آخر ہم کب تک عقل دشمنی کرتے رہیں گے؟


 

ہم سب نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایک دور تھا جب مسلمان سائنس، ایجادات، فلسفے، تعلیم، کیمیا گری، فن تعمیر اور طب سمیت ہر شعبے میں دنیا کی راہ نمائی کر رہے تھے۔ اسے مسلمانوں کی عظمت کا دور کہا جاتا ہے۔ پھر یہ زمانہ طویل ہونے کے بجائے ختم ہو گیا۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ تھی عقل دشمنی۔ امام غزالی اور ان کے مکتب فکر کے وہ فتوے جس میں انہوں نے کہا کہ فلسفہ دین کا مخالف ہے۔ امام کی اس کم فہمی اور عقل دشمنی نے مسلمانوں پر زوال کا دروازہ کھولا تھا۔

اس زوال کو روکنے کا ایک موقع سلطنت عثمانیہ کے دور میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور اسے مغرب اور پوری عیسائی دنیا نے قبول کر لیا۔ لیکن اس وقت کے غزالیوں نے پھر ایکا کیا اور عقل کو رد کر کے روایت پرستی پر قائم رہے، مسلمانوں نے پرنٹنگ پریس اور جدت کو ”نو“ کہہ کر اپنے تابوت میں کیل جڑ دی۔ پچھلے تین سو سال سے مسلمان دنیا کے ہر کونے میں ذلیل ہو رہے ہیں۔ ہر میدان میں شکست کھا رہے ہیں تو اس کی وجہ ایمان کی کمی نہیں عقل سے عدم تعاون ہے۔

اکیسویں صدی کا پون گزر گیا ہے۔ اس وقت کمپیوٹر، موبائل اور انٹرنیٹ سے بڑی پاور اے آئی ہے۔ اسی نے حال اور مستقبل کے محاذوں اور میدانوں کا تعین کرنا ہے۔ تاریخ میں ایک بار پھر مسلمانوں کے پاس موقع آیا ہے کہ وہ اس تبدیلی کو اپنا کر اپنے حالات بہتر کر لیں۔ آج مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں جو آلات اور ٹیکنالوجی ہے، بالکل ویسے گیجٹس غریب ممالک کے لوگوں کی دسترس میں بھی ہیں۔ مشرق و مغرب کی ٹیکنالوجی کی تفاوت صدیوں بعد کم ہوئی ہے۔ تاریخ میں پہلی بار ہمارے بچوں کے پاس ترقی کرنے کے اتنے ہی مواقع ہیں جتنے پہلی دنیا کے لوگوں کے پاس۔ پہلی بار پلیئنگ فیلڈ کچھ حد تک مساوی ہوئی ہے۔

ایسے میں کیا ہو رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلائے جا رہے ہیں کہ اے آئی کا استعمال حرام ہے۔ اسے فی الفور ترک کر دینا چاہیے۔ کیوں کہ یہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی معاونت کر کے فلسطینوں کا قتل عام کروا رہی ہے۔

ابتہال والے واقعہ کے بعد اے آئی کے بائیکاٹ کا مطالبہ اور شدید ہو گیا ہے۔ میرا بھی یہی موقف ہے کہ جو کمپنیاں اپنا ڈیٹا انسان دشمنی اور جنگی کاموں میں استعمال کرنے کے لیے دیتی ہیں۔ اس کے پیسے لیتی ہیں ان کا بائیکاٹ ہونا چاہیے اور انسانی بنیادوں پر ہونا چاہیے، محض مذہبی بنیاد پر کیوں؟ نہ صرف ان کا بائیکاٹ ہونا چاہیے بلکہ ان پر عالمی سطح پر پابندیاں عائد ہونی چاہیے۔ ان کے ساتھ لین دین نہیں کرنا چاہیے۔ عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ بھی دائر ہونا چاہیے۔

میرا موقف یہ بھی ہے کہ قتل عام بند ہونا چاہیے۔ نسل کشی دنیا کے کسی بھی لسانی، نسلی اور مذہبی گروہ کی نہیں ہونی چاہیے۔ میں اس کے خلاف ہوں۔

باقی میں نے کم فہم، متشدد اور شدت پسند لوگوں کے سوشل میڈیا پیجز اور گروپس کو دیکھا ہے جہاں انہوں نے اپنا بیان اس انداز سے پیش کیا جیسے جو لوگ بھی اے آئی اور متعلقہ ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں وہ ہی اصل میں مجرم ہیں۔ انہیں گلٹ میں ڈالا جائے۔ جب کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں ہاتھ عام مسلمانوں کا نہیں ہے، پالیسی میکرز کا ہے۔ مسلمانوں کو اسی وقت سنبھل جانا چاہیے تھا جب سعودیوں کی آشیر باد سے ابراہم اکورڈ پر دستخط ہوئے (یہ معاہدہ عام مسلمانوں سے پوچھ کر یا ان کی مرضی سے نہیں ہوا تھا) اسی طرح باقی فیصلے جنہوں نے غزہ والوں کو اس لمحے اس دنیا کے سب سے مظلوم لوگوں کی صف میں کھڑا کیا ہے وہ بھی عام مسلمانوں کے نہیں تھے۔ پھر بھی انہیں ایسے ملامت کیا جا رہا ہے جیسے سب انہی کا تو قصور ہے۔ اس حوالے سے میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں۔

اگر ہم آج اے آئی سمیت ہر ٹیکنالوجی سے ہاتھ کھینچ لیں تو کیا غزہ والوں کو آسانی ہوگی؟

جن چھپن اسلامی ملکوں کے راگ ہم الاپتے ہیں ان میں سے کسی ایک ملک کے پاس بھی اتنی تگڑی اور طاقتور ائر فورس ہے کہ وہ اسرائیل میں اپنے جیٹس داخل کرے، حملہ کرے اور راستے میں اسے ائر سپیس اور ری فیولنگ کے کسی مسئلہ سے دوچار نہ ہونا پڑے؟ جہاز جائیں، ہدف کو نشانہ بنائیں اور واپس آئیں! ہے کوئی؟

ایک بھی مسلمان ملک کے پاس ایسی بڑی اور طاقتور ائر فورس نہیں ہے۔ گنتی کے بمبار جیٹس ہیں وہ بھی محدود صلاحیتوں والے۔

سعودیہ بہت امیر ہے مگر ان کی فوج ناکارہ ہے۔ یمن میں حوثیوں پر حملہ کرنے کے لیے ان کے فائٹر جیٹس کے پائلٹس کو کمانڈ اینڈ کنٹرول سے جو ہدایات ملتی تھیں وہ وٹس ایپ و وائس نوٹ سے جاتی تھیں۔ یہ معیار ہے فوجی آپریشنز کا۔

ترکی کو ہم طاقتور ملک سمجھتے ہیں۔ کبھی ان کے معاشی حالات دیکھیں۔ اب تو اردوان کو ویسے ہی عوامی احتجاج کی وجہ سے اقتدار جانے کا خطرہ ہے، وہ باہر کیسے کوئی ایکشن لے گا جب اسے اپنے ملک کے اندر کرد علیحدگی پسندوں سمیت سیاسی مخالفین سے نبٹنے کا چیلنج درپیش ہے۔

رہا ایران تو اس کی قوت و ہمت کا اندازہ اسی سے لگا لیں کہ اپنے ملک کے اندر محسن فخری زادہ کی حفاظت نہیں کر سکا، نہ اس کے قتل کا بدلہ لے سکا۔ وہ صرف اپنا انقلاب ایکسپورٹ کرنے کے لیے جنرل سلیمانی جیسوں کے زیر قیادت گوریلے تیار کر کے مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوا سکتا ہے۔ بس۔

پاکستان کے اپنے حالات کیا ہیں، سیکیورٹی کی کیا صورت حال ہے آپ کو معلوم ہے۔ ایک ایٹم بم ہے اس کے پاس۔ ٹھیک ہے۔ مار دیتے ہیں ایٹم بم اسرائیل پر۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل تو اتنا چھوٹا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ارد گرد کی تباہی کا ذمہ دار کون ہو گا؟

پاکستانی ایٹمی حملہ جو کہ کہیں نہیں ہونے والا مگر فرض کرتے ہیں کہ وہ ہو جاتا ہے تو اس حملے کے بعد جو حملے پاکستان پر ہوں گے، ان کا کیا حل ہے؟

آخر کار مخالفین، دشمن اور دشمن کے دوست خالی ہاتھ تو نہیں بیٹھے نا۔ ایٹم بم صرف پاکستان کی ہی ملکیت میں تو نہیں ہے نا!

کوئی ایک مسلمان ملک بتا دیں جو کسی چیلنج سے نبرد آزما نہ ہو۔ لیبیا، سوڈان سے لے کر شام تک میں تو خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ وہاں کی فوج اور عوام کتنے گروہوں میں بٹ کر آپس میں گتھم گتھا ہے۔ جہاں خانہ جنگی کی نحوست نہیں ہے وہاں نہ منظم فوج ہے نہ اچھا آرسنل۔

آج کل جنگوں میں اہم ہتھیار صرف دو ہیں : مضبوط اور وسیع ائر فورس + ڈرون طیارے اور سافٹ ٹیکنالوجی۔ اے آئی وار فیئر۔

پاکستانی فوج، جس کی ہمت اور شجاعت کے ترانے ہمارے کانوں کا رزق بنا دیے گئے ہیں، کے لیے دفاعی ٹیکنالوجی کا بڑا حصہ درآمد کیا جاتا ہے۔ اگر آج ترقی یافتہ ملک ہمیں اپنی ٹیکنالوجی اور اسلحہ بیچنا بند کر دیں تو فوج کی صلاحیت آدھی بھی نہیں رہے گی۔ برا لگے گا مگر سچ یہی ہے۔

آگر آج کی دنیا میں آپ کو سروائیو کرنا ہے نا تو وہ سارے ایڈوانس ٹولز اور ٹیکنالوجی آپ کو سیکھنی ہوگی جس سے آپ کے دشمن آپ پر وار کر رہے ہیں۔ اے آئی سمیت ہر چیز۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اے آئی کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اپنا الگ سسٹم بنائیں۔ جو زیادہ مضبوط اور موثر ہو۔ وہ ٹیکنالوجی میں اتنے آگے ہوں کہ ان کو دفاع کے لیے کسی کی طرف دیکھنا نہ پڑے۔

مسلم معاشرے کو چاہیے ہر کام چھوڑے، اپنے آپ کو ٹیکنالوجی اور ڈیفینس میں خود کفیل کرے۔ پھر لڑنے کے متعلق سوچے۔

ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اسرائیل کے خلاف جنگ نہیں کی۔
تین بار جنگ ہو چکی ہے۔ تینوں میں مسلمان ممالک کو منہ کی کھانا پڑی۔

یہ جو کہتے ہیں کہ مسلمان ہتھیار سے نہیں ایمان سے لڑتا ہے، یہ گمراہ کرنے والی باتیں ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان انڈیا سے تین جنگیں ہارا۔

مسلمان ممالک اسرائیل سے ہارے۔ ہر جنگ ہارے۔ کیوں ہارے؟ کیا ان کے پاس ایمان نہیں تھا؟ تھا بھئی۔ ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ پلاننگ نہیں تھی، اتنے ریسورسز نہیں تھے۔

غزوہ بدر کی مثال دیتے ہوئے لوگ خوش ہو جاتے ہیں۔ وہ اسے 313 بمقابلہ 1000 دیکھتے ہیں اور ملٹری سٹریٹجی کا کوئی پہلو نظر میں نہیں لاتے۔ غزوہ کے لیے میدان جنگ حضور ﷺ نے منتخب کیا (پسند کا بیٹل فیلڈ) میدان میں بھی اونچائی والی جگہوں پر خیمے گاڑے گئے۔ رات کو بارش ہوئی تو پانی ٹیلوں سے اترا اور نشیب کی طرف بڑھا جہاں قریشیوں کا لشکر تھا۔ وہ زمین کیچڑ اور بارش کے پانی سے دلدلی تھی۔ کفار نے صف بندی کی تو ان کے پاؤں اس زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے۔ مسلمانوں کے لشکر کی طرف ایسے مسائل نہیں تھے۔ اور بھی کئی پہلو تھے جو غزوہ بدر میں مسلمانوں کے حق میں رہے۔

خلافت راشدہ کے دور میں جو فتوحات ہوئیں ان میں ابو عبیدہ بن الجراح اور خالد بن ولید جیسے دماغوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ وہ وار جینٔیس تھے۔ ان کو پتا تھا دشمن کو کہاں سے بھاگنے دینا ہے، کہاں جا کر پکڑنا ہے، کیسے پکڑنا ہے اور کہاں جا کر مارنا ہے۔

تو کہنا بس یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کامیاب صرف وہ قومیں ہیں جن کے اندر:

اپنے ملک کے دفاع کی صلاحیت ہے، ان کو کہیں سے کوئی اہم اور بڑا ہتھیار (جہازوں کا فیول بھی) لینا نہیں پڑتا، وہ دفاعی ضروریات میں خود کفیل ہیں۔

جن کی اکانومی مضبوط ہے۔ جن کی معیشت قرضوں پر نہیں چلتی۔
اور جو تعلیم، ٹیکنالوجی اور انسانی حقوق، شخصی آزادی میں آگے ہیں۔

مسلمانوں کو بھی انہی میدانوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا مہربانی کر کے انہی پر توجہ دیں۔ اور غزالیوں والی غلطیاں دہرانے سے بچیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments