دنیا کو نئی ’ٹرمپٹیشن‘ کا سامنا


صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی دوسری بار صدارت سنبھالے محض تین ماہ مکمل ہوئے ہیں، لیکن ایسے لگتا ہے ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ساری دنیا ایک مسلسل سیاسی و معاشی زلزلے کی زد میں ہے۔ عالمی اسٹاک مارکیٹس کریش ہو رہی ہیں، معاشی کساد بازاری اور سفارتی بے یقینی عروج پر ہے، اور نئے تجارتی محصولات (ٹیرف) میں اضافے نے نہ صرف چین بلکہ امریکا کے دیرینہ دوستوں اور اتحادیوں کو بھی تنقید اور دباؤ کا شکار کر دیا ہے۔ نیٹو جیسا قدیم عسکری اتحاد بے یقینی کا شکار ہے، اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سمیت عالمی ادارے بے اثر ہوتے جا رہے ہیں۔

ٹرمپ کا موقف ہے کہ ”مارکیٹ جلدی اٹھ جائے گی۔ میرا مقصد کسی کو گرانا نہیں، لیکن بیماری کی تھوڑی سی دوا ضروری ہے۔“ مگر مبصرین کے نزدیک یہ دوا درحقیقت ایک نئے اور ممکنہ طور پر پہلے سے زیادہ خطرناک عالمی کساد بازاری کا دروازہ کھولنے والی ہے، جو 1929 کی گریٹ ڈپریشن سے بھی زیادہ سنگین ہو سکتی ہے۔ اُس وقت امریکا نے صرف 20 فیصد ٹیرف لگایا تھا، اب ٹرمپ نے یہ شرح 25 فیصد تک پہنچا دی ہے۔ اس وقت کے صدر ہربرٹ ہوور کی غلط پالیسیوں کو بعد میں آنے والے صدر روزویلٹ نے نیو ڈیل پروگرام کے تحت ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی، جس سے امریکی معیشت اور عالمی بازار کو کچھ استحکام ملا تھا۔

آج ٹرمپ نے کی پالیسیاں بھی عالمی اقتصادی استحکام پر شدید منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ اس بار صدر ٹرمپ کی منفی پالیسیوں کا دائرہ صرف معاشی حد تک محدود نہیں، بلکہ وہ امریکا کی عالمی ساکھ اور ”سافٹ پاور“ کو بھی یکسر بدلنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول ”انکے اتحادیوں اور دوستوں نے ہمیں دشمنوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے“ ۔ انہوں نے یو ایس ایڈ جیسے مشہور عالمی امدادی ادارے کو بھی بند کر دیا ہے اور دیگر کئی ایسے عالمی امدادی اداروں کو بھی بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

ان اقدامات سے امریکا کی عشروں پر محیط Goodwill، خاص طور پر ترقی پذیر دنیا میں، سخت متاثر ہو رہی ہے۔ یہ تمام عوامل اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ٹرمپ کی دوسری مدت نہ صرف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک کڑا امتحان ہے بلکہ امریکی خارجہ پالیسی، عالمی سفارت کاری، اور دنیا کے جغرافیائی توازن کے لیے بھی ایک بڑے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کی پہلی مدت کی متنازع پالیسیاں ابھی مکمل طور پر ختم بھی نہ ہوئی تھیں کہ انہوں نے دوسری مدت کا آغاز بھی مزید ڈراونے اور پیچیدہ انداز میں کیا ہے۔

اس بار معاملہ صرف بیانات یا پالیسیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے دنیا کو ایک ایسے دور میں داخل کر دیا ہے جسے ہم Trumptations کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ وہ دور ہے، جو امریکہ کے تحفظ کے نام پر ٹرمپ کی لا محدود عالمی سیاسی خوش فہمیوں کا مرکز ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں ٹرمپ کے فیصلوں کے منفی اثرات ان کی بد نیتی کو بھی ساتھ ہی ساتھ نمایاں کر رہے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جہاں طاقت اصولوں کو چپ چاپ پیچھے چھوڑ دیتی ہے اور تباہی باقی بچتی ہے۔

اس ٹرمپٹیشن کے نتیجے میں عالمی سیاست سے یقین اور وضاحت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ جیسے وہ پالیسی کے ابہام کی دھند میں فیصلے کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے تجارتی تحفظ پسندی کے نام پر ”آزاد منڈی“ کے تصور کو بھی مسمار کر دیا ہے۔ چینی مصنوعات پر دوبارہ بھاری ٹیکس عائد کرنا، یورپی اتحادیوں سے اقتصادی مراعات پر سوال اٹھانا، اور عالمی ادارہ تجارت کی ساکھ کو مزید کمزور کر نا، ایسے اقدامات ہیں جن کے نتیجے میں امریکی معیشت اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام دونوں تباہی کے دہانے پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔

مشرق وسطی میں غزہ کا المیہ ہو یا ایران کے ساتھ تنازعہ۔ سعودی عرب کے ساتھ تجارتی تعلق ہو بھارت کے ساتھ ٹیرف کی پیچیدگیاں، روس یوکرین جھگڑا ہو یا یورپی ممالک کے ساتھ نئے مواشی تعلقات کا معاملہ۔ یا چین کے ساتھ تجارتی تنازعات کا مسئلہ ہو یا کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ سرحدی مشکلات۔ وہ ہر جگہ اپنی حدود سے باہر نکل کر چوکے چھکے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب معاملہ صرف ٹیرف یا نرخوں کا نہیں رہا، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ امریکی تجارتی پالیسی کی کوئی واضح سمت یا تسلسل موجود نہیں۔

ایک دن کسی ملک پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، دوسرے دن وہی پابندیاں بغیر کسی وضاحت کے ختم کر دی جاتی ہیں۔ کاروباری برادری کے لیے یہ غیر یقینی ایک مسلسل خوف بن چکی ہے۔ یورپی اور ایشیائی منڈیاں امریکی فیصلہ سازی کو ناقابلِ بھروسا تصور کرنے لگی ہیں۔ عالمی سرمایہ کار اس مخمصے کا شکار ہیں کہ آیا اگلا ہفتہ ان کے لیے مواقع لائے گا یا خسارہ۔ ایک شفاف، اصولوں پر مبنی تجارتی نظام اب صرف کتابوں میں باقی ہے۔ حقیقی دنیا میں امریکی پالیسی ”فیصلوں پر مبنی“ ہو چکی ہے، جن کا تعلق زمینی حقائق سے کم اور سیاسی حکمت عملی سے زیادہ ہوتا ہے۔

نیٹو اتحاد جو کہ سرد جنگ کے بعد سے عالمی امن کا ستون سمجھا جاتا تھا، اب ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ٹرمپ نے اگرچہ نیٹو سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا، لیکن انہوں نے اتحاد کی روح اور باہمی اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ انہوں نے بارہا نیٹو کے دیگر ممالک پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں، اور امریکہ کے دفاعی کردار کو محدود کرنے کی دھمکیاں دیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپی ممالک، خاص طور پر فرانس اور جرمنی، اپنے دفاع کو امریکہ سے الگ کر کے خودمختار بنانے کی کوششوں میں مصروف ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب مشرقی یورپ کے وہ چھوٹے ممالک، جنہیں امریکہ نے روس کے خلاف بطور ڈھال استعمال کیا تھا، انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، اب وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر روس نے ان سے بدلا لینا چاہا تو کیا واشنگٹن ان کی مدد کو آئے گا؟ نیٹو کا وہ اجتماعی دفاع کا نظریہ جو اس اتحاد کی جان تھا، اب زبانی دعووں تک محدود ہو چکا ہے۔ ٹرمپ اپنے آپ کو ایک کاروباری صدر کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن اپنی اس نئی مدت میں وہ نام نہاد سرمایہ دارانہ نظام کو بھی امتیازی معیشت میں بدلنے پر تل چکے ہیں۔

ایسی کمپنیاں جو ٹرمپ کے نظریے یا سیاسی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، انہیں سہولیات، معاہدے اور ٹیکس چھوٹ ملتی ہے، جبکہ مخالف کاروباری ادارے سرکاری اداروں کے نشانے پر ہیں۔ یہ طرزِ حکومت سرمایہ داری کے نام نہاد بنیادی اصولوں، جیسے مارکیٹ کی آزادی، مقابلہ بازی اور شفافیت کے خلاف ہے۔ کاروبار کو اب نفع یا نقصان کے بجائے سیاسی وفاداری کے تابع کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مارکیٹ کا اعتماد ہچکولے کھا رہا ہے، اور سرمایہ کاروں کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑ رہا ہے۔

ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت کا آغاز ”جنگیں ختم کرنے“ کے وعدے سے کیا تھا، لیکن عملی طور پر اس کا انداز اور طرزِ عمل عالمی سطح پر خوف، اشتعال اور غیر یقینی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی میں بیک وقت جارحیت، دھونس، اور خودساختہ ثالثی کا متضاد امتزاج نظر آتا ہے، جس نے غزہ، یوکرین، اور ایران جیسے حساس خطوں میں آگ بھڑکا دی ہے۔ غزہ کی صورتحال نے ٹرمپ کی منافقانہ خارجہ حکمت عملی کو سب سے زیادہ بے نقاب کیا ہے۔

ایک طرف وہ دعویٰ کرتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن اُس کی ترجیح ہے، دوسری طرف اُس نے کھلے عام اسرائیل کو نہ صرف مکمل حمایت فراہم کی بلکہ اقوامِ متحدہ میں فلسطینیوں کے لیے ہر ممکن آواز کو بھی مسترد کیا۔ ٹرمپ کا غیر رسمی بیان کہ ”غزہ کو خالی کرانا مسئلے کا حل ہے“ ۔ گویا پورے خطے کے مظلوم عوام کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنا ہے۔ ان کا یہ طرز سیاست دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سفارتی حلقوں کے لئے پریشان کن ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اسے نسل کشی کی ایک نئی شکل اور مہاجرین کے بحران کو مزید بڑھانے والی سوچ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ نے پہلی مدت میں ہی ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے (JCPOA) کو منسوخ کر دیا تھا، اور دوسری مدت میں اس نے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کیں۔ اُس کے بیانات اب کھلم کھلا فوجی کارروائی اور بمباری کی دھمکیوں تک جا پہنچے ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ ”ایران کو روکنے کے لیے اگر تہران پر حملہ کرنا پڑا تو یہ بھی گوارا ہے“ ۔

اس قسم کی زبان نے نہ صرف خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے بلکہ عالمی توانائی کی منڈیوں اور تیل کی قیمتوں کو بھی غیر مستحکم کر دیا ہے۔ یورپی اتحادی اور اقوامِ متحدہ ایسے بیانات کو خطرناک، غیر ذمہ دارانہ اور عالمی امن کے منافی قرار دے چکے ہیں۔ یوکرین کی جنگ، جو روسی مداخلت کے نتیجے میں اب ایک طول پکڑتا بحران بن چکی ہے، وہاں بھی ٹرمپ نے روایتی امریکی حمایت سے ہٹ کر ایک نیا، استحصالی انداز اپنایا ہے۔

اُس نے یوکرین پر واضح کر دیا ہے کہ ”امریکہ کی فوجی اور سیاسی حمایت مفت نہیں ہو سکتی، ہمیں اس کے بدلے یوکرین کے معدنی وسائل، خصوصاً لیتھیم، نکل اور یورینیم تک رسائی درکار ہے“ ۔ اس جنگی جزیے کی سوچ نے نہ صرف یوکرین کے عوام کو صدمے میں ڈال دیا ہے بلکہ نیٹو میں بھی ٹرمپ کے خلاف فکری انتشار پیدا کر دیا ہے۔ امریکی حمایت کو اصولوں کی بنیاد پر دینے کی بجائے اسے اقتصادی مفادات سے مشروط کر دینا جدید نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔

ٹرمپ کی غزہ، ایران اور یوکرین پالیسی سے بین الاقوامی برادری میں امریکا کی اخلاقی حیثیت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ جو کبھی دنیا میں خود کو انصاف، حقوقِ انسانی اور آزادی کا پرچم بردار سمجھتا تھا، اسے اب ایک ایسی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو صرف معاشی، عسکری اور سیاسی مفادات کے لیے اقوام کو دبانے، بلیک میل کرنے اور کمزور کرنے میں ننگی ہو چکی ہے۔ کیونکہ ٹرمپ کی موجودہ حکمت عملی میں نہ تو امن کی کوئی سنجیدہ خواہش نظر آتی ہے، نہ ہی شفاف سفارت کاری کا کوئی ہنر، بلکہ اس کی یہ نام نہاد ڈیل میکنگ جو بظاہر ایک سوداگرانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔

دنیا کے حساس ترین خطوں کو ایک نئے تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ خود امریکی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے ٹرمپ کے آنے سے جنگیں تو ختم نہیں ہوئیں، صرف امریکہ کی موجودگی کم ہو گئی ہے۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد طالبان نے تیزی سے دوبارہ قبضہ جما لیا ہے۔ وہاں پر دہشت کا ایک نیا مرکز پنپ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پسپائی سے ایک بار پھر ایران، روس اور دیگر طاقتوں کو جگہ مل سکتی ہے۔ شمالی کوریا دوبارہ میزائل تجربات کر رہا ہے، چین تائیوان کے گرد فوجی مشقیں بڑھا رہا ہے، اور اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

ان سب کے مقابلے میں امریکی ردعمل محض بیانات یا غیر موثر اقدامات تک محدود ہے۔ یہ وہ ”خاموش جارحیت“ ہے جہاں امریکہ کی غیر موجودگی دنیا کے مختلف علاقوں کو عدم توازن کی طرف دھکیل رہی ہے۔ خیر یہ تو ایک امریکی نکتہ نظر تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا امریکہ کی ان ناقص پالیسیوں اور ان سے پیدا ہونے والی کساد بازاری کا بوجھ اٹھا سکے گی۔ یا امریکہ کی معاشی بالادستی کے مقابلے پر کوئی متبادل دنیا ابھر کر سامنے آ سکے گی۔

یہ سوالات بہت اہم ہیں۔ لیکن یہ سنجیدہ سوال بھی ٹرمپ کے حامیوں کی سوشل میڈیا پر جھوٹی کہانیوں کے سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ ٹرمپ نے دنیا کو پوسٹ ٹروتھ یعنی سچ کے بعد کے دور میں دھکیل دیا ہے۔ جہاں حقیقت اور فریب کی تمیز کمزور ہو چکی ہے اور رائے کو سچ سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ کی تقاریر، سوشل میڈیا پر بیانات، اور ان کے حامی میڈیا نیٹ ورکس ایک ایسی پر فریب دنیا بنا کر پیش کر رہے ہیں جو کسی جنت سے کم نہیں۔ یہ رجحان صرف امریکہ تک محدود نہیں رہا۔

ہنگری، بھارت، ترکی، پاکستان اور اسرائیل جیسے ممالک بھی فروغ پا چکا ہے۔ سچ کو چھپانا، عدلیہ کو بے اثر کرنا، اور میڈیا کو قابو میں رکھنا اب ایک نیا عالمی رجحان بن گیا ہے۔ اور اس کے پیچھے ٹرمپ کا اثر کار فرما ہے۔ یہ معاملہ پوری دنیا کی راہ نمائی، سلامتی، اور معیشت کے لیے ایک مسلسل چیلنج ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اس جھوٹ کا سامنا کر کے نئے اصول وضع کرے گی، یا طاقت کے نشے میں جھوٹ، ابہام اور تقسیم کا شکار ہو جائے گی؟

عالمی ادارے کمزور ہو جائیں گے، اتحاد بکھر جائیں گے، اور اصولوں کی جگہ مفادات لے لیں گے۔ کیونکہ یہ بالکل اسی بحران کی طرح ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ہے جس کا آغاز 1929 میں اسٹاک مارکیٹ کے کریش سے ہوا تھا، جس کے بعد عالمی معیشت میں شدید کساد بازاری نے جنم لیا تھا۔ اسے گریٹ ڈپریشن کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے اہم اسباب میں بھی امریکہ کی ناقص تجارتی پالیسی شامل تھی۔ آج کی دنیا پہلے ہی کووِڈ۔ 19 کی وبا کی وجہ سے ایک بڑے معاشی جھٹکے سے باہر نکلی ہے، اسے اب اس نئی خطرناک کساد بازاری کا سامنا ہے۔

نئی کاروباری بندشوں سے عالمی سطح پر غربت، بے روزگاری اور معاشی سست روی جنم لے گی۔ ٹرمپ کی تجارتی جنگ، خاص طور پر چین کے ساتھ، عالمی تجارت کو بری طرح متاثر کر کے رکھ دے گی جس کے نتیجے میں عالمی اقتصادی عدم استحکام بڑھے گا۔ گریٹ ڈپریشن کی طرح، آج بھی عالمی سطح پر سیاسی انتہاپسندی اور معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں سماجی بد امنی اور سیاسی تقسیم کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ میں نسلی امتیاز، معاشی ناہمواری جیسے مسائل پر احتجاج ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشی بحران سیاسی اور سماجی انتشار کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ جیسے 1929 کے گریٹ ڈپریشن سے پہلے عالمی سطح پر اقتصادی نظام میں اصلاحات کے نام پر نئی بندشیں عاید کی گئی تھیں، اسی طرح ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی بھی عالمی تجارتی خسارے کو پر لگا سکتی ہے۔ عالمی سطح پر مہنگائی، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور بین الاقوامی تجارتی رکاوٹوں کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments