تذکرہ قمرالزمان کائرہ کی سجائی شادی کی تقریب کا


اتوار کی سہ پہر پیپلز پارٹی کے متحرک رہ نما اور سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ صاحب نے اپنے بچوں کی شادی کے حوالے سے اپنے آبائی شہر لالہ موسیٰ میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا۔ دوست نواز اور پرخلوص محبت بانٹنے کے عادی کائرہ صاحب کے بے شمار چاہنے والے اس تقریب میں موجود تھے۔ میں بھی دوستوں کی مہربانی سے بہت سہل انداز میں وہاں پہنچ گیا۔

اسلام آباد سے لاہور کی جانب سفر کرتے ہوئے ہمیشہ تاریخی جی ٹی روڈ کو موٹروے کے مقابلے میں ترجیح دینے کا خواہش مند رہا ہوں۔ دورِ حاضر میں سرعت رفتار سفر کی اپنی اہمیت ہے۔ کاروباری ضرورتوں یا ہنگامی حالات کی مجبوری میں سرعت رفتار سفر یقینا قابل ترجیح ہے۔ تعطیل کے روز مگر ایک دوست کے ہاں منعقدہ خوشی کی تقریب میں شرکت کے لئے جی ٹی روڈ کا انتخاب راستے میں آئے شہروں کی تاریخ و ثقافت یاد دلاتے ہوئے ایک خاص نوعیت کا فخر فراہم کرتا رہا۔

جی ٹی روڈ کو حالیہ برسوں میں کشادہ بھی کر دیا گیا ہے۔ جو کشادگی فراہم ہوئی تھی وہ مگر شہروں میں داخل ہوتے ہی معدوم ہوجاتی۔ ناجائز تجاوزات اور خوانچہ فروشوں کے بے ہنگم ہجوم سڑک کی دولینز میں سے صرف ایک کو سفر کے قابل رکھتے۔ تقریباََ دس برس کے بعد جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے اتوار کے دن اگرچہ احساس ہوا کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کی انسداد تجاوزات مہم کامیاب رہی ہے۔ دو رویہ ٹریفک اب تمام لینز میں اس کی بدولت روایتی رہتی ہے اور سفر کرتے ہوئے آپ کو دائیں اور بائیں کے مناظر دیکھنے کو ملتے اور بھلے لگتے ہیں۔ پوٹھوہار کی سحرانگیزی سے دل شاد ہوا۔ کوفت مگر اس وقت ہوئی جب اسلام آباد سے لالہ موسیٰ جاتے ہوئے تین مختلف مقامات پر ٹول ٹیکس ادا کرنے کے لئے رکنا پڑا۔ تینوں جگہ آپ کو ستر روپے ادا کر کے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ میں سمجھ نہیں پایا کہ موٹروے کی طرح جی ٹی روڈ کے لئے بھی ایک ایسا ٹیگ متعارف کیوں نہیں کروایا گیا جس کی فیس کی یکمشت ادائیگی کے بعد آپ ٹول ادا کرنے کے لئے رکے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ ٹول ادا کرنے کی کوفت کے علاوہ اسلام آباد  سے نکلتے ہی ایک دو پولیس ناکے مجرموں کا پتہ لگانے اور انہیں روکنے کے بجائے ٹریفک کی روانی میں بلاجواز رکاوٹیں کھڑی کرتے دکھائی دئیے۔ جو مہربان دوست مجھے لے جا رہے تھے ان کی گاڑی بھی بلاجواز روکی گئی۔ مجھے یقین ہے ایسی ہی کاوشیں کئی دوسری گاڑیوں کے ساتھ بھی ہوئی ہوں گی۔ مقصد ان ناکوں کا مجھے تو مسافروں کو خواہ مخواہ کی کوفت میں مبتلا کرنا محسوس ہوا۔ ایک باخبر دوست نے یہ اطلاع دے کر بھی پریشان کر دیا کہ اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کی جانب سفر کرتے ہوئے پولیس کے جو ناکے لگائے گئے ہیں ان پر تعیناتی کے لئے ’’تگڑی سفارش‘‘ درکار ہوتی ہے۔ نظر بظاہر نیک نیتی کے ساتھ جرائم کے مقابلے کے لئے لگائے ناکوں پر تعیناتی کیلئے تگڑی سفارش کسی اور ’’مقصد‘‘ کا عندیہ دیتی ہے۔

شادی کی تقریب ایک وسیع و عریض قطعہ اراضی میں تھی۔ مہمان بھی ہزاروں کی تعداد میں ملک کے تقریباََ ہر شہر سے جوق درجوق تشریف لائے تھے۔ کائرہ خاندان کے تمام افراد نے مگر ہر مہمان کا بھرپور گرم جوشی سے سواگت کیا۔ ہر مہمان کو وی آئی پی محسوس کروایا۔ اس تقریب کی بدولت ایک طویل عرصے کے بعد میری پیپلز پارٹی کے کئی اہم اور مشہور رہ نمائوں سے ملاقات ہوئی۔ چند سینئر ترین لوگوں سے تنہائی میں گپ شپ لگانے کے بعد احساس ہوا کہ وہ خود کو سیاسی اعتبار سے غیر متعلق محسوس کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ قیادت تک رسائی کے باوجود انہیں گلہ ہے کہ ان کی بات سننے کے بجائے ’’حکم‘‘ ملتا ہے۔ ’’حکم‘‘ کی وجوہات منطقی انداز میں سمجھانے کی کوشش نہیں ہوتی۔ فقط ’’جی حضوری‘‘ کی توقع باندھی جاتی ہے۔

حیران کن حقیقت مگر یہ بھی تھی کہ مجھے اس تقریب میں 30 سال سے کم عمر کئی ایسے نوجوان ملے جنہوں نے نہایت فخر سے اپنے بزرگوں کا ذکر کیا جو پیپلز پارٹی کے ساتھ طویل وابستگی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ نوجوان آج بھی اپنے بزرگوں کی جماعت کے کام آنا چاہتے ہیں۔ ان کی رہ نمائی کے لئے مگر کوئی حکمت عملی تیار نہیں ہوئی۔ گوجر خان سے لالہ موسیٰ تک جو شہر اور قصبات ہیں ان کے بے تحاشہ افراد 1970ء کی دہائی سے بیرون ملک جانا شروع ہو گئے تھے۔ ان کی ایک معقول تعداد اب برطانیہ اور یورپ کے کئی ملکوں میں کاروباری اعتبار سے بہت کامیاب گردانی جاتی ہے۔ اتفاق سے ایسے لوگوں میں سے کچھ افراد کائرہ خاندان کی سجائی تقریب میں بھی موجود تھے۔ مذکورہ تقریب میں شرکت کے علاوہ وہ پاکستان اس کنونشن میں شرکت کے لئے بھی تشریف لائے تھے جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے پیر سے شروع ہو رہا ہے۔

ان میں سے جن افراد کے ساتھ میری گفتگو ہوئی وہ نہایت خلوص کے ساتھ اپنے مادرِ وطن کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے ہی نہیں بلکہ یہاں کے نوجوانوں کے لئے بھی منظم انداز میں کچھ ہوتا دیکھنے کے خواہش مند ہیں اور اس تناظر میں خطیر رقوم بھی عطیات کی صورت فراہم کرنے کو آمادہ۔ ان کا خلوص بروئے کار لانے کے لئے تاہم کوئی ٹھوس حکمت عملی مجھے سننے کو نہیں ملی۔ کاش ان پاکستانیوں کو بلانے سے قبل کسی تھنک ٹینک نے بیرون ملک مقیم خوش حال اور کاروباری اعتبار سے کامیاب گردانے افراد کی صلاحیتوں اور سرمائے کو مختلف شعبوں میں استعمال کرنے کے ذرائع ڈھونڈ لئے ہوتے۔ امید ہی کرسکتا ہوں کہ جو کنونشن ہو رہا ہے اس کے دوران ایسے امکانات کو ٹھوس انداز میں بروئے کار لانے کی راہیں دریافت ہوسکیں گی۔

شادی کی تقریب میں سب سے زیادہ خوشی مجھے نوجوانوں کی اس کھیپ سے مل کر ہوئی جو دورِ حاضر میں بھی علم اور معلومات کے حصول کے لئے فقط سوشل میڈیا پر ہی انحصار نہیں کرتی۔ میرے لئے خوش گوار حیرت کا باعث یہ دریافت تھی کہ اخبار میں چھپے کالم یہ نوجوان نہایت سنجیدگی سے پڑھتے ہیں۔ میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے چند نوجوانوں نے ان موضوعات کا ذکر کیا جو اس کالم میں زیر بحث آئے تھے۔ اس کے علاوہ چند دیگر کالم نگاروں کے خیالات سے اتفاق واختلاف کا بھی سرسری انداز میں ذکر ہوا۔ یہ تاثر گویا غلط ہے کہ ہماری نوجوان نسل اب فیس بک یا انسٹا گرام کی نذر ہو چکی ہے۔ وہ جسے ہم لانگ فارم جرنلزم کہتے ہیں اسے نظرانداز کرتے ہوئے اب محض ٹک ٹاک سے اپنا دل پشوری کرتی ہے۔ نوجوانوں کی اس نسل کے ساتھ مگر میری نسل کے رابطے اور مکالمے کے پلیٹ فارم میسر نہیں۔ دورِ حاضر کو یقینا سرسید جیسی شخصیات کی ضرورت ہے جو ’’قدیم‘‘ کو یکسر رد کئے بغیر نوجوان نسل کو ’’جدید‘‘ کے ساتھ کامیابی کے ساتھ رہنا سکھا سکے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments