ماہِ مارچ کا مسیحیوں سے کیا سمبندھ ہے؟


گریگورئین کیلنڈر جسے عرفِ عام میں مسیحی کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے، سے قبل دنیا بھر میں جولین کیلنڈررائج تھا۔ مگر اُس میں چند نقائص کی بنا پر پوپ گریگوری ہشتم نے 1582 میں ایک نیا کیلنڈر جو بعد میں اُنہی کے نام سے گریگورئین کیلنڈر کہلایا، متعارف کروایا جو آج تک نافذ العمل ہے۔

اکتیس ایام پر مشتمل مارچ گریگورئین کیلینڈر کا تیسرا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ مختلف سماجی اور مذہبی واقعات، حوالہ جات اور خصوصیات کی بنا پر جانا جاتا ہے۔ سماجی حوالے سے مارچ کا آغاز امتیازی سلوک کے خاتمے اور رواداری کے فروغ کے عزم کے دن (یکم مارچ) سے ہوتا ہے، مگر مسیحیوں سے روا رکھے جانے والے امتیازات اور تعصبات ہرگز ڈھکے چھُپے نہیں۔ مارچ کی 8 تاریخ ملکی اور عالمی سطح پر خواتین کے حقوق اور تحفظ کے عزم سے متعلق ہے مگر پاکستان میں مسیحی خواتین کی صورتحال اُن کے حقوق، تحفظ اور تکریم سے قطعاً لگا نہیں کھاتی۔

مسیحی ایمان میں ماہِ مارچ کی اہمیت روزوں یا لینٹ سیزن کی وجہ سے ہے، جو عموماً فروری کے وسط سے لے کر اپریل کے وسط تک چالیس دنوں پر محیط ہوتے ہیں۔ روزوں کے ان ایام میں مسیحی یسوع المسیح کے بیابان میں آزمائے جانے اور اُن کی الٰہی قدرت پر غور و فکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں بھی روزوں کا تجربہ کرتے نیز دُعا اور خیرات میں شامل ہوتے ہیں۔ روزوں کے ان ایام کا آغاز راکھ کے بُدھ کے روز پیشانی پر راکھ لگانے سے ہوتا ہے جو انسان کے فانی ہونے کی جانب اشارہ ہے، جبکہ اختتام پاک ہفتہ کے ساتھ ہوتا ہے جس میں کھجوروں کا اتوار (یسوع المسیح کا شاہانہ انداز میں یروشلیم میں داخل ہونا) ، پاک جمعرات ( یسوع المسیح کا شاگردوں کے ساتھ آخری کھانا کھانا، اُن کے پاؤں دھونا، گتسمنی باغ میں شاگردوں کے ساتھ جان کنی کی حالت میں دعا کرنا، گرفتار کیے جانا، رات بھر تکفیر اور بغاوت کا مقدمہ، اذیتیں اور پاک جمعہ کے روز کلوری کے مقام پر صلیب پر مصلوب کیے جانے کے واقعات کی روحانیت پر دھیان و گیان کیا جاتا ہے۔

یسوع المسیح کی اذیتوں، دکھوں اور صلیبی موت کے ان واقعات کی یادگاری عموماً مارچ ہی کے مہینے میں روزوں کے ایام میں ہوتی ہے، اس لئے مارچ کا مہینہ دنیا بھر کے مسیحیوں کے ایمان میں اس حوالے سے اہم مہینہ کہلاتا ہے۔

پاکستان کے مسیحیوں کے لئے ماہِ مارچ کی صورتحال قدرے مختلف اور گہری ہو جاتی ہے کہ وہ پاک ہفتہ کے ان ایام میں نہ صرف یسوع المسیح کے دکھوں پر دھیان و گیان کرتے، اُن کی موت بلکہ صلیبی موت پر سوچ بچار کرتے بلکہ پاکستان میں رہتے ہوئے خود بھی مذہبی اذیت اور جان کنی کا تجربہ کرتے ہیں۔ وہ صلیب اُٹھاتے اور کانٹوں کا تاج سر پر سجائے جانے کے دردناک عمل کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہ مہینہ پاکستان کے مسیحیوں کے لئے مذہبی، سماجی اور ریاستی تشدد کے حوالے سے بھی دکھوں، غموں اور اذیتوں سے ”لبریز پیالہ“ اور مہینہ ہے۔

گزشتہ سالوں میں اذیتوں کے چند بڑے واقعات بھی مارچ ہی میں رونما ہوئے، جنہوں نے پاکستان میں بسنے والے مسیحیوں کی جان و مال اور تحفظ پر سوالات اُٹھا دیے نیز وطنِ عزیز میں بسنے والے مسیحی اپنی اور اپنی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لئے پریشاں نظر آئے۔ درج بالا ایک دہائی کے دوران پیش آنے والے چند واقعات درجِ ذیل ہیں :

سال 2011 میں مارچ کی 2 تاریخ کو وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو دن دیہاڑے اسلام آباد میں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔

سال 2013 میں مارچ کی 9 تاریخ کو لاہور کے علاقہ بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی میں سینکڑوں گھروں، درجنوں دکانوں اور بیشتر گرجا گھروں کو نذرِآتش کر دیا گیا۔

سال 2015 میں مارچ کی 15 تاریخ کو لاہور میں مسیحیوں کی بڑی آبادی یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں بشمول سینٹ جانز کیتھولک چرچ اور کرائسٹ چرچ میں دو خود کش حملہ آوروں نے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا نتیجتاً درجنوں مسیحی شہید، سینکڑوں زخمی اور متعدد املاک کو نقصان پہنچا۔

سال 2016 کی 27 تاریخ کو گلشن اقبال پارک لاہور میں عیدِ قیامت المسیح (ایسٹر) کے روز مسیحیوں کے تفریحی اجتماع پر خود کش حملہ ہوا جس میں سینکڑوں جنازے اُٹھائے گئے اور اسی تعداد میں مسیحی زخمی بھی ہوئے۔

ماضی قریب میں مارچ کی اذیتوں پر نظر دوڑائی جائے تو گزشتہ سال 2024 میں 31 مارچ (پاک جمعہ) کے روز گوجر خان میں گرجا گھر کو نذرِآتش کیے جانے یا مبینہ طور پر آگ بھڑک اُٹھنے کا واقعہ سامنے آیا۔

رواں سال 2025 میں بھی مارچ کی اذیتوں کی یہ روایت برقرار رہی اور چند غمناک واقعات پیش آئے۔

مارچ کے تیسرے ہفتے میں لالہ موسیٰ میں ایک ٹرین کے کیبن کے اندر مبینہ طور پر ایک 13 سالہ ذہنی طور پر معذور اور انتہائی کم قد مسیحی لڑکی کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

مارچ کی 22 تاریخ کو شیخوپورہ میں 22 سالہ نوجوان وقاص مسیح کی گردن پر چُھرے سے وار کر کے اُسے قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ خوش قسمتی سے وہ قاتلانہ حملے سے تو محفوظ رہا البتہ شدید زخمی حالت میں اب بھی زیرِعلاج ہے اور اُس کی قوتِ گویائی متاثر ہوئی ہے۔

مارچ کی 25 تاریخ کو تین بچوں کی ماں (مسیحی) کو موٹر وے پر اُس کی مذہبی شناخت ظاہر ہونے پر بچوں اور شوہر کے رُوبرُو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال ہرگز حوصلہ افزا نہیں ہے اور اس میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ مذہبی عدم رواداری اور عدم برداشت کے رویوں نے نہ صرف معاشرے کی مجموعی اخلاقیات کو متاثر کیا ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے ذہنوں کی آبیاری بھی مذہبی منافرت کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔

درج بالا تجزیہ مختلف سالوں کے فقط ایک مہینے پر مبنی ہے۔ قاری اور تجزیہ نگاروں کے لئے اس سے دیگر گیارہ مہینوں کی ”کرم نوازیوں“ کا اندازہ لگانا اور اس بات کا جائزہ لینا کہ ماہِ مارچ کا مسیحیوں سے کیا سمبندھ ہے، چنداں مشکل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).