”میرے ہم سفر“ از احمد ندیم قاسمی کا تنقیدی جائزہ


dr saima iqbal

(غلام رسول مہر کے خصوصی حوالے سے )

احمد ندیم قاسمی کا خاکوں کا مجموعہ ”میرے ہم سفر“ اردو ادب کا ایک اہم اور دلنشین سرمایہ ہے، جو 2003 ء میں شائع ہوا۔ اس میں شامل تیرہ سوانحی خاکے قاسمی صاحب کے ادبی سفر کے ساتھیوں اور معاصر شخصیات پر مبنی ہیں، جنہیں انہوں نے نہایت محبت، خلوص اور گہری بصیرت کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ یہ خاکے محض تعریفی نہیں بلکہ ان میں شخصیات کی فکری، تخلیقی اور انسانی جہات کو فنکارانہ انداز میں اُجاگر کیا گیا ہے۔ ”میرے ہم سفر“ نہ صرف ادبی یادوں کا خزینہ ہے بلکہ اردو ادب کے ایک سنہرے دور، اس کے مزاج، تعلقات اور روایات کی جھلک بھی پیش کرتا ہے۔

احمد ندیم قاسمی کا خاکہ ”غلام رسول مہر“ صرف ایک فرد کی شخصیت نگاری نہیں بلکہ ایک علمی، فکری اور اخلاقی پیکر کا مرقع ہے۔ قاسمی صاحب، مہر کو ایک ایسے آدمی کے طور پر پیش کرتے ہیں جو بظاہر خاموش طبع اور تنہائی پسند ہے، لیکن دراصل وہ ایک دانشور، محقق، مورخ اور صحافی ہے جو اپنے علم اور قلم سے معاشرے پر اثر انداز ہوتا رہا۔ ان کی زندگی سادگی، استقامت اور مطالعے سے لبریز تھی۔ قاسمی صاحب نے مہر صاحب کی تحریری شفافیت، تاریخی شعور، اور ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ”زمانے کا سب سے خاموش مگر با اثر آدمی“ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

”مولانا غلام رسول مہر کی رحلت کی صورت میں وہ خطہ ارض، جسے جنوبی ایشیا کہتے ہیں، دانشوری کی اس عظم روایت کی روشن مشعل سے محروم ہو گیا ہے جس کا آغاز آج سے تیرہ صدی پہلے، اموی اور پھر عباسی عہد حکومت میں ہوا تھا۔“

یہ غلام رسول مہر کی علمی حیثیت اور ان کی وفات کے بعد ان کی کمی کو محسوس کرنے کی ایک گہری ادبی تحسین ہے۔ مولانا غلام رسول مہر کی رحلت کو صرف ایک فرد کی موت نہیں بلکہ برصغیر کی علمی و فکری روایت کے ایک درخشاں باب کا اختتام قرار دیا گیا ہے۔ ان کی شخصیت کو اموی و عباسی ادوار کی دانشوری سے جوڑتے ہوئے یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی تہذیب کی اس عظیم روایت کے امین تھے جو قرونِ وسطیٰ کے عظیم علما، مفسرین، محدثین اور مورخین کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ان کی وفات کے بعد جنوبی ایشیا ایک ایسے چراغ سے محروم ہو گیا جو بیک وقت تاریخ، سیرت، ادب، سیاست اور مذہب جیسے شعبوں کو اپنے علم کی روشنی سے منور کرتا تھا۔

ان جملوں میں مولانا مہر کی ہمہ جہت علمی شخصیت اور ان کے بے مثال تبحر کو نمایاں کیا گیا ہے۔ انہیں ایک ایسے عالم کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے جن کا علمی اعتماد اور وسعت نظر آج کے دور میں ناپید ہے۔ ان الفاظ میں نہ صرف مولانا مہر کی خدمات کا اعتراف ہے بلکہ عہدِ حاضر میں ایسی شخصیات کی کمی پر ایک خاموش نوحہ بھی موجود ہے۔ یہ اقتباس مولانا مہر کی علمی میراث کو محفوظ رکھنے اور نئی نسل کو اس سے جوڑنے کی ضرورت کی بھی شدت سے یاددہانی کراتا ہے۔ قاسمی لکھتے ہیں :

”مولانا مہر کی سی شخصیت جو علوم کے متعدد شعبوں پر اتنے پر اعتماد تبحر کے ساتھ حاوی ہو، اب کہیں ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آتی۔“

مولانا غلام رسول مہر کی ہمہ جہت شخصیت واقعی حیرت انگیز تنوع کی حامل تھی۔ ان کی علمی و فکری استعداد صرف کسی ایک میدان تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ بیک وقت صحافت، تحقیق، تاریخ، ادب اور تنقید جیسے متنوع شعبوں میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کا اندازِ تحریر دلکش، اسلوب باوقار، اور فکر نہایت گہری تھی۔ بحیثیت اخبار نویس وہ نہ صرف واقعات کو پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے بلکہ ان کے پس منظر و پیش منظر کو بھی واضح کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، جو ان کے علم اور مشاہدے کی پختگی کا ثبوت ہے :

” مولانا غلام رسول مہر کی ہمہ جہت شخصیت کا تنوع حیرت انگیز تھا۔ وہ جتنے بڑے اخبار نویس تھے اتنے ہی بڑے ادیب، اتنے ہی بڑے محقق، اتنے ہی بڑے مورخ اور اتنے ہی بڑے نقاد بھی تھے۔“

ادب و تنقید کے میدان میں بھی مولانا مہر کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ نہ صرف اردو کے بلند پایہ ادیب تھے بلکہ تحقیق اور تاریخی شعور کے ذریعے ادب کو ایک نئی جہت عطا کرتے تھے۔ ان کی تحریریں علم و حکمت سے بھرپور ہوتی تھیں اور تنقید میں بھی وہ غیر جانب داری، گہرائی اور ادبی ذوق کے معیار کو برقرار رکھتے تھے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ ایسی متنوع صلاحیتیں رکھنے والی شخصیت اردو ادب و صحافت کی تاریخ میں بہت کم نظر آتی ہے۔ تخلص صرف شعری پہچان نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات شاعر یا ادیب کی فکر، نظریہ اور طرزِ عمل کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ غالب اور اقبال جیسے شعرا کی مثال دیتے ہوئے مصنف نے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ ان کا تخلص ان کی زندگی کے نظریات پر گہرا اثر رکھتا ہے۔ اسی اصول کے تحت مولانا غلام رسول مہر کا تخلص ”مہر“ (یعنی محبت، شفقت اور روشنی) ان کی پوری زندگی کا آئینہ بن کر سامنے آتا ہے۔ قاسمی لکھتے ہیں :

”کہتے ہیں کہ مشرق کے بعض بڑے بڑے شعراء کے نظریات حیات پر ان کے تخلص نہایت شدت سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں غالب اور اقبال اس کی مثالیں ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر مولانا غلام رسول کے لیے مہر سے زیادہ کوئی تخلص مناسب نہ تھا کیونکہ ساری عمر وہ مہر و محبت کے پیکر بنے رہے۔“

یہ اقتباس مولانا غلام رسول مہر کی شخصیت کے داخلی جمال اور ان کے تخلص کی معنویت کو نہایت خوبصورتی سے اجاگر کرتا ہے۔ مولانا مہر کی زندگی محبت، رواداری، اور علم کی روشنی سے عبارت تھی۔ ان کی تحریروں سے لے کر ان کے رویّے تک، ہر پہلو میں ایک نرم خو، محبت بھری اور انسان دوست شخصیت جھلکتی ہے۔ وہ صرف قلم کے مجاہد نہ تھے بلکہ کردار کی روشنی بھی تھے۔ ”مہر“ جیسے تخلص نے نہ صرف ان کی فکری اور تخلیقی زندگی کی نمائندگی کی بلکہ ایک علامت کے طور پر ان کی شخصیت کی اصل روح کو بھی بیان کیا۔ اس طرح یہ تخلص صرف ایک ادبی شناخت نہیں، بلکہ ایک فکری اور اخلاقی پیغام بن گیا جو آج بھی زندہ ہے۔ مولانا غلام رسول مہر ایک ہمہ جہت علمی شخصیت تھے جنہوں نے اردو ادب، تاریخ اور صحافت میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اگرچہ وہ تحقیق و تنقید میں بے مثال مقام رکھتے تھے، لیکن بعض معاصر ادبی رجحانات سے ان کی دوری قابل توجہ رہی۔ اسی تناظر میں راوی ایک واقعہ بیان کرتا ہے جو مولانا کے جدید ادب سے تعلق کو واضح کرتا ہے :

”چند روز کے بعد ملاقات ہوئی تو پوچھا“ یہ کرشن چندر کون ہے؟ ”کرشن نے میرے اس مجموعے کا دیباچہ لکھا تھا۔ میں نے نوجوان کرشن کے افسانوں کی تعریف کی اور حیران ہوتا رہا کہ مولانا جدید ادب کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے جبکہ سالک صاحب جدید سے جدید تر ادب کا بالاستیعاب مطالعہ فرماتے ہیں اور اس کے بارے میں ایک واضح رائے رکھتے ہیں۔“

اس اقتباس میں مولانا غلام رسول مہر اور جدید ادب کے درمیان تعلق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ راوی مولانا سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ مولانا نے کرشن چندر کے بارے میں دریافت کیا، حالانکہ کرشن چندر اس وقت کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یہ سوال اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مولانا مہر کا رجحان زیادہ تر کلاسیکی ادب، تحقیق اور تاریخ کی طرف تھا اور انہوں نے جدید اردو ادب بالخصوص افسانے کے میدان میں گہری دلچسپی نہیں لی۔ راوی کی حیرانی اس بات پر ہے کہ اتنی بلند پایہ علمی شخصیت ہونے کے باوجود مولانا جدید ادبی رجحانات سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔

اس کے برعکس سالک صاحب کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے جنہوں نے جدید ادب کا گہرا مطالعہ کیا اور اس پر واضح اور مدلل رائے بھی رکھتے تھے۔ اس تقابل کے ذریعے یہ نکتہ ابھرتا ہے کہ مولانا مہر کی فکری ترجیحات روایتی اور تحقیقی میدانوں میں مرکوز تھیں جبکہ دیگر معاصر اہل قلم، جیسے سالک، جدید رجحانات اور نئی نسل کے ادیبوں سے بھی بھرپور طور پر وابستہ تھے۔ یہ اقتباس نہ صرف مولانا کی علمی دلچسپیوں کی حدود کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ادب کے بدلتے رجحانات پر بعض اکابرین کا ردعمل کیسا ہوتا ہے۔ جب مولانا نے جدید ادب کا مطالعہ شروع کیا تو اس کو احمد ندیم قاسمی اس طرح بیان کرتے ہیں :

” انقلاب بند ہوا اور مولانا ایک طرح سے گوشہ نشین ہو گئے تو ایک روز میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ فرمانے لگے :

”بھئی یہ تمہارا سعادت حسن منٹو کس بلا کا افسانہ نگار ہے! میں نے مغرب کے مختصر افسانے بھی گاہے گاہے پڑھے ہیں مگر مجھے اس معیار کا سچا اور کھرا افسانہ نگار کم ہی نظر آیا ہے۔“

میں بے حد خوش ہوا کہ مولانا تاریخ کے مطالعے کے دوران ہم لوگوں کے افسانوں کو بھی پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ مولانا نے جدید ادب کا مطالعہ باقاعدگی سے شروع کر دیا ہے۔ ”

اس اقتباس کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ مولانا غلام رسول مہر ایک ایسے عالم اور محقق تھے جن کی فکری وسعت اور علمی گہرائی انہیں ہر نئے رجحان سے ہم آہنگ رکھتی تھی۔ اگرچہ ان کی علمی بنیادیں قدیم مطالعے میں پیوست تھیں، لیکن ان کا ذہن بند یا جامد نہ تھا۔ سعادت حسن منٹو جیسے متنازع مگر سچے افسانہ نگار کے فن کو سراہنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ مولانا کا پیمانہ محض اخلاقی یا روایتی نہیں بلکہ فنی معیار اور صداقتِ اظہار پر مبنی تھا۔

یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ مولانا کی شخصیت میں خود احتسابی اور تجسس کا جذبہ ہمیشہ زندہ رہا۔ انہوں نے جدید ادب کو ابتدا میں نظر انداز کیا، لیکن جب اس کے اثرات اور معنویت کا ادراک ہوا تو وہ نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اس کی تحسین بھی کی۔ اس رویے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف محقق تھے بلکہ ایک کھلے ذہن کے ادیب بھی تھے جو بدلتے فکری رجحانات کو تعصب کے بغیر پرکھنے کا ہنر رکھتے تھے۔ ان کی یہی خصلت انہیں محض ماضی کا حوالہ نہیں بلکہ حال اور مستقبل کا بھی رہنما بناتی ہے۔ جب فیض احمد فیض نے ”جشنِ غالب“ کا اہتمام کیا، تو یہ صرف غالب کی شاعری کا جشن نہیں تھا بلکہ اس میں فنونِ لطیفہ کے دوسرے شعبے بھی شامل تھے۔ صادقین جیسے مشہور مصور نے غالب کی شاعری کو تصویروں کے ذریعے پیش کیا۔ ان تصویروں میں غالب کے خیالات اور جذبات کو رنگوں اور خاکوں کی مدد سے دکھایا گیا۔ جب مولانا غلام رسول مہر نے یہ تصویریں دیکھیں تو وہ بہت متاثر ہوئے۔

اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا مہر صرف کتابوں اور الفاظ تک محدود نہیں تھے، بلکہ فن کے دوسرے شعبوں جیسے مصوری سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کا صادقین کے فن کو سراہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ادب کو وسیع نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کے نزدیک ادب صرف پڑھنے کی چیز نہیں بلکہ دیکھنے، محسوس کرنے اور سمجھنے کا فن بھی ہے۔ اس حوالے سے قاسمی لکھتے ہیں :

”یوں ثابت ہو جاتا ہے کہ مولانا نے گوشہ نشینی کے بعد اپنے حجرے کی تمام کھڑکیاں کھول دی تھیں۔ یہ وسیع القلبی بہت کم بزرگ دانشوروں کے حصے میں آئی ہے۔“

مولانا غلام رسول مہر صرف غالب شناس ہی نہ تھے بلکہ فارسی شعرا نظیری اور عرفی سے بھی گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ ان شعرا کی باریک بین، فکری اور فنّی جہتوں کو وہ بخوبی سمجھتے تھے اور ان کے اشعار میں چھپے معانی کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے اور سراہتے تھے۔ مولانا کی شخصیت میں جو فکری وسعت اور تنقیدی گہرائی تھی، اس کا عکس ان کی ادبی پسند پر بھی نظر آتا ہے۔

احمد ندیم قاسمی جیسے معتبر ادیب نے بارہا مولانا کو کہا کہ وہ اپنی سوانح یا یادداشتیں قلم بند کریں تاکہ ان کی علمی، ادبی اور سیاسی خدمات آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رہ سکیں۔ مگر مولانا کی اپنی خواہش کچھ اور تھی۔ ان کی دیرینہ تمنا تھی کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی سیرت پر ایک جامع اور گہرائی سے بھرپور کتاب لکھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی فکر صرف دنیاوی موضوعات تک محدود نہ تھی بلکہ ان کا دل دینی اور روحانی موضوعات کی طرف بھی یکساں مائل تھا۔ ان کا یہ جذبہ ان کی شخصیت کے فکری توازن اور روحانی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔

احمد ندیم قاسمی نے مولانا غلام رسول مہر کے ساتھ اپنے تعلق، ان کی علمی عظمت اور ان کی محبت بھری شخصیت کو نہایت خوبصورتی سے اپنے خاکے میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے صرف ایک نقاد یا مورخ کے طور پر مہر کو نہیں دیکھا، بلکہ ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں شفقت، علم، ذوق، سادگی، تنقیدی نظر، اور محبت بھرے رویے کو دلنشین انداز میں اجاگر کیا ہے۔ قاسمی صاحب کا اسلوب نہ صرف ادبی لحاظ سے سلیقہ مند ہے بلکہ جذبات کی سچائی سے بھرپور بھی ہے۔ مولانا مہر کے ساتھ گزرے لمحے، ان کی گفتگو، ان کے تبصرے اور اندازِ فکر کو جس محبت اور احترام سے انہوں نے قلمبند کیا ہے، وہ قاری کو نہ صرف مہر کی شخصیت سے روشناس کراتا ہے بلکہ احمد ندیم قاسمی کے اپنے اندر موجود خلوص اور فنکارانہ سچائی کا بھی پتہ دیتا ہے۔ یہ خاکہ دراصل صرف یادداشت نہیں بلکہ ایک محبت بھرا ادبی خراج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments