ایک خط جو بستر مرگ پر پڑھا گیا


لسانی مباحث سے خاص رغبت رکھنے والے ممتاز محقق پروفیسر غازی علم الدین سے میری بس ایک ہی ملاقات رہی ہے اور وہ بھی میرپور آزاد کشمیر کی ایک تقریب میں۔ ہم اسٹیج پر پاس پاس بیٹھے رہے دوچار باتیں تب ہوئیں اور کچھ باتیں تقریب کے بعد ۔ انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ مجھے ان کی کتب پر ردعمل دینا چاہیے تھا۔ کچھ ایسا ہی مطالبہ وہ اپنے خطوط میں بھی کر چکے تھے۔ اس بار ان کی دو کتب ملیں تو میں نے انہیں پڑھ کر ایک خط میں مفصل رد عمل دیا تاہم افسوس کہ تب تک وہ اپنی علالت کے سبب ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ غازی صاحب کی کتاب ”کشاد فکر و آگہی“ میں ایک مقام پر پڑھ چکا تھا کہ وہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہیں تاہم ان کا حوصلہ بلند رہا اور وہ لکھنے پڑھنے میں مشغول رہے لہذا گماں تک نہ تھا کہ یہ بیماری انہیں یوں لے اڑے گی۔ میرا خط انہیں مل گیا تھا۔ انہی کے فون نمبر سے مجھے دوبارہ بھیجنے کو کہا گیا تھا کہ پہلی فائل کھلی نہ تھی۔ دوبارہ بھیج دیا اور میں نے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ پڑھ لیا گیا تھا۔ تاہم بہت دیر ہو گئی تھی۔ بیماری نے انہیں یوں نہ پچھاڑا ہوتا تو ان کا جواب بھی آتا۔ میں انتظار کرتا رہا مگر یہ دُکھ دینے والی خبر ملی کہ وہ نہیں رہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

وہ خط جو میں نے انہیں لکھا تھا وہ دراصل ان کے کام کے حوالے ہی سے تھا؛ اسے میرا حاصل مطالعہ کہہ لیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ پڑھنے والوں کی نظر سے بھی گزرے کہ کچھ ایسی باتیں ہیں جن پر مکالمہ آگے چلنا چاہیے۔ (م ح ش)

مکرمی پروفیسر غازی علم الدین
السلام علیکم

آج جو کتب ڈاک سے ملیں، ان میں آپ کی، شخصی، لسانی اور تنقیدی مطالعات پر مشتمل کتاب ”کُشادِ فکر و آگہی“ بھی تھی۔ یہ کتاب پاکر میں خوش ہوا، خفیف اور سبک سار بھی۔ خوشی اس امر کی رہی کہ آپ نے بھلایا نہیں، اس خاکسار کو یاد رکھا اور خفیف یوں ہوا کہ میں نے قبل ازیں مل چکی کتب پر کچھ کہنے کا قرض ادا کیوں نہ کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب میں ”لسانی زاویے“ یا ”لسانی مطالعے“ پڑھ رہا تھا تو کئی سوال سوجھے تھے اور میں نے انہیں کہیں لکھ بھی لیا تھا مگر ، لکھنے پڑھنے ہی کی کسی اور مصروفیت نے آن لیا اور پھر یہ معاملہ قضا ہوتا چلا گیا۔ ایسی ہی کسی صورت حال سے بچنے کے لیے میں نے آپ کی تازہ کتاب ملتے ہی اٹھا لی اور پھر کچھ ایسا جادو ہوا کہ آخر تک پڑھتا چلا گیا۔

علمی اور ادبی حلقوں میں آپ کی شہرت سنجیدہ لسانیاتی مباحث کے باب میں ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ ہر بار اپنے مقدمے کے لیے زیر بحث لسانی ساخت کو بہت منطقی انداز سے دیکھتے ہیں اور اظہاری ساخت /مروجہ اصطلاح کی کسی مستقل لسانی اصول کے تحت، سنجیدگی اور شائستگی سے اصلاح تجویز کر دیتے ہیں۔ آپ کی کتاب کے صفحہ نمبر 102 پر مقتبس عبدالستار دلوی کے مکتوب میں بجا طور پر اس جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ ”اختلاف رائے مہذب طریقے سے کیا جاسکتا ہے تضحیک آمیز لہجے میں نہیں“ ۔ مہذب طریقہ آج کل ہمارے زبان و ادب کے علما اور ادیبوں میں عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس قرینے کو آپ کی کتب سے سیکھا جاسکتا ہے۔

میرا شمار آپ ان لکھنے والوں میں کر سکتے ہیں جنھوں نے زبان کو سبقاً سبقاً نہیں، تخلیقی ادب پڑھ کر سیکھا ہے۔ میری مکتبی تعلیم سائنس کے مضامین (بہ قول سید ضمیر جعفری زراعت اور بستانیت یعنی ہارٹیکلچر) کی رہی ہے اور رزق کمانے کو بینکاری کے شعبے سے وابستہ رہا۔ پڑھنا لکھنا میرا جنون اور سانس لینے جیسا زندگی اور موت کا سا مسئلہ رہا ہے۔ وہ لسانی مباحث جو آپ کے ہاں اہم ہو جاتے ہیں اور بہت اہم ہیں کبھی میرا مسئلہ نہ ہو سکے۔ میں الفاظ کے تخلیقی استعمال کی جانب نکلتا رہا ہوں اور جملوں کی ایسی ساخت کو ڈھالتا رہا ہوں جو محض الفاظ کے لغوی معنوں تک محدود نہ رہیں، اس روح اور ان سایوں، وقفوں، آوازوں، سرسراہٹوں اور نظر نہ آنے والے دائروں کو بھی پڑھنے والوں کے دھیان میں لے آئیں جنہیں میرا قلم صرف تخلیقی عمل کے وقفوں ہی میں گرفت میں لے پاتا رہا ہے۔ آپ کی کتب پڑھ کر اور آپ کے موضوعات کے تنوع کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ آپ لسانی تناظر کی طرف آتے ہوئے تہذیبی، ثقافتی اور نفسیاتی پہلوؤں کو بھی سامنے رکھتے رہے ہیں اور یوں کچھ مضامین میں ان لسانی علاقوں کی طرف نکل کر ہماری رہنمائی فرماتے رہے ہیں جو علاقے ہمیں عزیز ہیں۔

اس تازہ کتاب کے ”شخصی مطالعے“ والے حصے کا ایک مضمون (علامہ جاوید بن عبداللہ :دشت تنہائی کا آبلہ پا مسافر) تو ایسا ہے کہ میں نے اسے فکشن کی طرح پڑھا ہے۔ اس حصے کے مضامین پڑھ کر مجھے خیال آتا رہا کہ اگر آپ فکشن لکھنے کو اپنی ترجیحات میں رکھتے تو اس میدان میں بھی آپ کے نام کا ڈنکا بج رہا ہوتا۔ سادہ سہل عبارت میں تاثیر رکھ لینے اور قاری کی توجہ گرفتار رکھنے کا قرینہ آپ کے قلم میں ہے۔ ”لاہور میں جنھیں ملا“ کی ذیل میں کچھ ایسی شخصیات بھی مذکور ہوئیں جن کو میں نے قریب سے دیکھا اور ربط رہا۔ یہاں شخصیات اختصار کے ساتھ آئیں مگر اپنے مزاج کی پوری قامت دکھاتی رہی ہیں۔ حکیم محمد موسیٰ امرتسری کے خمیرہ گاؤزبان کی لذت میں نے زبان پر محسوس کی اور ان کی کتب سے لدے ہوئے ٹرکوں کو اپنی بھیگی آنکھوں سے 55 ریلوے روڈ لاہور سے نکلتے دیکھا۔ گورے چٹے اور سفید اجلا لباس پہنے محمد اسحاق بھٹی ہوں یا پھندنے والی سرخ ترکی ٹوپی پہنے انوکھی وضع قطع والے میانہ قد کے بزرگ استاد، عالم اور فلسفی ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، اپنے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھنے اور ان کا حکم سنانے کے بعد اپنی مجلس عاملہ سے اس بابت توثیق چاہنے والے علامہ طاہر القادری ہوں یا اونچے لمبے قد اور طرے دار دستار والے مولانا عبدالستار نیازی یا پھر دوسری اسی مرتبے کی شخصیات جن کا اس حصے میں ذکر ہوا ان کی تصویریں بھی ذہن پر نقش ہوتی گئی ہیں۔ مشاہیر ادب کے ساتھ آخری ملاقاتوں والا مضمون ہو یا ڈاکٹر محمد رفیع الدین جیسی نابغہ روزگار شخصیت کا تذکرہ پڑھے جانے کے لائق تحریریں ہیں۔ ”بن دیکھے جتنا اُنھیں جانتا ہوں“ میں آپ نے ڈاکٹر عبدالستار دلوی سے اپنے رابطوں، خطوط، ان کے کام کے تذکرے اور ان کے کام پر معاصرین کی آرا کو کچھ یوں متن کیا ہے کہ ان کی علمی ادبی شخصیت پوری طرح ایستادہ ہو جاتی ہے۔ تاہم میرپور کالج کے پرنسپل صاحبان والا مضمون بھرتی کا لگا۔ اس طرح کے مضامین کالج کے میگزین ہی میں بھلے لگتے ہیں۔

کتاب کے دوسرے حصے ”لسانی مطالعے“ کے پہلے مضمون ”پھر“ کی معنی آفرینی ”یا“ اردو گنتی کے متعلقات ”، میں نے سطر سطر پڑھ ڈالے مگر خیال گزرتا رہا کہ دونوں میں آپ کو کتنی جان کھپانا پڑی ہوگی۔ ان مطالعات میں لسانی معاملات کو سلجھانے والے سے کم اور ایک محقق سے زیادہ ملاقات ہوتی ہے جس نے اپنے موضوعات پر بہت سے مآخذ کو کھنگالا اور سارا مواد ایک خاص قرینے سے یوں مرتب کر دیا کہ موضوع روشن ہوتا چلا گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ ان مضامین میں بہت سا کام اضافی بھی ہے ؛ بالکل ویسا ہی جیسے شمس الرحمن فاروقی صاحب نے منٹو کے افسانے“ بو ”پر لکھتے ہوئے اپنی تحقیق کا کا بہت سا مواد اس افسانے کے تجزیے میں کھپانا چاہا تھا ؛ وہ سب اضافی تھا۔“ پاکستان میں لسانی کتب کا جائزہ ”اور“ پاکستان میں اردو لسانیات کا ارتقا ”دونوں بہت مفید مضامین ہیں اور ہمیں اس باب میں ہو چکے کام کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مجھے اچھا لگا کہ جہاں آپ کی کتب کا ذکر ہوا وہیں آپ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والے بھی مذکور ہوئے ہیں۔

اس حصے کے آخری مضمون ”اردو املا کے مسائل“ میں املا کی اصلاح کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔ مثلاً آپ کا اصرار ہے کہ مصدر ”بہنا“ ، ”سہنا“ اور ”کہنا“ سے فعل امر کا غلط املا ”بہہ“ ، ”سہہ“ اور ”کہہ“ رواج پا گیا ہے، اسے ”بَہ“ ، ”سَہ“ اور ”کَہ“ ہونا چاہیے۔ آپ نے قاعدے اور ضابطے کی جو دلیل دی وہ دل کو لگتی ہے مگر کیا زبانوں میں سب کچھ اصول اور ضابطے کے مطابق چلتا ہے یا کہیں کہیں انحراف بھی رواج پا جاتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ یوں جو مروج ہوتا ہے وہی نادرست ہو کر بھی درست کا درجہ پا لیتا ہے؟ یقیناً آپ اتفاق فرمائیں گے کہ اِسْتِثْنائی صورتیں ہوتی ہیں ؛ گویا املا کی الل ٹپ رواج پانے والی صورت بھی اپنی جگہ ایک اصول کے تحت ہے ؛ یہاں یہی اصول ہے۔ ”بہہ“ ، ”سہہ“ اور ”کہہ“ کے رواج پانے کے پیچھے تو ایک معقول وجہ بھی موجود ہے ؛ یہی کہ، اگر ”بَہ“ ، ”سَہ“ اور ”کَہ“ کو اس احتیاط اور التزام کے ساتھ لکھنا ممکن نہ ہوا تو ممکن ہے ”بہ“ ، ”سہ“ اور ”کہ“ لکھنے سے ”بِہ“ ، ”سِہ“ اور ”کِہ“ پڑھا جائے۔ احتیاط کے لیے لازم تھا کہ اسے یوں لکھا جائے کہ اعراب نہ لگے ہوں تو بھی درست درست پڑھنا ممکن رہے۔ یوں جو املا مقبول ہوئی کیا اس نے ہمیں عبارت کو غلط پڑھنے اور کچھ کا کچھ بنا لینے سے بچا نہیں لیا؟

آپ کا فرمانا ہے کہ ایک سے زیادہ الفاظ کو ملا کر لکھنے کی روایت نے الفاظ کے حسن کو گہنایا اور معنوی بگاڑ بھی پیدا کیا ہے۔ تاہم دو مفرد الفاظ جہاں ایک مرکب لفظ بن کر قبول عام کی سند پا چکے ہیں انہیں آپ بھی قبول فرماتے ہیں۔ آپ نے کچھ الفاظ کی مثالیں دیں جو اخبارات میں نادرست طور پر جوڑ کر لکھ لیے جاتے ہیں۔ لطف یہ کہ ان میں اکثر وہ مثالیں ہیں جو اردو کے قدیم مخطوطوں میں تو مل جاتی ہیں آج کل خال خال ہی دیکھنے کو ملیں گی؛ جیسے کیلیے، ہمسے، مجھکو، راتمیں، آجتک، اس طرحسے، اندونونمیں، آجشبکو، کیواسطے، جس طرحسے، جس کے، کجکلاہ اور عالیجناب۔ یہ سب مثالیں آپ کی دی ہوئی ہیں۔ آج کل کے اخبارات میں بھی مرکب ہو جانے والے یہ الفاظ یوں نہیں لکھے جا رہے۔ تاہم ایسا ممکن ہے کہ کمپوزنگ میں دو تین الفاظ جڑ جائیں اور پروف ریڈر احتیاط نہ برتے جس کے سبب یہ خرابی چھاپہ خانے سے ہو کر قاری تک پہنچ جائے۔ یوں، جیسے آپ کے اسی مضمون میں کتاب کے صفحہ 191 کی سطر نمبر 8 میں ”انفرادی حیثیت کو مسخ کرکیرکھ دیا ہے“ میں ”کرکیرکھ“ کے الفاظ آپ نے جوڑ کر نہیں لکھے ہوں گے، یقیناً کمپوزنگ کی غلطی اور پروف ریڈر کے تساہل کا شاخسانہ ہیں۔ جہاں تک علم بردار/علمبردار، تن درست/تندرست یا سرخ رو/سرخرو جیسی مثالوں کا تعلق ہے، مجھے تو انہیں دونوں صورتوں میں لکھے جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ انہیں جوڑ کر لکھنے سے ایک لفظ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اگر کوئی الگ الگ لکھتا ہے تو خوب، مگر درست نادرست میرا یہ احساس ہے کہ جوڑ کر لکھنے سے نہ تو الفاظ کا حسن گہنایا ہے اور نہ ہی معنوی بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ جو مثالیں آپ نے دی ہیں انہیں میں نے بار بار دیکھا/ پڑھا ہے۔ الگ الگ لکھنے سے جو معنی ٹکڑے ٹکڑے ذہن میں روشن ہوتے رہے تھے وہ یہاں ایک ہی ہلے میں نمودار ہو جاتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو رواج پا گیا ہے وہ اتنا بھی نادرست نہیں جتنا آپ بتانا چاہ رہے ہیں۔

اردو میں الف بالا کے مسئلے پر آپ کا مقتدرہ قومی زبان کی سفارشات سے اختلاف اصولی طور پر درست ہے جب ہم عربی میں یہ الفاظ لکھیں گے تو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اردو میں بھی اس پر عمل کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ تاہم عربی کے کئی اور اصول بھی تو ہیں جو اردو میں من و عن رائج نہ ہو پائے۔ یہاں میرے ناقص علم میں اضافہ فرما دیجئے کہ کیا مصطفی، مرتضیٰ، اعلیٰ، ادنیٰ، موسیٰ، عیسیٰ، تقویٰ جیسے الفاظ میں ”ی“ پڑھنے میں آتا ہے۔ یقیناً یہ پڑھنے میں نہیں آتا۔ ایسے میں اگر ”ی“ پر حرف بالا سے لفظ کی ایک صوت متعین ہو جاتی ہے (یعنی ”ی“ کی بجائے الف بالا پڑھا جانا ہے ) تو اس میں قباحت کیا ہے؟ آپ نے لکھا ہے کہ یہ قرآن کا لفظ ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا مگر یہاں تو اردو کا لفظ ہو کر آ رہا ہے۔ آپ نے یہ بھی لکھا کہ الف بالآخر ی حرف پر لگانے سے موسیٰ کو ”موسیا“ پڑھا جائے گا جب کہ یہ طے ہو چکا کہ ایسے الفاظ میں ”ی“ نہیں پڑھی جائے گی۔ ”ی“ کو خاموش کر دیں تو ”موسیٰ“ کو ”موسا“ ہی پڑھا جائے گا۔ اور ہاں آپ نے انہی سطور میں (صفحہ 193، سطر نمبر 13 اور صفحہ 194 سطر نمبر 7 ) ”ادا“ سے ”ادئی“ بننے والے لفظ کو ”ادائیگی“ لکھا ہے۔ کیا قواعد کی رو سے ایسا لکھنا درست ہے؟ اور کیا یہاں آپ نے قواعد کی بہ جائے قبولیت/ مقبولیت/رواج کو ترجیح نہیں دی۔

آپ ہائے مفتوح والی تراکیب/مرکبات میں ”ہ“ کو حذف کر کے لکھنے کے حق میں ہیں۔ یعنی بہ خدا کو بخدا، بہ طور کو بطور، بہ ہر حال کو بہرحال اور ایسے دیگر الفاظ کو اسی طرح لکھنے کی ترغیب دے رہے ہیں جیسا آپ اپنے بچپن سے دیکھتے پڑھتے آئے ہیں۔ گویا یہاں آپ لسانی قاعدے پر رواج کو فوقیت دے رہے ہیں ؛ اور ایسا آپ اس وقت کر رہے ہیں جب ہم کچھ ماہرین کی تجویز پر انہیں الگ الگ لکھنے لگے ہیں۔ آپ نے ماہرین قواعد کی رائے مانگی ہے جب کہ آپ خود قواعد کی رو سے دیکھتے تو آپ کی رائے بدل سکتی تھی۔

فارسی والوں نے ہمزہ کو اپنی زبان سے نکال باہر کیا تو اس کی جگہ ”ی“ نے لے لی۔ ہم اردو والے ہمزہ کے ساتھ وفادار رہے اور اردو کے کئی الفاظ میں اسے استعمال کیا ؛ ان الفاظ میں بھی جو عربی میں ”ی“ سے لکھے جا رہے تھے۔ تاہم کچھ برسوں سے ہم نے لسانیاتی ماہرین کا کہا مان کر ”ی“ کے استعمال کو بڑھالیا ہے اور آپ کی سفارش بھی یہی ہے کہ ہدائت کو ہدایت، عنائت کو عنایت وغیرہ لکھیں۔ درست، آپ سے اتفاق ہے۔ آپ کا یہ فرمانا بھی ہے کہ عربی الفاظ جن میں ہمزہ لکھا جاتا ہے جیسے قائل، صائم، زائد، فائز وغیرہ تو ایسے الفاظ میں ”ء“ کو ”ی“ سے بدلتے چلے جانا درست نہیں ہے۔ یہاں بھی آپ کی باتیں دل کو بھلی لگ رہی ہیں۔ کچھ اور بھی املا کے مسائل زیر بحث آئے ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے مگر بات اطالت پکڑ رہی ہے لہذا ان پر بات پھر کبھی سہی۔ جلیل عالی اور زاہد منیر عامر کی کتب کے تنقیدی مطالعے ایسے ہیں جو میری دلچسپی کا ساماں رہے ہیں۔ عالی صاحب کی لسانی تشکیلات کو جمیل یوسف نے ”لسانی تخریب کاری“ کہا تو آپ ان کی تحریر مقتبس کر کے یہ کہتے ہوئے الگ ہو گئے کہ ”اب یہ وقت بتائے گا کہ یہ لسانی تشکیلات ہیں یا لسانی انحراف“ ۔ آپ اپنی رائے دینے سے مجتنب رہے ہیں۔ شاید اس سبب کہ عالی صاحب کی مصدر سازی اور بے اضافتی تراکیب جیسے تجربات ( جو لسانی قواعد کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو اکثر غلط بھی نہیں اور لسانی وسعت /سہولت پیدا کر رہے ہیں مگر ) زبان کے روایتی استعمال کے مطابق نہیں ہیں۔ مجھے لگتا ہے آپ اپنی زبان کے روایتی ڈھب کو ہی فوقیت دیتے ہیں اور اسی کے باعث یہ تجربات آپ کو کھٹک تو رہے ہیں مگر آپ نے اختلاف کی بندوق جمیل یوسف کے کندھے پر رکھی اور اپنا دامن بچا لیا۔ خیر مجموعی طور پر دیکھیں تو یہ کتاب بہت کچھ عطا کرنے والی ہے۔ مکرر شکریہ کہ آپ نے یہ گراں قدر کتاب اس خاکسار کو عطا کی اور اس سے بہت کچھ اخذ کرنے کی صورت بہم کردی۔

ایک سے زیادہ مقامات پر آپ کی علالت کا پڑھ کر بہت تشویش ہوئی۔ دعا گو ہوں کہ خداوند کریم آپ کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آپ کا قلم کو یونہی رواں رہے اور آپ اس سے بھی زیادہ توقیر پائیں۔

والسلام
آپ کی دعاؤں کا طالب
محمد حمید شاہد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).