ہمارا فرسودہ خاندانی نظام بدلنے کی ضرورت


ہم اپنی انشورنس کمپنی کی ششماہی بزنس کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی کے میریٹ ہوٹل میں مقیم تھے۔ میں جو صبح کی فلائیٹ سے کراچی پہنچا تھا، دن بھر کی میٹنگ اور سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے ایک پرانے دوست کی دعوت پر اُس کے گھر جانے کی بجائے ڈنر کے لیے ہوٹل کے ریستوران میں ہی بیٹھ گیا تھا۔ میں نے کھانے کا آرڈر دیا۔ کھانے کا آرڈر دیے ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ سینٹرل پنجاب کی بزنس ایگزیکٹو خاتون ڈائننگ ہال میں آئیں، مجھے بیٹھا دیکھ کر وہ میرے پاس ہی چلی آئیں۔ میں نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر خاتون کا استقبال کیا تو وہ کہنے لگیں۔ ”اوہ سر جی! آپ کیوں اُٹھ گئے۔ آپ تشریف رکھیں۔“ میں ایک دیہات کا رہنے والا سیدھا سادہ سا بندہ تھا۔ سب کا ادب و احترام کرنے کا جو درس بچپن میں مجھے اپنی بے جی نے دیا تھا اس پر میں اب تک عمل پیرا ہوں۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں نے اپنے لیے کھانے کا آرڈر دیا ہے، آپ بتائیں کیا کھائیں گی۔ میرے اشارہ کرنے پر ویٹر فوراً ًہماری میز پر آ گیا۔ خاتون نے اپنے لیے کھانے کا آرڈر دیا۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئیں اور مجھے ہنس کر کہنے لگی۔

” سر جی! آپ کی بڑی تعریفیں ہوئیں آج کی بزنس کانفرنس میں۔ چیف ایگزیکٹو نے آپ کی پچھلی ششماہی کی بزنس حکمت عملی کو بہت سراہا ہے۔ مبارک ہو!“ پھر میری طرف دیکھ کر سنجیدہ لہجے میں بولیں۔ ”سر جی! بزنس بڑھانے کے کچھ گُر ہمیں بھی سکھائیں ناں۔ “ ”میں تو ملک کے ایک کونے میں بیٹھا ہوں۔ پرانے خیالات کا بندہ ہوں۔ بس کچھ دال دلیا کر لیتا ہوں۔ “ میں نے کسر نفسی سے کام لیا۔

” ارے نہیں شاہ جی! آپ نے تو مسلسل تیسری ششماہی میں ملک بھر میں سب سے زیادہ بزنس دیا ہے۔“ اس نے جواب دیا۔

ہم دن کی بزنس کانفرنس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ڈائننگ ہال کے ایک کونے میں بنے خوبصورت سے چبوترے پر ایک دلآویز خوبصورت مغّنیہ اپنی مدھر آواز میں نغمہ سرا تھی۔ میری ساتھ بیٹھی ایگزیکٹو خاتون نے ویٹر کو بلا کر اس سے کاغذ اور قلم منگوایا۔ قلم سے کاغذ پر کچھ عبارت لکھی اور کاغذ کا ٹکڑا ویٹر کو دیتے ہوئے کہا کہ وہ یہ سامنے بیٹھی مغّنیہ کو دے آئے۔ مغّنیہ نے کاغذ پرایک نظر ڈالی اور خاتون کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور ہاں میں سر ہلا دیا۔ ویٹر نے کھانا میز پر لگایا۔ ہم نے ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا تو مغنیہ نے گانا شروع کیا۔

اے دل نادان! آرزو کیا ہے! جستجو کیا ہے

گیت کے بول سن کر خاتون نے کھانے سے ہاتھ روک لیا اور گانا سننے میں مگن ہو گئی۔

کیا قیامت ہے! کیا مصیبت ہے! کہہ نہیں سکتے کس کا ارماں ہے!
زندگی جیسے کوئی کھوئی ہے! حیراں حیراں ہے!

وہ گم سم بیٹھی گانا سن رہی تھی۔ میں نے دو بار یاد دلایا کہ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ لیکن وہ گانے میں مگن رہی۔

یہ زمین چپ ہے! آسماں چپ ہے! پھر یہ دھڑکن سی چار سو کیا ہے!

میں نے جب بھی رضیہ سلطان فلم کا یہ نغمہ سنا، مجھے ایسے لگا جیسے ایک عورت اپنی نا آسودہ خواہشات کا اظہار کر رہی ہے۔ وہ خواہشات جو اپنی شدت کے ساتھ وجود رکھتی ہیں۔ مواقع ہیں، لیکن اقدار مانع ہیں۔ وہ شکوہ کر رہی ہے، سوال پوچھتی ہے اور تڑپ رہی ہے۔

موج پیاسی ہے اپنے دریا میں یہ کیفیت ہے!

گانا ختم ہوا تو اس نے نظر بھر کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔ ”شاہ جی! معاف کرنا میں گانے میں کھو گئی تھی۔“ لیکن جن نظروں سے اُس نے مجھے دیکھا تھا اُس کی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں مجھے آرزوؤں کے سمندر اور پیاس ہی پیاس نظر آئی۔ ہم نے دوبارہ کھانا گرم کروایا۔ کھانا کھا کر میں نے اٹھنا چاہا اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر یہ کہہ کر بٹھا لیا۔

”شاہ جی! یہ بہت سر میں گاتی ہے اور اس کی آواز بہت مدھر ہے۔ ایک دو نغمے اور سنتے ہیں، پھر چلیں گے۔“

مجھے بٹھا کر وہ خود ایک بار مغّنیہ کے پاس گئی، پرس میں سے کچھ کرنسی نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں تھمائے اور پھر سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔ اس نے پھر رضیہ سلطان کا ایک اور گانا سننے کی فرمائش کی تھی۔

خواب بن کر کوئی آئے گا! تو نیند آئے گی! اب وہی آ کر سلائے گا! تو نیند آئے گی!
بات جو صرف نگاہوں سے کہی جاتی ہے! کوئی ہونٹوں سے سنائے گا تو نیند آئے گی!

وہ آنکھیں بند کر کے گانا سن رہی تھی اور میں سامنے بیٹھا اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس کے انتہائی معصوم چہرے پر مجھے بہت کرب دکھائی دیا۔

خاتون کا نام شگفتہ مراد تھا اور ہماری کمپنی کی سینئر بزنس ایگزیکٹو تھیں۔ بڑی دبنگ خاتون تھیں۔ اُن کا تعلق ایک فیوڈل خاندان سے تھا۔ وہ کمپنی کے وسطی پنجاب سیکٹر کو دیکھتی تھیں جس کا دفتر لاہور میں تھا۔ پچھلی تین چار بزنس کانفرنس میں اُن سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ اس بزنس کانفرنس میں کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے اُسے اگلی ششماہی کے لیے بزنس میں سب سیکٹرز میں اول آنے کا ٹارگٹ دیا تھا۔ وہ اس بارے میں سنجیدہ تھی۔ وہ بڑی ہنس مکھ اور زندہ دل خاتون تھیں لیکن آج اِس روپ میں انھیں میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ گیارہ بجے میں نے کمرے میں جانے کا عندیہ دیا تو وہ بھی بادل نخواستہ میرے ساتھ ہی اٹھ گئیں۔

میں پچھلے بیس سال سے اس انشورنس کمپنی کے ساتھ وابستہ تھا اور اب سینئر بزنس ایگزیکٹو کے عہدے پر کام کر رہا تھا۔ شگفتہ تین سال پہلے کسی اور کمپنی کو چھوڑ کر ہماری انشورنس کمپنی میں سینئر ایگزیکٹو بن کر آئی تھی۔ میں نارتھ کا بزنس دیکھتا تھا اور وہ وسطی پنجاب کا۔ ایک کمپنی میں کام کرتے ہوئے ہیلو ہائے سے جان پہچان کی ابتدا ہوئی تھی۔ وہ ہر کسی سے بڑی جلدی بے تکلف ہو جاتی تھی۔ کمپنی میں میری شہرت انتہائی سنجیدہ اور سخت گیر ایگزیکٹو کی تھی۔ لیکن میرا دل انتہائی نرم تھا۔ میں اپنی ذاتی زندگی کی کوئی بات بھی دفتر میں کرنے کا عادی نہیں تھا۔ اور نہ ہی کسی کی ذاتی زندگی میں کوئی دخل در معقولات کرتا تھا۔ ہماری ملاقاتیں اکثر ششماہی بزنس کانفرنس میں ہوتی تھیں۔ سینئر ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ مجھ سے بڑے عزت و احترام سے پیش آتی تھی۔ میں بھی دل سے اُس کی عزت کرتا تھا۔

بزنس کانفرنس کے ختم ہونے کے اگلے دن ہم سب واپس اپنے اپنے شہروں کو روانہ ہو گئے۔ اُس شام مجھے یہ محسوس ہوا کہ چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے ہر ایک سے ہنس ہنس کر ملنے اور بات کرنے والی یہ خاتون اندر سے کتنی تنہا ہے۔ زندگی میں پہلی بار کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کا تجسس میرے ذہن میں بیدار ہوا۔ اگلی بزنس کانفرنس کمپنی نے سپین کے شہر بارسلونا میں رکھی۔ میرے اور شگفتہ مراد سمیت پچیس سینئر بزنس ایگزیکٹوز کا انتخاب ہوا۔ انشورنس کمپنی کی طرف سے بیرون ملک میں ہونے والی یہ پہلی پانچ روزہ بزنس کانفرنس تھی جس کے لیے سپین کے ساحلی شہر بارسلونا کا انتخاب کیا گیا تھا۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے سب ایگزیکٹو کے لیے کمپنی کی طرف سے بزنس کلاس ٹکٹ اور فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرنے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ لاہور سے بارسلونا کے لیے پی آئی اے کی آٹھ گھنٹے کی براہ راست پرواز تھی۔ چند سال پہلے تک پی آئی اے کی براہ ِراست پروازیں تارکین وطن کے لیے ایک بہت بڑی نعمت تھی۔ ہم سات آٹھ ایگزیکٹو لاہور ائرپورٹ سے روانہ ہوئے۔ شگفتہ مراد کے ساتھ والی سیٹ پر ایک بھاری توند والے صاحب بیٹھے تھے جنھوں نے پہلے تو خاتون ہم سفر دیکھ کر ان سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی پر سونے کی کوشش میں اونچی آواز میں خراٹے لینے لگے۔

شگفتہ نے کچھ دیر برداشت کیا پھر وہ اٹھ کر میرے ساتھ والی خالی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر ہم کمپنی اور بزنس کی باتیں کرتے رہے۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرتے ہوئے شگفتہ سے کراچی میریٹ ہوٹل کی بات چھیڑ دی۔ اس سے پہلے میں نے اس سے یہ سوال پوچھنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ جواب نہ دینا چاہے تو کوئی بات نہیں۔

میری بات سن کر وہ ایک دم چپ ہو گئی۔ میں بھی خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر اس نے جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھا پھر کہنے لگی۔

”شاہ جی! میں اپنی زندگی کی ذاتی باتیں کسی سے نہیں کرتی لیکن آپ نے ہمیشہ مجھے عزت دی ہے اور آپ سے ادب و احترام کا رشتہ بن گیا ہے۔ آپ سے یہ باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ “ پھر وہ کہنے لگی۔

”سر جی! آپ کو پتہ نہیں ہے میرے اندر پیاس کا ایک دریا ہے جو اب سمندر بنتا جا رہا ہے۔ میں اپنا دھیان اندر کی اس پیاس سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہوں۔ اسی لیے میں سب سے ملتی ہوں، سب سے ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہوں۔ میرے ساتھی ایگزیکٹو اور ماتحت میرے جیسی حسین و جمیل خاتون سے باتیں کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ میرے بارے میں عجیب انداز میں سوچتے ہیں۔ میرے ایک سینئر باس نے تو میرے ساتھ فلرٹ کرنے کی کوشش کی لیکن جب میرے خاندان کے بارے میں اُسے پتہ چلا تو دم دبا کر بھاگ گیا۔ اُس کے اِس طرح دم دبا کر بھاگنے سے مجھے بڑی ہنسی آئی۔ اب کبھی کبھار ہمارا آمنا سامنا ہو جائے تو وہ نظریں جھکا کر گزر جاتا ہے۔

”میرا تعلق ایک بہت بڑے زمین دار گھرانے سے ہے۔ والد ایک بڑے زمین دار ہونے کے علاوہ پنجاب اسمبلی کے تین چار دفعہ ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ میں پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ گاؤں میں ہماری بہت بڑی حویلی ہے۔ گاؤں میں پردے کی بڑی پابندی کی جاتی تھی۔ سکول تک میں برقعہ اوڑھ کر جاتی تھی۔ گھر میں سب کی لاڈلی تھی۔ مقامی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد میرٹ پر میرا داخلہ کنیئرڈ کالج لاہور میں ہو گیا۔ میں ہوسٹل میں رہتی تھی۔ دو ہفتے بعد والد یا بڑے بھائی مجھے ہوسٹل سے لے جاتے اور اگلے دن شام کو واپس چھوڑ جاتے تھے۔ گریجویشن کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ لاہور شہر میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے سے میرے اندر کافی تبدیلی آئی تھی۔ میں زیادہ پر اعتماد اور اپنے اوپر بھروسا کرنے والی خاتون بن گئی تھی۔ اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے والد میری ہر بات مانتے تھے۔ والدہ بہت ناراض ہوتی تھیں۔ وہ تو فوراً میری شادی کرنے کے حق میں تھیں۔ روایتی زمین دار گھرانا ہونے کی وجہ سے ہمارے خاندان میں شادی کے لیے لڑکیوں کی مرضی یا رضامندی نہیں پوچھی جاتی بلکہ فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ چچا کی ڈاکٹر بیٹی نے اپنے ہم جماعت ڈاکٹر سے شادی کرنی چاہی تھی۔ والدین کے رضا مند نہ ہونے پر انھوں نے کورٹ میرج کرنی چاہی۔ بیٹی نے والدہ کو بتایا تو اگلے دن اس کا ہم جماعت غائب ہو گیا اور اس کی شادی تک نظر نہیں آیا۔ مردوں کے اس معاشرے میں عورتوں کو کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے حالات میں پرورش پانے کے باوجود میں بہت آزاد تھی۔ اپنی مرضی سے سارے کام کرتی تھی۔ ایم بی اے کرنے کے بعد میں نے ایک ملٹی نیشنل بینک میں انٹرنشپ کی اور پھر وہیں ملازمت کے لیے درخواست دی تو اماں نے سمجھایا کہ بیٹی زمین دار گھرانے کی بیٹیاں ملازمت نہیں کرتیں۔ لیکن ابا نے سب کی مخالفت کے باوجود یہ کہہ کر مجھے ملازمت کی اجازت دے دی کہ بیٹا جی برادری میں میرا سر نہیں جھکنے دینا۔

تین سال بعد سرگودھا سے میرے چچا زاد بھائی مراد بخش کا رشتہ آیا۔ چچازاد بھائی بہت بڑا زمین دار تھا۔ پڑھا لکھا تھا لیکن جاگیردارانہ ذہن کا مالک تھا۔ پچھلے تین سال سے ایم پی اے تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ کسی ایسے ہی بڑے زمین دار سے میری شادی ہو گی۔ ماں نے رسمی طور پر میری رضامندی پوچھی تو میں نے صرف اپنی ملازمت جاری رکھنے کی شرط رکھی۔

میرا زیادہ وقت لاہور شہر میں گزرا تھا، اس لیے سرگودھا میرے لیے ایک نئی جگہ تھی۔ میرے خاوند کا خاندان روایتی جاگیردار خاندان تھا۔ پہلے ہی دن سے ہماری آپس میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو سکی۔ مراد بخش عورت کو دبا کر رکھنے کے عادی تھے۔ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ آزادی پسند خاتون تھی۔ پہلے دو تین سال کافی مشکل میں گزرے لیکن میرے والد اور بھائیوں نے میری بہت زیادہ سپورٹ کی۔ میرا چودھری ڈیرہ داری اور روایتی سیاست کرنے والا بندہ تھا۔ مجھے اس نے لاہور میں گھر لے دیا۔ دو بیٹے ہو گئے تو زندگی ایک ڈگر پر چل پڑی۔ خاوند کا زیادہ وقت ڈیرے داری، سیاسی سرگرمیوں اور زمین داری کی دیکھ بھال میں گزر جاتا۔ میں چاہتی تھی وہ میرے ساتھ وقت گزارے۔ ہم ادب پر گفتگو کریں۔ فلموں اور فیشن کی باتیں کریں لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکا۔ ہماری شادی کو پندرہ سال ہو گئے ہیں۔ ہماری زندگی ایک روایتی شادی کے بندھن تک محدود ہے۔ میرے اندر پیاس کا ایک سمندر ہے۔ بہت دفعہ میرا دل چاہا کہ کہ میں اس بندھن کو توڑ دوں۔ اپنی مرضی کے بندے سے شادی کروں۔ بچوں کو ساتھ لے کر دنیا کی سیر کروں، رات کو چاندنی میں اپنے ساجن کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر گھاس پر ننگے پاؤں چلنے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن اس روایتی بندھن کو توڑنا نازک رشتوں میں جکڑی میرے جیسی خاتون کے لیے بہت مشکل ہے۔ بچے بھی اب جوان ہو رہے ہیں۔ شاہ جی مجھے کوئی اچھا مشورہ دیں میں کیا کروں۔ ”

وہ اپنے بارے میں بتانے میں مگن تھی اور میں بھی ہمہ تن گوش تھا، ایسے میں وقت گزرنے کا پتہ تب چلا جب ائرہوسٹس نے سیٹ بیلٹ چیک کرنے شروع کیے اور جہاز کے کپتان نے اعلان کیا کہ ہم بہت جلد بارسلونا ائرپورٹ پر اترنے والے ہیں۔ دولت اور منصب ہونے کے باوجود زندگی کے ساتھی سے اگر ہم آہنگی نہ ہو تو بندہ کتنا تنہا اور اکیلا ہوتا ہے اس کا اندازہ مجھے شگفتہ کی باتیں سن کر ہوا۔ سب سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے والی اتنی حسین عورت اتنا کچھ ہونے باوجود اندر سے کتنی تنہا اور ناآسودہ ہے۔

دو دن بزنس کانفرنس اور اگلے سال کے لیے ٹارگٹ سیٹ کرنے کی مصروفیت میں گزر گئے۔ تیسرا دن ریسٹ کا تھا۔ اس سے اگلے دو دن انشورنس کمپنی نے تفریح کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دے رکھے تھے۔ ریسٹ والے دن صبح شگفتہ مراد نے بارسلونا کا ساحل سمندر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے اپنے ایک اور بزنس ایگزیکٹو جو اپنی خاتون خانہ کو بھی ساتھ لائے تھے، سے ساحل سمندر پر چلنے کی بات کی تو وہ دونوں میاں بیوی فوراً ًتیار ہو گئے۔ بارسلونا کا ساحل سمندر بہت خوبصورت ہے۔ سمندر کے کنارے زرد ریت پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے ہمارے ساتھی ہم سے آگے نکل گئے تو شگفتہ نے جہاز میں ہونے والی گفتگو چھیڑتے ہوئے مجھ سے پوچھنے لگی۔ ”شاہ جی! آپ نے میری اتنی ساری باتیں سن کر میرے کہنے کے باوجود کوئی مشورہ نہیں دیا۔“

میں نے اسے سمجھایا۔ ”دیکھیں شگفتہ جی! جس خاندانی پس منظر سے آپ کا تعلق ہے اس سے نکلنا انتہائی مشکل ہے۔ “

”کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے آپ کی ذات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ “ آپ کے بیٹے جوان ہو رہے ہیں۔ آپ کے اُٹھائے گئے قدم سے اُن کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے میں یہی مشورہ دوں گا کہ آپ اسی رشتے کو نبھاتے ہوئے اپنے بیٹوں کی تربیت اچھی کریں اور اُنھیں اس قابل بنائیں کہ وہ اِس روایتی چودھراہٹ کو چھوڑ کر روشن خیالی اپنائیں۔

میری بات سن کر وہ بھڑک اٹھی اور کہنے لگی۔

”اوہ شاہ جی! آپ بھی مردوں کی طرف داری کرنے والے روایتی مرد ہی نکلے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح آنکھیں بند کر کے اسی محور کے گرد چکر لگاتی رہوں۔ “

” شگفتہ جی! اب آپ ایک جہاں دیدہ میچور خاتون ہیں۔ اس لیے آپ کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے۔ یقین کریں آپ اگر کوئی غلط قدم اٹھائیں گی تو اس کے نتائج آپ کی سوچ سے بھی زیادہ خراب نکلیں گے۔“

میری یہ بات سن کر شگفتہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جنھیں چھپانے کے لیے وہ سمندر سے اٹھتی لہروں کی طرف دیکھنے لگی۔ ساتھی ایگزیکٹو اور ان کی خاتون خانہ کے واپس آ جانے پر ہم ہوٹل آ گئے۔ رات کو کمپنی نے ساری ٹیم کے لیے ایک ٹرکش ریستوران میں ڈنر کا انتظام کیا تھا۔ ڈنر سے ہوٹل واپس پہنچے تو وہ کہنے لگی۔ آئیں تھوڑی دیر لابی میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ ہم نے لابی میں بیٹھ کر کافی کا آرڈر دیا۔ وہ کہنے لگی۔

” شاہ جی! آپ سے ادب و احترام کا رشتہ ہے۔ آپ نے ہمیشہ مجھے عزت دی ہے اسی لیے میں نے آپ سے وہ باتیں بھی کر لی ہیں جو میں نے آج تک کسی سے نہیں کیں، اور مجھے انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے حالات کے مطابق صحیح مشورہ دیا ہے۔ مجھے آپ کی ادب اور فنون لطیفہ میں دلچسپی کا پتہ چلا ہے یقین کریں۔ اگر دس بارہ سال پہلے آپ یا آپ جیسی شخصیت جیسا بندہ مجھے مل جاتا تو میں سارے بندھن توڑ کر اس کے ساتھ چلی جاتی۔ میں اپنے میاں سے کتابوں کی، فلموں کی، نئے فیشن کی، بچوں کے مستقبل کی باتیں کرنا چاہتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ وہ مجھے شاپنگ کے لیے ساتھ لے کر جائے، ہم ساتھ باہر کے ملکوں کی سیر کو جائیں لیکن اسے مجھ سے زیادہ دلچسپی اپنی سیاست اور ڈیرے داری سے ہے۔ میں نے مراد کو یہاں بارسلونا آنے کی بھی دعوت دی تھی لیکن وہ تیار نہیں ہوا۔

خاندانی جاگیر دارنہ ذہن رکھنے والے اپنی بیوی کو کھونٹے کے ساتھ باندھ کرر کھنا چاہتے ہیں دوسرے لفظوں میں مراد بخش مجھے قید کر کے رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر مجھے والدین کی سپورٹ نہ ہوتی اور میں سروس نہ کر رہی ہوتی تو یقین کریں میں اب تک گھٹ گھٹ کر مر گئی ہوتی۔ ”میں نے پھر اسے دلاسا دیا اور رات گئے ہم اٹھ کر اپنے اپنے کمروں میں چل دیے۔

بارسلونا کی بزنس کانفرنس میں شرکت کے ایک سال بعد شگفتہ نے انشورنس کمپنی کی ملازمت سے استعفے دے دیا۔ تین چار ماہ تک کبھی کبھار فون پر میسج کا تبادلہ ہونے کے بعد دونوں طرف سے خاموشی چھا گئی۔ میری ملازمت کے یہ آخری سال تھے۔ میری ریٹائرمنٹ ہو گئی۔ بچوں نے میری ملازمت کے دوران ہی اپنی محنت اور تعلیم کے بل بوتے پر بہتر مستقبل کی تلاش میں برطانیہ میں آباد ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہم دونوں میاں بیوی کو بھی اپنے ساتھ برطانیہ میں لے آئے۔

پچھلے ہفتے میں برمنگھم سٹی سینٹر کے بُل رِنگ شاپنگ مال میں واقع مارک اینڈ سپینسر سٹور سے کچھ دیکھ رہا تھا۔ اچانک مجھے آواز آئی۔

شاہ جی! السلام و علیکم؟ میں نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا تو سامنے گریس فل انداز میں شگفتہ کو کھڑے پایا۔ اس کے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا۔ میں نے حیرت سے اسے پوچھا کہ وہ یہاں کیسے۔ اس نے بڑی خوش دلی سے جواب دیا۔

” سر جی! آپ کو اتنے عرصہ بعد دیکھ کر انتہائی مسرت ہو رہی ہے۔ “ اپنے ساتھ کھڑے نوجوان کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ یہ میرا چھوٹا بیٹا شاہ مراد ہے۔ مجھے برطانیہ میں سیٹل ہوئے سات سال ہو گئے ہیں۔ ”

ایک ہی سانس میں اس نے ڈھیروں باتیں کر لی تھیں۔ ہم اسٹور کی کافی شاپ میں بیٹھ گئے۔ اس نے بتایا کہ میاں ابھی تک سیاست میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ میں سات سال پہلے بچوں کی پڑھائی کے لیے برطانیہ آ گئی تھی۔ بڑا بیٹا حسن مراد چارٹرڈ اکاؤٹینسی کے آخری سال میں ہے اور شاہ مراد برمنگھم یونیورسٹی میں میڈیکل کے چوتھے سال میں ہے۔ میرا بڑا بھائی یہاں آباد تھا اس نے یہاں مستقل رہائش اختیار کرنے میں مدد کی۔ اب ہم نزدیکی شہر کونٹری میں رہائش پذیر ہیں۔ بچوں کی تربیت میں نے اپنے انداز میں کی ہے۔ زندگی ایک نئے ڈھنگ سے جینے لگ گئی ہوں۔

اس کا بیٹا سٹور میں کچھ دیکھنے چلا گیا تو وہ چپکے سے کہنے لگی۔ ”شاہ جی! میرے اندر کی تنہائی اور پیاس کا سمندر اسی طرح ہے بلکہ یہاں رہ کر پیاس اور بڑھ گئی ہے، ِ جسے قابو میں رکھنے کے لیے میں اپنی ساری توجہ بچوں پر دیتی ہوں۔ شاید میری جیسی عورتوں کے مقدر میں یہی لکھا ہوتا ہے۔ ہمارے ارد گرد رشتوں، برادریوں اور تعلقات کا ایک ایسا جال بن دیا جاتا ہے جس سے ہم چاہنے کے باوجود نہیں نکل سکتے۔ “ میرے پاس آج اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ کافی پی کر میں اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر رخصت ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).