قوم پرست سیاست ناکامی کے محرکات
پاکستان میں قوم پرستی کی سیاست کی بڑی پرانی تاریخ رہی ہے اس سیاست کا محور زیادہ تر وہ علاقے رہے ہیں جہاں کے لوگوں کو سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی محرومیوں کا سامنا رہا ہے جیسے بنگال، بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور کسی حد تک جنوبی پنجاب کا علاقہ شامل ہے۔ نیپ کا قیام 1957 میں سامنے آیا جب پشتون، بلوچ، بنگالی اور سندھی بائیں بازو کے سوشلسٹ، ترقی پسند اور قوم پرست رہنماؤں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی تشکیل کی۔ نیپ کی سیاست کے بنیادی ستون، قوم پرستی، جمہوریت، صوبائی خودمختاری اور بائیں بازو کی سیاست تھی۔ نیپ کا مقصد وفاق کے اندر رہتے ہوئے قوم پرست حقوق کا دفاع اور مزدوروں، کسانوں اور محکوم اقوام کی نمائندگی کرنا تھا۔ یہ پشتون، بلوچ، سندھی، بنگالی اقوام کے لئے ایک مشترک پلیٹ فارم بنی۔ نیپ کا تنظیمی ڈھانچہ ایک روایتی سیاسی جماعت سے زیادہ ایک نظریاتی تحریک سے مشابہ تھا۔ نیپ نے 1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کی بھرپور کامیابی کے بعد مغربی پاکستان کے حکمرانوں سے قومی اسمبلی کا اجلاس فی الفور بلانے اور اقتدار عوامی لیگ کے حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن بھٹو اور یحییٰ کے گٹھ جوڑ اور وہاں فوجی آپریشن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد نیپ مغربی پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور اس کی پشت پہ کھڑی فوجی جنتا کے عتاب کا شکار ہونا شروع ہوئی۔ کیونکہ مشرقی پاکستان کے تجربے کے بعد ریاست نے ہر قسم کی قوم پرستی کو علیحدگی کے تناظر میں دیکھنا شروع کر دیا۔
ویسے تو نیپ کی ناکامی کی مختلف وجوہات رہی ہیں لیکن بنیادی وجہ متضاد نظریات اور سوچ و فکر رکھنے والی شخصیات کا مجموعہ ہونا اور ریاستی جبر و تشدد تھا۔ جس نے نیپ کو اپنے مقاصد کے حصول سے دور رکھا۔ مولانا بھاشانی، افضل بنگش مکمل کمیونسٹ انقلاب کے حامی تھے جبکہ ولی خان اور غوث بزنجو جمہوری، سوشلسٹ اور مکمل صوبائی خود مختاری چاہتے تھے۔ جی ایم سید اور شیخ مجیب جیسے رہنماؤں کا مدعا کنفیڈریشن تھا۔ ان اختلافات کی وجہ سے مولانا بھاشانی کا دھڑا الگ ہو گیا۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور 1973 میں بلوچستان کی نیپ حکومت کی برطرفی نے نیپ کو کمزور کر دیا اور پھر 1975 میں نیپ پہ پابندی لگی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے صوبے میں نواب اکبر بگٹی کو گورنر بنا کے گورنر راج نافذ کر دیا اور بلوچ علیحدگی پسندوں پہ آپریشن شروع کر دیا جس کے بعد نواب خیر بخش مری جیسے لوگ پارلیمانی سیاست سے متنفر ہو گئے اور افغانستان جا کے پناہ لی۔ 1986 میں ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کی تشکیل کے بعد نیپ کی کوکھ سے کئی قوم پرست پارٹیوں نے جنم لیا۔ شیر باز خان مزاری کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، غوث بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی، ڈاکٹر عبد الحئی کی بلوچستان نیشنل موومنٹ، رسول بخش پلیجو کی سندھ عوامی تحریک، صمد خان کی پشتونخواہ نیشنل عوامی پارٹی۔ 1999 میں ان تمام جماعتوں نے Pakistan Oppressed Nations Movement (PONM) کے نام سے قوم پرستوں کا ایک نیا اتحاد قائم کیا لیکن یہ اتحاد بھی صرف آٹھ سال بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
قوم پرست جماعتوں کی پہلی قیادت نے جس طرح تمام تر جمہوریت کے دعووں کے باوجود اصولی اور اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہوئے اپنی سیاسی وراثت کو اپنی اگلی نسلوں میں منتقل کیا اسی طرح ان کی اولاد نے اسے بعینہ اپنی بعد والی نسلوں میں۔ اب تو پچھلی چار دہائیوں سے ان قوم پرست جماعتوں کی سیاست کا اولین مقصد اور مدعا پارلیمانی سیاست اور اس کے نتیجے میں ملنے والی تین چار نشستیں رہی ہیں۔ لیکن پچھلے کئی انتخابات میں تین سو چھتیس میں سے ایک سو چھیتر کی تعداد رکھنے والی پنجاب کی اکثریتی نمائندگی والی پارلیمنٹ میں مل ملا کے تین، چار نشستیں جیتنے والی ان ساری جماعتوں کی اس نمائندگی کی شکل میں آوازیں یوں ہی صدا بصحرا ثابت ہوتی رہیں گی جیسے اب تک پچھلے اٹھتر سال میں ثابت ہوتی رہی ہیں۔ ویسے بھی اب ان میں سے اکثر قوم پرست جماعتوں کی قیادتوں کی سیاست کا محور اپنی جماعتوں کی قیادت پہ تمام جمہوری آدرشوں اور اصولوں کو پامال کر کے اپنی اولادوں کو بٹھانا اور پھر اسٹیبلشمنٹ سے سودا بازیاں کر کے انھیں کسی نہ کسی طرح پارلیمنٹ میں پہنچانا رہ گیا ہے۔ باقی پشتون، بلوچ، سندھی دیرینہ قومی مسائل جیسے پاکستان کی تمام اقوام پہ مشتمل یکساں نمائندگی رکھنے والی پارلیمنٹ، تمام مقامی زبانوں کو اردو کے ساتھ ساتھ قومی زبان کی حیثیت دینا، زبانوں کی بنیاد پہ ہر ایک قوم کا ایک الگ صوبہ، بجٹ کی آبادی کے بجائے وسائل، رقبہ اور منتشر آبادی کی بنیاد پہ تقسیم، دفاع، خارجہ اور کرنسی کے علاوہ باقی تمام سبجیکٹس کی صوبوں کو حوالگی، ہر صوبے کی اپنی ثقافت، زبان، تاریخ، مشاہیر اور جغرافیہ کی بنیاد پہ نصاب کی تشکیل وغیرہ اور ان جیسے دوسرے بے شمار موضوعات اب ان جماعتوں کے منشور میں تو شامل ہوں گے لیکن ترجیحات میں قطعاً نہیں ہیں بلکہ اب تو سالہا سال ہو چکے یہ قوم پرست جماعتیں، قومی جماعتوں سے اتحاد یا حکومتی تشکیل کے وقت اپنے منشور والے ان نکات کو ان کے سامنے رکھنے یا ان سے منوانے کی بجائے نام نہاد جمہوریت کی بحالی اور خیرات میں دی جانے والی چند سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ پہ ہی اکتفا کر لیتی ہیں۔ اور پھر اس اتحاد کے ذریعے اپنے دو تین نمائندوں کو پارلیمنٹ میں پہنچا کے خوش ہوتے اور سمجھتے ہیں کہ پشتونوں، بلوچوں اور سندھیوں کے مسائل حل ہو رہے ہیں یا حل کیے جا رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ صرف ان جماعتوں کے سربراہوں اور ان کے ممبرز کے اپنے ذاتی اور خاندانی مسائل حل ہو رہے ہوتے ہیں، قوم کے نہیں۔
اگر یہ پارلیمانی سیاست اتنی ہی معتبر ہوتی تو پھر باچا خان، جی ایم سید جیسے ان کے مشاہیر ان سے اپنا دامن کیوں چھڑاتے کیونکہ ان کو پتا تھا کہ اس کے ذریعے چھوٹی اقوام کے مسائل کا حل تو دور کی بات اس پارلیمنٹ میں ایسے امور پہ بات بھی نہیں کی جا سکتی اور ویسے بھی اس پارلیمان کی حیثیت کیا ہے اور ان کا اختیار کتنا ہے وہ ہر کسی کو پتہ ہے اور مذکورہ بالا جماعتوں میں سے اکثریت نے وزارت اعلیٰ، گورنرشپس، وفاقی، صوبائی وزارتیں لے کے اس بہتی گنگا میں بارہا ہاتھ تو کیا اپنا پورا تن بھی دھویا ہے مگر نتائج زیرو ہیں لیکن اگر وہ اس کے باوجود اس پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے پہ مصر ہیں تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ ان جماعتوں کا مدعا اور مقصد صرف ان کی اپنی ذاتوں کی آبیاری ہے نہ کہ قومی مسائل کا حل۔
- قوم پرست سیاست ناکامی کے محرکات - 15/04/2025
- ایڈورڈ سعید: مستشرقیت اور مابعد نوآبادیات - 19/02/2025
- شام : اسد خاندان کے طویل سیاہ دور کا خاتمہ اور خطے پہ اس کے ممکنہ اثرات - 12/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).