دریا بہنے دو


Writing and Outlining

سندھ کے دریا پر مزید نہریں نامنظور یہ نعرہ محض ایک احتجاجی بینر پر لکھی تحریر نہیں بلکہ ایک تاریخ ایک جدوجہد اور ایک احساسِ محرومی کا خلاصہ ہے۔ یہ سندھ کی زمین اس کے پانی اس کی ثقافت اور اس کی بقا کی پکار ہے۔ مگر جب اس نعرے کے جواب میں کوئی کہتا ہے

پنجاب تو خود دریائے سندھ کی گزرگاہ ہے کیا اسے اپنے دریا پر نہر نکالنے کا حق نہیں؟

تو یہ سوال سادہ ضرور ہے مگر اس کا جواب محض جغرافیہ میں نہیں بلکہ انصاف تاریخ قانون اور قومی یکجہتی میں پوشیدہ ہے۔

دریائے سندھ جو گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے جنم لیتا ہے خیبر پختونخوا کے سنگلاخ راستوں سے گزرتا ہے پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے اور آخر میں سندھ کی وادیوں سے ہوتا ہوا سمندر سے جا ملتا ہے کیا یہ دریا صرف ایک صوبے کی ملکیت ہو سکتا ہے؟ کیا صرف گزرتے ہوئے پانی پر کوئی صوبہ اختیار جما سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر اس دریا کا پہلا دعویٰ خیبر پختونخوا یا گلگت بلتستان کا ہونا چاہیے مگر یہ سوچ ہی اپنی بنیاد میں غلط ہے۔ کیونکہ دریا زمین سے نہیں زندگی سے جُڑے ہوتے ہیں۔

دریا کسی ایک زمین کا نہیں ان تمام لوگوں کا ہوتا ہے جو اس کی روانی پر جیتے ہیں جو اس سے اپنی کھیتیاں سیراب کرتے ہیں جو اس سے رزق پاتے ہیں اور جو اس کی گہرائی میں تہذیب ثقافت اور بقا کے معنی تلاش کرتے ہیں۔ دریائے سندھ میں صرف پانی نہیں بہتا یہ ایک تاریخ ہے تہذیب ہے اور اس بہاؤ میں اگر رکاوٹ آئے تو صرف پانی نہیں رکتا لوگوں کی زندگی رک جاتی ہے۔

1991 کا پانی معاہدہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان ایک سنجیدہ کوشش تھی کہ وسائل کو منصفانہ بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ اس معاہدے کے تحت ہر صوبے کو اس کی آبادی زرعی ضروریات اور استعمال کے مطابق پانی کا حصہ دیا گیا۔ مگر جب کوئی صوبہ اس حصے سے بڑھ کر نئی نہریں نکالے اور وہ بھی بغیر دوسرے صوبوں کو اعتماد میں لیے، تو یہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی نہیں اعتماد کی پامالی بھی ہے۔ خاص طور پر سندھ کے لیے جس کے میٹھے پانی کے ذخیرے خشک ہو چکے ہیں جہاں جھیلیں مٹی کے ڈھیر بن گئی ہیں اور جہاں سمندر اندر تک کھارا پانی لے آیا ہے یہ سب صرف پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے۔

پانی پر جو بین الاقوامی قوانین نافذ ہیں جیسے کہ Helsinki Rules اور UN Watercourse Convention 1997 وہ صاف کہتے ہیں کہ downstream علاقوں یعنی نیچے واقع علاقوں کو ان کے معقول منصفانہ اور پائیدار حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے کئی خطوں میں جیسے نیل دریا پر مصر اور ایتھوپیا، یا Jordan River پر اسرائیل اور اردن پانی کے جھگڑے صرف قدرتی وسائل کا نہیں بلکہ زندگی کے مستقبل کا سوال بن چکے ہیں۔ پاکستان اگر ان غلطیوں سے نہ سیکھا تو کل کا بحران آج سے کہیں زیادہ گہرا ہو گا۔

سندھ کا مسئلہ صرف پانی کا نہیں یہ اعتماد کا بقا کا اور تاریخی شناخت کا مسئلہ ہے۔ اگر پنجاب جو پاکستان کا سب سے بڑا اور طاقتور صوبہ ہے اپنا حق لیتے ہوئے دوسرے صوبوں کے حق کو نظر انداز کرے گا تو پھر وفاق کے تصورات صرف کتابوں میں رہ جائیں گے۔ پانی صرف قدرتی نہیں سیاسی اور سماجی مسئلہ بھی ہے۔

شیخ ایاز نے کہا تھا
”دریا سندھ ہماری سانس ہے اگر اس سانس کو کاٹا گیا تو ہم سب مر جائیں گے“ ۔
یہ صرف شاعری نہیں بلکہ ایک پورے خطے کی حقیقت ہے۔

تو اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ کیا ہم ہمیشہ نعرے لگاتے رہیں؟ کیا ہمیشہ ایک صوبہ چیختا رہے گا اور دوسرا قوت کے بل پر آگے بڑھتا رہے گا؟

ہمیں ایک نیا نکتۂ آغاز چاہیے ایسا نکتہ جو وفاق کے اصل مفہوم کو زندہ کرے۔ ہمیں نئے ڈیم یا نہروں سے پہلے نئے اعتماد کے معاہدے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پانی کو قومی امانت سمجھیں نہ کہ علاقائی ملکیت۔

پانی پر پہرا نہیں شفافیت ہونی چاہیے دریا پر اجارہ داری نہیں شراکت ہونی چاہیے۔
یہی وقت ہے کہ ہم ایک نیا نعرہ دریافت کریں ایسا نعرہ جو نفرت کو نہیں رفاقت کو جنم دے۔
”پانی سب کا انصاف سب کے لیے“ ۔

اور اگر ہم نے اب بھی نہ سنا تو دریا کل ہم سے اپنا حساب خود لے گا۔ اور اس وقت شاید ہمارے پاس لفظ بھی نہ ہوں پانی بھی نہ ہو اور وفاق بھی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments