صدر ٹرمپ کا سوال؛ جواب کسی کے پاس نہیں


برطانیہ کی جانب سے امریکی کالونیز پر ٹیرف عائد کرنے کے ایک فیصلے نے امریکا کی تحریک آزادی کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کر دیا تھا۔ اعلان آزادی سے تین سال پہلے 1773 میں برطانیہ نے امریکی نوآبادیوں پر چائے کا درآمدی ٹیرف لگایا جس کے خلاف امریکیوں نے مقامی قبائلیوں کا روپ دھار کر برطانیہ سے چائے لانے والے بحری جہازوں پر دھاوا بول دیا اور چائے کی پیٹیاں سمندر میں پھینک دیں۔ برطانیہ نے تلف کردہ چائے کی قیمت اور اس پر عائد ٹیکس کی وصولی تک چائے کی رسد بند رکھی۔ اس احتجاج کو بوسٹن ٹی پارٹی کہا جاتا ہے۔ چار جولائی 1776 کو امریکہ کی تیرہ ریاستوں نے برطانیہ سے آزادی کے لیے ایک اعلان نامہ جاری کیا جس کے بعد دنیا کے نقشے پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام سے ایک نیا ملک ظہور پذیر ہوا جو آج پوری دنیا میں ٹیرف کے حوالے سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا کی سیاسی آزادی آزادی میں ٹیرف نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

ٹیرف کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ امریکا نے معاشی اور تجارتی بحرانوں سے بچنے کے لیے بار بار ”ٹیرف“ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال جس سے ہر بار اس کی مشکلات ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئیں۔ امریکا کی جانب سے غیر ملکی اشیا پر سب سے پہلا ٹیرف 1787 میں لگایا گیا۔ اس کے بعد بھی یہ عمل جاری رہا۔ 1922 میں اس نے یورپی درآمدات پر 40 فیصد ٹیرف لکا دیا۔ یورپی ملکوں نے جوابی ٹیرف لگا کر امریکا کے معاشی بحران کو شدید تر کر دیا، منڈی میں اشیا کی طلب میں کمی کے باعث سرمایہ کاروں نے اسٹاک مارکیٹ کا رخ کیا جہاں فوری منافع کے لیے زبردست سٹے بازی شروع ہو گئی اور شیئرز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔

اسے روکنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا جس سے تعمیرات، آٹو موبیل اور دیگر صنعتوں میں طلب مزید کم ہوئی اور ساری معیشت بحران کی زد میں آ گئی۔ سرمایہ کار خوف زدہ ہو کر بینکوں سے رقم نکلوانے لگے، صرف ایک دن میں یعنی پیر کے روز اسٹاک مارکیٹ زمیں بوس ہو گئی جس سے 30 فیصد بینک دیوالیہ ہو گئے۔ اس دن کو بلیک منڈے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ امریکا کو 1929 کی اس عظیم کساد بازاری (گریٹ ڈپریشن) کی شکل میں اپنی تاریخ کے پہلے شدید معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا، اشیا کی طلب میں شدید کمی کے باعث صنعتی پیداوار تیزی سے گرنے لگی اور ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ امریکا کی صنعتی پیداوار میں 47، جی ڈی پی میں 30 اور ہول سیل قیمتوں میں 33 فیصد کمی ہوئی اور ملک کے 20 فیصد لوگ بے روزگار ہو گئے۔

امریکا نے 1930 میں ایک بار پھر ٹیرف ایکٹ منظور کر کے درآمدات پر مزید 20 فیصد ٹیرف لگا یا دیگر ممالک نے فوری کارروائی کی اور امریکا پر جوابی ٹیرف لگا دیا۔ اس سے امریکا کو دیگر ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور یورپ اور امریکا کے درمیان تجارتی حجم میں دو تہائی کی کمی واقع ہو گئی۔ 1962 میں یورپ نے امریکا سے پولٹری پر بھاری درآمدی ٹیرف لگایا جس پر ان کے درمیان ٹیرف کی جنگ شروع ہو گئی جسے چکن ٹیرف وار کا نام دیا گیا۔ 1987 میں صدر ریگن نے جاپان کو سیمی کنڈکٹر معاہدے کی خلاف ورزی پر 300 ملین ڈالر کا درآمدی ٹیرف لگایا۔ جارج بش نے 2002 میں اسٹیل کی درآمد پر 30 فیصد ٹیرف عائد کر دیا تھا۔ یورپ کے جوابی ٹیرف سے امریکا کو دو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا اور صدر بش کو 2003 میں اضافی ٹیرف واپس لینا پڑ گیا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق 2 اپریل 2025 کو دنیا کے ملکوں پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد 7 اپریل ( بروز پیر ) دنیا کی تمام اہم اسٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں اور 1929 کے بلیک منڈے کی ڈراونی یاد تازہ ہو گئی۔ صدر ٹرمپ نے چین پر 145 فیصد کے جوابی ٹیرف کو برقرار رکھتے ہوئے ان 75 سے زیادہ ملکوں کو معاملات طے کرنے کے لیے 90 دن کی مہلت دی ہے جنہوں نے امریکا کے خلاف جوابی ٹیرف نہیں لگائے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے فیصلے پر پوری دنیا میں سخت تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

تا ہم، یہ امر ذہن میں رہنا چاہیے کہ صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ جوابی ٹیرف کی نوعیت اور اسباب ماضی سے بالکل مختلف ہیں۔ ماضی میں کسی ایک یا چند ملکوں کی ایک یا دو اشیا پر ٹیرف لگایا جاتا تھا۔ اس بار دنیا کے تقریباً ہر ملک کی تمام درآمدات ٹیرف کی زد میں آ گئی ہیں۔ ماضی میں دوست اور دشمن میں کچھ فرق روا رکھا جاتا تھا جو اب ختم ہو گیا ہے۔ پہلے سیاسی اور نظریاتی اتحادیوں کا مفاد ملحوظ خاطر رہتا تھا اب اس وضع داری کا تکلف بھی جاتا رہا۔ پہلے اپنے اہم ترین تجارتی شراکت داروں سے بڑی لڑائی مول لینے سے قبل دو بار سوچا جاتا تھا اس بار انہیں سنبھلے کا موقع تک نہیں دیا گیا۔ ماضی میں پڑوسیوں اور علاقائی تجارتی بلاک کو ترجیحی مقام حاصل تھا آج ان سے دشمنوں جیسا برتاؤ ہے۔ اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ امریکا کی پالیسی میں اس حیرت انگیز تبدیلی کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ اس حوالے سے چند بنیادی عوامل کا تجزیہ ضروری ہے۔

سب سے پہلے یہ امر پیش نظر رہے کہ امریکا نے اپنی آزادی کے بعد طویل عرصے تک پوری توجہ تعمیر و ترقی کے عمل پر مرکوز کیے رکھی اور کسی بڑی مہم جوئی سے گریز کیا۔ پہلی جنگ عظیم 1914 میں شروع ہوئی، امریکا نے 1917 تک خود کو اس جنگ سے الگ رکھا لیکن جب جرمنی، امریکی بحری جہازوں کو تباہ کرنے لگا تو اسے جنگ میں شامل ہونا پڑا۔ اس کی شمولیت کے صرف ایک سال بعد جنگ ختم ہو گئی جس سے اس کی فوجی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں بھی وہ کافی تاخیر سے شامل ہوا۔ اس کی حکمت عملی تھی کہ دنیا کے بڑے حصے پر قابض اس کے طاقت ور یورپی حریف ملک ان جنگوں میں پھنس کر معاشی اور فوجی طور پر تباہ ہو جائیں تا کہ اس کے لیے عالمی بالادستی کی راہ ہم وار ہو جائے۔ یہ حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے تمام اہم ملک اس کے دست نگر ہو گئے۔ امریکا نے اپنے سابق نوآبادیاتی آقا برطانیہ تک پر کوئی رحم نہیں کیا۔ دنیا پر پونڈ کی جگہ ڈالر کی حکم رانی ہو گئی، 1697 میں بینک آف انگلینڈ کے قیام کے بعد سے دنیا پر قائم لندن کی مالیاتی حکمرانی ختم ہوئی، نیویارک نیا عالمی مالیاتی مرکز اور امریکا انسانی تاریخ کی عظیم ترین معاشی طاقت بن گیا۔

دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کی حالت زار سے یہ سبق نہیں سیکھا کہ کسی ایک ملک کے پاس اتنی مالی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ پوری دنیا پر حکمرانی کرنے کی بھاری لاگت برداشت کر سکے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ غیر معمولی فوجی طاقت کے استعمال اور ترقی پذیر ملکوں میں اپنی حامی حکومتیں مسلط کر کے عالمی قیادت کا مالی بوجھ باآسانی اٹھا لے گا۔ امریکا یہ ادراک بھی نہ کر سکا کہ سوویت یونین اور چین کی اشتراکی حکومتیں قومی آزادی کی تحریکوں کی بھرپور مالی، فوجی اور سیاسی مدد کے ذریعے اسے انتہائی مہنگی سرد جنگ میں ملوث کر لیں گی اور امریکا اس ناقابل تصور مالی بوجھ تلے دب جائے گا جو اس کی معیشت برداشت نہیں کر پائے گی۔

مزید براں، 20 ویں صدی کی آخری دہائی میں رونما ہونے والے انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے بھی امریکی معیشت کے زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس انقلاب نے پرانے صنعتی دور کے پیداواری طرز نظام کی کایا مکمل طور پر پلٹ دی جس کا فائدہ اٹھا کر گزشتہ 35 سال کے اندر چین، ہندوستان سمیت درجنوں تیزی سے ابھرنے والی معیشتوں نے پیداوار اور تجارت پر امریکا کی عالمی سبقت بہت کم کر دی ہے۔ پچھلی دہائیوں میں عالمی جی ڈی پی میں امریکا کا حصہ کم ہو کر 24 فیصد رہ گیا ہے، عالمی مینوفیکچرنگ سیکٹر میں اس کا حصہ 28.4 فیصد سے گر کے 9.15 فیصد ہو گیا ہے جبکہ چین کا حصہ بڑھ کر 31.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ امریکی تجارتی خسارہ 1.2 ٹریلین ڈالر کی خوف ناک حد کو چھو رہا ہے اور چین کا تجارتی سرپلس ( فاضل ) ایک ٹرلین ڈالر تک پہنچنے والا ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ امریکا 28.91 ٹرلین ڈالر کا مقروض ہے جو اس کی کل جی ڈی پی سے 24 فیصد زیادہ ہے۔ کیا یہ صورت حال امریکا کی معاشی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ نہیں ہے؟

حقیقت پسندانہ تجزیے کا تقاضا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات کو مذکورہ بالا حقائق تناظر میں دیکھا جائے۔ امریکی صدر سے بہتر کون جانتا ہے کہ امریکا کی معیشت کو بچانے کی مہلت بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا لہجہ تلخ ہے اور وہ برق رفتاری سے غیرمعمولی فیصلے کر رہے ہیں۔ غور کیا جائے تو ان کے پاس اس کے علاوہ اور کیا انتخاب ہے؟ تیزی سے بڑھتے تجارتی خسارے کو روکنے کے لیے کیا جوابی ٹیرف نہ لگائے جائیں؟ اگر خسارہ دو ٹرلین ڈالر سے بڑھ گیا تو معیشت کو مکمل تباہی سے کون بچائے گا؟ میڈ ان امریکا کی پالیسی پر عمل نہ کر کے کیا امریکا کو پوری دنیا کے لیے کھلی منڈی بنا دیا جائے؟ مینوفیکچرنگ شعبے میں 1997 سے 2024 کے درمیان 50 لاکھ امریکی روزگار سے محروم رہے جس کی مثال امریکا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کیا ٹیرف کے ذریعے مقامی صنعت کو تحفظ نہ دے کر مستقبل میں اس تعداد کو ایک کروڑ تک پہنچا دیا جائے؟ یہ محض چند مثالیں ہیں، صورت حال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔

صدر ٹرمپ کو یقین ہے کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ امریکا کے مفاد اور کاروباری اخلاقیات کے عین مطابق ہے۔ انہوں نے دنیا کے ملکوں سے کوئی نامعقول مطالبہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ آج ہمارے ساتھ وہی سلوک کریں جو ماضی میں ہم نے آپ سے کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا موقف ہے کہ ماضی میں امریکا کی جانب سے غیر ملکی درآمدات پر انتہائی کم ٹیرف عائد تھا جب کہ امریکی برآمدات پر اس کے تجارتی شراکت داروں نے بہت زیادہ ٹیرف لگائے رکھا۔ یہ غیر منصفانہ طرز عمل تھا جسے اب ختم ہونا چاہیے۔

صدر ٹرمپ بجا طور پر پوچھ سکتے ہیں کہ اگر میں اپنے ملک کے لیے ٹیرف کی مناسب شرح اور منصفانہ تجارتی طرز عمل چاہتا ہوں تو اس پر اتنا ناراض اور برہم ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب صدر ٹرمپ کے ناقدین کے پاس نہیں ہے۔

1776 میں امریکا نے سیاسی آزادی کے بعد بے مثال عروج دیکھا، 2025 میں اسے معاشی زوال کا سامنا ہے۔ صدر ٹرمپ امریکا کی معاشی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دیکھیے تاریخ کا ارتقا اس بار کیا رنگ دکھاتا ہے۔

ندیم اختر، سندھ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ندیم اختر، سندھ

ندیم اختر ہے کی دلچسپی کے شعبے تصنیف و تالیف، صحافت اور ترجمہ نگاری نیز قومی اور عالمی امور ہیں۔ ندیم اختر سندھ نیشنل سٹو ڈنٹس فیدریشن کے بانی سینئر نائب صدر رہے ہیں جس کے بانی صدر جام ساقی تھے۔ ملک کی جمہوری اور قومی حقوق کی جدوجہد میں شریک رہے، کئی جریدوں کی ادارت کر چکے ہیں، ڈاکٹر کامران اصدر علی، ڈاکٹر احمد یونس صمد، ڈاکٹر ناظر محمود، ڈاکٹر جعفر احمد کی کتابوں کے علاوہ ڈاکٹر مبارک علی اور دیگر دانشوروں کی تصانیف اور مضامین کا ترجمہ بھی کر چکے ہیں۔

nadeem-akhtar-sindh has 15 posts and counting.See all posts by nadeem-akhtar-sindh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments