جانے سے پہلے اس رات میں نے اس کے بارے میں بہت کچھ سوچا اور فیصلہ کیا کہ میں اس کی کہانی ضرور لکھوں گی۔

اگلی صبح اپنے۔ معمولات سے فراغت کے بعد میں نے ٹی وی پے خبریں دیکھیں، موبائل چیک کیا، ساڑھے آٹھ بج رہے تھے، جمنا بے خبر سو رہی تھی، اس کے خراٹے میں لاؤنج میں بیٹھی با خوبی سن رہی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں اور آگے کی طرف بڑھیں تو میں نے اس کے کمرے پے دستک دیتے ہوئے اسے پکارا، میری آواز کے جواب میں وہ سلام باجی کہتی ہوئی سیدھی کھڑی ہو گئی۔ آرام سے اٹھو کہتی ہوئی میں کچن کی طرف آ گئی۔ ناشتہ بناتے ہوئے میں نے پوچھا کیا کھاؤ گی؟

اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے پیٹتے ہوئے کہا ”باجی میری اتنی اوقات کہاں کہ میں بتاؤں آپ جو دو گے، جو کھاؤ گے میں وہی کھاؤں گی“ ۔

ناشتہ کرتے ہوئے، خود کلامی کے انداز میں کہنے لگی ”وقت بہت برا اور بڑا سخت ہو گیا ہے، پہلے رمضان آتا تھا تو تین، چار دفعہ راشن ملتا تھا، ہمارے علاقے میں ٹرک بھر، بھر کے لوگ دینے آتے تھے، ان کو ثواب ملتا تھا، ہمارے بھی دو تین مہینے اطمینان سے گزر جاتے تھے، اس رمضان چاول کا ایک دانہ نہیں ملا۔ وقت خراب ہی ہوا نا“ ۔

چائے کا بڑا سا گھونٹ کھینچتے ہوئے کہنے لگی ”پہلے لوگ بہت نذر نیاز کرتے تھے، مہینے میں ایک بار ضرور ٹرک پے کھانا آتا تھا، سب لوگ خوش ہو جاتے تھے، ابھی تو پورا سال ہو گیا کوئی نیاز، شیاز کا کھانا نہیں آتا، میرا بیٹا کہتا ہے ماں اب فیشن بدل گیا ہے“ ۔

میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی ”کیا غریبوں کو کھلانے کا فیشن بدل گیا ہے، کیا آپ نیاز نہیں کرتے“ ۔ چند لمحوں کے توقف سے بہت سوچ، سوچ کے میں نے کہنا شروع کیا ”جمنا شہر بہت بڑا ہو گیا ہے، شہر میں لوگ بھی زیادہ ہو گئے ہیں، دینے والے ہاتھ اتنے نہیں ہیں جتنے لینے والے، رمضان میں چھوٹے علاقوں کے لوگ بھی کراچی آ جاتے ہیں مانگنے، کھانے کے لئے، اس سبب اب سب کو سب کچھ نہیں ملتا“ ۔

میری بات کے جواب میں اس نے تیزی سے کہا ”باجی آپ کیا بات کرتے ہو، ایسا سوکھا رمضان تو میری زندگی میں کبھی نہیں آیا، پہلے تو لوگ کپڑے بھی دیتے تھے ابھی تو چاول کا دانہ بھی نہیں ملا“ ۔

جمنا کی غربت، ضروریات سب نوحہ کناں تھیں۔ اس کے ہر شکوہ شکایات کا میرے پاس کوئی مدلل جواب بھی نہ تھا لیکن اس کی باتوں میں وزن تھا، سوچ تھی۔

میں نے ہنستے ہوں کہا جمنا! تم ایک دم گنگا جمنی ہو۔ تم جانتی ہو گنگا جمنی کیا ہوتا ہے؟ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ”آپ پڑھی، لکھی بات کر رہے ہو“ ۔

نہیں! میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ”جب کپڑوں پے سنہرا اور سلور رنگ کے سلمیٰ ستارے کا کام ملا کے کرتے ہیں تو زردوزی والوں کی زبان میں اسے گنگا جمنی کام کہتے ہیں“ ۔

میری لمبی تشریح کو اس نے منہ کھول کے سنا اور ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ کہتی ہوئی چائے کے برتن سمیٹ کے کچن کی طرف چل دی۔

شہناز احد
Latest posts by شہناز احد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments