حقیقت کی حقیقت کیا ہے؟


 

suhail zubairy

فرض کریں کہ پوری کائنات میں زندگی صرف زمین پر موجود ہے اور کہیں نہیں۔ اب تک کائنات میں زندگی کے آثار زمین کے علاوہ کہیں نہیں ملے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ مفروضہ کوئی ایسا غیر حقیقی نہیں، اور پھر یہ تصور کیا جائے کہ کسی حادثے کے نتیجے میں زمین پر ہر قسم کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی حادثہ رونما نہ ہو تو بھی پانچ ارب سال کے بعد تو سورج کی حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔ اس وقت سورج سے اٹھنے والی گرم گرد زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور زندگی کا وجود ہی ختم ہو جائے گاْ۔ تمام انسان، ہر قسم کے جاندار، اور ہر قسم کی نباتات کو موت کا سامنا ہو گا۔

تو پھر اس وقت اس کائنات کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔
کوئی اس کائنات کے بارے میں سوچنے والا بھی نہیں ہو گا۔
ذرا ایک لمحے کے لیے غور کریں ایسی کائنات کے بارے میں جس کو دیکھنے والا کوئی نہیں۔
کیا کائنات پھر بھی موجود ہوگی؟
کیا یہ چاند سورج اور ستارے پھر بھی موجود ہوں گے؟
کیا پھر بھی روزانہ سورج مشرق سے نکلے گا اور مغرب میں غروب ہو جائے گا؟
کیا پھر بھی ستارے ٹمٹماتے ہوں گے؟
کیا پھر بھی کہکشائیں اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہوں گی؟
کیا زندگی کے بغیر کائنات کا تصور کرنا ممکن ہے؟

ابھی تک تو میں نے مستقبل کی بات کی ہے۔ لیکن سائنس کی موجودہ تحقیق کے مطابق تو کائنات کے ابتدائی نو ارب سال میں تو زمین کا وجود ہی نہیں تھا۔ یہ شمسی نظام جس میں سورج اور مختلف مداروں میں چکر لگاتے ہوئے سیارے اور ان سیاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے چاند نظر آتے ہیں، یہ پورا نظام کوئی پانچ ارب سال پہلے وجود میں آیا۔ اور پھر ساڑھے چار ارب سال پہلے ایک خلیے سے زندگی کی ابتدا ہوئی۔ اس خلیے کی پیدائش سے پہلے تو کسی زندگی کا وجود ہی نہیں تھا۔

اس وقت کائنات کیسی ہوتی ہو گی؟
کیا کسی جاندار، خاص طور پر انسان، کے بغیر کائنات کا تصور معنی رکھتا ہے؟

کیا چاند، سورج، ستارے حقیقی ہیں، یہ اس وقت بھی موجود تھے جب ان کو دیکھنے والا کوئی موجود نہیں تھا اور کیا اس وقت بھی موجود ہوں گے جب ان کو دیکھنے والا موجود نہیں ہو گا؟

کیا کسی چیز کا وجود معنی رکھتا ہے جب اس کو دیکھنے والا کوئی موجود نہ ہو؟

یہ سوالات بظاہر مابعدالطبیعات سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ سائنس نے پچھلے سو سالوں میں اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے اور کچھ حیرت انگیز نتائج اخذ کیے ہیں۔ لیکن حتمی جواب ابھی تک موجود نہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ موجودہ سائنس حقیقت کی حقیقت کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ لیکن سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ حقیقت سے ہماری کیا مراد ہے۔ جب ہم کسی چیز کو حقیقی قرار دیتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟

کسی چیز کو اس وقت حقیقی سمجھا جا تا ہے جب وہ اس بات سے آزاد ہو کہ ہم اسے دیکھتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر ، ہم سب مانتے ہیں کہ چاند اس وقت بھی موجود ہے جب ہم میں سے کوئی بھی اسے نہیں دیکھتا۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ چاند جیسی کسی چیز کی حقیقت کا انحصار براہ راست مشاہدہ کرنے پر ہے۔ ہم ایسی دنیا کا تصور بھی نہیں کر سکتے جہاں اشیا صرف اس وقت موجود ہوتی ہیں جب ہم انہیں دیکھتے ہیں اور جب ہم ان سے منہ موڑ لیتے ہیں تو ان کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ، رات کے وقت، ہم اس یقین کے ساتھ سوتے ہیں کہ سورج موجود ہے اس کے باوجود کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کی طرف دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔

ہمارے اپنے دور میں البرٹ آئن سٹائن نے حقیقت کا تصور ان الفاظ میں پیش کیا:

”اگر کسی طور اثر انداز ہوئے بغیر اگر ہم یقین کے ساتھ کسی شے کی موجودگی کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں، تو اس شے کو ہم حقیقی تصور کریں گے۔“

اس تعریف کی روشنی میں چاند حقیقی ہے اگر وہ اس وقت بھی موجود ہو جب ہم اس کو نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

موجودہ دور کی ایک اہم ترین یہ سائنسی دریافت ہے کہ قدرت کے قوانین حقیقت (Reality) اور مقامیت (Locality) میں سے کم از کم ایک سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ حیرت انگیز دریافت سائنس اور فلسفے کے درمیان کی سرحدوں پر ہے اور کائنات کے بارے میں ہمارے تصورات کو حیران کن انداز میں بدل دیتی ہے۔ یہاں مقامیت (Locality) کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ کسی مقام پر اس وقت ہو رہا ہے، اس کا اثر باقی کائنات پر بالکل نہیں پڑتا۔ اور اسی طرح، دور دراز کے ستاروں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس بات پر اثر انداز نہیں ہوتا کہ زمین پرکیا ہو رہا ہے۔ مثلاً ًمریخ یا عطارد پر ہونے والا کوئی واقعہ اس بات پر اثر انداز نہیں ہو سکتا کہ زمین پر ہوا میں پھینکی گئی گیند کہاں گرے گی۔ اس بات کا تصور بھی نا ممکن ہے کہ اربوں، کھربوں میل دور ستاروں اور سیاروں پر جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے، وہ ہماری موجودہ زندگی پر کسی طور اثر انداز ہو سکے۔ یہ ستارے تو ہم سے اتنی دور ہیں کہ وہاں سے روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ہزاروں، بلکہ لاکھوں سال لگ سکتے ہیں۔

حقیقت اور مقامیت سے وابستہ اس اہم مگر ناقابل فہم دریافت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کائنات کی ہر چیز حقیقی ہے اور وہ اس وقت بھی موجود ہوتی ہے جب وہ ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہوتی، تو مقامیت کا تصور ماند پڑ جاتا ہے یعنی کائنات میں ہونے والی ہر حرکت ہماری موجودہ زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ اور اگر ہم مقامیت کے تصور کو مان لیں تو کائنات کی کوئی چیز حقیقی نہیں ہو گی۔

اگر ایک لمحے کے لئے رک کر اس نتیجے پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ یہ کائنات کس قدر ناقابل فہم ہے۔ حقیقت اور مقامیت میں سے کسی ایک کی غیر موجودگی کائنات کے بارے میں ہمارے تصورات کو پاش پاش کر دیتی ہے۔ یہ اس سوال کو اٹھاتی ہے کہ کیا ہمارے ارد گرد کی دنیا کی کوئی حقیقت ہے یا یہ محض ایک سراب ہے؟

حقیقت کی حقیقت کو جدید سائنسی نظریات کی روشنی میں سمجھنے کے لیے کوانٹم میکانکس کے قوانین کا ادراک ضروری ہے۔ اس وقت یہ سمجھا جاتا ہے کہ کائنات میں ہونے والی ہر حرکت ان قوانین کے مطابق ہے۔

بیسویں صدی کے شروع تک سائنس کی بنیاد اس مفروضے پر قائم تھی کہ کسی بھی ذرے کی حرکت کی نیوٹن کے دریافت کردہ مکینکس کے قوانین کی روشنی میں مکمل طور پر پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ 1926 میں کوانٹم مکینکس کی آمد نے یہ تصور پاش پاش کر دیا۔ کوانٹم مکینکس کا سب سے مشہور اور زیر بحث پہلو اس کی پیشین گوئیوں کی امکانی نوعیت ہے۔ یہاں میں ایک سادہ مثال سے اس کی وضاحت کرتا ہوں۔

ہم جس مسئلے پر غور کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک شے ایک مقررہ سمت میں مستقل رفتار کے ساتھ حرکت کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ: ایک مخصوص ٹائم کے بعد یہ چیز کس مقام پر ہو گی؟

نیوٹن کی دریافت کردہ مکینکس میں اس سوال کا جواب سیدھا سادہ ہے۔ مثلاً اگر کوئی گیند ایک میٹر فی سیکنڈ کی یکساں رفتار سے حرکت کر رہی ہے تو یہ ایک منٹ کے بعد 60 میٹر، دو منٹ کے بعد 120 میٹر، تین منٹ کے بعد 180 میٹر وغیرہ کے فاصلے پر ہو گی۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم یقین سے بتا سکتے ہیں کس وقت گیند کہاں ہو گی۔ یہ نیوٹن سے وابستہ مکینکس کا طرہ ٔامتیاز ہے۔

اب ہم اسی سوال کو کوانٹم مکینکس کے فریم ورک میں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے ریاضی کی جدید تکنیک کا علم درکار ہے۔ میں اس وقت کوانٹم مکینکس کے فریم ورک میں ذرے کی حرکت کا جائزہ لیتا ہوں۔

کوانٹم مکینکس، نیوٹن کی دریافت کردہ مکینکس کے بر عکس یہ نہیں بتا سکتی کہ وہ شے ایک یا دو منٹ کے بعد کہاں ہو گی، کوانٹم مکینکس صرف یہ بتا سکتی ہے کہ کسی مقررہ وقت پر اس شے کے کسی مقام پر پائے جانے کا کیا امکان ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ امکان شروع میں تو ایک مختصر جگہ تک محدود ہو گا، لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے ذرہ حرکت کرتا ہے، پھیلتا جاتا ہے اور وہ خطہ جہاں اس شے کے پائے جانے کا امکان ہے، بڑھتا جاتا ہے۔ ذرہ کا سب سے ممکنہ مقام وہی ہے جہاں نیوٹن کے قانون حرکت کے تحت اسے ہونا چاہیے، لیکن وقت کے ساتھ یہ امکان بڑھتا جاتا ہے کہ یہ ذرہ اس مقام سے دور ملے جس کی پیشین گوئی نیوٹن سے وابستہ قوانین کرتے ہیں۔

یہ ایک حیران کن نتیجہ ہے جس پر ہماری عقل یقین کرنے سے قاصر ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب اس ذرہ کو دیکھا جائے تو وہ مقررہ مقام سے ایک میٹر، دو میٹر، بلکہ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر پایا جائے؟ اگرچہ اس بات کا امکان بہت کم ہے، تقریباً صفر کے برابر، مگر یہ صفر نہیں ہے۔

گیند جیسی کسی بھی شے کی سادہ حرکت کے لیے جو حیرت انگیز تصویر ابھرتی ہے وہ درج ذیل ہے : کسی بھی وقت، گیند کو کسی ایسی شے کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا جو ایک اچھی طرح سے متعین پوزیشن پر موجود ہو، اگر اس کی طرف نہ دیکھا جا رہا ہو۔ اس کے بجائے، اس چیز کو ایک بادل کے طور پر تصور کرنا چاہیے۔ کوانٹم مکینکس میں اس بادل کو Wave Function کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بادل ایک بڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے لیکن یہ کوئی حقیقی چیز نہیں ہے۔ یہ بادل درمیان میں گھنا ہے لیکن مرکز سے فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ پتلا ہوتا جاتا ہے۔ جیسے جیسے گیند حرکت کرتی ہے، بادل کی کثافت آہستہ آہستہ حرکت کی سمت میں زیادہ پھیلتی جاتی ہے۔ یہ ارتقا اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ بادل کو نہ دیکھا جائے یا اس کی پیمائش نہ کی جائے۔ جیسے ہی گیند پر نظر پڑتی ہے، ایک بڑے خطے پر پھیلا ہوا بادل فوراً ایک ہی جگہ پر مرکوز ہو جاتا ہے۔ اس کے پائے جانے کا امکان اس مقام پر بادل کی کثافت کے متناسب ہے۔

اس ناقابل فہم تصویر میں حقیقت کی حقیقت سے وابستہ بہت سے بنیادی سوالات جڑے ہوئے ہیں۔
دیکھنے سے پہلے گیند کہاں تھی؟
کیا پیمائش یا مشاہدے سے پہلے ایک حقیقی گیند موجود تھی؟
وہ کون سا لمحہ تھا جب بادل چھٹ گئے، اور گیند ایک نقطے پر مرکوز ہو گئی؟

اس سے پہلے کہ ہم گیند کو دیکھتے، ایک بڑے فاصلے پر (اصولی طور پر ایک میٹر یا ایک کلو میٹر دور) گیند کے ہونے کا امکان غیر صفر تھا۔ لیکن جب اس پر نظر ڈالی گئی تو یہ امکان فوراً ایک ہی نقطے پر مرکوز ہو گیا۔

کوانٹم مکینکس کے مطابق کوئی صفت اور چیز اس وقت حقیقی تصور ہوگی جب اس کا مشاہدہ کیا جائے۔ مشاہدے سے پہلے حقیقت کا وجود نہیں۔

اس انتہائی عجیب و غریب توجیہ، جو حقیقت کے بارے میں ہمارے تصورات کو پاش پاش کر دیتی ہے، کو مزید سمجھنے کے لیے ایک اور سادہ سے تجربے پر غور کرتے ہیں۔

سب سے پہلے ہم ایک انٹرفیرومیٹرinterferometer پر غور کرتے ہیں جس میں دو بیم سپلٹرز اور دو آئینے ہیں جیسا کہ اوپر دی گئی تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ اسے Mach۔ Zehnder interferometer کہتے ہیں۔ اوپر کے بیم اسپلٹر میں ایک طرف سے ایک فوٹون بھیجا جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف کوئی فوٹون نہیں ہوتا۔ بیم سپلٹر کا کردار یہ ہے کہ یہ یا تو فوٹون کو بائیں جانب منعکس کرتا ہے اوریا پھر بیم سپلٹر میں سے گزر نے دیتا ہے۔ دونوں آئینوں کا کردار فوٹون کو منعکس ( reflect) کرنا ہے۔

دلیل کی خاطر ہم فرض کرتے ہیں کہ دونوں بیم سپلٹر کے درمیان ایک نوری سال کا فاصلہ ہے۔ یعنی فوٹون کو بیم سپلٹر سے آئینوں کے راستے نیچے کے بیم اسپلٹر تک سفر کرنے میں ایک سال لگتا ہے۔

یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ بیم اسپلٹر زمین پر ہے جہاں ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس بیم سپلٹر کو اپنی جگہ رکھا جائے یا اس کو نہ رکھا جائے۔

اب ہم دو صورت حال پر غور کرتے ہیں۔

جب ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ بیم اسپلٹر کو اپنی جگہ رکھا جائے تو فوٹون بیم اسپلٹر سے گزرنے کے بعد یقینی طور پر دائیں طرف موجود ہو گا اور ڈیٹیکٹر کلک کرے گا جیسا کہ دائیں طرف کی تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ یہ صرف اس صورت ممکن ہو گا اگر فوٹون سال بھر تک دائیں جانب اور بائیں جانب ہونے کی حالتوں کی ایک سپر پوزیشن (superposition) میں رہا ہو گا۔ اس صورت میں یہ ہرگز درست نہیں ہو گا کہ فوٹون اس پورے عرصے میں دائیں طرف سے گزرا ہو گا یا بائیں طرف سے۔

ہا پھر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ بیم اسپلٹر کو اپنی جگہ پہ نہ رکھا جائے۔ اس صورت میں دونوں ڈیٹیکٹر یا کے کلک کرنے کے امکان مساوی ہوں گے جیسا کہ درمیان اور بائیں طرف دی گئی تصاویر میں دکھایا گیا ہے۔ تاہم اگر ڈیٹیکٹر کلک کرتا ہے تو ہم یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ فوٹون نے پورا سال دائیں طرف سفر کیا اور اگر ڈیٹیکٹر کلک کرتا ہے تو ہم یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ فوٹون نے پورا سال بائیں طرف سفر کیا۔

اس طرح ہمارے پاس ایک عجیب صورتحال ہے۔ ایک سال پہلے بھیجا گیا فوٹون یا تو دونوں طرف یا صرف ایک ہی طرف سفر کرتا تھا اور اہم بات یہ ہے کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اب زمین پر کیا تجربہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم انتخاب کر سکتے ہیں کہ بیم اسپلٹر کو اپنی جگہ رکھا جائے یا اس کو نہ رکھا جائے۔ اس طور ہمارا حال میں کیا گیا فیصلہ سال بھر کے ماضی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

یہ ایک حیرت انگیز نتیجہ ہے۔ اس کی وضاحت کیسے کی جائے؟

اس معمے سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم تصور کریں کہ ہمارے حال نے ماضی کو بدل دیا۔ ہمارا حال میں کیا گیا فیصلہ کہ زمین پر کون سا تجرباتی سیٹ اپ رکھا جائے، ماضی کو بدل دیتا ہے۔ اگر بیم اسپلٹر کو اپنی جگہ رکھا جائے، تو فوٹون نے بیک وقت بائیں اور دائیں جانب سفر کیا ہو گا اور اگر بیم اسپلٹر کو اپنی جگہ نہ رکھا جائے تو فوٹون کا ماضی مختلف ہو گا۔ وہ دائیں یا بائیں راستے پر سفر کرے گا۔

لیکن یہ تصور کہ ہمارا حال میں کیا گیا فیصلہ سالوں پرانے ماضی کو تبدیل کر دے گا، انتہائی حیرت ناک اور ناقابل یقین ہے۔

ایک اور توجیہ جو زیادہ معقول معلوم ہوتی ہے (لیکن یہ بھی انتہائی پراسرار ہے ) یہ کہنا ہے کہ فوٹون کے راستے بلکہ فوٹون کی کوئی حقیقت نہیں ہے جب تک کہ ہم ان کی پیمائش کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔ یہ کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ روشنی کے فوٹون نے کون سا راستہ اختیار کیا جب تک کہ ہم ان کو دیکھنے کے لیے کوئی تجربہ ترتیب نہ دیں۔ یہ توجیہ کہ فوٹون کی اس وقت تک کوئی حقیقت نہیں جب تک اس کا مشاہدہ نہ کر لیں، بیشتر سائنسدانوں کے لیے قابل قبول ہے۔

یہ سادہ لیکن پراسرار مثال ایک زبردست انداز میں اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ حقیقت کا ہمارا روایتی تصور انتہائی ناقص ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حقیقت تب ہی وجود میں آتی ہے جب ہم مشاہدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشاہدے کے بغیر کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جب ہم چاند کو نہیں دیکھتے ہیں تو چاند واقعی موجود نہیں ہو تا ہے۔

یوں چاند اسی وقت موجود ہوتا ہے جب ہم اس کو دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔
اگر یہ درست ہے تو یہ حقیقت کا کتنا عجیب نظریہ ہے۔
ایک اور امکان بھی ہے۔ کائنات کا کوئی وجود نہیں۔ نہ زماں ہے اور نہ مکاں۔

جو کچھ ہے وہ صرف ہماری سوچیں ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ یہ سوچیں نہ صرف ہمیں اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں بلکہ ان میں وہ تمام معلومات موجود ہیں جنہیں ہم اپنی زندگی کے تجربات تصور کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارے بچپن سے لے کر آج تک جو واقعات پیش آئے، جن افراد یا کسی اور مادی چیز سے ہمارا واسطہ ہوا، وہ ساری تخلیقی صلاحیتیں جن کو ہم سمجھتے ہیں کہ محنت سے حاصل کیں، غرض جو کچھ احساسات اور معلومات ہماری سوچوں میں موجود ہیں، بس یہی سب کچھ ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

بس ایک سوچوں کا مجموعہ ہے اور کسی زمان و مکاں کا وجود نہیں۔
ان سوچوں میں کوئی زندہ ہے تو کوئی مر چکا ہے، کوئی دوست ہے تو کوئی دشمن، کوئی امیر ہے تو کوئی غریب۔
کیا صرف میری سوچوں کا مجموعہ ہی حقیقت ہے اور کچھ نہیں؟

یہ مفروضہ ناقابل تردید ہے مگر اس کو ثابت کرنا ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ ہماری اس مادی دنیا میں جس میں ہم ہر وقت سرگرداں نظر آتے ہیں، اس میں کسی طور مددگار نہیں۔

لیکن اگر اس مفروضے کو مان لیا جائے تو بھی سوال موجود رہتا ہے کہ ان سوچوں کا منبع کیا ہے؟

ایک اور مفروضہ ہے۔ جس کائنات میں ہم اپنے آپ اور دوسروں کو پاتے ہیں، یہ سب محض خواب ہے۔ حقیقت تو تب آشکار ہو گی جب ہم اس خواب سے بیدار ہوں گے۔ لیکن خواب کا ہمارا تصور ابھی تک نامکمل ہے۔ سائنسدان ابھی تک خوابوں کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔

اس سلسلے میں بھی یہ سوال موجود ہے کہ کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یا محسوس کر رہے ہیں یہ حالت خواب میں ہے یا حالت بیداری میں؟ ایک بادشاہ حالت خواب میں گداگر ہو سکتا ہے اور ایک گداگر بادشاہ۔ یہ کیسے جانا جائے کہ حقیقت کیا ہے؟

کیا کائنات کی کوئی حقیقت ہے یا یہ محض ایک وہم ہے؟

مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں ان سوالوں کا قطعی جواب نہ حاصل کر سکوں گا۔ لیکن امید ہے کہ آنے والی نسلیں کسی دن ٹھوس سائنسی علم کی بنیاد پر حتمی حقیقت کی نوعیت تلاش کر لیں گی۔

ڈاکٹر سہیل زبیری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سہیل زبیری

ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس  کے Distinguished Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔

suhail-zubairy has 82 posts and counting.See all posts by suhail-zubairy

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments