مسلم انصاری کی کتاب ’کابوس‘ پر تبصرہ
کئی دہائیوں سے، غیر ملکی کہانیوں، ان کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار، غیر ملکی کہانی کاروں کے بارے میں تبصرے ایک ٹرینڈ بن چکے ہیں۔ پھر ذرا نظر گھماتے ہیں تو چار، پانچ دہائی پہلے کے ادیبوں پر ٹھہر جاتے ہیں۔ عصر حاضر کے ادیبوں پر نہ کوئی بات کرتا ہے، نہ ان کی کتابوں اور تحریروں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ مبصرین اب تبصرے کرنے میں مصروف ہیں ان کے پاس موجودہ ادیبوں کی کتابوں کو پڑھنے کے لیے نہ وقت ہے نہ فرصت۔ ان سکہ بند مبصرین کی خدمت میں بے شمار کتابیں پیش کی گئی ہیں، لیکن کیونکہ یہ کتابیں انہیں کسی تقریب میں آٹوگراف اور سیلفی کے ساتھ مفت پیش کی گئی ہیں انہیں اس کے لیے رقم خرچ کرنی پڑی، نہ وقت برباد کرنا پڑا۔
مگر سامعین جو مائک تھامنے والے کی باتوں کو غور سے سنتے اور اہمیت دیتے ہیں، وہ جب ان کی زبان سے ملکی قلم کاروں کا تذکرہ نہیں سنتے، وہ تو سامع ہیں! سنے ہوئے کو اہم سمجھتے ہیں۔ ببانگِ دہل کہتے ہیں پاکستان میں اچھا ادب تخلیق نہیں ہو رہا۔ جب ان سے کہا جا تا ہے کہ، آپ نے موجودہ دور میں کسے پڑھ کر یہ رائے دی ہے، تب وہ گنگ ہو جاتے ہیں کیوں کہ ’وہ تو سامع ہیں‘ ۔
پڑھاکو مبصرین نے ان کے کانوں میں غیر ملکی ادب کی مثالیں پیش کر کے جو رس گھولا ہے، زبان سے وہی الاپیں گے۔
ہمیں معلوم ہے کہ ہم لکھتے نہیں ٹائم پاس کرتے ہیں، مگر ہم لکھیں گے کہ ہمیں ٹائم پاس کرنا ہے۔ لیکن اگر آپ مسلم انصاری کو پڑھیں تو پھر خواہش کریں گے ٹائم پاس کرنے کے لیے اس عہد کی جاندار کہانیوں میں پڑھیں، توانا آوازوں کو سنیں قومی اور مقامی زبانوں میں جو ادب تخلیق ہو رہا ہے، اسے بھی غیر ملکی ادب کے ذکر کے ساتھ شامل کریں گے۔
مسلم کے افسانوں کے عنوانات اور چند اقتباسات اس سے آپ کو اس کی تخلیقی اپج، سوچ کی گہرائی اور قوت مشاہدہ کا اندازہ ہو جائے گا۔
”کہنے لگی، اب کی بار عید پر تمہاری کیا رائے ہے؟ کیا اب بھی بچے گولیوں والی بندوق سے چوک، چوراہوں اور گلیاروں میں لگے نارنجی بلب اُڑا دیں گے؟ کیا ایسا ہو گا کہ بستی کا سب سے خوبصورت بچہ ان چھروں والی گولیوں کی زد میں آ کر اپنی ایک آنکھ گنوا دے؟ تاکہ اس کی ماں کو روز اسے نظرِ بد سے محفوظ رکھنے والا ٹیکا نہ لگانا پڑے؟“
( افسانہ: قبرستان سے پوسٹ پیڈ خیر مبارک)
”دیکھو! تم ابھی بھی سمجھ دار ہو، اور مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی زندہ ہو، اپنے اندر کی چار دیواری سے باہر نکل آؤ۔ تم نہیں تمہاری اداسی پاگل ہے، کبھی کوئی اپنی برسی میں شریک نہیں ہو سکتا، یہ بچکانی اور بیہودہ بات ہے۔ کل نئے سال کا پہلا مہینہ ختم ہونے والا ہے، اپنی زندگی میں کی گئی کسی لڑکی سے محبت کا سوچو! تم جھوٹ بولتے ہو کہ تم پاگل ہو، پاگلوں پر بنائی جانے والی ڈاکومنٹری کا اتنا سارا وقت تم نے ضائع کر دیا۔ تمہارا یہ انٹرویو بے مطلب ہے اور نہ ہی یہ نشر ہو سکتا ہے کوئی اخبار اور میگزین اسے نہیں چھاپے گا، الٹا تمہاری باتوں سے کسی گم شدہ شخص کی بو آتی ہے یہ ممکن ہے کہ تم کسی بھیڑ بھاڑ کی جگہ میں کھو گئے ہو اور تمہیں کوئی لینے نہ آیا ہو یا کسی نے تمہارے اندر سے کچھ اچک لیا ہو جیسے مساجد کے باہر سے جوتیاں چوری ہوتی ہیں بلاوجہ اور بے مطلب کی چوریاں مگر تم کم از کم پاگل نہیں ہو تمہیں سپرنٹینڈنٹ جیل سے کہہ کر پرانے اخباروں میں اپنی گمشدگی کا اشتہار تلاش کرنا ہو گا تمہیں کسی نہ کسی نے ضرور ڈھونڈا ہو گا۔
لوگ تو سڑکوں پر گرے سکے بھی ڈھونڈتے ہیں اور پھر تم تو ایک انسان ہو۔ ”
(افسانہ: وڈیو ٹیپ ریکارڈ کے اٹھارہ منٹ)
” 23 نومبر کی تقریب میں جب اسے جوان بیٹے کے عوض ایک سبز ہلالی پرچم تھمایا گیا اس نے بغل سے ایک تھیلا نکالا اور جنرل کو اپنے بیٹے کی یونیفارم تھما دی دراصل وہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر یہ جھنڈا اس بات کی علامت ہے کہ سپاہ اور سیاست ایک نہتے مستقبل کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو وہ کم از کم اگلی بار کے لیے اس یونیفارم کو ضرور سنبھال لے مگر پھر وہ تھیلا جنرل کو تقریب میں ملے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ غلط ملت ہو گیا پھولوں کی خوشبو، خون کی خوشبو کے ساتھ گڈ مڈ ہو گئی۔
مورخ بہت برا انسان ہے اس نے اس واقعے پر بس اتنا ہی لکھا ”کہ اب اس عورت کے پاس ایک بریف کیس ہے اس میں ایک وردی ہے اور ایک جھنڈا ہے، بیٹا نہیں ہے۔“
(افسانہ: وردی اور جھنڈے والا بریف کیس)
مسلم انصاری چھوٹی سی عمر کا خوبصورت نوجوان ہے جو تصویر میں خوبصورت نہیں لگتا، اور اپنی عمر سے بڑا دکھائی دیتا ہے۔ جب آپ اس سے ملیں تو آپ کو ہنستا ہوا ایک معصوم بچہ نظر آئے گا جو بڑی تکلیف دہ باتیں بھی ہنس کر ایسے بیان کرتا ہے جیسے کسی دوسرے کا مذاق اڑا رہا ہے۔ جیسے کسی کو ٹھوکر کھا کر گرتے دیکھ کر بے ساختہ لبوں پر ہنسی آ جائے۔ وہ ہنستا چلا جاتا ہے ان باتوں پر بھی جن پر گریہ کرنا چاہیے، وہ ہنستا رہتا ہے کہتا ہے آپی یہ تو زندگی کا حصہ ہے۔ چھوٹی سی عمر میں بہت سی آزمائشوں سے گزرا ہے۔ اس نے کئی سفر کیے۔ کتنی سڑکیں ناپی ہیں، کتنے محلے دیکھے ہیں، ہزاروں لوگوں سے ملا ہے، لوگوں کی کہانیوں کا حصہ بنا ہے۔ کابوس میں وہی کہانیاں ہیں۔
اس نے زندگی کے تلخ رنگ دیکھے، وہ زندگی جو کسی بھی جاندار کی ہو۔
’کتا کہانی‘ پڑھیے۔ یہ کہانی جو ایک کتے نے بیان کی ہے۔ کتا زندگی کی کتا کہانی۔ کہانی کار کے بس میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ پڑھنے والے کے اندر درد کا احساس روح تک بھر دے۔ اور پھر تکلیف کی شدت کم کرنے اور ٹائم پاس کے لیے اس کے ہاتھ زخموں کو چاٹنے کا شغل آ جائے۔
جب 2023 میں اس کی کتاب آئی تو یہ اپنے افسانوں کے اقتباسات لکھ کر لوگوں کو اپنی کتاب کی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ بے نام، بے اختیار تخلیق کار اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ یہی کر سکتے ہیں کہ اپنی گمشدگی کا اشتہار خود ہی لگائیں اور اعلان کریں کہ آؤ مجھے ڈھونڈو، میں اس کتاب کے صفحات میں پوشیدہ ہوں یہ رہی میری کتاب، یہ رہا میرا پتہ مجھے اپنی شناخت نہیں چاہیے، اپنا نام نہیں چاہیے۔ یہ میں نے لکھا ہے یہ میری کہانیاں ہیں۔ انہیں پڑھو، نام نہیں چاہتا شہرت نہیں چاہتا بس ان کہانیوں کو پڑھ ڈالو، پھر بے شک یہ کتاب کسی دوسرے کو دے دینا اور اس سے بھی یہی کہنا جو یہ کتاب پڑھے آگے بڑھا دے۔ بس کتاب سفر کرتی رہے کہ اس کہانی کے تھکے ماندے، غم گزیدہ کرداروں کو کہیں پڑاؤ، کہیں چھاؤں ملے۔
- مسلم انصاری کی کتاب ’کابوس‘ پر تبصرہ - 14/04/2025
- کوکھ کا ادل بدل (افسانہ) - 12/04/2025
- سرکاری اسکول اور میری قابلِ فخر بہو - 24/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).