افسانہ: قربانی کی عورت (آخری حصہ)


کنزا جب کنیز یوسف کے بتائے ہوئے ہوسٹل میں پہنچی تو وہاں کی مالکہ تمکنت اعجاز بذاتِ خود، اُس کے استقبال کے لئے وہاں موجود تھیں۔ اگلے دو گھنٹوں میں ہی کنزا کو یقین ہو گیا کہ وہاں اُس کی ہر مطلوبہ سہولت موجود ہے۔ مسز تمکنت کے رویّے سے یہ شہادت بھی مل گئی کہ وہ بیگم کنیز یوسف کا بہت احترام کرتی ہیں اور شاید اُن کی احسان مند بھی ہیں۔ اب کنزا کے یہاں آنے سے، انہیں بیگم کنیز یوسف کے احسان کا بدلہ چکانے کا موقع ہاتھ آ گیا ہے۔

ہوسٹل میں کنزا کے لئے پہلے سے ایک کمرہ تیار کرا دیا گیا تھا۔ مسز تمکنت نے وہاں کے ملازمین سے اُس کا تعارف کرایا اور ساتھ ہی انہیں کنزا کا خاص خیال رکھنے کی تاکید بھی کر دی۔ سب سامان ترتیب سے رکھ لینے کے بعد کنزا نے یہ ارادہ بھی باندھا کہ وہ کئی روز تک کسی سے بھی رابطہ نہیں کرے گی۔ اُس نے مسز تمکنت کو بھی اپنے ارادے سے آگاہ کر دیا اور اُن سے وعدہ بھی لے لیا کہ وہ مسز کنیز یوسف کے علاوہ کسی کو بھی اُس کے یہاں ہونے کی خبر نہیں دیں گی۔

یاسر رات کو واپس پہنچا تو اُس نے پہلے سارے گھر کا جائزہ لیا۔ کنزا کو وہاں نہ پا کر ایک عجیب سی مایوسی کے احساس نے اُسے گھیر لیا۔ گھر کے کسی ملازم سے نہ اُس نے کوئی سوال کیا اور نہ ہی کسی ملازم نے اُسے کچھ بتایا۔ آخرکار وہ اپنی والدہ کے کمرے میں پہنچا۔ خلافِ معمول وہ ابھی تک جاگ رہی تھیں۔ سلام دعا کے بعد اُس نے کنزا کے بارے میں پوچھا تو وہ بولیں

”تمہارے جانے کے کچھ ہی دیر بعد اُس نے دو اٹیچی اپنے سامان کے بھرے، کوئی گاڑی منگوائی اور مجھے کچھ بھی بتائے بغیر سلام کر کے چلی گئی۔ (بیگم کنیز یوسف نے سوچا سمجھا جھوٹ بولا)

”کیا اُس نے آپ کو بتایا نہیں کہ وہ کیوں اور کہاں جا رہی ہے؟“ ۔

”نہیں مجھے اُس نے کچھ نہیں بتایا۔ مجھے اُس کا یوں جانا اچھا نہیں لگا تو میں نے بھی کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ جاتے وقت تمہارے بینک کا یہ کارڈ بھی میرے حوالے کر گئی ہے کہ تمہیں دے دوں۔ تب سے اُس کا موبائل بھی بند ہے۔ کیا تم لوگوں کا کوئی جھگڑا ہوا تھا؟“ ۔

”نہیں! جاتے وقت میں سعد کو دیکھنے اُس کے کمرے میں گیا ضرور تھا لیکن کوئی خاص بات تو ہوئی ہی نہیں“ وہ یہ سوچ کر جھوٹ بول رہا تھا کہ اگر کنزا جاتے وقت امّاں کو کچھ بتا کر نہیں گئی تو وہ بھی اسے ابھی راز ہی رہنے دے۔

بیگم کنیز یوسف کو حیرت ہو رہی تھی کہ وہ اتنا سفید جھوٹ کیوں بول رہا ہے!

یاسر ٹی وی لاؤنج میں آ گیا۔ وہ بہت غصے میں تھا کیونکہ گھر آتے ہوئے تو وہ یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ اُس نے کنزا کو جو طلاق کے کاغذات دیے تھے، اُس پر ایک کہرام مچ گیا ہو گا۔ جب وہ گھر پہنچے گا تو کنیز یوسف اور کنزا، دونوں اُس کی منتیں کر رہی ہوں گی کہ وہ کسی طرح سے یہ طلاق واپس لے لے۔ یوں اُس کو تسکین کا سامان بہم ہو گا۔ مگر یہاں تو یہ عالم تھا جیسے کسی کو بھی اُس کی طلاق کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ وہ سوچ رہا تھا، کیا کنزا کے لئے بھی یہ سب اتنی عام سی بات تھی؟ یا پھر وہ اس طلاق کے لئے پہلے سے تیار تھی؟

ایک پرانا مرض بھی یاسر کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔ جب اُس کی کسی منصوبہ بندی کے بدلے میں مطلوبہ نتیجہ نہ ملتا، اُس کی رعونت اور تند مزاجی پر مایوسی کی برف پڑتی تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا۔ فشارِ خون سے اُس کے دماغ کی رگیں پھٹنے کو آ جاتیں۔ اس وقت بھی اُس کے معدے میں جیسے زوردار دھماکے ہو رہے تھے اور اُس کا معدہ دھماکوں کے سارے دباؤ کو اُس کے دماغ کی طرف پھینک رہا تھا۔ یوں اُس کے دماغ میں غیظ و غضب کے الاؤ جل رہے تھے۔ مایوسی، بے قراری، اضطراب، اور بے وقعت ہونے کا احساس، نجانے اُس کے دماغ میں کیسی کیسی آندھیاں اور طوفان چل رہے تھے۔

اس وقت اُسے صرف اس طلاق کے بارے میں کسی سے بات ہی شاید کچھ آرام دے سکتی تھی۔ یہ سوچ کر ذرا ڈھارس بندھی۔ بے شک فوراً ہی یہ خیال بھی آیا کہ کہیں جواب میں کوئی اُسی کا قصور نہ نکال دے، مگر کیسے بھی، پر کوئی بات تو چلے۔ اچانک اُس کے دماغ کے پردے پر نعمان کی شکل اُبھری۔ اُس نے فوراً نعمان کو فون ملایا۔

نعمان اُس وقت زاریہ کے ساتھ بستر میں لیٹا، سونے کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ زاریہ کو بھی تشویش ہوئی۔ یاسر کی آواز حالانکہ اتنی اونچی نہیں تھی، مگر پھر بھی زاریہ نے پہچان لی اور اُس نے نعمان کو اشارہ کیا۔ نعمان نے زاریہ کا اشارہ سمجھ کر موبائل کا سپیکر کھول دیا۔ اب زاریہ بھی یاسر کی بات آسانی سے سن رہی تھی۔

اُدھر کال ملتے ہی یاسر کو خیال آیا کہ بات تو اب ہو ہی جائے گی، لیکن نعمان آخر بھائی تو کنزا کا ہی ہے، کہیں وہ کچھ اور طرح سے نہ سوچ لے کہ اب تو اُس کا کاروبار بھی جم گیا ہے۔ سو وہ اِدھر اُدھر کی ہیلو ہائے کے بعد بولا ”تمہارے لئے ایک خوش خبری ہے“ ۔

”خوش خبری؟ کیسی خوش خبری؟“ ۔

”میں نے نکاح نامہ میں درج اپنا حق استعمال کرتے ہوئے، کنزا کو طلاق دے دی ہے۔ اب وہ اس قابل نہیں رہے گی کہ جائیداد میں سے اپنا حصہ مانگنے تمہارے پاس آئے“ ۔

”اچھا؟ تو اب کہاں ہے وہ؟“ ۔

”ہو گی اپنی کسی غریب سی سہیلی کے گھر۔ یار یہ غریب لوگ اکثر بڑے جذباتی ہوتے ہیں۔ کسی پر بھی ترس کھا کر اُس کی مدد کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ البتہ دو چار دن کسی کو گھر میں رکھنا پڑ جائے تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ کنزا بھی جس کسی سہیلی کے پاس گئی ہے، اُس کا جوش جذبہ بھی جلد ہی ٹھنڈا ہو جائے گا۔ پھر آ جائے گی وہ بھیک مانگتی ہوئی تمہارے پاس“ ۔

”اگر ایسا ہوا تو پھر مجھے کیا کرنا ہو گا؟“ ۔
”جب ایسا ہو گا، تو مجھے بتانا۔ پھر مل جُل کر اگلا قدم اٹھائیں گے“ ۔
”جی بہتر! جیسے آپ کہیں گے“ ۔

”اوکے! باقی بات کل کریں گے۔ مجھے اب سخت نیند آ رہی ہے۔ بس تم کسی بات کی فکر نہ کرنا۔ میں ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوں“ ۔

”جی۔ بہت شکریہ!“ ۔
اور یاسر نے فون بند کر دیا۔
جونہی یاسر نے موبائل بند کر کے ساتھ کی میز پر رکھا تو زاریہ بول پڑی
”دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور تم لوگ ابھی تک مردانہ شاونزم کا شکار ہو“ ۔
”کیوں؟ ایسا کیا کہہ دیا ہے میں نے؟“ ۔

”کہنے کو اور کیا باقی رہا ہے؟ تمہاری بہن کو اُس دولت کے غرور میں پاگل آدمی نے طلاق دے دی ہے کہ اب وہ خوبصورت نہیں رہی۔ اور تم کسی غلام کی طرح اُس کے سامنے بچھے جا رہے ہو۔ جبکہ اُس کی خوبصورتی کو گہن لگانے والے بھی تم خود ہو۔ اُس کے سگے اور اکلوتے بھائی۔ اُس بے چاری کا تو اس معاملے میں کوئی قصور بھی نہیں“ ۔

”کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ وہ مجھ سے جائیداد اور کاروبار میں سے حصہ مانگ رہی تھی۔ اور ایسا وہ یاسر بھائی کے بل بوتے پر ہی کر رہی تھی۔ اب اُس کے پیچھے یاسر بھائی کا ہاتھ نہیں ہو گا تو وہ جائیداد کا مطالبہ بھی اتنی آسانی سے نہیں کر سکے گی“ ۔

”وہ بھی کرے گی وہ! لیکن پہلے تم پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج کرائے گی“ ۔
”اتنی طاقت کہاں سے آئے گی اُس میں؟“ ۔

”تم بھی اچھی طرح جانتے ہو اور میں بھی کہ کنزا کن حالات میں یاسر کے ساتھ شادی پر رضامند ہوئی تھی۔ اب جبکہ وہ اس مجبوری سے آزاد ہو چکی ہے تو وہ پہلے والی کنزا نہیں رہ جائے گی۔ اب تمہیں اپنی پرانی بہن سے نہیں بلکہ ایک مضبوط عورت سے واسطہ پڑے گا۔ کیونکہ تمہیں کبھی کسی مضبوط عورت سے واسطہ ہی نہیں پڑا، لہٰذا تم عورت کی طاقت سے بھی ناواقف ہو۔ تمہارے آس پاس صرف وہی عورتیں رہی ہیں، جو چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لئے بھی تمہاری مرضی کی محتاج تھیں“ ۔

”لیکن تم تو ایسی نہیں ہو۔ تم تو ایک مضبوط عورت ہو۔ ہمارا آدھا گھر یوں بھی تمہارے نام ہے، تو تمہارے پاس اکڑنے کی، رعب جمانے کی ٹھوس بنیاد موجود ہے“ ۔

”جائیداد کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر اکڑنا یا رعب جمانا بے وقوف لوگوں کا کام ہے اور میں اتنی جاہل ہرگز نہیں ہوں۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میرے والد اور دونوں بھائی سب کاروباری لوگ ہیں۔ کاروبار بھی چل رہے ہیں اور جائیدادیں بھی ہیں۔ لیکن جب بھی وہ کسی مسئلہ کا شکار ہوتے ہیں تو اُن کی اہم سے اہم جائیداد کی قیمت بھی زمین پر آ گرتی ہے“ ۔

”میں اُن کی نہیں، تمہاری جائیداد کی بات کر رہا ہوں۔ اس گھر کا وہی حصہ میرے والد نے تمہارے نام کیا تھا جس پر عمارت بنی ہوئی ہے۔ تم چاہو تو کبھی بھی مجھے اس گھر سے نکال سکتی ہو“ ۔

”تم میری بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے۔ اس قسم کی چیزیں میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ تمہیں اگر خدا توفیق دے تو والٹیئر کا چھوٹا سا ایک ناول ہے“ کاندید ”، وہ پڑھو۔ پوری انسانی زندگی کی حقیقت کھل کر تمہارے سامنے آ جائے گی“ ۔

”یہ کون ہے والٹیئر؟“ ۔

”ہے نہیں، تھا۔ اٹھارہویں صدی کا ایک فرانسیسی، روشن خیال فلسفی۔ لیکن چھوڑو، تمہارا کتابوں سے کیا واسطہ؟“ ۔

”تمہارا تو ہے نا؟ تو تم نے کیا کر لیا اتنی کتابیں پڑھ کر؟“ ۔

”ایک کاروباری خاندان میں، جہاں ادب، تاریخ یا فلسفہ کی کسی کتاب کا نام تک نہیں لیا جاتا تھا، وہاں ایک نظرانداز کی گئی لڑکی کو صرف انہی کتابوں نے بچائے رکھا“ ۔

”چلو ٹھیک ہے، تم پڑھتی رہو اپنی کتابیں، مجھے تو اب نیند آ رہی ہے“ ۔

”تمہیں اس وقت نیند آ رہی ہے، جب تمہارے آس پاس خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ یہ وقت سونے کا نہیں، جاگنے اور ہوشیار رہنے کا ہے“ ۔

مگر نعمان نے کروٹ بدلی اور دیوار کی طرف منہ کر کے لیٹ گیا۔

دوسرے دن جب یاسر ناشتے کی میز پر آیا تو مسز کنیز یوسف نے اُسے کہا
”تم نے کچھ کوشش کی بہو کو تلاش کرنے کی؟“ ۔
”کیا ضرورت ہے اُسے تلاش کرنے کی؟ چلی گئی ہے تو چلی گئی ہے۔ میں کیوں اب اُسے ڈھونڈتا پھروں؟“ ۔
”وہ اس گھر کی بہو ہے بیٹا! تمہاری بیوی ہے“ ۔
”وہ اب میری بیوی نہیں رہ گئی۔ میں نے اُسے طلاق دے دی ہے“ ۔
”لیکن کیوں؟ کب؟“ ۔ بیگم کنیز یوسف نے حیرت سے پوچھا۔
”کاغذات میں نے پرسوں ہی تیار کر لئے تھے۔ کل اُس کے حوالے بھی کر دیے“ ۔
”مگر ایسی کیا بات ہوئی تھی بیٹا؟ اور کل رات تو تم نے مجھے کچھ نہیں بتایا“ ۔

”کل میں غصے میں تھا ماں جی! جب وہ آپ کو کچھ بتا کر نہیں گئی تھی تو میں نے سوچا میں بھی کیوں بتاؤں؟ ویسے وہ اس قابل ہی نہیں تھی کہ اس گھر کی بہو بنتی۔ میں نے اُس سے شادی کر کے سخت غلطی کی تھی۔ اب تو وہ یوں بھی اتنی بدصورت ہو گئی تھی کہ میں اُسے اپنے گھر میں برداشت ہی نہیں کر سکتا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اب جیسے بھی ہوا مگر اُس سے جان چھوٹ گئی ہے“ ۔

”تم نے جو کچھ بھی کیا وہ تم بہتر جانتے ہو مگر تم نے میرے پوتے کو کیوں ساتھ جانے دیا؟ بڑے پوتے کا پہلے ہی کچھ پتہ نہیں ہے“ ۔

”اُس کا بھی سب پتہ ہے مجھے۔ وقت آنے پر وہ بھی یہیں ہو گا اور سعد بھی واپس آ جائے گا۔ آپ بس چند دن صبر کریں“ ۔

”جب تمہاری اُس سے بن نہیں رہی تھی تو تمہیں پہلے ہی میرے پوتے کو اُس سے لے لینا چاہیے تھا“ ۔
”میں نے کہا نا، وہ کہیں نہیں جا سکتا۔ میں اُسے بہت جلد قانونی طریقے سے لے آؤں گا“ ۔

کنزا نے پہلے تین چار دن تو کسی سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ بس اپنے بینکوں وغیرہ کے کاموں میں مصروف رہی اور ہوسٹل میں اپنے قیام کو بہتر سے بہتر بنانے کی تگ و دَو میں وہاں کے ایک ایک ملازم یا ملازمہ کو الگ الگ مل کر ہر چھوٹی بڑی چیز کا جائزہ لیتی رہی۔ اِس کے بعد اُس نے اُن تمام دوستوں سے رابطے کرنے شروع کیے، جنہیں اُس نے یونیورسٹی کی اولڈ سٹوڈنٹس میٹنگ کے بعد ملنے جلنے کا آغاز کیا تھا۔ بیگم کنیز یوسف کی ہدایت کے مطابق وہ سب کو اپنی طلاق کے بارے میں بھی صاف صاف بتاتی چلی گئی۔ اتفاق سے نتیجہ بھی ویسا ہی نکلا جیسا کہ بیگم کنیز یوسف نے خیال ظاہر کیا تھا۔

ایک ایک دو دو ملاقاتوں کے بعد صرف پانچ لوگوں سے اُس کا رابطہ رہ گیا۔ اِن میں چار تو لڑکیاں تھیں، عطیہ زبیر، طاہرہ نور، رومانہ شفق اور نوشی خان اور بس ایک لڑکا رانا محمد شفیق۔ ایسا نہیں تھا کہ دوسرے لڑکے، یونیورسٹی کی پرانی شادی شدہ یا طلاق یافتہ لڑکیوں سے گریز کرتے تھے، بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ کنزا سے اجتناب کی اصل وجہ اُس کے چہرے پر بن جانے والے نئے نشانات تھے جو کہ ان نوجوانوں کے دل قبول نہیں کر پا رہے تھے۔

بے شک باقی تینوں لڑکیاں بھی دل و جان سے کنزا کی مدد کو تیار تھیں لیکن وہ خود اپنی زندگیوں میں اس طرح پھنسی ہوئی تھیں کہ وہ خواہش کے باوجود اُسے زیادہ وقت نہیں دے سکتی تھیں۔ عطیہ زبیر کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کا سسرال بھی خوشحال، فیاض اور کشادہ دل لوگوں کا خاندان تھا۔ اُس نے کنزا کو دوسری ہی ملاقات میں بتا دیا تھا کہ رانا شفیق نہ صرف یہ کہ ایک اچھا، مضبوط اور اعلیٰ تعلقات والا انسان ہے بلکہ وہ کنزا سے محبت بھی کرتا ہے۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ اُس کے لئے دوسرے کسی بھی شخص کی نسبت وہ زیادہ کارآمد ثابت ہو۔ اس لئے اُسے چاہیے کہ پہلی فرصت میں رانا شفیق سے کھل کر بات کرے۔

کنزا بے شک جانتی تھی کہ ایم بی اے کے دوران اُس کے لئے وظیفہ کا بندوبست رانا محمد شفیق نے ہی کیا تھا، اس لئے وہ رانا کی ممنون بھی تھی مگر عطیہ زبیر کا دوسرا انکشاف اُسے حیران کر رہا تھا۔ ماضی قریب میں جھانکتے ہوئے اُسے رانا شفیق کی طرف سے کوئی ایسی بات چیت یا اشارہ نظر نہیں آ رہا تھا جو عطیہ زبیر کے انکشاف کی تائید کر سکے۔ لیکن عطیہ زبیر نے جس مضبوط لہجے میں یہ دعویٰ کیا تھا، اُسے یکسر نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

سچ جھوٹ کو سمجھنے کے لئے کنزا نے اگلی ہی ملاقات میں بغیر کسی غیر یقینی تمہید کے، رانا شفیق سے عطیہ زبیر کے دعوے کی تصدیق یا تردید مانگ لی۔ حالانکہ اس معاملے میں اُس کے محسوسات ایسے تھے جیسے یہ کسی اور کی کہانی ہو۔ خود اُس کی ذات کا اس سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ ایک واقعہ تھا، جو شاید وقوع پذیر ہونا تھا مگر ہوا نہیں تھا۔ حقیقی طور پر اس قصہ میں کنزا کا کوئی کردار تھا ہی نہیں۔ اُس کے نزدیک یہ کسی تیسرے انسان کی داستان تھی۔

”عطیہ زبیر نے آپ کو درست خبر دی ہے۔ آپ بی بی اے کے پہلے سال میں تھیں، جب میں نے آپ کو دو چار بار دیکھا، آپ کے قریبی لوگوں سے آپ کے بارے میں سنا اور آپ کو چاہنے لگا۔ میں اسی سال اپنی ڈگری مکمل کر کے یونیورسٹی سے جا رہا تھا مگر میں اُس کے بعد بھی وجہ بے وجہ یونیورسٹی آتا رہا تھا۔ کبھی کسی دوست اور گاہے کسی پروفیسر سے ملاقات کے بہانے۔ جبکہ اصل مقصد صرف آپ کو دیکھنا اور آپ کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش ہوتی تھی“ رانا شفیق نے اقرار کر لیا

”تو پھر یہ بھی بتائیے کہ اس چاہت کی بنیاد کیا تھا؟“ ۔

”میں کوئی سائنسی تجزیہ تو نہیں کر سکتا لیکن مجھے محسوس ہوا تھا کہ آپ فطری طور پر ایک مضبوط اور خود مختار شخصیت ہیں، جو کسی بھی مرد کی وجاہت یا اُس کی دولت سے متاثر نہیں ہوتیں“ ۔

”ہمارے معاشرے میں تو آپ کی بتائی ہوئی عورت کو مرد پسند ہی نہیں کرتے“ ۔

”اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا عام مرد، ابھی تک احساسِ برتری کے ایک خوش فہم مقام پر اٹکا ہوا ہے۔ وہ عورت کو اپنی پسند، خواہش اور ضرورت کے تحت کبھی صرف ایک مشین کے طور پر طلب کرتا ہے اور کبھی جذبات کے ایک الاؤ کی صورت۔ وہ ابھی تک عورت کو اپنی ہی طرح کا ایک انسان سمجھنے کے راستے پر گامزن ہی نہیں ہوا“ ۔

”چلیے! پھر یہ بتائیے کہ میری طرف آپ کی رغبت کی بنیاد کیا تھی؟“ ۔

”جب زندگی میں پہلی بار صنفِ مخالف کی چاہ ہوئی تو میں نے تبھی طے کر لیا تھا کہ میں اس جذبے کو صرف اُس وقت ہی محبت کا نام دوں گا جب ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں۔ اور ہماری یہ پسند کسی بھی دولت یا جائیداد کے لالچ سے مبرّا ہو۔ کسی بھی ہمدردی، دباؤ یا احسان کے بغیر۔ آپ کو دو چار بار سرسری سا ملنے کے باوجود مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ آپ ہی ہو سکتی ہیں“ ۔

”مگر آپ کا یہ احساس کبھی مجھ تک کیوں نہیں پہنچا؟“ کنزا کا سوال بہت فطری تھا

”پہلی وجہ تو میری خاموشی اور ضبط کی یہ تھی کہ میری والدہ میری شادی اپنی بھتیجی سے کرنا چاہتی تھیں۔ میں اس شادی پر راضی نہیں تھا مگر مجھ میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی جو اُن کو صاف صاف اپنی مرضی سے آگاہ کر سکتا۔ میرے والد کی وفات کے بعد ایک تو وہ سخت صدمے میں تھیں دوسرے ایک جان لیوا بیماری کا شکار بھی۔ ایسی خلافِ خواہش بات سن کر وہ شاید وقت سے پہلے ہی زندگی سے منہ موڑ لیتیں۔

میرے ماموں میری مرضی جانتے تھے لیکن وہ بھی موت سے لڑتی ہوئی بڑی بہن کا دل نہیں دکھانا چاہتے تھے۔ اس لئے بہانے بہانے سے بہن کو ٹالتے جا رہے تھے۔ اس تذبذب کے حالات میں آپ سے اظہارِ محبت مجھے اپنے اصولوں کے خلاف لگ رہا تھا۔ لیکن دو سال بعد جب آپ ایم بی اے میں آ چکی تھیں تو میری والدہ کی وفات ہو گئی ”رانا شفیق نے صفائی دی۔

”لیکن آپ کی والدہ کی وفات کے بعد بھی آپ خاموش ہی رہے، وہ کیوں؟“ ۔

”اُس وقت تک آپ کے سکالرشپ والا معاملہ درمیان میں آ چکا تھا۔ میں اگر تب آپ سے اپنے دل کی بات کہہ دیتا اور آپ اسے قبول بھی کر لیتیں تو مجھے خدشہ تھا کہ جونہی آپ کو میری طرف سے ملنے والے اس وظیفے کی خبر ملے گی، آپ ایک احساس کمتری کا شکار ہو جائیں گی یا خود کو میرا زیرِ احسان سمجھیں گی۔ یوں ہمارے رشتے کی بنیاد برابری کی سطح پر نہیں رہ جائے گی اور یہی مجھے منظور نہیں تھا۔

”اور اسی وجہ سے آپ کی محبت ختم ہو گئی؟“ ۔

”میری محبت کبھی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی محبت کبھی ختم ہوتی ہے بشرطیکہ وہ حقیقت میں محبت ہو، وقتی جذبہ، کشش یا ضرورت نہ ہو۔ میرا اِظہار نہ کرنا بھی خود پر جبر کرنے جیسا تھا۔ پھر آپ کے گھر میں آپ کی شادی کی بات بھی شروع ہو چکی تھی۔ مجھے جو خبر ملی اُس میں دیگر امور کے علاوہ آپ اور آپ کے ہونے والے شوہر کا سیّد ہونا بھی شامل تھا۔ جبکہ میرے اجداد تو چار پانچ سو سال پہلے مسلمان ہوئے تھے۔ آسان الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں، معاملات اتنے اُلجھے ہوئے تھے کہ کوئی کھلا راستہ مل ہی نہیں رہا تھا“ ۔

”اور یوں میری شادی نے آپ کی محبت کو دفنا دیا؟“ ۔
”نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوا“ ۔
”تو پھر میرے ماں بن جانے کے بعد آپ کی محبت نے رخصت لے لی ہوگی؟“ ۔
”جی نہیں! تب بھی ایسا نہیں ہوا“ ۔

”یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کی محبت نے اتنی دُور تک آپ کا ساتھ دیا۔ مگر اب جبکہ میں بدشکل ہو چکی ہوں، مجھے طلاق بھی دے دی گئی ہے اور میرے پاس رہنے کے لئے اپنا ٹھکانہ بھی نہیں رہا تو آخرکار آپ کی محبت بھی دم توڑ چکی ہو گی“ ۔

”اگر آپ دانستہ طور پر ایسا نہیں کر رہیں تو مجھے کہنا پڑے گا کہ آپ حقیقی محبت کے بارے میں بہت حد تک لاعلم ہیں۔ میری محبت آپ کے چہرے کی خوبصورتی یا جسم کی جوانی سے نہیں تھی کہ اُن میں تبدیلی آتے ہی ختم ہو جاتی۔ یہ تو آپ سے، آپ کی ذات سے تھی اور یہ ہمیشہ رہے گی۔ اگر کوئی مرد کسی عورت کی ظاہری خوبصورتی اور جوانی سے محبت کرتا ہو گا تو ہو سکتا ہے اُس کی محبت اُس عورت کی ظاہری خوبصورتی ختم ہو جانے یا جوانی چلے جانے سے ختم ہو جائے۔ لیکن اگر کوئی حقیقتاً کسی سے محبت کرے گا تو اُس پر محبوب کی ظاہری خوبصورتی اور جوانی کے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا“ ۔

”تو آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ اب بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں؟“ ۔
”جی بالکل!“ ۔
”تو کیا میری عدّت کے دن پورے ہونے کے بعد ، مجھ سے شادی کرنے کو تیار ہیں؟“ ۔
”بالکل نہیں!“ ۔
”کیا مطلب؟ ابھی تو آپ میری محبت کا دم بھر رہے تھے“ ۔

”محبت تو میں آپ سے ہی کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ اسی لئے میں ابھی تک کنوارا ہوں۔ البتہ آپ سے میں اُس وقت شادی کروں گا جب آپ بھی ہر لحاظ سے خود کفیل ہو چکی ہوں گی۔ آپ کو کسی کا احسان اٹھانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہو گی۔ کسی کی مجال نہیں ہو گی کہ آپ پر ترس کھائے۔ میں اُس وقت کا انتظار کروں گا“ ۔

”اگر وہ وقت نہ آیا تو پھر؟“ ۔
”مجھے یقین ہے وہ وقت ضرور آئے گا۔ اب قدرت آپ کا اور امتحان نہیں لے گی“ ۔
” اور اگر اس دوران مجھے آپ کی ضرورت پڑ جائے تو؟“ ۔
”اُس کے لئے میں ہر وقت حاضر رہوں گا“ ۔

(محبت کے موضوع سے شروع ہو کر ان دونوں کے درمیان دو گھنٹے تک ہونے والی اس ملاقات میں زندگی کے اور نجانے کتنے ہی شعبے زیرِ بحث آئے ہوں گے شاید آگے چل کر واضح ہو جائیں۔ البتہ دونوں کے درمیان کوئی ایسا مسئلہ ضرور در آیا تھا کہ انہوں نے اگلی ملاقات میں عطیہ زبیر کو شامل کرنا ضروری خیال کیا)

کنزا کو یاسر کے گھر سے نکالے جانے کے بعد ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ نعمان گھر واپس آنے کے بعد اپنی بیٹی کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا تو ایک ملازم نے کچھ پولیس والوں کے آنے کی اطلاع دی۔ زاریہ اُس وقت کچن میں باورچی کو ہدایات دے رہی تھی۔ بے شک وہ پہلے سے ایسے خطرے کی بو محسوس کر رہی تھی مگر پھر بھی اُسے خوف نے آن گھیرا۔

ایک تھانیدار اور اُس کے ساتھ تین سپاہی تھے۔ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا گیا تھا۔ ملازم کے اصرار کے باوجود انہوں نے چائے نہیں پی اور نعمان ہاشمی سے ملنے پر زور دیا۔ نعمان کے وہاں آتے ہی تھانیدار نے اُسے وارنٹِ گرفتاری دکھایا۔

”آپ کے خلاف آپ کی بہن کنزا ہاشمی نے ارادۂ قتل کا مقدمہ درج کرایا ہے۔ بنیادی تحقیق کے بعد ہی وارنٹِ گرفتاری حاصل کیے گئے ہیں۔ لیکن میں ابھی آپ کو گرفتار کرنے نہیں آیا۔ وجہ کوئی لالچ یا خوف نہیں ہے۔ میرے تجربے کے مطابق اس نوع کے کیسز کا اختتام اکثر کسی سمجھوتے پر ہی ہوتا ہے۔ میں آپ کو گرفتاری کے بعد کی مصیبت سے بچانے کے لئے آیا ہوں۔ اس لئے اچھا ہو گا جو آپ کل ہی ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر کے میرے پاس تشریف لے آئیں۔ یوں ہم سب کسی بھی قسم کی بدمزگی سے بچ جائیں گے۔ اب یہ مت سوچتے رہیے گا کہ میرے جیسے لوگ بھی پولیس کے محکمہ میں ہوتے ہیں؟“ اور وہ تھانیدار چائے پیئے بغیر ہی چلا گیا۔

تھانیدار کے جاتے ہی نعمان نے موبائل اُٹھایا اور کسی کو کال ملا رہا تھا کہ زاریہ بولی ”یہ کس کو فون کرنے لگے ہو؟“ ۔

”یاسر بھائی کو، اس وقت وہی میری سب سے زیادہ مدد کر سکتے ہیں۔ انہیں بھی کنزا سے نفرت ہے اور میں بھی اُسے اس مقدمے کا مزہ چکھا کر ہی دم لوں گا۔ اتنے چکر لگائے گی تھانے، کچہریوں کے، نانی یاد آ جائے گی“ ۔

”تم اپنی سگی اور اکلوتی بہن کو نانی یاد دلانے کے لئے اُس آدمی کا سہارا لو گے جسے اُس کی دولت نے مغرور اور پاگل بنا دیا ہے۔ جو کسی غریب انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتا۔ جس نے تمہاری بہن کو اس لئے طلاق دے دی ہے کہ اب اُس کے چہرے پر کچھ نشان پڑ چکے ہیں۔ جبکہ تم یہ بھی بھول رہے ہو کہ اُس کا چہرہ صرف اور صرف تمہارے ہاتھوں سے بگڑا ہے“ ۔

”وہ صرف ایک حادثہ تھا“ ۔

”حادثہ بھی تھا تو صرف اس لئے کہ تم اُسے خاندانی جائیداد میں سے اُس کا حصہ نہیں دینا چاہتے تھے، جو کہ اُس کا پیدائشی حق ہے۔ مگر تم مرد لوگ ایک عورت کو اُس کا پیدائشی حق بھی دینا نہیں چاہتے۔ اس سارے قضیے میں بھی شاید اصل قصور عورت کا ہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کی برتری قائم کرنے، خود کو غلام اور اُسے آقا بنانے کی اصل ذمہ دار بھی عورت ہی ہے۔

آر آر سٹیورٹ نے جو کسی زمانے میں گارڈن کالج راولپنڈی کے پرنسپل تھے، ایک بار اپنے سٹوڈنٹس سے کہا تھا۔

’پہلے تمہاری مائیں تمہیں نکمّا بناتی ہیں۔ اُن کا بس چلے تو وہ لقمہ بنا کے کھانا بھی تمہارے منہ میں ڈالیں۔ اس کو وہ مامتا کہتی ہیں۔ پھر بیوی آ جاتی ہے۔ وہ تو ہوتی ہی مجازی خدا کی غلام ہے جو تمہارا کھانا پکا کے سامنے رکھتی ہے، تمہارے کپڑے دھوتی، استری کرتی اور تمہارے جوتے بھی پالش کرتی ہے۔ تم آواز لگا کے چھوٹے بہن بھائیوں اور اپنے بچوں سے کہتے ہو کہ تمہیں پانی پلا دیں۔ تم ناکارہ اور مفلوج قوم ہو‘ ۔

ہم لوگ اپنے نر بچے کی اتنی غلامی کرتے ہیں کہ وہ خود کو آقا سمجھنے لگتا ہے۔ اور بڑا ہو کر سچ میں بیوی کا آقا ضرور بن جاتا ہے ”۔

”تم مجھے یہ کتابی باتیں مت سنایا کرو۔ ان کا ہماری حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ جو مردانہ بدتمیزی کی تم باتیں کرتی ہو میں نے تمہارے ساتھ کبھی کوئی ایسا سلوک نہیں کیا“ ۔

”تم کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ میک اپ اور نئے کپڑے میری ترجیح ہی نہیں رہے۔ میں نے خود کو نمائش کی چیز بننے ہی نہیں دیا اور میں گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ تمہارے کاروبار میں بھی ہاتھ بٹاتی ہوں۔ جہاں کام کرنے والے میری خوبصورتی کی بجائے میرے کام کی وجہ سے میری عزت کرتے ہیں“ ۔

”مگر عام عورتیں تو ایسا نہیں کرتیں نا؟“ ۔

”اس لئے کہ ہماری مائیں بچپن سے بیٹیوں کو ایک ہی سبق دیتی ہیں۔ اپنے حسن کی حفاظت کرو، خوبصورت نظر آؤ تاکہ تمہیں ایک دولت مند خاوند مل سکے اور اُسے ایک خوبصورت کھلونا۔ جو سارا دن اُس کے گھر کی دیکھ بھال کرے، اُس کے بچے پالے اور رات میں خاوند کے بستر میں اُس کے لطف کا سامان بن جائے۔ چاہے وہ خود اس کام کے لئے تیار ہو یا نہ ہو۔ اور صبح ہوتے ہی گالیاں بھی کھائے“ ۔

”اس میں میرا کیا قصور ہے؟ اور میں کیا کر سکتا ہوں؟“ ۔

”تم کچھ کرو یا نہ کرو لیکن میں تمہیں دعوے سے کہتی ہوں، جس دن ہمارے معاشرے کی عورت نے سنگھار میز کو لات مار کر قلم کتاب سے رشتہ جوڑ لیا۔ جس دن اُس نے مردوں کے دل بہلانے کا سامان بننے کی بجائے ایک مضبوط انسان بننے کا عہد کر لیا، تم لوگوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے“ ۔

”لیکن ابھی تو وہ وقت نہیں آیا ہے نا؟“ ۔

”تمہارے لئے تو سمجھو آ گیا ہے۔ تمہارے خلاف مقدمہ دائر کرنے والی عورت خوبصورت نہیں رہ گئی۔ اس لئے اب وہ اپنی دوسری صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی اور تمہارا دماغ ہلا کر رکھ دے گی“ ۔

”فی الحال تو تم میرا دماغ گھمانے سے باز آؤ اور مجھے یاسر بھائی سے بات کرنے دو۔ اس وقت صرف وہی پتہ کر سکتے ہیں کہ کنزا نے اتنا بڑا قدم اُٹھانے کی ہمّت کس کے بل بوتے پر کی ہے“ ۔
اور اُس نے یاسر کو کال کر کے اُسے تمام حالات سے آگاہ کر دیا۔

یاسر نے اُس سے وعدہ کر لیا کہ وہ دوسرے دن صبح ہی پہلے ایک بڑا وکیل کر کے اُس کی ضمانت قبل از گرفتاری کا بندوبست کرے گا اور پھر اُس آدمی کا سراغ لگائے گا جس کی شہ پر کنزا نے اتنا بڑا قدم اُٹھایا ہے۔

یاسر بے شک دل سے نعمان کی مدد کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن وہ کنزا کو کامیاب ہوتا بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اُس نے جہاں تک اُس کے براہِ راست یا بالواسطہ تعلقات تھے، ہر جگہ رابطے کیے۔ اُسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہ مقدمہ محکمہ پولیس کے کسی اعلیٰ افسر کے زور دینے پر قائم کیا گیا ہے کسی ایس ایچ او یا تفتیشی افسر کے بس کا روگ نہیں کہ کوئی قلمی بے ایمانی کی جرات بھی کر سکے۔

ضمانت قبل از گرفتاری کے بعد نعمان تفتیشی افسر کے پاس پیش ہو کر تفتیش میں شامل ہو گیا۔ یاسر ہاشمی بھی اُس کے ساتھ تھا۔ دونوں پر جلد ہی واضح ہو گیا کہ زاریہ کی گواہی صاف طور پر نعمان کے خلاف جا رہی ہے۔ دونوں کی ہزار کوشش کے باوجود زاریہ اپنا بیان بدلنے پر راضی نہ تھی، جو ویسے بھی اب ریکارڈ کا حصہ بن چکا تھا۔ اب اُن کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ کسی طرح عدالت میں تاریخ در تاریخ حاصل کر کے مقدمہ کو اتنا لمبا کیا جا سکے کہ کنزا تنگ آ کر صلح پر راضی ہو جائے۔

یاسر نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، اپنے بیٹے سعد کو کنزا سے حاصل کرنے کے لئے خود بھی ایک مقدمہ درج کرا دیا۔ اُس کے پاس اچھے وکیل اور اپنے دعوے کے لئے ٹھوس بنیادیں تھیں کہ ایک تو کنزا کے پاس کوئی مضبوط اور باقاعدہ ذرائع آمدنی نہیں ہیں، دوسرے وہ ایک عارضی رہائش گاہ یعنی ایک ہوسٹل میں رہائش پذیر ہے، اس لئے بیٹے کو اُس کے حوالے کیا جائے۔

یاسر کا مقدمہ دیوانی عدالت کا حصہ تھا جہاں پہلی تاریخ بھی چھے ماہ سے پہلے کم ہی نکلتی ہے۔ جبکہ نعمان والا کیس عدالت میں پیش ہو چکا تھا اور کارروائی کا رُخ تمام کا تمام نعمان کے خلاف جا رہا تھا۔ آخر نعمان نے جائیداد اور کاروبار میں کنزا کو اُس کا حصہ دینے اور اس جھگڑے میں زخمی ہونے پر جرمانہ ادا کرنے کی پیش کش کر کے صلح کی خواہش کی جو زاریہ کی کوششوں سے کامیاب ہو گئی۔

پہلے مرحلے پر کنزا کو پورے گھر میں سے تیسرا حصہ دے دیا گیا اور کاروبار کی تقسیم کے مرحلہ وار معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ نعمان اس سارے معاملے پر بہت رنجیدہ تھا لیکن زاریہ خوش تھی کہ اُس کا خاوند جیل جانے سے بچ گیا ہے۔

کنزا ہوسٹل چھوڑ کر اپنے پرانے (ماں باپ کے ) گھر منتقل ہو گئی۔ مالی طور پر وہ ابھی اتنی مضبوط تھی کہ دو دو ملازم رکھ سکتی تھی۔ رانا شفیق اور عطیہ زبیر سے اب وہ لگاتار ملتی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی رہتی تھی۔ رانا اور عطیہ کے مشورہ کے مطابق وہ کئی طرح کے بزنس پر بھی غور کر رہی تھی اور کسی اچھی سی جاب کی تلاش بھی جاری رکھے ہوئے تھی۔

کنزا کو اپنے ماں باپ کے گھر سے حصہ ملتے ہی، یاسر کی طرف سے بیٹے کے حصول کی خاطر قائم کیا گیا مقدمہ پہلے ہی کمزور ہو چکا تھا، رہی سہی کسر کنزا کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی تنخواہ والی جاب ملنے سے پوری ہو گئی۔ یاسر اچھی طرح جانتا تھا کہ نعمان کی کمپنی سے کنزا کو کوئی روپیہ پیسہ ملتے، ابھی کافی دیر لگے گی۔ اس لئے اُس کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح کنزا کو اس کی جاب سے نکلوایا جائے۔ اُس نے کنزا کی بدصورتی کو بنیاد بنا کر ایک پراپیگنڈا مہم شروع کرائی۔ کمپنی کے اندر سے اہم عہدیداروں اور کمپنی کے ساتھ باہر سے لین دین کرنے والے لوگوں کو اُس نے جیسے جیسے ممکن ہو سکا اپنا ہمنوا بنایا۔

بات چلتی چلتی اعلیٰ انتظامیہ تک بھی پہنچ گئی۔ کمپنی کے پاکستان میں ڈائریکٹر نے ایسی شکایات کرنے والے، اُن تمام لوگوں کو جو یا تو پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے منسلک تھے یا وہ ڈسٹری بیوشن کے شعبہ سے متعلق تھے ایک کھلی میٹنگ میں بلا لیا۔ اُس نے بغیر کسی تمہید کے اپنا موقف صاف لفظوں میں بیان کر دیا۔

”دنیا کی تمام بڑی کمپنیوں کے اہم عہدوں کے لئے، خواتین اور مردوں میں، اپنے کام سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت کو بنیادی حیثیت دی جاتی ہے۔ اُن کی ظاہری خوبصورتی یا کم صورتی پر ہم کوئی توجہ نہیں دیتے۔ جو خواتین ہمارے دفتروں میں میک اپ کے بغیر آتی ہیں، ہم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اب آپ میں سے جنہیں بھی مسز کنزا ہاشمی کی شکل و صورت اچھی نہیں لگتی، وہ ہماری کمپنی سے اپنی تعلقات یا معاہدے ختم کر سکتے ہیں“ ۔

میٹنگ برخاست کر دی گئی اور کسی ایک فرد نے بھی نہ تو کمپنی سے استعفیٰ دیا اور نہ ہی اس سے اپنا لین دین بند کیا۔

اس ناکامی کے بعد بھی یاسر نچلا نہیں بیٹھا اور جلد ہی کنزا کو بدنام کرنے کے لئے اُسے ایک اور نکتہ مل گیا۔ رانا محمد شفیق جو پہلے ہفتے، دس دن بعد کنزا سے ملنے اُس کے گھر آیا کرتا تھا، اب اکثر ہی آنے اور کبھی کبھی تو رات بھی وہاں گزارنے لگا۔

پہلے پہل صرف چہ مگوئیاں ہوئیں اور آخرکار محلے والوں نے کنزا سے براہِ راست ہی پوچھ لیا کہ رانا شفیق کس رشتے سے اُس کے گھر آتا اور کبھی کبھی وہاں راتوں کو قیام بھی کرتا ہے؟ کنزا نے ایک شام محلے کے چیدہ چیدہ لوگوں کو دعوت پر بلایا اور دعوت کے آغاز پر ہی رانا محمد شفیق اور اپنا نکاح نامہ، نکاح رجسٹرار کا سرٹیفیکیٹ اور نادرا کے اندراج کا ثبوت، نہ صرف انہیں دکھا دیے، بلکہ اُن کی کچھ فوٹو کاپیاں بھی اُن میں تقسیم کر دیں۔ سب نے دونوں کو مبارکبادیں دیں اور دعوت اُڑا کے خوش خوش چلے گئے۔

یاسر نے مگر اس پر بھی ہار نہ مانی اور اپنی برادری کے لوگوں کو اکٹھا کر کے نیا اور بڑا شوشہ چھوڑا۔ اُس کا کہنا تھا کہ کنزا ہاشمی ایک سیّد زادی ہو کر کسی غیر سیّد سے نکاح نہیں کر سکتی۔ ایسا نکاح حرام قرار دیا جائے گا۔ معاملہ عالموں تک پہنچ گیا۔ رانا اور کنزا نے وہاں مطالبہ پیش کر دیا کہ پہلے یاسر ہاشمی اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کرائے۔ جواب میں اُس نے خوب شور مچایا مگر آخرکار اُسے اِس ٹیسٹ سے گزرنا ہی پڑا۔

یہاں آ کر کہانی اختتام کو پہنچ گئی۔ ڈی این اے ٹیسٹ نے واضح کر دیا تھا کہ یاسر ہاشمی عربی النسل نہیں ہے۔ اُس کا ڈی این اے وسطی ایشیا کے قدیم باشندوں کے زیادہ قریب ہے۔ اور اب تک حوالوں کے طور پر پیش کیے گئے شجرۂ نسب کے مطابق کنزا کا خاندان اور یاسر کا خاندان چند نسلیں پہلے ایک ہی لکڑ دادا کی اولاد تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments