واپسی کا پتہ


عجیب الجھن ہے۔ یہ پانچواں تحفہ ہے جو میرے رہائشی پتہ پر موصول ہوا ہے۔ میں نہ چاہنے کے باوجود ان کو وصول کرتی ہوں اور پھر اگلے دن دفتر میں لا کر شہنیلا کو دے دیتی ہوں۔

شہنیلا جو میری نئی کولیگ ہے، اسے ہمارے دفتر میں آئے ہوئے تین مہینے ہوئے ہیں۔ بڑی باتونی لڑکی ہے، دنوں میں پورے دفتر سے دوستی گانٹھ لی اور سب ہی کے ذاتی حالات سے واقف ہو گئی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں حیدرآباد سے یہاں کراچی نوکری کی خاطر آئی ہوں اور ایک فلیٹ میں اکیلی رہتی ہوں تو وہ اپنا زیادہ وقت میرے ساتھ گزارنے لگی۔ مجھے بھی اس میں کچھ غلط نہ لگا۔ اور ایک مہینے کے بعد سے ہی اس کے نام کے گفٹ میرے پتے پر آ نے لگے۔ معلوم ہے کیوں؟

کیونکہ میں اکیلی رہتی ہوں اور شہنیلا ایک جوائنٹ فیملی میں، جہاں اس سے بڑے اور چھوٹے بہن بھائی ملا کر کل آٹھ ہیں اور اس کا نمبر نواں ہے۔ ایک متوسط طبقہ کے اتنے بڑے خاندان میں جہاں کھانے کو کم ملے، لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں یہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ گھر میں بہن بھائیوں سے ملنے والے طعنے اور نفرت کا ذکر کبھی کبھی وہ مجھ سے کر دیتی ہے۔ میں نے بارہا اسے آنسو پونچھ کر کام کرتے دیکھا، کبھی خود سے باتیں کرتے سنا، اس کا خیال ہے کہ ان سب کا حل محبت میں ہے، جو اُسے مل گئی۔ اماں اور ابا میں محبت ہے یا نفرت، اس کا اندازہ وہ اُن کی لڑائیوں اور اپنے بہن بھائیوں کو گِن کر لگانے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ اس کے مطابق لڑائیوں کی مرکزی وجوہات میں پیسوں کی تنگی، رشتہ داروں کی باتیں، غیبتیں، لگائی بجھائی، ایک دوسرے کو دیے جانے والے طعنے یا اس کے بہن بھائیوں کے نت نئے عشق معاشقوں کے پھوٹتے بھانڈے فہرست ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے عشق کا بھانڈا پھوڑ کر اس نوکری کی اجازت سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتی، مگر اپنے عشق سے دست بردار بھی نہیں ہونا چاہتی ہے۔

چنانچہ اِس کا آسان حل اُس نے یہ نکالا کہ مجھ سے دوستی کی اور میرے فلک ناز اپارٹمنٹ کے پتے پر اپنے عاشق سے گفٹ اور خط منگوانے لگی۔ میں حیران ہوں کیونکہ میں نے آج تک اس طرح کی محبت نہیں دیکھی جس میں تحفوں کا تبادلہ اس قدر فراوانی سے ہو۔ ہو نہ ہو، اس کا عاشق بہت فارغ ہے یا بے وقوف۔ بقول شہنیلا، یہ دوستی جو بعد میں محبت میں بدل گئی، سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ سے شروع ہوئی تھی۔ ان دونوں کی آج تک ملاقات نہیں ہوئی۔ جب کہ موصول ہونے والے تحائف پر بھیجنے والے کا جو پتہ درج ہوتا ہے، میری معلومات کے مطابق شہنیلا اسی علاقے میں یا اس کے آس پاس رہتی ہے۔

جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا ہی میں بھی سوچ رہی ہوں کہ اگر وہ عاشق اتنا نزدیک رہتا ہے تو کوریئر یا پوسٹ کے ذریعے تحفے کیوں بھیجتا ہے؟ اس سے بہتر ہے مل لے اور خود دے دے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ان تحفوں کے جواب میں اُسے ملتا کیا ہے؟ چند محبت بھری باتیں اور وہ بھی ایک ایسی لڑکی سے کہ جسے ایک بار دیکھ کر دوسری مرتبہ دیکھنے کا دل بھی نہ کرے۔ شاید یہ بولنا اچھا نہیں مگر سچ یہی ہے کہ شہنیلا بہت واجبی سی شکل کی لڑکی ہے۔ بلکہ یوں سمجھیں کہ اگر واجبی شکل کی بھی کوئی کیٹگری ہوتی تو وہ اس کیٹگری میں سب سے نچلی کیٹگری میں فٹ ہوتی۔ بہت چھوٹی اور اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، چپٹا ناک جس میں ایک نتھنی ڈال کر اس کی گولائی کو مزید نمایاں کر دیا گیا ہے۔ رنگ بھی خاصا دبا ہوا، اس کے چہرے پر سب سے واضح چیز اس کے منھ کا دہانہ ہے۔ اس کے ہونٹ دائیں سے بائیں پھیلے ہوئے ہیں، اس پر پانچ فٹ قد اور لگ بھگ 80 کلو وزن۔

مجھے ان سب سے ہرگز کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس کی وہ کہانیاں جو وہ اپنے عاشق کے نام سے سناتی ہے کہ کیسے وہ اس کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہے، اسے سن کر مجھے غصہ آتا تو کبھی ہنسی، اختلاج ِ قلب ہوتا تو کبھی رونا آتا کہ میں اس سے ہزار درجہ بہتر ہوں مگر ایسے عاشق سے ہنوز محروم ہوں۔ شاید آپ اسے حسد سمجھیں لیکن مجھے یہ حسد سے زیادہ تجسس لگتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شہنیلا کا عاشق شاید شکل و صورت میں اُس سے بھی گیا گزرا ہو، اسی لیے ملنے سے گریزاں ہو، اس کے علاوہ کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

وہ اپنا تحفہ دفتر میں ہی کھول لیتی ہے، مگر اکیلے میں نہیں، سب کے سامنے۔ کبھی لنچ بریک کے دوران لنچ کی ٹیبل پر جہاں دفتر کی باقی لڑکیاں بھی موجود ہوتی ہیں یا پھر اپنے کیبن میں ہی لیکن اردگرد کی تمام خواتین ساتھیوں کو مدعو کرنے کے بعد ۔ سب ہی اس کے تحفہ کھولنے کی ”تقریب“ میں شامل ہوجاتی ہیں، کبھی تحفہ کو داد ملتی ہے تو کبھی اس کی قسمت کو ۔ یہ وہ بات ہے جو بہت اچنبھے کی ہے۔ بھئی عاشق ہے تو کچھ بھی بھیج سکتا ہے یا لکھ سکتا ہے، پرائیویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ لیکن اسے تو بس پذیرائی سے مطلب ہوتا ہے۔ تحفہ اور اپنی قسمت کی تعریف پر وہ پھولے نہیں سماتی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آخر وہ اپنی اس پرسنل چیز کو ، جس کو بقول اس کے، وہ اپنے گھر والوں سے بھی چھپاتی ہے، دفتر میں کیوں نہیں چھپاتی؟ محبت بھرا پیغام، کوئی پرفیوم، کبھی زیور، ایک بار تو کی چین بھی تحفے میں سے نکلی، بھلا اتنی چھوٹی اور کم قیمت شے کون بھیجتا ہے؟ میں یہ سوچتی ہوں کہ اس کے گھر میں ان تحفوں کی گنجائش کیسے بنتی ہے اور وہ اپنے گھر میں کیا جھوٹ بولتی ہے۔

بہرحال یہ میرا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ میرا تو کوئی بھی مسئلہ نہیں ہے، میں خواہ مخواہ اس سب میں شامل ہوں، جب کہ کوئی بات مجھے کھٹک بھی رہی ہے، پتا نہیں کیا۔ یوں لگتا ہے کہ وہ کچھ چھپا رہی ہے۔ لیکن پھر بتا کیوں رہی ہے؟ اس سے اُسے کیا فائدہ؟ لیکن ایسا عاشق جو ہر دوسرے ہفتے ایک تحفہ بھیجے، ایک ہی علاقے میں رہتا ہو، یہ جانتا ہو کہ وہ کہاں نوکری کرتی ہے، کیا پسند کرتی ہے، کیا ناپسند کرتی ہے، وہ ملنا تو درکنار، فون بھی نہیں کرتا؟ اور ہر تحفے کے ساتھ ایک لمبا چوڑا خط ضرور آتا ہے، جس میں آسمان سے تارے توڑ کر لانے سے لے کر مستقبل میں کریانے کی دکان سے خریداری مل کر کرنے کی منصوبہ بندی تک سب کچھ لکھا ہوتا ہے، جسے شہنیلا بہت شوق سے باآواز بلند ہم سب کو سناتی ہے، ترساتی ہے، وہ ملنے یا بات کرنے کو کیوں نہیں ترستی؟

جی ہاں! میں نے تو کیا، دفتر میں کسی نے بھی اسے کبھی فون پر مصروف نہیں دیکھا، جیسا کہ پیار محبت کے معاملات میں لوگ ایک دوسرے سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں، وہ تو عام لوگوں سے بھی کم ہی موبائل کو ہاتھ لگاتی ہے۔ کبھی گھنٹی بج اُٹھتی تو وہ فون اُٹھا کر دیکھ لیتی۔ یا گھر سے کسی کا فون آ جاتا تو مختصر بات کر کے بند کر دیتی۔ کسی نے اُسے موبائل فون پر ہنس ہنس کر باتیں کرتے نہیں دیکھا جیسا کہ ان معاملات میں اکثر ہوتا ہے، جب کہ بقول اس کے، اس کی تو اپنے عاشق سے شناسائی بھی سوشل میڈیا سے ہوئی تھی۔ بس یہی باتیں اس سارے معاملے کو مشکوک بنا رہی ہیں لیکن وہ تحائف بھی تو سب کے سامنے کھول لیتی ہے ورنہ یہی الزام ہوتا کہ کوئی غیر قانونی شے منگوائی جاتی ہے۔ شاید میں کچھ حسد کر رہی ہوں اس لیے اس قدر سوچ رہی ہوں۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے اور دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا سیکھنا چاہیے۔

۔ ۔

کل رات مجھے اچانک حیدرآباد آنا پڑا۔ امی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور گھر والوں نے فوراً پہنچنے کا کہا تھا۔ اپنے سپروائزر سے فوری اجازت لے کر میں یہاں پہنچ گئی۔ شکر خدا کا کہ امی کی حالت اب خطرے سے باہر ہے، بلڈ پریشر اب نارمل ہے، مگر صبح مجھے سب سے پہلے جس کا فون آیا وہ شہنیلا تھی۔ وہ میرے آنے پر کافی پریشان تھی کہ اس کا ایک ”تحفہ“ آنے والا تھا اور میں اپارٹمنٹ لاک کر کے آ گئی ہوں تو اُسے کون وصول کرے گا؟ مجھے تھوڑا غصہ بھی آیا کہ ایک تحفہ کی خاطر مری جا رہی ہے، میں اپنی والدہ کی وجہ سے پریشان ہوں اور ان محترمہ کو یہ پریشانی ہے کہ تحفہ واپس نہ چلا جائے۔ بھئی اگر کوریئر سروس سے وہ عاشق کے پاس واپس چلا بھی گیا تو وہ دوبارہ بھیج دے گا، اس میں اتنا حواس باختہ ہونے کی کیا بات ہے۔

۔ ۔ ۔

امی کی طبیعت بہتر ہوئی تو میں کراچی واپس آ گئی اور ایک ہفتے کے بعد دفتر دوبارہ جوائن کر لیا۔ شہنیلا نے میرے حیدرآباد قیام کے دوران ایک دو دن تک فون کیا اور واپس آنے کا پوچھتی رہی، پھر اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں کیا۔ سچ بتاؤں تو مجھے اس کی خود غرضی پر تھوڑا غصہ بھی آ رہا تھا۔ انسان اتنی تو مروت دکھائے کہ میری والدہ کی طبیعت خرابی میں اپنے تحفے کی وصولی کا رونا نہ روئے۔ لیکن کافی دیر ہو گئی اور وہ دفتر نہیں آئی، باقی سب آ گئے تو مجھے دیکھ کر چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں۔ تھوڑی دیر میں آفس کی ان خواتین کا ایک گروپ میرے کیبن کی طرف آیا جو شہنیلا کے تحفہ کھولنے اور خط سننے کی تقریب میں عموماً شریک رہتی تھیں۔

”ارے تم نے سنا؟ شہنیلا کا ؟“ ایک کولیگ نے پوچھا تو میرے کان کھڑے ہوئے۔
”نہیں۔ کیا ہوا؟ سب خیریت ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”اس کا بھائی استعفی ٰ دینے آیا تھا پرسوں۔“ میری کولیگ نے بولا۔

”کیا واقعی!“ مجھے دھچکا لگا۔ یہ نوکری شہنیلا کے لیے بہت اہم تھی، وہ اتنی آسانی سے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔

میں نے بے ساختہ پوچھا ”مگر کیوں؟“

”اُس کے بھائی نے تو کچھ نہیں بتایا لیکن اکاؤنٹ ڈیپارٹمنٹ کا احسن اُسی علاقے میں رہتا ہے، اس نے بہت کچھ بتایا“ میری ایک اور کولیگ بولی۔

”کیا؟“ میں نے بے چینی سے پوچھا۔ میرا تجسس عروج پر تھا۔ میں جلد سے جلد وجہ جاننا چاہتی تھی۔

”اس نے بتایا کہ شہنیلا کے گھر پر کوریئر سے ایک پارسل موصول ہوا تھا، جس پرایک پتہ فلک ناز اپارٹمنٹ کا اور واپسی کا پتہ اُن کے اپنے گھر کا تھا۔ اس میں سے کچھ تحفے اور عشقیہ خط نکلے جو شہنیلا کے نام تھے۔ اس کے بعد ان کے گھر میں ایسی ہنگامہ آرائی ہوئی جو احسن کے ساتھ پورے محلے نے دیکھی۔“

میں سن کر ہکا بکا رہ گئی۔
”کیا مطلب؟“ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔

”ارے تم ابھی بھی نہیں سمجھی؟“ میری سب سے عمر رسیدہ کولیگ معانی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولیں ”وہ جو عاشق اُس کو عشقیہ خطوط اور تحائف بھیجتا تھا تمہارے پتہ پر ، وہ کوئی اور نہیں، شہنیلا خود تھی“
۔ ۔ ۔ (ختم شد)

ام ماریہ کاظمی
Latest posts by ام ماریہ کاظمی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments