کیا جلسے الیکشن جتوانے کی ضمانت ہوتے ہیں؟
پاکستانی سیاست میں جلسوں کو ہمیشہ غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے۔ رنگ برنگے جھنڈے، گونجتے نعرے، قائدین کی پُرجوش تقاریر، اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ یہ سب کچھ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے فتح کا منظرنامہ پیش کرتا ہے۔ لیکن جب اصل میدان یعنی بیلٹ بکس کھلتے ہیں، تو اکثر وہی ہجوم خاموش ہو جاتا ہے، اور نتیجہ حیران کن نکلتا ہے۔
تو سوال یہ ہے : کیا جلسے واقعی الیکشن جتوانے کی ضمانت ہوتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ جلسے طاقت کا مظاہرہ ضرور ہوتے ہیں، مگر وہ عوامی رائے کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے۔ اکثر ان میں شریک افراد دور دراز سے لائے جاتے ہیں، انہیں کرایہ، کھانا، یا دیگر سہولتیں دی جاتی ہیں۔ کئی بار تو ایک ہی فرد مختلف جماعتوں کے جلسوں میں محض تفریح یا فائدے کی غرض سے شریک ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر کوئی ووٹر نہیں ہوتا، اور اگر ہو بھی، تو اس کا ووٹ جلسے کی گونج سے نہیں بلکہ ذاتی، علاقائی یا خاندانی مفادات سے متاثر ہو کر کاسٹ ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، 30 اکتوبر 2011 کو لاہور کے مینارِ پاکستان پر تحریک انصاف کا جلسہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ نوجوانوں کا جوش، میڈیا کی بھرپور کوریج، اور عمران خان کا اُبھرتا ہوا بیانیہ۔ ایسا لگتا تھا جیسے اگلے انتخابات میں تحریک انصاف سب کچھ جیت لے گی۔ مگر 2013 کے عام انتخابات میں وہ مرکز میں حکومت بنانے میں ناکام رہی۔ صرف چند حلقوں میں کامیابی ملی، جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے اکثریت حاصل کی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ جلسہ جذبات پیدا تو کرتا ہے، مگر ووٹ کا فیصلہ عقل، ترجیح اور زمینی حقیقتوں پر مبنی ہوتا ہے۔
اسی طرح 2008 کے انتخابات میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے جلسے ہمدردی سے بھرپور اور عوامی ہجوم سے لبریز تھے۔ اس کا نتیجہ حکومت سازی کی صورت میں نکلا۔ لیکن یہی جماعت 2013 میں جلسوں اور نعروں کے باوجود پنجاب سے تقریباً ختم ہو گئی۔ اس کی جگہ مسلم لیگ (ن) نے لی، جس نے گلی، محلے اور یونین کونسل کی سطح پر تنظیمی طاقت دکھائی، اور ووٹر کو ذاتی کارکردگی کے ذریعے قائل کیا۔
ایک اور مثال 2018 کے انتخابات کی ہے، جب نون لیگ نے لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور جنوبی پنجاب میں بڑے جلسے کیے، مریم نواز کی تقاریر اور شہباز شریف کے وعدے جلسوں کو متاثر کن بناتے رہے۔ لیکن پولنگ والے دن ووٹر کے فیصلے نے تحریک انصاف کو مرکز میں لا کھڑا کیا۔ ایک طرف جلسے تھے، دوسری طرف عوام کے خاموش فیصلے، اور فیصلہ ان کے حق میں گیا جو ووٹر کو میدان میں منظم انداز میں لے کر آئے تھے۔
یہ تمام مثالیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ پاکستانی سیاست میں ووٹ صرف نعرے، بینرز یا جھنڈے دیکھ کر نہیں پڑتا۔ ووٹر مقامی مسائل، امیدوار کی شہرت، برتاؤ، سماجی تعلقات اور ماضی کی کارکردگی کو دیکھتا ہے۔ دیہی علاقوں میں تو ذاتی تعلقات، برادری، حتیٰ کہ جنازے میں شرکت تک، ووٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
بہت سے ووٹر ایسے ہوتے ہیں جو نہ جلسوں میں شریک ہوتے ہیں، نہ سوشل میڈیا پر رائے دیتے ہیں، لیکن ووٹنگ والے دن وہ خاموشی سے آ کر اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ یہی خاموش اکثریت اکثر انتخابی نتائج کو بدل دیتی ہے۔
لہٰذا، یہ مان لینا کہ بڑا جلسہ بڑی کامیابی کی ضمانت ہے، سیاسی سادہ لوحی سے زیادہ کچھ نہیں۔ جلسہ محض ایک تاثر دیتا ہے، ایک فضا قائم کرتا ہے، لیکن ووٹ کا فیصلہ اس تاثر سے کہیں زیادہ پیچیدہ عوامل سے جڑا ہوتا ہے۔ کامیابی اُن کے قدم چومتی ہے جو ووٹر کو صرف جلسوں میں نہیں، اس کے دروازے تک جا کر قائل کرتے ہیں۔
سیاست صرف اسٹیج پر کی گئی تقریروں سے نہیں جیتی جاتی، بلکہ گلیوں، چوراہوں، ڈیرے داریوں اور ووٹر کے دکھ سکھ میں شرکت سے جیتی جاتی ہے۔ ہجوم کی گونج وقتی ہو سکتی ہے، لیکن ووٹ کی خاموشی مستقل اثر رکھتی ہے۔
آخر میں یہی کہنا کافی ہے :
بڑے جلسے انتخابی مہم کا حصہ تو ہو سکتے ہیں، مگر فتح کی ضمانت صرف ووٹر کا اعتماد اور زمین پر کی گئی محنت ہی بن سکتی ہے۔
- ریاستی بیانیہ: رہنمائی یا گرفت؟ - 19/04/2025
- کیا جلسے الیکشن جتوانے کی ضمانت ہوتے ہیں؟ - 17/04/2025
- قرارداد لاہور اور بے بنیاد دعوے - 26/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).