کچھ پروفیسر خورشید احمد کے بارے میں
’ بڑے لوگوں کی صحبت انسان کو بڑا بنا دیتی ہے‘ ۔ اس مقولے کو مجسم دیکھنا ہو تو پروفیسر خورشید احمد کو دیکھئے۔ ان کے آبا و اجداد جالندھر کی خاک سے اٹھے اور دلی کے ہو گئے پھر رشتوں ناتوں کا سلسلہ ترکی تک دراز ہو گیا، یوں اس خاندان میں وہ کیفیت پیدا ہوئی جسے اقبال نے سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کہہ کر بیان کیا ہے۔
پروفیسر خورشید کے والد نذیر احمد قریشی دہلوی ثم جالندھری ہوتے ہوئے بھی آفاقی مزاج کے بزرگ تھے، یہی سبب تھا کہ شہر کے ایک متمول تاجر ہونے کے باوجود سیاسی سرگرمیوں میں ہمیشہ فعال دیکھے گئے۔ تحریک خلافت ہو یا تحریک پاکستان، برصغیر کو ہلا کر رکھ دینے والی ان دونوں تحریکوں میں وہ بہت نمایاں تھے۔ اسی مزاج پر انھوں نے اپنی اولاد کی تربیت بھی کی، خاص طور پر منجھلے بیٹے خورشید احمد کی۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، حکیم اجمل خان اور ایسے ہی مرتبے کے دیگر بزرگ ان کے حلقہؑ احباب میں شامل تھے۔ اِن بلند درجہ علمی، ادبی اور سیاسی شخصیات کی محافل میں وہ بڑے اہتمام سے شریک ہوا کرتے اور اپنے بیٹوں کو بھی ساتھ لے جاتے تاکہ اِن کے مزاج کی تشکیل میں بھی ویسے ہی عناصر جگہ پا سکیں جن کی کارفرمائی سے ایسے اکابر پیدا ہوئے۔
مولانا محمد علی جوہر کا انگریزی اخبار ’کامریڈ‘ ہو یا اردو اخبار ’ہمدرد‘ ، ان دونوں اخبارات کی توسیع و اشاعت اور کامیابی میں نذیر احمد قریشی کا حصہ غیر معمولی تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی۔ تحریک خلافت کا تجربہ رکھنے والے اس بزرگ نے مسلم لیگ کے ایک راہ نما کی حیثیت سے اس میں سرگرم حصہ لیا۔ یہ عین وہی زمانہ تھا جب سید ابوالاعلیٰ مودودی ہندوستان کے علمی و سیاسی حلقوں میں شہرت حاصل کر رہے تھے اور ان کی فکر کا ترجمان ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا تھا۔ مولانا مودودی بھی نذیر احمد قریشی کے حلقہ احباب میں شامل ہو گئے۔ تاریخ جماعت اسلامی کے ماہر پروفیسر سلیم منصور خالد کہتے ہیں کہ جماعت اور مسلم لیگ کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہوتا تو ان دو شخصیات کے درمیان قربت دیکھنے کو نہ ملتی۔
یہ گزشتہ صدی کی تیسری کی دہائی کا واقعہ ہو گا جب مولانا مودودی نے علامہ اقبال کے مشورے اور پنجاب کے ایک زمیندار چوہدری نیاز علی کے مالی تعاون سے مشرقی پنجاب کے ضلع پٹھان کوٹ میں دار الاسلام کے نام سے ایک علمی و تحقیقی ادارہ قائم کیا جس کے مشورے اور انتظام کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی قائم کی، نذیر احمد قریشی اس کے ایک نمایاں رکن تھے۔
یہ پس منظر اور ماحول تھا جس میں 23 مارچ 1932 ء کو آنکھ کھولنے والے نوعمر خورشید احمد نے پرورش پائی۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور میں کچھ دن گزار کر کراچی منتقل ہو گیا۔ کراچی آمد کے بعد خورشید احمد کی زندگی کے اُس حصے کی ابتدا ہوتی ہے جس میں والد کے بعد ان کے بڑے بھائی ضمیر احمد نے بھی ان کی تربیت میں حصہ لیا۔ یہ ضمیر احمد وہی ہیں 1985 ء میں جن کا انتقال پاکستان نیوی کے وائس ایڈمرل کی حیثیت سے ہوا۔ ایڈمرل ضمیر احمد زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک نمایاں کارکن تھے جن کی دیکھا دیکھی خورشید احمد بھی جمعیت میں شامل ہوئے اور تھوڑے ہی دنوں میں ممتاز حیثیت اختیار کر گئے۔
اُس زمانے میں کراچی کے طالب علموں میں ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا طوطی بولتا تھا۔ ڈی ایس ایف بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی طلبہ کی بڑی تنظیم تھی جو کمیونسٹ پارٹی کی نگرانی میں کام کرتی تھی۔ یہ تنظیم نئے طلبہ کو متوجہ کرنے کے لیے ’اسٹوڈنٹس ہیرالڈ‘ کے نام سے ایک جریدہ شائع کیا کرتی تھی۔ خورشید احمد جمعیت میں سرگرم ہوئے تو انھوں نے بھی اسی روایت پر چلتے ہوئے ’اسٹوڈنٹس وائس‘ کے نام سے ایک جریدے کی اشاعت شروع کی۔ جلد ہی جس کے خریداروں کی تعداد پندرہ ہزار تک پہنچ گئی جسے یہ لوگ سڑکوں پر کھڑے ہو کر اور آواز لگا کر فروخت کیا کرتے تھے۔ پروفیسر خالد کے مطابق اسٹوڈنٹس وائس کی اشاعت بڑھانے میں جن لوگوں نے حصہ لیا، ان میں دیگر کے علاوہ عبدالقدیر نامی ایک طالب علم بھی شامل تھے جنھیں بعد میں ایٹمی سائنس دان کی حیثیت سے عالم گیر شہرت ملی، یعنی ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ ان کا شمار بھی جمعیت کے ہم خیال طلبہ میں ہوتا تھا۔
خورشید احمد نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کریں گے، درس و تدریس کو ذریعہ معاش اور صحافت کو اپنے نظریات کے فروغ کا ذریعہ بنائیں گے۔ ان کی یہ تینوں خواہشیں پوری ہوئیں۔ ایک کالج میں لیکچرر شپ شروع کرنے کے بعد وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات سے منسلک ہو گئے، جماعت میں وہ پہلے ہی شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ اسی زمانے میں تحریک پاکستان کے قائدین مولانا ظفر احمد انصاری اور بعض دیگر علمی شخصیات کی سرپرستی میں ایک ’رسالہ وائس آف اسلام‘ شائع ہوا، خورشید احمد، اب پروفیسر بھی جن کے نام کا حصہ بن چکا تھا، اس کے ایڈیٹر مقرر کیے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد انھیں ایک اور پرچے ’چراغ راہ‘ کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھنے والے چوہدری غلام محمد اس کے بانی اور جماعت ہی سے متعلق ایک دانش ور مولانا نعیم صدیقی اس کے ایڈیٹر تھے لیکن جیسے ہی یہ جریدہ پروفیسر خورشید احمد کی زیر ادارت آیا، اس کا مزاج ادبی سے علمی ہو گیا۔ جریدے نے مختصر عرصے میں اسلامی قانون نمبر، نظریہ پاکستان نمبر اور سوشلزم نمبر شائع کیے۔ یہ نمبر مواد کے اعتبار سے اتنے بھاری بھرکم تھے کہ ملک بھر میں ان کی دھوم مچ گئی اور پروفیسر خورشید کا شمار ملک کے صف اول کے دانش وروں میں کیا جانے لگا۔
مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اگرچہ سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا لیکن سیاسی سرگرمی ان کی شروع کی ہوئی تحریک کا محض ایک حصہ تھی، ان کا اصل میدان اسلام کی تعلیمات کی جدید زبان میں منتقلی اور بدلی ہوئی دنیا کے مطابق لٹریچر کی تیاری تھا۔ 1962 ء میں اس مقصد کے لیے اسلامک ریسرچ اکیڈمی قائم کی گئی، پروفیسر خورشید احمد کو اس کا سیکریٹری جنرل بنایا گیا جب کہ مولانا مودودی اس کے صدر تھے۔ مولانا مودودی اور پروفیسر خورشید کے زمانے میں اس ادارے نے غیر معمولی علمی کام کیا اور بڑے پیمانے پر کتابیں شائع کی گئیں۔
1968 ء میں پروفیسر خورشید احمد نے جامعہ کراچی کی ملازمت چھوڑ دی اور پی ایچ ڈی کے برطانیہ چلے گئے۔ لندن آمد کے بعد پروفیسر خورشید کی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ انھوں نے یہاں برطانوی مسلمانوں کی مذہبی اور نظریاتی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مقصد کے لیے ایک کثیر المقاصد ادارے کے قیام کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انھوں نے لیسٹر کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا چناں چہ یہیں انھوں نے اسلامک فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، بعد میں جس کی شاخیں نیروبی، کینیا اور نائیجریا میں بھی قائم ہوئیں۔
پروفیسر خورشید احمد کے ہاتھوں قائم ہونے والا یہ پہلا بین الاقوامی نوعیت کا ادارہ تھا، بعد میں انھوں مزید کئی ادارے قائم کیے، اس طرح مولانا مودودی کے بعد وہ جماعت اسلامی کے ایک ایسے راہ نما کے طور پر ابھرے جنھوں نے مولانا مودودی کے بعد سب سے زیادہ ادارے قائم کیے۔
اسلامک سینٹر لیسٹر ایک آزاد علمی ادارہ تھا جس کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں تھا کیوں کہ اس کا تمام تر انتظام برطانیہ میں مقیم تارکین وطن کے ہاتھوں میں تھا۔ اسی ادارے کے زیر اہتمام انھوں نے ’امپیکٹ‘ کے نام سے انگریزی میں ایک علمی رسالہ شائع کیا جس میں مسلم دنیا کے سیاسی اور دینی مسائل کا احاطہ کیا جاتا تھا۔ ’امپیکٹ‘ پروفیسر خورشید ہی کے ایک ساتھی حاشر فاروقی کی ادارت میں 1971 ء سے 2004 ء تک شائع ہوتا رہا لیکن بعد میں مالی مسائل کا شکار ہو جانے کی وجہ سے اپنی اشاعت برقرار نہ رکھ سکا۔
لیسٹر میں قیام کے زمانے میں ان کے روابط بین الاقوامی سطح پر استوار ہوئے اور انھوں نے پاکستان کی جماعت اسلامی، مصر کی اخوان المسلمون اور ترکی کی اسلامی تحریکوں کے نمائندے کی حیثیت سے کام کیا۔ اس زمانے میں دو امور پر ان کی خصوصی توجہ رہی، ان میں ایک سوویت یونین اور دیگر کمیونسٹ ملکوں سے ہجرت کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں سکونت اختیار کرنے والے مسلمانوں کے مسائل سے آگاہی، ان کا حل اور بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر ان کی نمائندگی کے علاوہ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کی سرگرمی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اسلام اور کرسچئین ڈائیلاگ کی بنیاد رکھی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے کئی بار ویٹیکن کا دورہ بھی کیا۔ 1974 ء میں انھیں جیوز، کرسچئین اینڈ مسلمز کی بین الاقوامی اسٹینڈنگ کمیٹی کا نائب صدر بھی منتخب کیا گیا۔ یہ ایسی سرگرمیاں تھیں جن کی وجہ سے ان کا پی ایچ ڈی کا منصوبہ کہیں پیچھے رہ گیا اور انھوں نے خود کو مسلم دنیا کے مسائل کے لیے وقف کرد یا لیکن یہ کمی اس طرح پوری ہوئی کہ برطانیہ کی لوبورو یونیورسٹی نے انھیں لٹریچر اور یونیورسٹی آف ملائشیا نے انھیں اسلامک اکنامکس اور ایجوکیشن کے شعبوں میں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں عطا کیں۔
پروفیسر خورشید احمد نے اگرچہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کیا لیکن ان کا اصل میدان اسلامی اقتصادیات تھا۔ اس سلسلے میں ان کی تجویز پر کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں ایک ریسرچ سنٹر قائم کیا گیا جسے بعد اسلامی معیشت میں تحقیق کے ضمن میں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ پروفیسر خورشید اردن کی رائل اکیڈمی برائے اسلامی تہذیب، اسلامک سنٹر نائیجیریا کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن اور مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن لیسٹر کے ریکٹر بھی رہے۔
1977 ء میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد پاکستان قومی اتحاد اور جماعت اسلامی نے فوجی حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق نے انھیں ذاتی حیثیت میں کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کر لی اور آٹھ ماہ تک وفاقی وزیر اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کی وزارت اگرچہ جماعت اسلامی اور پاکستان قومی اتحاد کے کوٹے سے نہیں تھی لیکن پروفیسر خورشید نے اس موقع پر یہ موقف اختیار کیا کہ چوں کہ وہ جماعت اسلامی کے رکن ہیں، اس لیے وہ وزارت میں رہتے ہوئے پارٹی ڈسپلن کی پابندی کریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ جب جماعت اور اتحاد نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو وہ بھی وزارت سے مستعفی ہو گئے۔
وزارت ہی کے زمانے میں انھوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلامی کے قیام کا تصور پیش کیا ورنہ خیال تھا کہ اسلامی فقہ اور اسلامی قانون کی تعلیم کے سلسلے میں قائد اعظم یونیورسٹی میں ایک علیحدہ فیکلٹی قائم کردی جائے۔
1985ء کے عام انتخابات کے بعد وہ تین بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ پاکستانی اراکین پارلیمنٹ میں وہ اس اعتبار سے ممتاز ہیں کہ ہر بار ان کا انتخاب ایک مختلف صوبے سے کیا گیا، وہ پہلی بار سندھ، دوسری بار پنجاب اور آخری بار خیبر پختونخوا سے منتخب ہوئے۔
افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے بعد جب افغان مجاہدین میں اختلافات پیدا ہو گئے تو ان کے درمیان مصالحت کے لیے ان کی کوششوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، مکہ، پشاور اور اسلام آباد کے مذاکرات اور معاہدوں میں بھی ان کا کردار بہت اہم تھا۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں بھی ان کا انداز فکر روایتی نہیں تھا، انھوں نے اشارات کے مستقل عنوان سے شائع ہونے والے ’ترجمان القرآن‘ کے اداریے میں تجویز پیش کی کہ مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک عظیم تر پلیٹ فارم قائم کیا جائے جس میں کشمیر کے دونوں حصوں کے افراد اور جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔ اس سلسلے میں ان کے ذہن میں پاکستان کے حامی اور مخالف رہنماؤں کی بھی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ انھوں نے لکھا کہ ایسے جامع پلیٹ فارم پر بھارت نواز جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے۔
مولانا مودودی 1972ء میں اپنی علالت کی وجہ سے جماعت اسلامی کی امارت سے از خود سبک دوش ہو گئے تو نئے امیر جماعت کے انتخاب کے لیے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے رائے دہندگان کی راہ نمائی کے لیے تین راہ نماؤں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا جس میں میاں طفیل محمد اور پروفیسر غلام اعظم کے علاوہ پروفیسر خورشید احمد کا نام بھی شامل تھا، اس طرح بانیِ جماعت کی زندگی میں جماعت کی دوسری نسل بھی بزرگوں کی صف میں شامل ہو گئی۔ جماعت کے اہم ترین منصب کے لیے ان کے نام کی تجویز کے پس پشت ان کی خدمات اور قربانیوں کے علاوہ علم سے ان کا غیر معمولی شغف اور ان تھک محنت کی عادت بھی تھی۔
کچھ عادات ان کے مزاج کا حصہ بن چکی تھیں، ان میں ایک تو محنت ہی تھی اور دوسرے تواضع، امور کشمیر کے ممتاز ماہر ارشاد محمود ان سے ملنے کے لیے لندن گئے تو دیر تک بیٹھے ان سے باتیں کرتے رہے۔ کشمیر پر ان کی خدمات پر انھیں سراہا اور وقت رخصت اپنے مہمان کو دینے کے کتابوں کا پیکٹ خود اٹھا لیا۔ ارشاد محمود یہ دیکھ کر پریشان ہوئے اور پیکٹ پکڑنے کی کوشش کی تو کہا کہ جب تک جان میں جان ہے، اپنے ہاتھ سے کام کرتے رہیں گے۔
پاکستان میں انھوں نے ایک تھنک ٹینک قائم کیا تھا، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) ، اس ادارے نے دیکھتے ہی دیکھتے اہمیت اختیار کر لی، حکومت ہو یا غیر سرکاری ادارے، راہ نمائی کے لیے اکثر اس کی طرف دیکھتے۔ اس کی کام یابی کا ایک راز ادارے کے ذمہ داران اور کارکنوں کے ساتھ ان کا ذاتی تعلق تھا۔ وہ ہر ایک سے ملتے، اس کی اور اہل خانہ کی خیریت دریافت کرتے، کوئی ضرورت ہوتی تو اسے پورا کرنے کا اہتمام بھی کرتے۔ بیرون ملک سے لوٹتے تو لوگوں کے مزاج کے مطابق انھیں تحائف دیتے جن میں بیشتر کتابیں ہوتیں۔ خود انھوں نے بھی زندگی بھر کتابیں ہی خریدیں اور پڑھیں۔ آئی پی ایس کی لائبریری ملک کی شان دار لائبریریوں میں سے ایک ہے، اس کی نوے فیصد سے بھی زائد کتب پروفیسر صاحب کی اپنی جیب سے خریدی ہوئی ہیں۔ وہ جو کتاب خریدتے، اسے شروع سے آخر تک پڑھتے، اس لائبریری میں خال ہی کوئی کتاب ایسی ہوگی جس کے حاشیے پر ان کے لکھے ہوئے نوٹس سے خالی ہوں۔
- کچھ پروفیسر خورشید احمد کے بارے میں - 14/04/2025
- بنگلا دیش میں انقلاب اور حسینہ واجد کا انجام - 05/08/2024
- پاکستان کی تاریخی سفارتی جست - 21/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).