پروفیسر پری شان خٹک اور ڈاکٹر اسرار احمد


muhammad salim gujranwala

2009 اور 2010 کے ماہ اپریل میں پاکستان کی دو نامور ہستیاں اس دار فانی سے کوچ کر گئیں تھیں۔ ایک ماہر تعلیم اور ماہر اقبالیات پروفیسر پری شان خٹک اور دوسرے ڈاکٹر اسرار احمد جو ایک ماہر مبلغ اسلام اور مفسر قرآن تھے۔ ان دونوں شخصیات کی
حیات و خدمات کا تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔

پروفیسر پری شان خٹک۔ 1932۔ 2009

پاکستان کے نامور سپوت اور فرزند،

ماہر تعلیم، محقق، ادیب، دانشور، شاعر، اقبالیت کے ماہر، جامعات اور مقتدر اداروں کے سربراہ اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کے مشیر۔

پروفیسر پری شان خٹک کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ 10 دسمبر 1932 کو خیبر پختونخوا کے شہر کرک میں پیدا ہوئے۔ پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ماسٹر کیا۔ پشاور یونیورسٹی میں بطور لیکچرار، محقق اور چیئر مین شعبہ پشتو کے کام کیا۔ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان اور آزاد کشمیر کے وائس چانسلر بنے، سابقہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے سربراہ بنے۔ وہ کئی برس تک اباسین آرٹس کونسل، مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیات پاکستان کے سربراہ بھی رہے۔ ساری عمر ملک و قوم کی بے لوث خدمت کی۔ اتنے بڑے عہدوں پر کام کر کے صرف نیک نامی کمائی۔ کوئی دنیاوی آسائش اور مالی منفعت حاصل نہ کی۔

اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں مجھے ان سے شرف ملاقات حاصل ہوا، وہاں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا،

وقت کی ہر حکومت نے مجھے مکان اور پلاٹ دینے کی بہت کوشش کی ہے، لیکن میرا ہمیشہ ایک ہی جواب رہا ہے کہ میں تو سارے پاکستان کو اپنا گھر اور پلاٹ سمجھتا ہوں،
مجھے حکومت ایک گھر اور پلاٹ دے کر کیوں محدود کرنا چاہتی ہے۔

اس نفسا نفسی اور پلاٹوں کی کھینچا تانی کے دور میں ایسے رخ زیبا چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو نہ ملیں۔

پروفیسر پری شان خٹک نے 50 سے زائد کتب تصنیف کی۔ جن میں اردو پشتو کے مشترکہ الفاظ، پشتون کون، دیوان خوشحال خان خٹک، تنقیدی مضامین، پاکستانی زبانوں کے مشترکہ الفاظ، زیادہ اہم ہیں۔

حکومت پاکستان نے پروفیسر پری شان خٹک کی ادبی اور تعلیمی خدمات کے اعتراف میں انہیں نشان امتیاز اور تمغا حسن کارکردگی سے نوازا۔

مملکت پاکستان کا یہ نامور اور بے لوث سپوت 16 اپریل 2009 ء کو اسلام آباد میں وفات پا گیا، انہیں پشاور کے حیات آباد قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

ڈاکٹر اسرار احمد 1932۔ 2010

کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ چند سال تک طبی پریکٹس کرتے رہے۔ پھر اپنے آپ کو دعوت و تبلیغ اسلام اور قرآن کے لیے وقف کر دیا۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں قرآن اکیڈمی اور قرآن کالج قائم کیے ۔ تفہیم قرآن اور نظام خلافت کے لیے تمام عمر کمر بستہ رہے۔ شروع میں مولانا مودودی کی جماعت اسلامی سے وابستہ رہے۔ پھر فکری اختلافات کے باعث جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی۔ پہلے تحریک اسلامی اور بعد ازاں تنظیم اسلامی قائم کی۔ ماہنامہ میثاق اور حکمت قرآن کے بھی مدیر رہے۔ عام لوگوں کے لئے قرآنی تفہیم کا ایک منتخب نصاب تیار کیا اور اس کی آڈیو کیسٹس بھی تیار کروائیں۔ اسلامی خط و کتابت کے کورس بھی شروع کروائے جو عربی زبان کی تعلیم اور قرآنیات پر مشتمل تھے۔

ساری زندگی سودی نظام معیشت کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ کلام اقبال کے عاشق تھے اور موقع و محل کے مطابق ان کے شعر پڑھتے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن مدنی کو اپنا روحانی استاد مانتے لیکن سیاست میں قائد و اقبال کے مؤید تھے۔

پاکستان میں نظام خلافت کے داعی تھے اور قرآن و سنت کی بالادستی چاہتے تھے۔

نظام خلافت کو سمجھانے کے لیے جریدہ ندائے خلافت جاری کیا۔ ملک کے طول و عرض میں لاتعداد دروس قرآن و حدیث دیے۔ ضیاء الحق کی مجلس شوری کے رکن رہے۔ وہ پاکستان کے دولخت ہونے کی وجہ نظام اسلام کو قائم نہ کرنا قرار دیتے تھے۔ حکومت پاکستان نے ان کی دینی خدمات کے عوض انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا۔ 2002 میں ناسازی طبع کے باعث اپنے بیٹے حافظ عاکف سعید کو اپنا جانشین مقرر کیا اور تنظیم اسلامی کی سربراہی بھی ان کو سونپ دی۔ عارضہ اور بندش قلب کے باعث 14 اپریل، 2010 کو 78 برس کی عمر میں عالم فانی سے رخصت ہوئے، پس ماندگان میں ایک بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ انہیں گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

ڈاکٹر اسرار احمد 26 اپریل 1932 ء کو مشرقی پنجاب کی ریاست ہریانہ کے ضلع حصار میں ایک مغل خاندان میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ ایف سی کالج لاہور سے ایف ایس سی کی اور 1954 میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔ 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ 1971 تک طبی روزگار سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد طب کو خیر باد کہہ کر اپنے آپ کو ہمہ وقت دعوت و تبلیغ اسلام اور قرآن و حدیث سے جوڑ لیا۔

زمانہ طالبعلمی میں اسلامی جمعیت طلبا سے وابستگی رہی اور عملی زندگی میں جماعت اسلامی سے وابستہ رہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی زندگی کے 39 برس کے روز و شب قرآن و سنت کی تبلیغ و ترویج میں بسر کر دیے۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان اور امریکہ و یورپ میں ان کا ایک وسیع حلقہ احباب تھا۔ ہندوستان کے اسلامی دانشور ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کی خصوصی دوستی تھی۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں دروس قرآن حدیث دیے۔ سمعی و بصری طریقے سے بھی اسلام کی اشاعت کی۔ پی ٹی وی سے کئی برس تک الہدی کے نام سے قرآن و حدیث کا درس دیتے رہے۔ وہ مفسر قرآن بھی تھے۔ قرآنی تفسیر اور سیرت النبی ﷺ اور علوم اسلامیہ پر سو سے زائد کتب تصنیف کیں۔

ان کی کچھ تصانیف کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ملفوظات ڈاکٹر اسرار احمد
2۔ اصلاح معاشرہ کا قرآنی تصور
3۔ نبی کریم ﷺ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں
4۔ ہم پر قرآن کے حقوق
5۔ استحکام پاکستان
6۔ علامہ اقبال اور ہم
7۔ مسلمان امتوں کا ماضی حال اور مستقبل
8۔ تفسیر قرآن مجید
9۔ اخروی نجات کا مختصر قرآنی نصاب
10۔ سیرت النبی ﷺ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments