(11) خواب، محبت اور زندگی
ابی پان کھانے کے عادی تھے۔ ہر صبح دکان کی طرف جاتے ہوئے، وہ راستے میں فٹ پاتھ پر چھابڑی لگائے بیٹھی ایک بڑھیا سے پان بنوایا کرتے تھے۔ میں جس روز بھی ابی کے ساتھ جاتی، وہ بوڑھی عورت مجھے دیکھتے ہی پان کی ایک گلوری بنا کر میری طرف بڑھا دیتی تھی اور میں اسے اس کا محبت بھرا تحفہ سمجھ کر خوشی خوشی کھا لیا کرتی تھی۔ بہت عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ اس گلوری کی قیمت ابی کے ماہانہ بل میں شامل کر دیتی تھی۔ بچے بھی کتنے سادہ اور معصوم ہوتے ہیں۔
ابی کا بزنس کامیابی سے چل رہا تھا کہ وہ اچانک شدید بیمار پڑ گئے۔ (میں نے کہا نا، ان کی صحت کے مسائل ہمیشہ ہمارے لئے تشویش اور پریشانی کا باعث بنے رہے) ۔ بیماری کے باعث وہ چارپائی سے لگ گئے۔ ان کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا کاروباری پارٹنر لوگوں سے قرضے لے کر اور کسٹمرز کے پیسے کھا کر بھاگ گیا۔ ابی کے صحتیاب ہونے تک کاروبار ٹھپ ہو چکا تھا۔ اور اس کے ساتھ وہ ان لوگوں کے مقروض بھی ہو چکے تھے، جن کے پیسے کھا کر ان کا پارٹنر بھاگ گیا تھا۔ ان ہی پرآشوب حالات میں میرا تیسرا بھائی امتیاز لاہور کے اسی پرانے گھر میں پیدا ہوا۔ میرا دوسرا بھائی شیراز لاہور
کے میو ہسپتال میں پیدا ہوا تھا کیونکہ اس وقت میرے والدین کے مالی حالات اچھے تھے۔ لیکن امتیاز کی آمد اس وقت ہوئی جب میرے والد قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اسپتال جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اس لئے دائی کو گھربلایا گیا تھا۔ دائی کے جانے کے بعد ’ایس‘ پھوپھو اندر سے کسی کام سے باہر آئیں اور ہم تینوں بہن بھائیوں یعنی مجھے، ایاز اور شیراز کو کہتی گئیں ’اندر جا کے بھائی کو دیکھ لو‘ ۔ ہم تینوں بہت چھوٹے تھے۔
ایک نوزائیدہ بچے کو دیکھنا ہمارے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا۔ ہمیں لگا کہ ہمارا بھائی بھوکا ہو گا۔ ہم میں سے ایک تنور کی روٹی کا ٹکڑا لے آیا۔ ایک نے پاندان سے چھالیہ نکالی اور اس کے منہ میں ٹھونس دی۔ ’ایس‘ پھپھو واپس کمرے میں آئیں تو بچے کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور اسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ انہوں نے جلدی سے اس کے منہ میں انگلی ڈال کر سب چیزیں باہر نکالیں اور ہمیں ڈانٹ کر کمرے سے بھگا دیا۔
دلی کا قطب مینار دیکھو
امتیاز کے پیدا ہونے کے کچھ عرصہ بعد امی اور دونوں پھپھیوں نے چھوٹے چچا کے ساتھ ہمارے دادا کے پاس دہلی جانے کا پروگرام بنایا۔ ابی صحتیاب ہونے کے بعد نوکری کی تلاش میں تھے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے سوچا ہو کہ ہم کچھ عرصہ کے لئے دادا کے پاس رہ آئیں تا کہ پیچھے وہ سکون سے مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کر سکیں۔ پاکستانی اور ہندوستانی قارئین کو حیرت ہو رہی ہو گی کہ اس زمانے میں لوگ کتنی آسانی سے دونوں ملکوں میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے ملنے کا پروگرام بنا لیتے تھے۔ امتیاز اس وقت دودھ پیتا بچہ تھا اور جو حرکت اس کی پیدائش پر ہم نے کی تھی، اس کی وجہ سے اس کا پیٹ خراب ہی رہتا تھا۔ اس لئے امی ”مشورہ دینے والی“ آنٹیوں کے مشورے پر اسے صرف گائے کا دودھ پلاتی تھیں۔ دہلی میں ہمارا قیام ترکمان گیٹ والے علاقے میں دادا کی چاند والی حویلی میں رہا۔ مجھے یاد ہے میں دادا کے ساتھ امتیاز کے لئے کہیں قریب سے گائے کا دودھ لینے جایا کرتی تھی۔ ہمیں دہلی کے مشہور مقامات دکھانے کی ڈیوٹی ہمارے ایک چچا (ابی کے ہاف برادر۔ میں ’سوتیلے‘ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتی) نے سنبھال لی تھی۔
اسے ہماری خوش قسمتی ہی کہنا چاہیے کہ ہمیں اپنے بچپن میں ہی دہلی کے خوبصورت اور تاریخی مقامات دیکھنے کا موقع مل گیا۔ آنے والے سالوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوتے چلے گئے۔ اور
دونوں ملکوں کے شہریوں کے لئے ایک دوسرے سے ملنا آسان نہیں رہا۔ مجھے دلی کے قطب مینار کی سیڑھیاں چڑھنا یاد ہے۔ اگر میری یادداشت ساتھ دے رہی ہے تو اس وقت آخری چند منزلوں پر چڑھنے کی ممانعت تھی۔ اس کی وجہ چچا نے یہ بتائی تھی کہ اوپر کی منزلوں سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرنے کے واقعات میں اضافہ کی وجہ سے حکومت نے یہ پابندی لگائی تھی۔ بعد میں حکومت نے وہاں لوہے کے جنگلے لگوا دیے تھے۔
امی اور دونوں پھپھیاں فلمیں دیکھنے کی بے حد شوقین تھیں اور ہم بچوں کو بھی اپنے ساتھ سینما دیکھنے لے جاتی تھیں۔ مجھے دو فلمیں ابھی تک یاد ہیں، بیجو باورا اور ناگن۔ بیجو باورا کے ہیرو بھارت بھوشن اور ہیروئن مینا کماری تھیں۔ اس فلم کے کچھ مناظر اور گانے سالوں مجھے یاد رہے۔ ناگن ہم نے جس سینما ہال میں دیکھی، وہ کچھ خستہ حال تھا اور امی کے بقول جب بین بجتی تھی تو ڈر لگتا تھا کہ کہیں ہماری سیٹوں کے نیچے سے سانپ نہ نکل آئے۔ اس زمانے میں پاکستانی عورتیں ہندوستان میں بنے ہوئے کپڑے کے سوٹ سلوانا پسند کرتی تھیں۔ کسٹم والوں نے زیادہ کپڑا لانے پر پابندی لگا رکھی تھی لیکن امی اور پھپھیوں نے ڈھیروں سوٹ خرید لئے۔ اب لے کے کیسے جائیں؟
امتیاز شیرخوار بچہ تھا۔ امی اسے جس گدے پر لٹا کر گود میں اٹھاتی تھیں، اس کے اندر سوٹوں کا کپڑا ڈال کر سلائی کر دی۔ کسٹم حکام نے سب سے پہلے اس گدے کو ہی چیک کیا، قینچی سے غلاف کاٹا اور سارے سوٹ ضبط کر لئے۔ امی کی ترکیب ان کے کام نہ آئی۔ (یہ اور بات کہ پھپھیوں کے ککے زئی ددھیالی رشتہ داروں کے رابطے اور اثر و رسوخ کام آیا اور ایک ہفتے بعد وہ ان کے اور امی کے سوٹ گھر پہنچا گئے تھے ) ۔
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا (جانگیا کے بغیر)
دہلی کے خوشگوار دورے سے واپس آئے تو ابی اس وقت تک کوئی نئی ملازمت ڈھونڈ نہیں پائے تھے۔ چنانچہ امی نے مجھے ایک محلہ اسکول میں بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ ایک عجیب سا خستہ حال اسکول تھا۔ اس میں نہ کرسیاں تھیں نہ ڈیسک۔ لڑکیاں فرش پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ استانی نے مجھے دیوار کے ساتھ بنے ہوئے تھڑے پر بٹھا دیا۔ امی کے جاتے ہی میں تھڑے پر اکڑوں بیٹھی اپنی گود میں سر چھپا کر رونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد روتے روتے جب میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو۔۔۔ (جاری ہے )
- خواب، محبت اور زندگی 13 - 23/04/2025
- عفت نوید کی ’ردی‘ - 23/04/2025
- خواب، محبت اور زندگی 12 - 19/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).